• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

وزیرِاعظم کے دورہ قطر کے دوران اسرائیلی جہاز وہاں کیا کررہا تھا؟

شائع August 26, 2022

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ قطر سے پہلے ہی یہ خبریں گرم تھیں کہ شاید اس دورے میں معاشی مدد اور سرمایہ کاری سے متعلق کوئی خوش خبری مل جائے اور دورے کے دوران ہی یہ خبریں سچ ثابت ہوئیں لیکن اس دورے کے دوران ایک پُراسرار پرواز کی دوحہ آمد اور 9 گھنٹے قیام نے اسے سنسنی خیز بنا دیا۔

اسرائیل کے ہوابازی کے شعبہ سے منسلک رپورٹر ایوی شارف کی ٹویٹس نے اس معاملے کو ہوا دی۔ ایوی شارف دنیا بھر میں غیرمعمولی فضائی نقل و حرکت پر فلائٹ راڈار کی مدد سے نظر رکھتے ہیں اور بعض اوقات زیادہ تفصیل دستیاب نہ ہونے کی صورت میں فلائٹ راڈار سے ملنے والی تفصیلات کو ٹوئٹر پر شیئر کرکے بین الاقوامی میڈیا کے لیے سوچ بچار کا سامان مہیا کرکے خود سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔

ایوی شارف نے وزیرِاعظم شہباز شریف کی موجودگی کے دوران اسرائیل کے ایک طیارے جو موساد کے اعلیٰ حکام کے زیرِ استعمال رہتا ہے، کی نقل و حرکت نوٹ کی۔ یہ طیارہ وزیرِاعظم شہباز شریف کے طیارے کی موجودگی میں دوحہ اترا، 9 گھنٹے موجود رہا اور وزیرِاعظم شہباز شریف کا طیارہ اسرائیلی طیارے کی پرواز کے بعد 9 گھنٹے کے فرق سے اگلے روز صبح واپس روانہ ہوا۔

عرب ممالک میں میڈیا اور معاشرے پر بادشاہتوں کا زبردست کنٹرول ہے، اس لیے کوئی غیر معمولی نقل و حرکت یا ملاقاتیں رپورٹ نہیں ہوسکتیں۔ اسرائیل کا میڈیا قدرے آزاد لیکن ریاستی مفادات کے ساتھ جڑا رہنے والا میڈیا ہے۔ اسرائیل بھی ایک سیکیورٹی ریاست ہے جہاں سے حساس خبریں میڈیا کو ازخود فراہم کی جاتی ہیں۔ ایوی شارف اسرائیل میں مضبوط صحافتی وسائل رکھتے ہیں لیکن طیارے کی نقل و حرکت پر ان کا کوئی خبر نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ انہیں جس قدر ضرورت تھی، اس قدر اطلاع عوام تک پہنچادی گئی۔

ایوی شارف ہی وہ رپورٹر ہیں جنہوں نے عمران خان کے دورِ حکومت میں ایک اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد اور مختصر قیام کے بعد واپس جانے کی خبر دی تھی۔

اس وقت تحریک انصاف نے تو اس رپورٹ کو جھوٹ قرار دیا تھا مگر اس رپورٹ پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے وضاحت چاہی تو اس وقت کے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر انہیں خفیہ مذاکرات کرنے کا طعنہ دیا اور کہا تھا کہ عمران خان، نواز شریف کی طرح خفیہ مذاکرات نہیں کریں گے، لہٰذا جھوٹی تشویش ظاہر نہ کریں کیونکہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔

یہ تو اس وقت کا ردِعمل تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں وفاقی وزیر رہنے والی شیریں مزاری نے اب اسی رپورٹر کی اطلاع کو سچ مانا ہے اور ایوی شارف کی ٹویٹ سے لی گئی معلومات پر مبنی پاکستانی صحافی کی ٹویٹ پر ردِعمل میں ایک تھریڈ لکھ ڈالا۔

شیریں مزاری نے پاکستان اور اسرائیل کے طیاروں کی بیک وقت موجودگی کے اتفاق کو اپنی جماعت کے بیانیے سے جوڑا اور کہا کہ کیا دونوں ملکوں کے حکام نے لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لیے کسی ایک طیارے میں بیٹھ کر مذاکرات کیے؟ اور ساتھ ہی سوالیہ انداز میں بیرونی مداخلت سے متعلق بیانیے کو دہرا دیا۔

تحریک انصاف کی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کی طرف سے بھی اس پر کوئی واضح مؤقف کی توقع نہیں تاہم میرا خیال ہے کہ اس طرح کی ملاقاتوں کے لیے ایسا راستہ اور طریقہ نہیں اپنایا جاتا۔ جب فلائٹ راڈار تھوڑی سی رقم کے عوض ٹریکنگ فراہم کر رہا ہو تو ان حالات میں یہ فرسودہ طریقہ ہے جس سے ہر ملک کی حکومت اور انٹیلی جنس واقف ہے اور اس طریقے کو اختیار کرنے کی حماقت نہیں کرسکتی۔

یہ محض اتفاق ہے جسے اسرائیل نے ردِعمل جانچنے کے لیے بالکل اسی طرح استعمال کیا ہے جیسے ماضی میں اسلام آباد میں اسرائیلی طیارہ اترنے کی اطلاع دے کر کیا گیا تھا۔

قطر نے فلسطین کے معاملے پر جو مؤقف اختیار کر رکھا ہے اس کی روشنی میں بھی قطر کی ثالثی یا سہولت کاری کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ فیفا ورلڈ کپ کے میزبان قطر نے ٹکٹوں کی آن لائن بکنگ کے لیے جو طریقہ متعارف کرایا اس میں اسرائیل کا کہیں ذکر نہیں بلکہ فلسطینی مقبوضہ علاقے لکھا گیا ہے جس پر اسرائیل کو سخت تشویش ہے۔ اس معاملے پر 15 ہزار متوقع اسرائیلی شائقین کے لیے ایک الگ بندوبست ضرور کیا گیا ہے لیکن تعلقات میں گرمجوشی نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ ابراہم اکارڈ کے رشتے میں جڑنے والوں کی طرف سے بھی پہلی جیسی گرمجوشی نہ دکھائے جانے پر تل ابیب میں ان دنوں تشویش پائی جاتی ہے۔

امیر قطر وزیر اعظم شہباز شریف کا استقبال کررہے ہیں— تصویر: اے پی
امیر قطر وزیر اعظم شہباز شریف کا استقبال کررہے ہیں— تصویر: اے پی

وزیراعظم کا دورہ قطر پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی کے لیے تھا جس کے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں اور 3 ارب ڈالر سرمایہ کاری، مؤخر ادائیگی پر ایل این جی کی خریداری جیسے بڑے اعلانات سامنے آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاک فوج فیفا ورلڈ کپ میں سیکیورٹی کا معاہدہ بھی کرچکی ہے۔

پاکستان کی معاشی حالت سدھارنے کی کوششوں میں پاک فوج کے سربراہ بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور حکومت بھی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ اب تک پاکستان تقریباً ساڑھے 14 ارب کا بندوبست کرچکا ہے اور وطن عزیز کے سری لنکا بننے کے خدشات دم توڑ چکے ہیں۔ ان مشکل حالات میں ایسی افواہیں اور ان پر کسی جماعت کا یقین کرکے کوئی مہم چلانا ملک کے فائدے میں ہرگز نہیں۔

اس سفارتکاری کا مقصد معاشی کے ساتھ ساتھ علاقائی مفادات سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یوکرین جنگ چھڑنے کے بعد اب اتحاد بھی بن اور بگڑ رہے ہیں اور تمام ممالک نئے امکانات پر مشاورت کر رہے ہیں۔

عرب امارات کے امریکا میں سفیر انور قرقاش جو اماراتی حکمرانوں کے معمدین اور اہم مشیروں میں سے اہم ترین ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ اس سال اپریل میں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین جنگ سے ثابت ہوگیا ہے کہ دنیا کا نظام اب یک قطبی نہیں رہا اور عالمی معیشت میں ڈالر کی اجارہ داری بھی اب چیلنج کی جا رہی ہے۔

یوکرین جنگ چھڑنے کے بعد اب اتحاد بھی بن اور بگڑ رہے ہیں— تصویر: اے ایف پی
یوکرین جنگ چھڑنے کے بعد اب اتحاد بھی بن اور بگڑ رہے ہیں— تصویر: اے ایف پی

ابوظہبی اپنے اتحادوں کا ازسرِ نو جائزہ لے رہا ہے۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ طویل عرصے سے امریکا کے اتحادی رہنے والے عرب لیڈروں کی سوچ بدل رہی ہے اور وہ چین کے قریب جا رہے ہیں۔ عرب امارات نے امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کو اشتعال انگیز قرار دیا جو اس سوچ کی عکاسی ہے۔

سعودی ولی عہد نے اٹلانٹک میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ دنیا میں آج پوٹینشل کہاں ہے؟ اور پھر خود اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا یہ سعودی عرب میں ہے۔ اگر آپ اس کو کھونا چاہتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ مشرق میں لوگ اس پر بہت خوش ہوں گے۔ امریکا اس بدلتی سوچ سے آگاہ ہے اور اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہی امریکی صدر نے ریاض کا دورہ کیا تھا۔

یوکرین جنگ کے نتیجے میں تیل قیمتوں میں اضافے اور سپلائی خدشات کے پیش نظر بھی عرب دوستوں کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔ یورپ کو گیس کی اشد ضرورت ہے اور مارکیٹ میں رابطے بروقت کرکے ہی پاکستان مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے جو عرب دوستوں کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں نہ صرف زیرِ بحث آیا بلکہ معاہدے بھی ہوئے ہیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024