• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مسلم لیگ (ن) کا پارلیمنٹ کے ذریعے نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار کرنے پر غور

شائع August 7, 2022
نواز شریف نومبر 2019 سے علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں — اسکرین گریب
نواز شریف نومبر 2019 سے علاج کے لیے لندن میں مقیم ہیں — اسکرین گریب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے پارٹی کے قائد نواز شریف کی پاکستان واپسی کو آسان بنانے کے لیے متعلقہ قانون سازی پر غور کر رہی ہے جو کہ طبی بنیادوں پر لندن گئے تھے اور اب وہاں خود ساختہ جلاوطنی اپنائے ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مخلوط حکومت کچھ ایسی ترامیم کر سکتی ہے جس سے نواز شریف پر پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے عائد کردہ پابندی کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ 'پارلیمنٹ سیاست دانوں پر تاحیات پابندی کو کالعدم کر سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ عدالت اسے لاگو نہ کر سکے'۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی واپسی کے متعلق جاوید لطیف کا دعویٰ مسترد کردیا

ذرائع نے کہا کہ اگر اس قانون سازی کو پارلیمنٹ میں لایا جاتا ہے اور بعد میں اسے منظور کیا جاتا ہے تو نتیجتاً اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون کو متعارف کروایا جانا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں سیاستدانوں پر تاحیات پابندی کو چیلنج کرنے والی درخواست کے نتائج سے منسلک ہوگا۔

اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اشارہ دیا تھا کہ ان کے والد واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ان کی واپسی میں 'کچھ مسائل' رکاوٹ بن رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے وطن واپسی سے متعلق سوال پر وزیر قانون کا جواب

مریم نواز دراصل قانونی مسائل کا حوالہ دے رہی تھیں کیونکہ وطن واپسی پر نواز شریف کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں جیل جانا پڑے گا، اس کے علاوہ ان کی واپسی کے لیے مریم نواز نے طاقتور حلقوں کی جانب سے ’گرین سگنل‘ نہ ملنے کا بھی حوالہ دیا۔

اپریل میں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنما اس امید کے ساتھ پُرجوش تھے کہ اب ان کے پارٹی قائد جلد ہی ان کے درمیان ہوں گے، لیکن قانونی رکاوٹوں کو ان کی واپسی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جارہا ہے۔

نواز شریف بمقابلہ عمران خان

نواز شریف ممکنہ طور پر عام انتخابات سے قبل پاکستان واپس آسکتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ سیاسی میدان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قابو پانے کے لیے ان کی موجودگی ضروری ہے۔

رواں سال اپریل میں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے گئے پی ٹی آئی چیئرمین کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر پوری مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس بات پر متفق ہے کہ اگر آئندہ انتخابات میں پارٹی کو فتح حاصل کرنی ہے تو انتخابات سے قبل نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی ضروری ہے۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ 'پنجاب میں گزشتہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں شرمناک شکست نے پارٹی کے اندر اس خیال کو تقویت بخشی ہے کہ مریم نواز اور شہباز شریف جیسی دوسرے درجے کی قیادت عمران خان کے سیاسی قد کا مقابلہ نہیں کرسکتی'۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے باوجود نواز شریف کا وطن واپسی کا کوئی ارادہ نہیں

مریم نواز کی جارحانہ انتخابی مہم کے باوجود 22 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انہیں پنجاب کی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ذرائع نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کا خیال ہے کہ سیاسی میدان میں صرف نواز شریف ہی عمران خان کو قابو کر سکتے ہیں'۔

دریں اثنا وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نواز شریف کی فوری واپسی سے متعلق افواہوں کو مسترد کردیا ہے، تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نواز شریف آئندہ عام انتخابات سے قبل پارٹی کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے واپس آجائیں گے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں، چوہدری شجاعت

رانا ثنااللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'نواز شریف کی واپسی پر پارٹی میں بات چیت ہوئی ہے، امکان ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات سے قبل پاکستان واپس آئیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے'۔

رانا ثنااللہ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف کے ان دعوؤں کو مسترد کیا جن کے مطابق نواز شریف ستمبر کے وسط میں پاکستان واپس آنے پر غور کر رہے ہیں۔

جاوید لطیف بھرپور انداز میں اپنی پارٹی کے سربراہ سے وطن واپس آنے کی اپیل کر رہے ہیں، اس سے پہلے کہ عمران خان کا مقابلہ کرنے میں دیر ہو جائے۔

نواز شریف کی لندن میں موجودگی

نواز شریف نومبر 2019 سے علاج کے لیے لندن میں اس وقت سے مقیم ہیں جب ہائی کورٹ نے انہیں علاج کے سلسلے میں لندن جانے کے لیے 4 ہفتے کی مہلت دی تھی، وہ طبی بنیادوں پر لندن روانگی سے قبل العزیزیہ کرپشن کیس میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 سال کی قید کاٹ رہے تھے۔

ان کے باہر جانے سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ ان کے بڑے بھائی 4 ہفتوں کے اندر یا ڈاکٹروں کی جانب سے ان کی صحت کی بحالی کے حوالے سے تصدیق کے بعد پاکستان واپس آجائیں گے، تاہم ان کی صحت کو درپیش خدشات کی وجہ سے ان کی واپسی میں بار بار تاخیر ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا نواز شریف کی سزا معطل یا منسوخ کرنے پر غور

نواز شریف کے پاسپورٹ کی میعاد فروری 2021 میں ختم ہوگئی تھی تاہم شہباز شریف کی حکومت نے رواں سال اپریل میں انہیں نیا پاسپورٹ جاری کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس محکمہ داخلہ نے طبی بنیادوں پر لندن میں نواز شریف کے قیام میں مزید توسیع سے انکار کردیا تھا جس کے بعد نواز شریف نے برطانوی امیگریشن ٹربیونل میں اپیل دائر کی تھی۔

نواز شریف قانونی طور پر برطانیہ میں اس وقت تک رہ سکتے ہیں جب تک کہ ٹریبونل ان کی ملک میں قیام کی درخواست پر فیصلہ جاری نہیں کرتا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024