طالبان سے متعلق دنیا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، سفیر اقوام متحدہ
افغانستان میں اقوام متحدہ کے نائب نمائندے مارکس پوٹزل نے کہا ہے کہ دنیا طالبان سے متعلق اپنا صبر کھو رہی ہے کیونکہ افغان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے اور ان کے القاعدہ سے روابط پر سوالیہ نشان بھی تاحال موجود ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مارکس پوٹزل نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ گزشتہ سال طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے لیکن وہ بہت محدود اور سست ہے جس کا اثر منفی پہلوؤں نے زائل کردیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکمت عملی کے حوالے سے عالمی برادری میں اکثریت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ طالبان کے حوالے سے تاحال یہ ابہام پایا جاتا ہے کہ وہ عالمی دنیا کے ساتھ کس حد تک مصروف عمل ہونا چاہتے ہیں۔
گزشتہ روز جاری ہونے والی اپنی سہ ماہی رپورٹ میں انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ ان کا خیال ہے کہ رواں سال کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت سے طالبان اور القاعدہ کے درمیان جاری تعلقات سامنے آگئے ہیں جو طالبان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے وعدوں کے برعکس ہیں۔
اس رپورٹ میں خواتین اور لڑکیوں کی علیم سمیت ان کے دیگر حقوق پر عائد سخت پابندیوں کی بھی مذمت کی گئی۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان میں سلامتی کونسل کے 10 غیر مستقل ارکان اور آئندہ سال کونسل کی نشستیں سنبھالنے والے 5 ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس فیصلے کو واپس لیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری افغان خواتین اور لڑکیوں کو بھولی نہیں ہے اور نہ کبھی بھولے گی۔
تاہم ایک سفیر نے نشاندہی کی کہ سلامتی کونسل کے کم از کم ایک مستقل رکن کی جانب سے اس کی مخالفت ہوئی ہے جو کہ ویٹو پاور رکھتا ہے۔
ناروے کی سفیر مونا جول نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے سلامتی کونسل کی جانب سے اس حوالے سے ایک مشترکہ بیان حاصل کرنے کے لیے بھرپور کوشش کی لیکن ہم ایسا نہ کر سکے‘۔
سفارتی ذرائع کے مطابق چین اور روس نے ایک مشترکہ بیان کی مخالفت کی جس میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے منجمد افغان اثاثوں کی بحالی کی درخواست بھی شامل نہیں تھی۔
اجلاس کے دوران چینی سفیر گینگ شوانگ نے لڑکیوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک منجمد اثاثوں کو افغان عوام کی زندگی کی بہتری اور معاشی تعمیر نو کے لیے فوری استعمال کیا جانا چاہیے۔