سی پیک سیاحت: شاہراہِ قراقرم، نانگا پربت کے سائے میں (چوتھی قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
شاہراہِ قراقرم پاکستان کے شمالی علاقوں اور دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں سے گزرتی ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقے قدرت کا حسین شاہکار ہیں۔ یہ خطہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہاں دنیا کے بلند ترین سلسلہ ہائے کوہ آپس میں ملتے ہیں۔ شاہراہِ قراقرم پر گلگت اور جگلوٹ کے درمیان ایک ایسا حیرت انگیز مقام بھی ہے جہاں دنیا کے 3 بلند ترین پہاڑی سلسلے، کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم اور کوہِ ہندوکش بالکل آمنے سامنے آجاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر دریائے گلگت اور دریائے سندھ کے انگریزی حرف Y کی طرح آپس میں ملنے سے اطراف کے بلند و بالا پہاڑ 3 سلسلوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم اس جگہ مشرق کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو ہماری ناک کی سیدھ میں دریائے سندھ اور دریائے گلگت کے Y نما اتصال کے درمیان والا پہاڑی سلسلہ ’کوہِ قراقرم‘ ہے جو یہاں سے چین تک چلا گیا ہے۔
پاکستانی حدود میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے 2‘ اور وادی ہنزہ کی خوبصورت چوٹی ’راکاپوشی‘ دونوں اسی کوہِ قراقرم کا حصہ ہیں۔ اس جگہ ہمارے بائیں ہاتھ پر ’ہندوکش‘ کا پہاڑی سلسلہ ہوگا جو یہاں سے افغانستان تک چلا گیا ہے۔ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ’ترچ میر‘ ہے جو پاکستانی حدود میں چترال کے قریب واقع ہے۔ اب ہم تیسری سمت میں اپنے دائیں ہاتھ پر دیکھیں تو دریائے سندھ کے کنارے نظر آنے والا پہاڑی سلسلہ ’کوہِ ہمالیہ‘ ہے جو اس مقام سے نیپال تک چلا گیا ہے۔
کوہِ ہمالیہ وہ سلسلہ ہے جس میں ایک طرف تو نیپال میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ واقع ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میں دنیا کا خطرناک ترین پہاڑ ’نانگا پربت‘ بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ نانگا پربت کا دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں نواں نمبر ہے جبکہ پاکستان میں یہ کے 2 کے بعد دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ نانگا پربت کو سَر کرنے یا اسے صرف قریب سے دیکھنے کے شوق میں ہر سال ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح اور کوہ پیما یہاں آتے ہیں۔
نانگا پربت کا سب سے شاندار نظارہ شاہراہِ قراقرم کے قریب فیری میڈوز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیری میڈوز سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں میں پوشیدہ جنگلوں کے بیچ ایک سرسبز میدان ہے جس کے بالکل سامنے نانگا پربت اپنی تمام تر خوبصورتی یا ہیبت ناکی کے ساتھ جلوہ افروز رہتا ہے۔
اس مقام تک جانے کے لیے سیاحوں کو شاہراہِ قراقرم پر رائے کوٹ پُل کے مقام پر اپنی گاڑیاں چھوڑنا پڑتی ہیں کیونکہ یہاں سے فیری میڈوز تک 16 کلومیٹر کی دشوار چڑھائی پیدل، جیپ یا پھر گھوڑوں ہی کی مدد سے سَر کی جاسکتی ہے۔ یہ راستہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس پر سفر کرتے ہوئے سیاح خود کو موت کے منہ میں محسوس کرتا ہے۔ پاؤں کی معمولی لغزش، جیپ کی خفیف سی لڑکھڑاہٹ اور گھوڑے کا ہلکا سا رپٹنا آپ کو ہزاروں فٹ نیچے بہتے رائے کوٹ نالے میں لڑھکا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
شاہراہِ قراقرم پر میں نے اپنی زندگی کا پہلا سفر 1986ء میں کیا تھا۔ اس سفر میں تو میں صرف وادی ہنزہ تک گیا اور کراچی واپس لوٹ گیا تھا، البتہ اس کے بعد اب تک شاہراہِ قراقرم پر لاتعداد سفر کیے ہیں۔
رائے کوٹ پُل، جہاں سے اس وقت ہماری بس دریائے سندھ کو عبور کر رہی تھی، یہاں سے فیری میڈوز کی جانب میں پہلی بار 2001ء میں اپنے دوستوں ڈاکٹر قیصر اور ڈاکٹر اکرم کے ساتھ گیا تھا۔ ہم پہلے تو سیدھے گلگت گئے اور پھر گلگت سے یہاں رائے کوٹ پُل پہنچے۔ یہاں صرف ایک ہوٹل تھا اور جیپ اڈہ تھا۔ جیپیں بھی صرف پہاڑوں کی بلندیوں میں پوشیدہ ایک ویران سے گاؤں ’تتو‘ تک ہی جاتی تھیں، وہاں سے آگے فیری میڈوز تک ایک انتہائی دشوار گزار چڑھائی تھی جو ہمیں پیدل ہی سر کرنی تھی۔
رائے کوٹ سے ہمیں بھی ایک جیپ لینی پڑی۔ جیپ نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ایک انتہائی دشوار، کچے اور خوفناک پہاڑی راستے پر سفر کرکے ہمیں 10 ہزار فٹ کی بلندی پر تتو پہنچا دیا۔ سارے راستے میں ہم جیپ میں خوفزدہ بیٹھے اپنے بائیں طرف کی کھائی میں ہزاروں فٹ نیچے بہتے رائے کوٹ نالے کو دہشت زدہ ہوکر دیکھتے رہے۔ ہمیں لگتا تھا کہ سنگلاخ اور خونخوار پتھریلی ڈھلوانوں کی عمیق گہرائی میں بہتا وہ نالا کسی وقت بھی اپنے خوفناک جبڑوں میں لے کر ہماری ننھی منی جیپ کو نگل لے گا۔ خیر کسی نہ کسی طرح ڈرتے کپکپاتے ہم تتو تک پہنچ ہی گئے اور جیپ سے اتر کر سُکھ کا سانس لیا تھا۔
لیکن ہماری منزل ابھی دُور تھی۔ فیری میڈوز تک پہنچنے کے لیے ہمیں ابھی مزید 5 کلومیٹر چڑھائی چڑھنا تھی۔ تتو سے فیری میڈوز تک وہ پگڈنڈی نما عمودی راستہ اس قدر تنگ تھا کہ جس پر صرف پیدل یا گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر سفر کیا جاسکتا تھا۔ مقامی لوگ تو یہ فاصلہ 2 گھنٹے میں طے کرلیتے ہیں، لیکن ہم شہریوں کو ہانپتے ہانپتے فیری میڈوز تک پہنچنے میں تقریباً 7 گھنٹے لگ گئے تھے۔
وہ پورا راستہ اونچے اونچے درختوں کے گھنے جنگل سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ درمیان میں ہم بار بار سستانے کے لیے بھی رکتے رہے، کہیں چائے کے بہانے سے اور کہیں کھانے کے خیال سے، لیکن اس رکنے رکانے میں بھوک پیاس سے زیادہ اصل مقصد تھکن اتارنے اور سانسیں بحال کرنا ہی تھا۔ مگر جب ان جان لیوا دشواریوں سے گزر کر ہم 11 ہزار فٹ بلند فیری میڈوز کی سرسبز چراگاہوں میں پہنچے کہ جہاں نانگا پربت کی وسیع اور برفانی چوٹیاں نظر آرہی تھیں، تو ہماری ساری تھکن اور کلفت دُور ہوگئی۔ ہم نے وہاں ایک لکڑی کے کیبن میں 2 دن گزارے، رائے کوٹ گلیشیئر کے اوپر جاکر نانگا پربت کی چوٹیوں کو قریب سے دیکھا اور پھر وہاں کی دلکش یادیں دل میں بسائے واپس شہروں کی دنیا میں لوٹ گئے۔
اس کے بعد مجھے فیری میڈوز جانے کا موقع 17 سال بعد 2019ء میں ملا۔ رائے کوٹ برج سے تتو تک تو ہم حسبِ سابق جیپ میں ہی گئے البتہ اس بار تتو سے آگے فیری میڈوز تک پیدل چڑھائی کی ہمت نہ کرسکے کیونکہ تب آتش جوان تھا اور اب 17 سال بعد اسے سردی لگنے لگی تھی۔ اس بار ہم نے تتو سے گھوڑے لے لیے اور ان کی پیٹھ پر لٹکے لٹکے اس تنگ پگڈنڈی پر چل دیے کہ جس کے برابر میں رائے کوٹ نالا ہزاروں فٹ گہرائی میں گرج دار آواز کے ساتھ بہتا ہوا تیزی سے نیچے دریائے سندھ کی جانب لپک رہا تھا۔ ہم اس گہرائی سے آنکھیں چراتے ہوئے، گھوڑوں کی ذہانت پر بھروسہ کرتے ہوئے 2 گھنٹے میں فیری میڈوز پہنچ گئے۔
ستمبر کا مہینہ تھا، فیری میڈوز گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، رات ہونے تک بارش بھی شروع ہوگئی اور سردی بھی بڑھ گئی۔ بلندی کے باعث یہاں آکسیجن کی بھی کمی تھی اس لیے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ بہرحال رات کسی طرح گزر گئی۔ صبح ہم خوشی خوشی اٹھے کہ نانگا پربت کا نظارہ کرسکیں، لیکن سخت مایوسی ہوئی کیونکہ پورے آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور نانگا پربت کی چوٹی ان میں کہیں چھپی ہوئی تھی۔ خیر ہم پھر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اوپر ’بیال کیمپ‘ سے ہوتے ہوئے رائے کوٹ گلیشیئر کے کنارے نانگا پربت کی چوٹی کے قریب پہنچ گئے۔ لیکن یہاں بھی بادلوں کا ڈیرہ تھا، بلکہ ہمارے پہنچتے ہی برف بھی گرنے لگی۔ ابھی ہم واپسی کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ اچانک برف گرنا بند ہوگئی۔ اسی وقت ہم نے اپنے سامنے دیکھا اور دیکھتے ہی چلے گئے۔ ہمارے عین سامنے والے بادل کمال مہربانی سے کچھ کھسک گئے تھے اور نانگا پربت کی حسین چوٹیاں ہمیں اپنی دلفریب جھلک دکھانے لگیں۔ ہم نے بھی ان دلفریب نظاروں کو جی بھر کے دیکھا اور اپنی آنکھوں میں بھر لیا۔ اگلے دن ہمیں گھوڑوں نے تتو اور جیپوں نے یہیں رائے کوٹ پُل پر لاکر چھوڑ دیا اور ہم اپنی شہری دنیاؤں کو لوٹ گئے۔
لیکن یہ سب تو بعد کے قصے ہیں۔ ابھی تو قصہ چل رہا ہے 1986ء میں میرے شاہراہِ قراقرم پر اس پہلے سفر کا کہ جس رات ہماری بس نے رائے کوٹ پُل سے دریائے سندھ کو عبور کیا۔ اس وقت تو ہمیں بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں ان سنگلاخ پہاڑوں کی ہزاروں فٹ بلندی پر ایک سرسبز و دلفریب جنت پوشیدہ ہے۔
پُل عبور کرکے بس پھر فراٹے بھرنے لگی۔ اب منظر کھلتا جا رہا تھا۔ دونوں طرف کے پہاڑ رفتہ رفتہ دُور ہٹتے جارہے تھے اور وادی کی وسعت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ کچھ دیر میں یوں لگنے لگا جیسے ہم میلوں وسیع ایک بے آب و گیاہ صحرا میں بھاگے چلے جا رہے ہوں۔ اس وسعت میں دریائے سندھ بھی کہیں گم ہوچکا تھا۔ رات گہری ہوچکی تھی۔ آسمان پر ستاروں کی بہار تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف پہاڑوں پر سے لڑھک کر آنے والے عجیب عجیب ساخت کے ہزاروں عظیم الجثہ پتھر صدیوں سے پڑے سوکھ رہے تھے۔ دریا شاید بائیں طرف کے میدانوں میں دُور کہیں کسی کھائی میں خاموشی سے بہہ رہا تھا۔
میری آنکھیں مسلسل دائیں جانب تھیں کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس طرف کے پہاڑوں میں سے کسی بھی لمحے نانگا پربت کا عظیم سفید وجود طلوع ہونا تھا۔ رات کے 11 بج رہے ہوں گے کہ اچانک وہ عظیم سفید قلعہ نمودار ہوا۔ میلوں طویل ایک سفید دیوار جو رات کے اندھیرے میں ستاروں کی روشنی منعکس کرتی تھی اور خوبصورت روپ میں بھی ہیبت کا سامان تھی۔ یہ نانگا پربت تھا۔ میں اسے دیکھ کر سناٹے میں آگیا۔
نانگا پربت کسی اکیلی چوٹی کا نام نہیں۔ یہ تو آسمان کو چیرتی ہوئی ایک میلوں طویل اور ناہموار تیز دھار دیوار ہے۔ کوہِ ہمالیہ کے اس 26 ہزار فٹ بلند پہاڑ کا دنیا میں نواں نمبر ہے جبکہ پاکستان میں یہ کے 2 کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
نانگا پربت، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ننگا پہاڑ ہے۔ اس نام کی وجہ اس کی ہزاروں فٹ بلند وہ چند عمودی دیواریں ہیں جن پر اتنی بلندی کے باوجود بھی برف ٹھہر نہیں پاتی۔ برف سے عاری یہ بلندیاں ہمیشہ عریاں نظر آتی ہیں۔ نانگا پربت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عام پہاڑوں کی طرح دھیرے دھیرے بلندیوں کی طرف مائل نہیں ہوتا، بلکہ ایک قلعے کی طرح زمین پر سر اٹھائے کھڑا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی پہاڑ نانگا پربت سے زیادہ پُرشکوہ اور ہیبت ناک ہو۔ اس کی فلک بوس چٹانیں 14 میل کے فاصلے میں 23 ہزار فٹ تک بلند ہوتی چلی گئی ہیں۔ اس کی بلندی اور وسعت دونوں قابلِ دید ہیں اور اس منظر کو دیکھنے کے لیے شاہراہِ قراقرم کا یہ حصہ آئیڈیل ہے کہ جہاں سے اس وقت ہماری بس گزر رہی تھی۔
راولپنڈی سے گلگت تک ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے لوگ اس پہاڑ کا بہت قریب سے نظارہ کرسکتے ہیں جہاں جہاز نانگا پربت کی دیواروں کے برابر برابر اڑتا ہے۔ پہلی مرتبہ سفر کرنے والا مسافر یہ منظر دیکھ کر دہشت زدہ رہ جاتا ہے۔ میں نیا مسافر تو نہیں تھا اور نہ میں اس وقت جہاز میں سوار تھا۔ میرے ہم سفر سو رہے تھے اور رات کے اس ویرانے میں نانگا پربت کا وہ پُر ہیبت نظارہ مجھ پر خوف طاری کررہا تھا۔ دریائے سندھ کے پار سے نانگا پربت کا 26 ہزار فٹ بلند سفید قلعہ مجھے گھورتا ہوا اپنی دہشت تلے دبا رہا تھا۔
نانگا پربت براعظم امریکا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ دینالی (Denali)، براعظم یورپ کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایلبروس (Mount Elbrus) اور براعظم افریقہ کی بلند ترین چوٹی کلی منجارو (Kilimanjaro) سے ہزاروں فٹ بلند ہے۔ یہ نیپال کی چوٹیوں ماؤنٹ ایورسٹ، کنچن جنگا، دھولگری اور پاکستان کی چوٹی کے 2 سے تو ایک ڈیڑھ ہزار فٹ کم ہے، البتہ یہ اپنے حُسن و ہیبت میں ان سب کو مات کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی پہاڑ نانگا پربت جیسا پُرشکوہ نہیں اور اس کے شکوہ کا باعث اس کی عمودی تراشی ہوئی بلند و بالا چٹانیں اور ڈھلوانیں ہیں۔ اس کی بلندی اور اس کی وسعت دونوں قابلِ دید ہیں۔
یہ خونی پہاڑ بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہ پہلے تو کوہ پیماؤں کو اپنے حُسن سے مسحور کرتا ہے اور پھر جب کوئی پروانہ صفت اس کی تسخیر چاہتا ہے تو یہ شمع صفت اس کی جان سے اپنے حُسن کا خراج وصول کرتا ہے۔ نانگا پربت دنیا کی بلند ترین چوٹی تو نہیں لیکن دنیا کے کسی بھی پہاڑ نے اتنی جانیں نہیں لیں جتنی اس کی بھینٹ چڑھی ہیں۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی نہ ہونے کے باوجود اب تک اسے سَر کرنے کی کوشش میں سب سے زیادہ کوہ پیماؤں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ 1953ء میں اس پہاڑ کا غرور ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہل نے توڑا تھا اور اسے پہلی بار سَر کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس کو سَر کرنے کی کوشش میں وہ بھی مرتے مرتے بچا تھا۔
نیشنل جیوگرافک میں ایک سیاح نے لکھا تھا کہ ’دریائے سندھ کی وادی کا رخ اب مشرق کی طرف ہوگیا تھا اور گھاٹی کشادہ ہوگئی تھی۔ ہم سے 60 میل کے فاصلے پر 31 انسانوں کا قاتل، برف پوش نانگا پربت ایک قلعے کی طرح ایستادہ ہے۔ چوٹی اگرچہ گھنے بادلوں میں چھپی ہوئی ہے لیکن ہم دریا سے اوپر اس کی 4 میل تک کی تمام بلندی بخوبی دیکھ سکتے ہیں‘۔
پاکستان کے شمالی علاقے ملک بھر سے 2 غیر یقینی ذرائع سے منسلک ہیں۔ ایک تو یہی شاہراہِ قراقرم ہے جس پر تقریباً 18 گھنٹے سفر کرکے آپ راولپنڈی سے گلگت پہنچ سکتے ہیں۔ مگر یہ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث اکثر کئی کئی دن بند بھی رہتی ہے۔ دوسرا ذریعہ ہوائی جہاز ہے جس کے اُڑنے کا دارو مدار موسم پر ہے اور شمالی علاقہ جات کا موسم بے حد غیر یقینی ہے۔ پل میں مطلع صاف، پل میں ابر آلود۔ ابھی خشکی تھی اور ابھی موسلا دھار بارش، ابھی حبس اور ابھی طوفان۔ موسم خراب ہونے کی صورت میں یہ فلائٹس بھی کینسل ہوجاتی ہیں۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جہاز ایئر پورٹ سے اڑ چکا ہوتا ہے اور تھوڑی دیر بعد کنٹرول ٹاور سے یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آگے موسم خراب ہے، خیریت اسی میں ہے کہ آپ واپس تشریف لے آئیں۔
پہلے اس روٹ پر فوکر جہاز چلا کرتے تھے، مگر 2006ء میں ملتان میں حادثے کے بعد فوکر طیارے گراؤنڈ کردیے گئے اور ان کی جگہ ’اے ٹی آر‘ (ATR) آگئے ہیں جو کارکردگی میں تو فوکر سے بہتر ہیں، البتہ موسم کی خرابی ان پر بھی اپنا اثر ڈال سکتی ہے۔ چنانچہ شمالی علاقے پاکستان کے وہ جزیرے ہیں جن کے اردگرد کا سمندر اکثر طوفانوں کی زد میں رہتا ہے اور ان جزیروں کا ملک سے تعلق منقطع ہوتا رہتا ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔