چینی کمپنیاں بلوچستان میں 'استحصالی قوتوں' کے طور پر کام کر رہی ہیں، اسلم بھوٹانی
بلوچستان کے قانون ساز نے صوبے میں بجلی کے مختلف منصوبوں پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کی جانب سے ’جاری استحصال‘ کی مذمت کرتے ہوئے ان پر ساحلی علاقوں میں ماحولیات اور سمندری حیات کو تباہ کرنے کے علاوہ مقامی لوگوں کو نوکریوں سے محروم کرنے کا الزام لگایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے لسبیلہ اور گوادر کی نمائندگی کرنے والے قانون ساز اسلم بھوٹانی نے چینی کمپنیوں پر تنقید کی کہ وہ صوبے میں تباہ کن سیلاب کے وقت لوگوں کی مدد کے لیے آگے نہیں آئیں۔
انہوں نے چینی کمپنیوں کو دھوکے باز قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ کمپنیاں ٹیکس ادا نہیں کر رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’سی پیک سے گوادر کو سب سے زیادہ فائدہ پہچنا چاہیے‘
اسلم بھوٹانی نے کہا کہ چینی کمپنیاں بلوچستان میں ’استحصالی قوتوں‘ کے طور پر کام کر رہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا دوست ہے اور اس نے متعدد مواقع پر ہماری مدد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چین سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن چینی کمپنیاں علاقے میں تباہی مچا رہی ہیں، انہوں نے حکومت سے ’کمپنیوں میں اپنی عملداری قائم کرنے‘ کا مطالبہ کیا۔
اسلم بھوٹانی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کمپنیاں خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتی ہیں، کیونکہ وہ فوج کی حفاظت میں کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیاں، جنہوں نے لسبیلہ میں کوئلے کا پلانٹ لگایا تھا، سمندری حیات کو تباہ کر رہی ہیں جس سے مقامی ماہی گیروں کا روزگار ختم ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں: چینی کمپنی کو سینڈک کے علاقے میں کام کرنے کی اجازت
اس کے علاوہ قانون ساز نے افسوس کا اظہار کیا یہاں تک کہ ماحولیاتی ٹریبونل بھی ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فوج کی حفاظت میں کام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو انفراسٹرکچر تباہ کرنے کی اجازت ہے۔
تفصیل بتائے بغیر انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان نیوی نے اورماڑہ میں ماہی گیروں کے ساتھ بھی ناانصافی کی ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی سے یہ معاملہ نیول چیف کے ساتھ اٹھانے کو کہا۔
دوسری جانب وزیر برائے بجلی خرم دستگیر نے بلوچستان کے ایم این اے کو یقین دلایا کہ وہ جلد ہی چینی کمپنیوں کے نمائندوں سے ان کی ملاقات کا اہتمام کریں گے تاکہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی کی بلوچستان کے معدنی وسائل کو ترقی دینے کی پیشکش
وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ نے ایوان کی توجہ سندھ میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کی طرف مبذول کرائی اور وزیراعظم شہباز شریف سے کہا کہ وہ ایوان میں آکر صورتحال اور اپنے دورہ اقوام متحدہ کے بارے میں پارلیمنٹ کو بریفنگ دیں۔
خورشید شاہ نے اصرار کیا کہ دنیا پاکستان کو معاوضہ دے جسے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کی وجہ سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اس حقیقت کے باوجود کہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
پیشگی انتباہات کے باوجود سیلاب سے نمٹنے کی تیاری میں ناکامی پر سندھ حکومت کے خلاف تنقید کا استثنیٰ لیتے ہوئے، پی پی پی رہنما نے کہا کہ محکمہ موسمیات نے 40 فیصد مزید بارشوں کی پیش گوئی کر کے ’غلط‘ پیش گوئی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل بارش پیش گوئی سے کئی گنا زیادہ تھی، کچھ علاقوں میں جہاں کبھی 120 ملی میٹر سے زیادہ بارش نہیں ہوئی تھی وہاں ایک ہزار 780 ملی میٹر بارش ہوئی ہے۔
ملک میں معاشی اور زرعی ایمرجنسی کے اعلان کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خورشید شاہ نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید تباہی ہو سکتی ہے کیونکہ صوبہ سندھ میں 80 فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیرپور میں ساڑھے 10 کروڑ درخت خطرے میں ہیں اور بہت سے علاقے اب بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، سندھ اس سال کھجور برآمد نہیں کر سکے گا۔