پاکستان میں انتخابات: کیا دھاندلی، ہنگامہ آرائی اور بدنظمی سے چھٹکارا ممکن ہے؟
’میں صبح حسبِ معمول بڑے بھائی کو خدا حافظ کہتے ہوئے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلا، معلوم نہیں تھا کہ واپسی پر ان کی لاش اٹھاؤں گا۔ شام کو جناح اسپتال سے فون آیا تو میں فوراً وہاں پہنچا مگر بھائی کی سانسیں ختم تھیں، گولی ان کے دماغ میں گھسی تھی اور انہوں نے شاید موقعے پر ہی دم توڑ دیا تھا۔‘
یہ واقعہ ہمیں لانڈھی نمبر 6 کے رہائشی محمد عامر صدیقی نے بتایا جن کے بڑے بھائی محمد سیف الدین صدیقی 16 جون 2022ء کو این اے 240 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں فائرنگ کے نتیجے میں جان بحق ہوگئے تھے۔ اس انتخاب کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی میں مزید 10 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ سیف الدین صدیقی، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے رہنما نسیم احمد کے ڈرائیور تھے اور انتخابات کے دوران ان کے ساتھ ہی موجود تھے۔
مرحوم کے بھائی محمد عامر صدیقی نے ہمیں مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’بڑے بھائی کی عمر 55 سال تھی۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی، میرے 2 بیٹوں (جن میں بڑے کی عمر 6 سال اور چھوٹے کی عمر 4 سال ہے) سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ بچے انہیں ’بڑے ابو‘ کہتے تھے۔ بھائی انہیں ٹیوشن چھوڑتے، پارک لے کر جاتے اور بچہ بن کر ان سے کھیلتے تھے۔ جب ان کی خون آلود میت گھر پہنچی تو بچوں کا صدمے سے بُرا حال ہوگیا۔ میں نے بھائی کی میت کو اپنے ہاتھوں سے غسل دے کر قبر میں اتارا۔ میرے بچے مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ کیا بڑے ابو اب کبھی واپس نہیں آئیں گے؟ ان کا سوال میرے سینے پر ایک سِل کی طرح بوجھ ہے‘۔
عامر صدیقی واحد شخص نہیں جنہوں نے اپنا بھائی انتخابات کے موقع پر خون خرابے میں کھو دیا۔ ہمارے ہاں ہر الیکشن خواہ وہ جنرل ہو، ضمنی یا بلدیاتی، لوگوں کے لیے جان کا خطرہ لیے آتا ہے۔ پولنگ کے اختتام پر جہاں ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے وہیں اس موقع پر ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کا شمار بھی معمول بن گیا ہے۔ سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے (26 جون 2022ء) میں فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی نوید لے کر آنے والے انتخابات خون کے چھینٹوں سے داغدار ہوتے ہیں۔
تاریخی طور پر پاکستان میں ہونے والے انتخابات سیاسی تشدد، ہنگامہ آرائی اور دھاندلی کے الزامات سے داغدار ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کو سابق وزیرِاعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو ایک انتخابی جلسے کے بعد قتل کردیا گیا اور درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
2008ء میں بھی ہونے والے انتخابات پر تشدد کا سایہ رہا۔ ووٹنگ کے دوران کئی ہلاکتیں ہوئیں، جن میں انتخابات سے چند گھنٹے قبل لاہور میں ایک امیدوار کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ انتخابات سے ایک ہفتہ قبل صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) میں بم دھماکوں میں 100 افراد ہلاک ہوئے۔
2013ء کے عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے سب سے خونریز انتخابات ہیں۔ آرمڈ کانفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا (ACLED) کی رپورٹ کے مطابق، الیکشن کے دن ہی 51 افراد ہلاک ہوئے۔ مجموعی طور پر، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں کی وجہ سے انتخابات سے پہلے اور بعد میں 240 افراد ہلاک ہوئے۔
ACLED کی رپورٹ کے مطابق 2018ء کے عام انتخابات میں 235 جانیں گئیں اور مذکورہ انتخابات تک دہشتگردی کے خلاف پاکستانی فوج کے 2 آپریشن ’ضرب عضب‘ اور ’رد الفساد‘ کی وجہ سے انتخابات میں خون ریزی کا باعث بننے والی دہشتگردی کی سرگرمیوں پر کافی حد تک قابو پایا گیا۔ تاہم رپورٹ کے مطابق زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اپنے مخالفین کے خلاف تشدد کا استعمال بڑھا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کے 213 واقعات رپورٹ ہوئے اور ان میں سے 20 فیصد واقعات میں سیاسی جماعتیں ملوث تھیں۔ 2018ء کے انتخابات میں ایسے واقعات میں 50 فیصد سیاسی جماعتیں ملوث تھیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گزشتہ 5 سالوں میں سیاسی تفریق میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور سیاسی منافرت مزید پروان چڑھی ہے جبکہ سیاسی عدم برداشت کا نتیجہ ہم مختلف انتخابات میں ہنگامہ آرائی، مسلح تصادم اور ہلاکتوں کی صورت میں برآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا یا ہم اسے روکنے کی تدبیر کرسکیں گے؟
اب جبکہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے، ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کا شیڈول بھی آچکا ہے (ضمنی انتخابات 16 اکتوبر اور کراچی ڈویژن بلدیاتی انتخابات 23 اکتوبر)، لہٰذا ہم نے اس موضوع پر اربابِ اختیار، متاثرین، ووٹرز، مبصرین اورپولنگ اسٹاف سے گفتگو کی ہے۔ زمینی حقائق بتانے والے ان افراد نے نشاندہی کی ہے کہ کس طرح مختلف عوامل جن میں بدنظمی، غنڈہ گردی اور ڈس انفارمیشن بھی شامل ہے، انتخابات میں تشدد کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان افراد نے اپنے تجربات کی روشنی میں ان عوامل کے سدِباب سے متعلق رائے دی ہے جو نذرِ قارئین ہے۔
جب ہم محصور ہوئے
کراچی کے ایک سرکاری اسکول میں گریڈ 16 کے حاضر سروس اعجاز احمد (فرضی نام) بحیثیت پولنگ افسر اب تک 7 مختلف انتخابات میں ڈیوٹی انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ڈیوٹی کے ایک مشکل ترین دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’2013ء کے انتخابات کے دوران میری ڈیوٹی اورنگی میں قصبہ کالونی کے پولنگ اسٹیشن پر تھی۔ مختلف زبانیں بولنے والی آبادی کے متحارب گروہوں پر مشتمل یہ کراچی کا حساس پولنگ اسٹیشن تھا۔ شہر میں انتخابات سے پہلے ہی ہنگامے شروع ہوچکے تھے اور اس علاقے میں چند دن قبل ہی رینجرز کی گاڑی پر حملہ ہوچکا تھا۔ الیکشن سے ایک رات قبل، حسبِ سابق میں دیگر اسٹاف کے ہمراہ پولنگ اسٹیشن پہنچ گیا تھا اور ہم نے صبح کے لیے تیاری مکمل کرلی تھی۔
’الیکشن کے روز ابھی پولنگ کا عمل پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ قائدآباد کے علاقے میں دہشتگردوں نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے امیدوار امان اللہ محسود کے انتخابی دفتر پر بم حملہ کردیا۔ حملے میں وہ تو محفوظ رہے لیکن ان کے محافظ اور ایک بچے سمیت 11 افراد جاں بحق اور 40 سے زائد زخمی ہوگئے۔ بم دھماکے کے باعث اس علاقے میں انتخابی عمل رک گیا اور جیسے ہی ہمارے پولنگ اسٹیشن پر یہ اطلاع پہنچی تو یہاں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے حامیوں میں بے چینی پھیل گئی۔ اس موقعے پر افواہوں کا بازار بھی گرم ہوا اور علاقے میں فائرنگ شروع ہوگئی۔ ہمارے اسٹاف میں خواتین پولنگ افسران بھی موجود تھیں، اور وہ فائرنگ سے سخت خوفزدہ ہوئیں۔ اس وقت وہاں رینجرز تعینات نہیں تھی اور پولیس بھی کہیں غائب تھی۔ ہمارے پریزائیڈنگ افسر نے علاقے کی چند معتبر شخصیات کے ذریعے آپس میں الجھے ہوئے مقامی ووٹروں اور پولنگ ایجنٹوں کو کنٹرول کیا اور پولنگ شروع کروا دی تاہم اس روز چونکہ شہر میں جگہ جگہ ہنگامے ہورہے تھے تو متضاد اطلاعات کا اثر اس پولنگ اسٹیشن پر بھی ہورہا تھا۔
’شام 4 بجے جب پولنگ کا وقت ختم ہونے میں ایک گھنٹہ رہ گیا تھا تب ایک سیاسی جماعت کے اسلحہ بردار لوگ دندناتے ہوئے ہمارے پولنگ بوتھ میں آگئے۔ انہوں نے اسلحے کے زور پر ہم سے سامان چھین لیا اور کہا ’ماسٹر صاحب، آپ آرام سے بیٹھ جائیں، اور پھر انہوں نے بیلٹ پیپرز پر دھڑا دھڑ ٹھپے لگانے شروع کیے، ہم بے بسی سے ان کا منہ دیکھ رہے تھے۔ ووٹوں کی گنتی کا عمل ختم ہونے تک ہم محصور رہے، پریزائیڈنگ افسر کو جب بیلٹ باکس جمع کروانے جانا تھا، اس وقت پولیس وہاں پہنچی، تب تک اسلحہ بردار رفو چکر ہوگئے اور ہمیں کئی گھنٹوں کی ذہنی اور جسمانی اذیت سے چھٹکارا ملا۔ خواتین کے پولنگ بوتھ پر موجود خواتین پولنگ افسران پریشانی سے بے حال تھیں۔ ان میں سے اکثر کے گھر والے انہیں لینے پہنچ گئے تھے مگر انہیں پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔
ٹھپہ سسٹم یا ووٹنگ مشین
اعجاز احمد ماضی کے تلخ تجربے کی روشنی میں یہ رائے دیتے ہیں کہ پولیس حالات کو مؤثر طریقے سے کنٹرول نہیں کرتی لہٰذا پولنگ کا عمل پُرامن رکھنے کے لیے رینجرز اور آرمی کا تقرر ضروری ہے نیز یہ کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ’ٹھپہ سسٹم‘ پر قابو پایا جاسکتا ہے جس میں بقول اعجاز احمد پولنگ اسٹاف بھی اپنی سیاسی ہمدردی یا پھر ڈر کی وجہ سے ملوث پایا گیا ہے۔
موم بتی کی روشنی میں ووٹوں کی گنتی
پروفیسر اجمل (فرضی نام) ایک سرکاری کالج سے وابستہ رہے ہیں اور 10 سے زیادہ انتخابات میں بحیثیت پریزائیڈنگ افسر ڈیوٹی انجام دے چکے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے انتخابی عمل کے کئی چیدہ پہلوؤں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے بتایا کہ ’2003ء کے انتخابات میں مجھے ملیر/لانڈھی کے علاقے افغان بستی میں ایک پولنگ اسٹیشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کہا گیا کہ آپ اسٹیشن کا وزٹ کرلیں، میں گیا تو افغان بستی کے دُور دراز علاقے میں ایک چھوٹا سا 4 کمروں کا اسکول تھا جس میں 4 پولنگ بوتھ بنے ہوئے تھے۔ وہاں نہ پنکھے موجود تھے اور نہ ہی واش روم کا کوئی انتظام تھا۔ اسی وقت علاقے کے ایک عوامی نمائندے بھی آگئے اور مجھے کہا کہ ہم آپ سے بھرپور تعاون کریں گے، پنکھوں کا بندوست ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ تاہم میں نے انتظامیہ کو صورتحال بتادی۔
’دراصل پولنگ اسٹاف کو انتخابی سامان لے کر رات کو ہی پولنگ اسٹیشن جاکر ٹہرنا ہوتا ہے اور ناقص انتظام سے عوام کو بھی پریشانی ہوتی۔ بہرحال ہوا یہ کہ الیکشن سے محض ایک روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل کرکے گنجان آباد علاقے کے ایک بڑے اسکول میں بنادیا گیا۔ جب ہم رات کو وہاں پہنچے تو سب سے پہلے علاقے کے وہی نمائندے چند اور لوگوں کے ہمراہ پہنچ گئے اور ناراض ہوئے کہ پولنگ اسٹیشن کیوں تبدیل کردیا، ہمارے ووٹروں کو پریشانی ہوگی اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے جھگڑنا شروع کردیا۔ الیکشن رولز کے تحت پریزائیڈنگ افسر کے پاس ایک دن کے لیے مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے ہیں جو انہیں کسی بھی دباؤ کو مسترد کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ پولنگ اسٹیشن ہم نے تبدیل نہیں کیا۔ آر او (ریٹرننگ آفیسر) نے کیا ہے آپ اس کے پاس درخواست لے کر چلے جائیں۔ انہوں نے کچھ دیر شور شرابہ کیا اور چلے گئے۔
’اگلے دن پولنگ شروع ہوئی تو کچھ ہی دیر بعد علاقے کے پولنگ ایجنٹوں نے ایسے ووٹروں کو شناختی کارڈ دے کر بھیجنا شروع کردیا جن کے یہاں ووٹ درج نہیں تھے اور کہنے لگے کہ آپ ان کا شناختی کارڈ دیکھیں اور ان کا ووٹ ڈلوائیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اس طرح نہیں ہوگا، صرف رجسٹرڈ ووٹرز ہی ووٹ ڈالیں گے جس پر انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ میں نے خراب ہوتی صورتحال کے سبب پولنگ رکوادی اور اسٹاف سے کہا کہ گیٹ بند کردیں۔ میرا ساتھی عملہ پریشان ہورہا تھا کہ صورتحال خطرناک نہ ہوجائے۔ میں نے انہیں تسلی دی اور سمجھایا کہ ہم سیکیورٹی اسٹاف کی مدد لیں گے۔ ہم نے پولیس اور رینجرز کو بلوالیا۔ انہوں نے لوگوں کو کنٹرول کیا اور ایک گھنٹے بعد پولنگ دوبارہ شروع ہوگئی۔ ہم نے تمام نمائندوں کو اطمینان دلایا کہ پولنگ کے لیے اضافی وقت دیا جائے گا۔ اس دوران کچھ سیاسی نمائندے آکر ہماری خوشامد بھی کرتے رہے۔ کچھ نے پولیس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بریانی دی لیکن ہم نے ان سے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی۔ میں نے اور ہمارے اسٹاف نے اپنے کھانے کا خود انتظام کیا جبکہ کچھ لوگ اپنا کھانا گھروں سے لائے تھے۔ اس طرح ہم نے غیر متعلقہ لوگوں کو کھانے پینے کے بہانے پولنگ بوتھ کے قریب بھی نہیں آنے دیا۔
’اضافی وقت کے بعد پولنگ ختم ہوئی تو رات کے 8 بج رہے تھے، اب ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ تھا۔ اس موقع پر سیاسی نمائندوں کا گروہ جمع ہوگیا جو گنتی کے دوران موجود رہنا چاہتا تھا، مگر میں نے تمام پولنگ ایجنٹس سے کہا کہ وہ اپنے اتھارٹی لیٹر دکھائیں جن کے پاس لیٹر موجود ہیں صرف وہی گنتی میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس پر چند لوگوں نے پھر شور مچایا کہ آپ ہمیں قانونی نکتے پڑھا رہے ہیں، ایسا پہلے تو نہیں ہوتا تھا۔ جب ہم اپنے مؤقف پر قائم رہے تو وہ ہمیں یہ دھمکی دیتے ہوئے چلے گئے کہ آپ سے اب کورٹ میں ملاقات ہوگی۔ بہرحال گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی میں نے سب سے کہہ دیا تھا کہ اب گنتی پوری ہونے تک اس کمرے سے نہ کوئی باہر جائے گا نہ باہر سے کوئی اندر آئے گا۔ یہ اس لیے کہ پولنگ ایجنٹس کو جب اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ ہار رہے ہیں تو وہ گنتی کے دوران وہاں سے کھسک جاتے ہیں تاکہ انہیں نتائج پر دستخط نہ کرنے پڑیں اور بعد میں اعتراض کرسکیں۔ لیکن میرے کہنے کے باوجود ایک، دوایجنٹ باتھ روم جانے کے بہانے نکل گئے۔
’ووٹوں کی گنتی کے دوران یہ بھی ہوا کہ لائٹ چلی گئی، کافی دیر انتظار کیا مگر وہاں کوئی متبادل انتظام بھی نہیں تھا۔ بالاخر موم بتیاں جلا کر ان کی روشنی میں گنتی کی گئی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے نتیجہ شیٹ پر دستخط کرواکے، ووٹوں کے تھیلے، انتخابی سامان اور رزلٹ شیٹ سٹی کورٹ میں ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کروا کر ہم اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوئے اور ان تمام کاموں کو انجام دینے میں صبح کے 4 بج گئے تھے۔‘
برقع پوش نابالغ ووٹرز
پروفیسر صاحب کے پاس اپنے طویل تجربے کی روشنی میں بتانے کے لیے بہت سے حقائق موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایک پولنگ اسٹیشن میں خواتین 10، 12 سال کی بچیوں کو برقع پہنا کر ووٹ ڈالنے کے لیے لے آئیں، ہماری خاتون افسر نے کہا کہ ان کا چہرہ دکھائیں تو وہ منع کرنے لگیں کہ نہیں ہم پردہ کرتے ہیں۔ لیڈی اسٹاف کے سختی برتنے پر جب پردہ ہٹایا گیا تو کم عمر بچیاں نکلیں جن کے ووٹ ڈلوانے پر اصرار کیا جارہا تھا۔
خاتون نے چاقو نکال لیا
1983ء میں ضیاالحق کے دور میں پہلے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پروفیسر اجمل کی ڈیوٹی ملیر کے علاقے میں تھی۔ وہاں کے اسٹاف کی خاتون پولنگ افسر پر وہاں موجود ایک پولنگ ایجنٹ نے الزام عائد کیا کہ یہ جعلی ووٹ ڈلوا رہی ہے اور ہنگامہ شروع کردیا، یہاں تک کہ اس نے چاقو نکال لیا۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ہم نے سیکیورٹی اسٹاف کی مدد سے بڑی مشکل سے مسئلہ حل کیا۔ اس دوران پولنگ ایک گھنٹے تک رکی رہی۔
ہنگامہ آرائی سے کیسے بچیں؟
بحیثیت پریزائیڈنگ افسر، پروفیسر اجمل کی رائے میں پولنگ اسٹیشنوں پر امن وامان، نظم و ضبط، ووٹرز اور انتخابی عملے کے لیے بہتر انتظامات صورتحال کو سدھار سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عموماً پولنگ ختم ہوتے ہی سیکیورٹی فورسز وہاں سے روانہ ہوجاتی ہیں، جس کے بعد جب نتیجے کی کاپی پولنگ اسٹیشن کے باہر لگائی جاتی ہے تو ہارنے والی پارٹی ہنگامہ شروع کردیتی ہے جس کے سبب پولنگ اسٹاف بھی خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ سیکورٹی فورسز نتیجہ آویزاں کرنے کے حتمی مرحلے تک وہاں موجود رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولنگ اسٹاف کو واضح طور چھپی ہوئی درست ووٹنگ لسٹیں فراہم کی جائیں کیونکہ سب سے زیادہ اعتراضات ووٹر لسٹوں پر ہوتے ہیں جو ہنگامہ آرائی کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹروں کے لیے بہتر انتظامات ہونے چاہئیں۔ پولنگ بوتھ کی تعداد اتنی ہو کہ لمبی لمبی قطاریں نہ لگیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عملے کو مکمل تربیت دینے کے بعد اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ملکہ خان، عورت فاؤنڈیشن کی پرووینشل پروگرام منیجر برائے سندھ ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن کی رکن رہی ہیں اور فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی مبصر بھی ہیں۔ مذکورہ تنظیموں کی مبصر کی حیثیت میں الیکشن کمیشن میں ان کی پیش کردہ رپورٹ اور تجاویز پر غور کیا جاتا ہے۔ ملکہ خان نے ہمیں بتایا کہ ان تنظیموں کی اکثر تجاویز کو الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کا حصہ بنالیا ہے۔ انہوں نے ہمیں مختلف انتخابات کے دوران اپنے مشاہدات بتائے۔
اصطبل میں پولنگ اسٹیشن
ملکہ خان نے بتایا کہ ’2005ء کے انتخابات میں وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ ماتلی (سندھ) کے ایک پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرنے پہنچیں تو دیکھا کہ 2 دکانوں جتنی ایک جگہ خواتین کا پولنگ اسٹیشن بنانے کے لیے خالی کی گئی تھی، یہ اصطبل تھا جہاں گھوڑے بندھتے تھے۔ اس کمرے میں اتنی بدبو تھی کہ سانس لینا مشکل تھا۔ ہم نے فوراً ریٹرننگ افسر سے رابطہ کیا اور ان سے جگہ تبدیل کروائی، قریبی ایک اسکول میں جہاں مردوں کا پولنگ اسٹیشن تھا وہیں قنات لگا کر خواتین کے لیے پولنگ بوتھ بنایا گیا۔
’ایک اور جگہ پولنگ اسٹیشن دیکھا کہ ایک کمرے میں خواتین کے 4 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے اور 100 سے زیادہ خواتین کمرے میں موجود تھیں۔ اس کمرے میں ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ پولنگ افسر پریشان تھے اور ان کی اسٹمپ بھی کہیں گم ہوگئی تھی۔ میں اور میرے رفیقِ کار اسلم بروہی نے باہر موجود پولیس سے کہا کہ خواتین کی لائن بنوادیں، تو وہ کہنے لگے ہم خواتین کے ہجوم میں اندر نہیں جاسکتے، انہیں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ اس پر ہم نے تمام خواتین کو کمرے سے باہر نکل کر لائن بنانے کا کہا اور پولیس سے درخواست کی کہ وہ اپنی چھڑی کی مدد سے نظم و ضبط برقرار رکھیں۔
’اس الیکشن کے بعد اپنی رپورٹ میں ہم نے الیکشن کمیشن کے ساتھ میٹنگ میں تجویز کیا کہ خواتین کے لیے ویمن پولیس تعینات کی جائے اور اس تجویز پر عمل ہوا۔ ہم نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ الیکشن کے موقع پر یونیورسٹی کے فائنل ایئر کے طلبہ کو والنٹیئر کے طور پر تعینات کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ پولنگ کے دوران ووٹروں کی رہنمائی کریں مگر اس پر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔‘
خاتون امیدوار کو کفن کا تحفہ
ملکہ خان نے بتایا ’2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی ایک کثیر تعداد آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہی تھی۔ صدر جنرل مشرف کے دور میں خواتین کی 33 فیصد نمائندگی کے قانون اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کی آگہی مہم کے نتیجے میں یہ ممکن ہوا تھا۔
’انتخابی مہم کے دوران ایک روز جیکب آباد سے ہمارے پاس ایک خاتون امیدوار برائے کونسلر کا فون آیا، وہ نہایت پریشان تھیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ان کو مخالف پارٹی کی جانب سے پارسل میں ’کفن‘ بھیجا گیا ہے، جس پر لگی چٹ میں لکھا ہے کہ ’آپ گھر میں سکون سے بیٹھیں، اگر باہر نکلنا ہے تو کفن پہن لینا‘۔ ہماری جانب سے انہیں تسلی دی گئی اور پھر ہم نے انہیں کفن بھجوانے والی پارٹی کے نمائندوں سے بات کی اور انہیں سمجھایا کہ اگر آپ کی پارٹی خواتین سے کوئی اس طرح پیش آئے تو آپ کو کتنا ناگوار گزرے گا۔ اس پر انہوں نے اپنے لوگوں کی غلطی تسلیم کی اور معاملہ رفع دفع کیا۔ جس کے بعد اس خاتون نے الیکشن میں حصہ لیا۔‘
آر او کے دفتر سے لے کر پولنگ اسٹیشن تک افراتفری
ملکہ خان نے کہا کہ ’بحیثیت مبصر میں نے ریٹرننگ افسر کے دفتر میں دیکھا ہے کہ پولنگ اسٹاف سامان لینے کے لیے رات سے قطاریں لگائے ہوتے ہیں اور پریزائیڈنگ افسران کا اگلا سارا دن بھی انتخابی عمل اور سامان کی واپس آر او آفس منتقلی کی نذر ہوتا ہے۔ اس دوران الیکشن کو پُرامن بنانا اور دھاندلی کو روکنا بھی ان کے لیے بہت دباؤ کا باعث ہوتا ہے۔
’ہم نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی کہ پولنگ اسٹاف کو جہاں ممکن ہو سہولت فراہم کریں، مثلاً آر او آفس سے سامان ٹرک پر لوڈ کیا جائے اور سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ پولنگ اسٹیشن پر رات کو پہنچا دیا جائے۔ اس تجویز پر اب تک عمل نہیں ہوا۔
’کراچی کے علاقے محمود آباد کے ایک پولنگ اسٹیشن میں ایک حاملہ ٹیچر کی ڈیوٹی لگا دی گئی تھی، اور اس بے چاری کو اتنی دیر تک بیٹھنے میں سخت پریشانی کا سامنا تھا۔ ہم نے یہ واقعہ بھی مانیٹرنگ رپورٹ میں پیش کیا۔
’پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کی صحیح رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ متاثر ہوتا ہے۔ لانڈھی کے ایک بڑے اسکول میں خواتین کے 5 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے اور طویل قطار میں لگنے کے بعد خاتون کی باری آئی تو معلوم ہوا ان کا بوتھ یہ نہیں دوسرا ہے۔ ہم نے نوٹ کیا کہ اس بوتھ پر شام 4 بجے تک محض 50 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹروں، خصوصاً خواتین کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ پولنگ اسٹیشن کے قریب سیاسی جماعتوں کے کیمپ لگانا منع ہے لیکن اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، پولنگ اسٹیشن کے نزدیک سیاسی کارکنوں کی ہلڑبازی سے صورتحال خراب ہوجاتی ہے جیسے کہ حال ہی میں کراچی میں این اے 240 کے ضمنی انتخابات میں ہوا اور ایک شخص کی جان چلی گئی۔‘
ملکہ خان نے مزید بتایا کہ ’پولنگ اسٹیشن پر انتظامات میں معذور اور بوڑھے افراد کی سہولت کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ایک پولنگ اسٹیشن میں دیکھا کہ اسکول میں نیچے کمرے خالی ہونے کے باوجود اوپر کی منزل پر انتظام کیا گیا جہاں بوڑھے افراد کا چڑھنا مشکل تھا۔ یہاں ہم نے ان سے درخواست کرکے معذور افراد کے لیے ٹیبل رکھوا کر ریمپ کا عارضی انتظام کروایا۔ خواجہ سراؤں کے لیے بھی مسائل ہوتے ہیں، خواتین انہیں اپنی قطار میں نہیں لگنے دیتیں اور مرد حضرات کے بوتھ پر بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ ہم نے تجویز دی ہے کہ ان کی قطار الگ بنوا دی جائے کیونکہ اب خواجہ سراؤں کے کارڈ بھی کثیر تعداد میں بن چکے ہیں‘۔
جائزہ کار بھی ہراساں
ملکہ خان نے بتایا کہ ’بعض اوقات الیکشن کے جائزہ کاروں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ خیرپور میں ایک پولنگ اسٹیشن پر ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کو ہماری ٹیم کا ووٹروں سے بات کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ انہوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس ٹیم کو پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا۔
’مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ 2018ء میں کراچی میں پی ای سی ایچ ایس کے ایک پولنگ اسٹیشن کے دورے پر ہوا۔ ہم سی پی ایل سی کی گاڑی میں گئے تھے جس میں گارڈ بھی موجود تھا۔ پولنگ اسٹیشن سے واپس باہر نکلے تو 2 موٹر سائیکل سواروں نے ہماری گاڑی کا تعاقب شروع کردیا۔ وہ ہمیں کہیں اور لے جانا چاہ رہے تھے۔ ہمارا گارڈ الرٹ ہوگیا اور بندوق کا رخ ان کی جانب کردیا جس پر وہ فرار ہوگئے۔‘
نسیم شیخ ڈیولپمنٹ سیکٹر کا معروف نام ہیں۔ وہ کولیشن فار انکلیوسو پاکستان کی ریجنل منیجر برائے کراچی ہیں اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن، فافن اور ٹرسٹ فار ڈیموکریسی سمیت کئی این جی اوز کے ساتھ کام کرچکی ہیں۔ 2007ء کے انتخابات میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے پریزائیڈنگ افسران کی ٹریننگ بھی کروا چکی ہیں۔ نسیم شیخ نے 2016ء کے ضمنی انتخابات، جن میں پہلی بار پولنگ اسٹیشنوں میں کیمرے نصب کیے گئے تھے اور 2017ء کے بلدیاتی انتخابات کور کیے۔
2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے فافن اور پی پی ایف کے اشتراک سے پراجیکٹ منیجر کی حیثیت سے ’لانگ ٹرم آبزرویشن‘ کی۔ انہوں نے انتخابات کے اعلان کے ساتھ 4 ماہ پہلے یہ جائزہ لینا شروع کردیا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز تو نہیں کیا جارہا، کیا سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی طرف سے خواتین کی نمائندگی کے لیے مقرر کردہ 5 فیصد کوٹہ یقینی بنا رہی ہیں۔ الیکشن رولز کے جائزے کے ساتھ الیکشن کے دن ان کی ٹیم نے کراچی کے 3 اضلاع یعنی جنوبی، شرقی اور غربی کے 11 حلقوں کے 100 پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا تھا۔ انتخابی تاریخ میں کئی لحاظ سے متنازع رہنے والے ان انتخابات کے حوالے سے نسیم شیخ بہت سے چشم دید واقعات کی گواہ ہیں۔
مبصرین نے اپنے کارڈ خود بنائے
نسیم شیخ نے بتایا کہ ’فافن اور دیگر غیر ملکی آبزرور نے انتخابی دن پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کرنا تھا لیکن حالت یہ تھی کہ ایک دن پہلے تک ہمیں ایکریڈیشن کارڈ تک نہیں ملے تھے اور الیکشن کمیشن کے پاس ہیومن ریسورسز کی کمی تھی۔ ہم جب ایکریڈیشن کے حصول کے لیے دفتر پہنچے تو الیکشن کمیشن کے عملے کے ساتھ مل کر خود اپنے کارڈ بنائے۔ اس سارے عمل میں رات کے 2 بج گئے تھے‘۔
ہمیں پولنگ اسٹیشن کے باہر روک دیا گیا
نسیم شیخ نے بتایا کہ ’2018ء کے الیکشن میں تمام پولنگ اسٹیشنوں پر فوج تعینات تھی۔ وہ سوائے ووٹروں کے کسی کو پولنگ اسٹیشن کے اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ غیر ملکی مبصرین کو بھی روکا تھا۔ ہمیں بھی پولنگ اسٹیشن کے باہر روک دیا، اب ان کو کارڈ دکھایا تو جواب ملتا ہے ’ہمیں آرڈر نہیں ہے‘۔ میں نے پھر ضلعی ریٹرننگ افسر اصغر سیال صاحب کو فون کیا تو انہوں نے کہا شاید پیغام ان تک نہیں پہنچا ہے۔ ان سے رابطے کے بعد ہمارا پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل ہونا ممکن ہوا۔ تاہم ہر پولنگ اسٹیشن پر بحث ہوتی رہی۔ وہ میڈیا کے لوگوں کو بھی روک رہے تھے۔ ہم نے بعد میں مانیٹرنگ رپورٹ میں یہ تجویز دی کہ اس طرح کی بدمزگی سے بچنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو پہلے سے آگاہ کرنا ضروری ہے‘۔
اقلیتی بوتھ پر ہُو کا عالم
نسیم شیخ کے مطابق ڈیفنس کے علاقے میں ایک نجی یونیورسٹی میں احمدی افراد کے لیے الگ پولنگ بوتھ قائم تھا، یہاں تقریباً 200 ووٹ رجسٹرڈ تھے لیکن شام تک ایک ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوا تھا۔ نسیم کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ احمدی اپنی شناخت ظاہر ہونے کے خوف سے ووٹ ڈالنے نہیں آرہے تھے۔ نسیم نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین میں قادیانیوں کو اگرچہ غیر مسلم قرار دیا گیا ہے لیکن ان کی ووٹنگ لسٹیں الگ بنتی ہیں جبکہ دیگر غیر مسلم ووٹروں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔
غلط اطلاعات پر ہنگامہ
نسیم شیخ نے بتایا کہ ’وہ کراچی کے حلقے این اے 246 کے ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود تھیں۔ یہ حلقہ میڈیا کا مرکز نگاہ تھا کیونکہ یہاں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو امیدوار تھے جن کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار عبدالشکور شاد اور دیگر تھے۔ ہم ایک طرف اچانک جھگڑے کی آوازیں سن کر متوجہ ہوئے۔ معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی خواتین پولنگ بوتھ میں آمد کی اطلاع پر ہنگامہ ہورہا تھا۔ باہر میڈیا کی ٹیمیں موجود تھیں اور جب ان کو اطلاع دی گئی کہ پی ٹی آئی کے لوگ اندر آگئے ہیں تو انہوں نے فوراً بریکنگ نیوز چلا دی۔ اب پیپلز پارٹی اور دیگر سب جماعتوں کے لوگ بھی پہنچ گئے اور ایک معمولی سی بات سے رائی کا پہاڑ بن گیا۔
فارم 45 کا تنازعہ
انتخابی ایکٹ کے رول 80 کے تحت فارم 45 جس پر نتیجے کی جزئیات کے ساتھ تفصیل درج ہوتی ہے، اس پر تمام امیدواروں کے دستخط لیے جاتے ہیں اور فارم 46 جس پر انتخابی دستاویزات کی تفصیل درج ہوتی ہے، پولنگ ایجنٹس اورآبزرورز کو دیا جاتا ہے اور اس کے بعد نتیجہ آر اوز کو پہنچایا جاتا ہے۔ یہ کام ووٹوں کی گنتی مکمل ہوتے ہی کرلیا جاتا ہے لیکن 2018ء کے انتخابات میں یہ فارم تاریخ میں پہلی بار 2 دن کی تاخیر سے امیدواروں کو ملا۔ یہی نہیں بلکہ سیکیورٹی فورسز نے بھی پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے دوران باہر نکال دیا۔ کئی جگہ پریزائیڈنگ افسران نے فورسز کو قائل کیا کہ گنتی کا عمل پولنگ ایجنٹس کے سامنے ہوگا جس پر انہیں اجازت دی گئی۔ کراچی کا حلقہ این اے 243 جہاں سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان خود امیدوار تھے، وہاں گلشن اقبال کے ایک پولنگ اسٹیشن سے رات ایک بجے فارم 45 ملا اور یہ سب سے جلدی ملنے والا فارم تھا۔
آر ٹی ایس پر کیا گزری؟
2018ء کے انتخابات میں پہلی بار رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) استعمال کیا جارہا تھا۔ اس کے تحت ووٹوں کی گنتی مکمل ہوتے ہی پریزائیڈنگ افسر کو اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے رزلٹ کی کاپی ریٹرننگ افسر کو بھیجنی تھی۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد بجائے اس کے کہ فارم 45 بھرا جاتا، پریزائیڈنگ افسر نتائج کو ریٹرننگ افسران تک پہنچانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں اسمارٹ فون تو فراہم کردیے گئے تھے مگر بیشتر پریزائیڈنگ افسر اس کے استعمال سے ناواقف تھے جو اپنے معاونین کے ذریعے نتیجہ پہنچانے کی کوشش میں لگے رہے۔ انٹرنیٹ رابطے بھی معطل ہوگئے۔ کچی آبادیوں میں تو یہ زیادہ مسئلہ بنا۔ آر ٹی ایس میں جٹے رہنے کی وجہ سے پریزائیڈنگ افسران نتائج فوری طور پر پولنگ اسٹیشن کے باہر چسپاں کرنے میں بھی ناکام رہے اور دیگر اہم کام جس میں انتخابی ریکارڈ، چیلنج اور ٹینڈر ووٹ کے الگ لفافے بنائے جاتے ہیں وہ بھی تاخیر کا شکار ہوا۔
جھنڈے لگانے اور بینر اتارنے پر جھگڑے
نسیم شیخ نے بتایا کہ ’الیکشن سے 4 ماہ پہلے شروع ہونے والے ایک جائزے کے تحت انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا بھی جائزہ لیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے اخراجات/بجٹ، جھنڈے، بینر وغیرہ سب کے لیے رولز طے کردیے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ ایک پارٹی اپنے امیدوار کا ممنوعہ سائز کا بل بورڈ لگاتی ہے تو دوسری اس سے بڑے سائز کا۔ یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جھنڈے لگانے اتارنے پر جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کے لیے بھی کوششوں کو یقینی بنائے۔
فافن کے چیف ایگزیکٹو، شاہد فیاض نے انتخابات کے دوران تشدد کو روکنے کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’پُرامن اور جمہوری انتخابات کے لیے تشدد کو روکنا، برابری پر مبنی اور خوف و ہراس سے پاک ماحول فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کے دن سے پہلے، اس دن اور بعد میں کسی بھی انتخابی حلقے میں سیکیورٹی کے معاملات پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہیے اور اسے کسی بھی بدنظمی کو بروقت رپورٹ کرنے اور ہنگامی حالات کی روک تھام کے لیے طریقہ کار وضع کرنا چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’تمام جماعتوں اور امیدواروں کو برابری کا میدان اور خوف و ہراس سے پاک ماحول فراہم کرنے کے لیے قانون اور قواعد کا یکساں نفاذ بھی بہت ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو 2017ء کے ایکٹ کے تحت مکمل اختیارات حاصل ہیں، وہ کسی بے قاعدگی یا غیر قانونی طریقوں کی شکایت پر ازخود نوٹس لے سکتا ہے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی شروع کرسکتا ہے۔ تشدد کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کمیشن کی مانیٹرنگ کمیٹیوں کو بروقت معلومات جمع کرنے اور ان کی فوری ترسیل کے لیے اپنا کردار مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فافن باقاعدگی سے اپنی رپورٹس اور سفارشات میڈیا، الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں کو فراہم کرتا ہے‘۔
ایک تگڑا الیکشن کمیشن
اس رپورٹ کے لیے بات کرتے ہوئے تمام مبصرین نے اتفاق کیا کہ 2017ء کے ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن ایک نہایت مضبوط اور خود مختار ادارہ بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس ایکٹ کی تشکیل میں حکومتی مشینری سمیت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور غیر جانبدار ادارے فافن کی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔ مبصرین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ انتخابی عمل صاف شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور انتخابی عمل میں پہلے کی نسبت بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ ادارہ مبصرین کی تجاویز پر بھی غور کرتا ہے تاہم امن و امان کے مسئلے میں جہاں صوبائی حکومت کی مشینری معاونت فراہم کرتی ہے وہاں الیکشن کمیشن کو اپنی رٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن کے دن کے تجربات سے متعلق ہم نے چند ووٹرز سے بھی گفتگو کی۔
تہوار جیسا ماحول
اسما جاوید فیڈرل بی ایریا کی رہائشی گھریلو خاتون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں 2003ء سے 2008ء تک کے الیکشن کا زمانہ یاد آتا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی اور عام انتخابات کے دوران بہت انتخابی گہما گہمی نظر آتی تھی۔ مجھے یاد ہے ووٹروں کو لانے لے جانے کے لیے سیاسی جماعتیں گاڑیوں کا انتظام کرتی تھیں۔ گانے ترانے بج رہے ہوتے تھے، خاندان اور محلے بھر کی خواتین مل کر ووٹ ڈالنے جاتی تھیں۔ ہم عموماً صبح صبح چلے جاتے تھے تو لمبی قطار میں بھی نہیں لگنا پڑتا تھا‘۔
ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا گاڑی میں لے جانے والی سیاسی پارٹی ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ بھی ڈالتی تھی؟ اس سوال کے جواب میں اسما صاحبہ نے کہا کہ ’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم نے ہمیشہ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالا، البتہ ہماری کام والی بتاتی تھی کہ لڑکے انہیں گاڑی میں لے جاتے ہوئے اپنے نشان سے متعلق بتا دیتے تھے کہ اسی پر ہی مہر لگانی ہے۔ ہمارے علاقوں میں تو ووٹنگ کے دوران لڑائی جھگڑے بھی نہیں ہوتے تھے، اب بعد میں وہ بوگس ووٹنگ کرتے ہوں یا گنتی کے وقت جھگڑتے ہوں تو اس کا ہمیں علم نہیں‘۔
اسما جاوید نے کہا کہ ’البتہ وقت کے ساتھ کراچی کی جو خراب حالت دیکھی ہے تو اب کسی کو بھی ووٹ ڈالنے کو دل نہیں چاہتا‘۔
آپ کا ووٹ تو کاسٹ ہوچکا
ثنا اقبال اورنگی ٹاؤن کی رہائشی اور ایک ورکنگ وومن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’2018ء کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے دُور واقع پولنگ اسٹیشن پر پہنچنا مشکل تھا۔ میں جانتی ہوں بہت سی خواتین اس وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں جاسکیں۔ امن و امان اور انتظامات کے حوالے سے 2018ء کے انتخابات بہترین تھے ورنہ اس سے پہلے یہ بھی ہوتا رہا کہ پولنگ اسٹیشن جاکر معلوم ہوتا تھا ہمارا ووٹ تو کاسٹ ہوچکا‘۔
صوبائی الیکشن کمشنر برائے سندھ، اعجاز انور چوہان اس عہدے پر دوسری مرتبہ فائز ہوئے ہیں۔ پہلی مرتبہ ستمبر 2020ء سے نومبر 2021ء تک 14 ماہ کی مدت میں انہوں نے 6 ضمنی، ایک سینیٹ، ایک کنٹونمنٹ اور آزاد کشمیر کے انتخابات کا انعقاد کروایا۔ اس سال انہوں نے اپریل 2022ء میں ذمہ داری سنبھالی اور اب تک ایک سینیٹ اور 2 ضمنی الیکشن (این اے 240 اور این اے 245) کا انعقاد کرواچکے ہیں۔ اعجاز انور چوہان نے انتخابات میں ہنگامہ آرائی، دھاندلی اور بدنظمی کے بارے میں ہم سے بات چیت کی اور ہمارے سوالوں کے جوابات دیے۔
ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں کی مرضی کا
اعجاز انور چوہان نے کہا کہ ’آئین پاکستان کے آرٹیکل 218 (3) نے شفاف، منصفانہ اور پُرامن انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کو تفویض کیا گیا ہے جو بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے الیکشن کمیشن ہر ممکن اقدامات اٹھاتا ہے۔ یہ ایک جاری عمل ہے، جس میں ہر انتخابات میں گزشتہ جائزوں کی روشنی میں نئے اقدامات بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق الیکشن کا ایک لازمی جزو ہے جسے تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنایا گیا ہے اور ہر الیکشن سے پہلے اسے زیرِ غور لایا جاتا ہے۔ اس میں انتخابی مہم کے دوران اخراجات کی حد، انتخابی جلسے جلوسوں میں نظم وضبط، الیکشن کے دن کے ضابطہ کار سمیت ہر امر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے طے کیا جاتا ہے۔ ضابطہ اخلاق کی کاپی ہر سیاسی جماعت کو دی جاتی ہے۔ اب یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں اور حامیوں کو پُرامن رکھیں‘۔
ان سے جب کراچی میں این اے 240 کے ضمنی انتخابات میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے تمام جماعتوں کو بلایا تھا۔ ایک ضابطہ کار طے ہوا اور ہم نے سب جماعتوں سے درخواست کی کہ اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو پُرامن رکھیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ سیاسی رہنماؤں کی دخل اندازی سے صورتحال بگڑی۔ یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ ہم انتخابی ضابطہ اخلاق سیاستدانوں کی مرضی کے مطابق بناتے ہیں مگر سیاسی جماعتیں اور امیدواروں کی جانب سے ہی اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر واقعات میں امیدوار ایک دوسرے سے الجھتے اور خود ہی اپنے طے کردہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں‘۔
اب ہر پولنگ اسٹیشن حساس ہے
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’پولنگ اسٹیشن 3 درجوں میں تقسیم ہوتے ہیں، عام، حساس اور انتہائی حساس، لیکن عملی طور پر اب کوئی بھی پولنگ اسٹیشن عام نہیں، ہم انہیں حساس اور انتہائی حساس کے 2 درجوں میں تقسیم کرتے ہیں اور اسی کی مناسبت سے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ حساس پولنگ اسٹیشن میں 4 سے 6 افراد تک پولیس اور انتہائی حساس اسٹیشن پر 8 سے 10 تک پولیس کی نفری تعینات کی جاتی ہے۔ اسی طرح گشت اور اضافی گشت کی جاتی ہے اور سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جاتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن سے تعاون کی پابند ہیں۔
’صوبائی حکومت ہمیں سیکیورٹی کے لیے پولیس فورس فراہم کرتی ہے۔ پولنگ اسٹیشن کی سیکیورٹی بھی 3 درجوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی سیکیورٹی کے لیے پولیس فورس اور سیاسی جماعتیں یا امیدوار اگر ضرورت محسوس کریں تو ان کی درخواست پر دوسری سطح پر رینجرز اور آخری سطح پر فوج بلائی جاتی ہے۔‘
مانیٹرنگ کا خاص نظام
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’انتخابی عمل کی مؤثر نگرانی کے لیے 2017ء کے انتخابی ایکٹ کے سیکشن 234 کے تحت پہلی بار گزشتہ انتخابات میں ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر (ڈی ایم او) مقرر کیے گئے۔ تمام ڈپٹی کمشنر بحیثیت ڈی ایم او کام کررہے تھے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ عمل انتخابات کی نگرانی کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوا۔ اب اسے مزید منظم کرلیا گیا ہے۔ ہر ضلع میں الیکشن کمیشن کے گریڈ 17 اور 18 کے افسران پر مشتمل مانیٹرنگ ٹیمیں بنائی گئی ہیں جو تمام حلقہ انتخاب کا دورہ کرتی ہیں اور ڈی ایم او کو رپورٹ پیش کرتی ہیں جو اس پر فوری کارروائی کرتے ہیں۔ یہ مشینری صرف پولنگ کے دن تک نہیں بلکہ الیکشن سے تقریباً ایک ماہ پہلے سے کام شروع کردیتی ہے اور انتخابی مہم کا بھی جائزہ لیتی ہے۔ پولنگ کے بعد نتائج مکمل ہونے تک تقریباً 48 گھنٹے یہ مانیٹرنگ ٹیمیں سرگرم رہتی ہیں۔ کراچی میں این اے 245 کے ضمنی انتخابات نہایت پُرامن طریقے سے منعقد ہوئے، اس میں بھی مانیٹرنگ ٹیمیں سرگرم تھیں۔ الیکشن کمیشن نے کمپلینٹ منیجمنٹ سسٹم (سی ایم ایس) بھی شروع کیا ہے جس کے ذریعے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی بھی شکایت نوٹ کروا سکتا ہے جس پر انتظامیہ فوری ایکشن لیتی ہے‘۔
کراچی میں انتخابات ایک چیلنج
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’کراچی میں تمام سیاسی جماعتیں اپنی موجودگی رکھتی ہیں۔ یہ دنیا کا ایک متنوع شہر ہے جہاں لوگ سیاسی وسماجی ہر لحاظ سے بہت سرگرم ہیں۔ کراچی میں الیکشن ہمیشہ ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے پُرامن انتخابات کے لیے ہم نے بھرپور تیاری کی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں کُل 9 ہزار جبکہ صرف کراچی میں 5 ہزار پولنگ اسٹیشن ہیں۔ ان میں سے 1500 کے قریب انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ حال ہی میں این اے 245 میں نہایت پرامن ضمنی انتخابات ہوئے جو انتہائی حساس حلقہ تھا، اور وہاں امن و امان کی صورتحال دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہمارے بہترین انتظامات کا نتیجہ ہیں‘۔
سیاہی اب مٹے گی نہیں
انتخابی انتظامات میں بدنظمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا کہ ’عموماً ووٹر لسٹوں پر تنازعات ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس پر بہت کام کیا ہے۔ اب کمپیوٹرائزڈ اور ووٹر کی تصاویر والی لسٹیں استعمال ہوتی ہیں۔ ہم نادرا کے اشتراک سے ووٹر لسٹوں کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ 2023ء کے عام انتخابات کے لیے ستمبر میں فہرستوں کو اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایس ایم ایس سروس شروع کی جارہی ہے اور عوام 8300 پر میسج کرکے اپنا اندراج چیک کرسکتے ہیں۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کو اپ ڈیٹ کی گئی فہرستیں فراہم کرتے ہیں، اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حاصل کریں جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں پرانی فہرستیں استعمال کرتی ہیں اور پولنگ ڈے پر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں‘۔
گزشتہ انتخابات میں یہ مسئلہ بھی آیا کہ ووٹ کے لیے استعمال کی جانے والی مہر کی سیاہی مٹ جاتی ہے۔ اعجاز چوہان صاحب نے اس بارے میں کہا کہ ’ہم پاکستان کے مستند ادارے پاکستان کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) سے انمٹ سیاہی حاصل کرتے ہیں، جس میں شاذ و نادر ایکسپائر ہونے یا کسی اور وجہ سے کہیں کوالٹی میں فرق آسکتا ہے لیکن ہم اس بات کو بھی یقینی بنا رہے ہیں کہ سیاہی نہ مٹے‘۔
غلط اطلاعات، انتخابی عمل کے لیے سم قاتل
اعجاز چوہان صاحب نے انتخابات کے موقعے پر الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے درست اطلاعات کی فراہمی کو پُرامن انتخابات کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میڈیا کی نشر کردہ غلط خبر سے الیکشن کا پورا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ اس سے ہنگامے شروع ہوسکتے ہیں، ووٹز ٹرن آؤٹ کم ہوسکتا ہے اور الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھ سکتے ہیں، لہذا ڈان کے توسط سے میری میڈیا سے گزارش ہے کہ الیکشن کے موقع پر مستند اور درست خبریں نشر کریں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، ایک حالیہ الیکشن کے دوران ایک چینل پر الیکشن کمیشن کے حوالے کے انتظامات میں نقص کے حوالے سے یہ خبر دی جا رہی تھی کہ ’2 پولنگ بوتھ پر ایک پولنگ ایجنٹ مقرر ہے اور وہ کس طرح دونوں کو کور کرے گا‘۔ میں نے اس خبر کی تردید چینل کو یہ بتاکر کروائی کہ پولنگ ایجنٹ کا تقرر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کی نہیں، سیاسی جماعت اپنے دستیاب لوگوں کے تحت ان کا تقرر کرتی ہے۔ الیکشن رولز کے مطابق ایک پولنگ بوتھ پر ایک پولنگ ایجنٹ مقرر کیا جاسکتا ہے۔
’انتخابات سے قبل ہم میڈیا کے ساتھ بھی ضابطہ اخلاق طے کرتے ہیں۔ میڈیا کو مستند نتائج کی فراہمی کے لیے الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر ڈیش بورڈ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پریذائیڈنگ افسران کی جانب سے گنتی مکمل ہوتے ہی نتائج ریٹرننگ افسران کو بھیجے جاتے ہیں جو اسے ڈیش بورڈ پر اپ لوڈ کروا دیتے ہیں۔ این اے 240 کے انتخابات میں ہم نے یہ طریقہ کار اپنایا تھا۔‘
اعجاز چوہان نے کہا کہ ہم میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ووٹر ٹرن آؤٹ بھرپور بنانے میں ہمارا ساتھ دے۔ الیکشن کمیشن اس جمہوری عمل کے فروغ کے لیے مہم چلاتا ہے، باقاعدہ ووٹرز ڈے منایا جاتا ہے۔ صاف شفاف الیکشن کا عمل جو ملک میں جمہوریت کی رگ جان ہے، اسے یقینی بنانا، الیکشن کمیشن سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کا قومی فریضہ ہے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو ’پر کٹے پرندے‘ کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔