ملک بھر میں موجود بیشتر یونیورسٹیوں میں اب تعلیمی سال کا اختتام قریب ہے اور جلد ہی نئے تعلیمی سال کے لیے داخلوں کا آغاز ہوجائے گا۔ حال ہی میں کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے سامنے اب یہ سوال پہاڑ بن کر کھڑا ہوگا کہ وہ مزید تعلیم کے لیے کس شعبے کا انتخاب کریں۔ بلاشبہ یہ فیصلہ زندگی کے چند اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہوتا ہے جو آپ کی آئندہ زندگی کا رخ طے کرتا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی مسائل پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو گفتگو کا موضوع ہمیشہ وہ درسگاہیں ہوتی ہیں جو کاغذ پر تو موجود ہیں لیکن حقیقت میں اپنا وجود نہیں رکھتیں، اگر وہ موجود بھی ہیں تو ان کی عمارتیں خستہ حال اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یا پھر ہمارا موضوع ان درسگاہوں سے باہر موجود وہ لاکھوں بچے ہوتے ہیں جو تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں۔
لیکن بہترین سہولیات سے آراستہ معیاری تعلیمی ادارے ملک کے لیے کتنے مفید ثابت ہورہے ہیں؟ ان میں موجود طلبہ کے مسائل کیا ہیں؟ یہ نکات ہماری نظروں سے اکثر اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اپنے اس نئے تعلیمی سفر میں طلبہ کو سب سے پہلے جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کیریئر کا انتخاب ہے۔
ایک زمانہ تھا جب بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کرلیا جاتا تھا کہ بیٹا بڑا ہوکر انجینیئر اور بیٹی ڈاکٹر بنے گی، مگر آج کل بچوں کو کم از کم یہ آزادی حاصل ہے کہ ان پر کیریئر تھوپے نہیں جاتے بلکہ اپنی پسند ناپسند کے مطابق فیصلے کا مکمل اختیار دیا جاتا ہے۔ لیکن مسئلہ آج بھی وہی ہے کہ کالج مکمل ہونے کے بعد اکثر طلبہ کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے شوق اور رجحانات کیا ہیں؟ ان کی صلاحیتیں کیا ہیں؟ اور کون سے شہر کی کس یونیورسٹی میں کونسا شعبہ ان کے لیے بہتر رہے گا؟
آج اس ترقی یافتہ دور میں پاکستان سے باہر آئے روز نت نئے مضامین یونیورسٹیوں میں متعارف کروائے جاتے ہیں مگر پاکستان میں طلبہ کو روایتی میڈیکل اور انجینیئرنگ مضامین سے ہٹ کر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون سے مضامین ہیں جن کی آنے والے 10، 20 برسوں میں دنیا کو ضرورت ہوگی۔
ہاسٹل اور یونیورسٹی میں کئی ایسے طلبہ سے واسطہ پڑا جو چھوٹے شہروں یا گاؤں سے سب چھوڑ چھاڑ کر کئی گھنٹوں کی مسافت طے کر کے بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے تو آگئے لیکن رہائش سے لے کر تعلیمی ادارے کے انتخاب تک شدید پریشانی کاسامنا کرنا پڑا۔ اگلا مرحلہ یونیورسٹی میں تعلیمی شعبے کا انتخاب ہوتا ہے، اس میں بھی طلبہ مخمصے کا شکار رہتے ہیں۔
سکھر سے تعلق رکھنے والے طلحٰہ منصور کالج میں سیکنڈ ایئر کے طالبعلم ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ 'مجھے بچپن سے انگریزی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے کا شوق تھا، انٹرنیٹ کی سہولت ملنے کے بعد نیٹ فلکس پر اینیمیٹڈ ویب سیریز دیکھیں تو فکشن پر مبنی انگریزی ڈراموں کی اسکرپٹ لکھنے کا شوق پیدا ہوا، اب تک کئی اقساط پر مشتمل متعدد انگریزی ڈراموں کی اسکرپٹ لکھ چکا ہوں'۔
انتہائی کم عمری میں باصلاحیت ہونے کے باجود اپنے کیریئر کے انتخاب سے بےخبر طلحٰہ نے مزید بتایا کہ 'یہ صلاحیت بلاشبہ میرے اساتذہ اور والدین سمیت خاندان بھر کی نظر میں منفرد ہے جس پر بھرپور داد بھی ملتی ہے، لیکن اپنے اس شوق کے مطابق باقاعدہ تعلیم کے لیے سکھر میں کوئی یونیورسٹی ہی موجود نہیں ہے، میں اس بات سے مکمل لاعلم ہوں کہ میرے اس شوق کا کیا اسکوپ ہے اور مجھے کس شہر کی کس یونیورسٹی میں کون سے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ 'میری لکھی ہوئی تمام اسکرپٹ اب یوں ہی پڑی ہیں اور میں کالج میں معمول کی پڑھائی میں مصروف ہوگیا ہوں، آئندہ سال کالج مکمل ہونے کے بعد مجھے اس حوالے سے حتمی فیصلہ لینا ہوگا لیکن رہنمائی کے آثار دُور دُور تک نظر نہیں آرہے'۔
یہ مسئلہ صرف چھوٹے شہروں کے طلبہ تک محدود نہیں ہے، بڑے شہروں میں زیادہ وسائل اور زیادہ مواقع دستیاب ہونے کے باوجود طلبہ اپنے تعلیمی رجحان سے بے خبر اور شعبے کے انتخاب کے لیے کسی حتمی فیصلے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
کراچی میں ایک نجی ہاسٹل میں رہائش پذیر ایاز کھوسو بتاتے ہیں کہ 'میرا تعلق اندرون سندھ سے ہے جہاں تعلیمی میدان میں رہنمائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، میں نے پہلے وہاں سے بی اے کیا پھر بی بی اے شروع کردیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو کراچی آگیا، یہاں آپشنز بہت ہیں مگر رہنمائی یہاں بھی کوئی نہیں تھی، پھر میں نے یہاں ڈی پی ٹی میں داخلہ لے لیا جس کی فیس لاکھوں میں ہے لیکن میں اب تک اپنے اس فیصلے کے حوالے سے غیریقینی کا شکار ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ہاسٹلوں میں رہنے والے طلبہ اپنے علاقوں میں خاندان کے وہ چند خوش نصیب بچے ہوتے ہیں جنہیں ان کے والدین بڑی امیدوں کے ساتھ بھاری رقم خرچ کرکے بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں لیکن وہاں جاکر ہم ان سیکڑوں ہزاروں طلبہ کا حصہ بن جاتے ہیں جن کے پاس علمی اور عملی میدان میں کوئی واضح رہنمائی اور منزل نہیں ہوتی'۔
اسی طرح لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم شرجیل جٹ بتاتے ہیں کہ 'میں نے والدین کی خواہش پر ایم بی بی ایس کے لیے ایک پرائیویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لے لیا تھا لیکن وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں، پھر بی بی اے میں داخلہ لیا اور اب ماس کمیونکیشن پڑھ رہا ہوں'۔
کیریئر کے انتخاب اور رہنمائی کی تلاش میں طلبہ کی اس ساری مشق کے دوران پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ بیشتر یونیورسٹیوں نے داخلہ فیس اور سیمسٹر فیس کو ناقابل واپسی رکھا ہوا ہے، کیریئر کاؤنسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے کئی طلبہ کو اپنے اصل رجحان کا اندازہ داخلہ لینے یا ایک، دو سیمسٹر گزر جانے کے بعد ہوتا ہے۔ اب اگر کسی طالبعلم نے غلطی سے کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور بعد میں کسی اور یونیورسٹی میں تبادلہ کروانا چاہے تو پچھلے ادارے میں جمع کروائی گئی فیس ناقابل واپسی ہوتی ہے۔ اس لوٹ مار کی وجہ سے ہر سال کئی والدین کا محنت سے کمایا ہوا پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر سید عاصم علی جامعہ کراچی میں مشیر برائے اُمور طلبہ ہیں، انہوں نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ 'جب آپ کو اپنی منزل معلوم نہیں ہو تو یہ فیصلہ بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس راستے پر جائیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دستیاب کیریئر آپشنز کے بارے میں طلبہ کو معلوم نہیں ہوتا اور پھر اس حوالے سے انہیں رہنمائی دینے والے جو بڑے ملتے ہیں وہ انہیں صرف ڈاکٹر یا انجینیئر بنانا چاہتے ہیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ طویل عرصے تک طلبہ کا دھیان سوشل سائنسز کی جانب نہیں گیا اور سوشل سائنسز پڑھنے والوں کو بے وقعت سمجھا جاتا رہا'۔
ڈاکٹر سید عاصم علی نے کہا کہ 'یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ داخلے کے لیے یونیورسٹی آنے کے بعد طلبہ کو پتا چلتا ہے کہ کون کون سے شعبے ہیں جن میں داخلہ لیا جاسکتا ہے، کئی مضامین کے نام وہ پہلی بار سن رہے ہوتے ہیں، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اسکول اور کالج لیول پر طلبہ کو اس حوالے سے بتایا جائے لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور طلبہ یونیورسٹی آکر کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسکول لیول پر ہی طلبہ کو اپنے کیریئر کے انتخاب کے قابل بنایا جائے لیکن کالج کے بعد مزید پڑھائی کے لیے یہاں فیصلے نمبروں یا پرسنٹیج کی بنیاد پر ہورہے ہوتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اسکوپ کیا چیز ہوتی ہے؟ یہ میں آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ جواد میمن نامی ایک لڑکا ہے جو پڑھتا کچھ اور تھا لیکن اس کو موسم کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کا شوق تھا، اس نے موسم کی پیشگوئی کے حوالے سے ایک انفارمیشن نیٹ ورک شروع کیا اور آج 'ویدر اپڈیٹس ڈاٹ پی کے' ایک بڑا نام بن چکا ہے، یہ اسی لیے ممکن ہوا کیونکہ اسے اس میں دلچسپی تھی۔ جب آپ کی کسی چیز میں دلچسپی ہوتی ہے تو آپ اپنا اسکوپ خود بنا لیتے ہیں، اس لیے اسکوپ فیلڈ کا نہیں انسان کا ہوتا ہے، انسان سب سے زیادہ بہتر پرفارم تب ہی کرے گا جب وہ اپنی دلچسپی کے مطابق کام کررہا ہو'۔
اس حوالے سے ہم نے ماہرِ تعلیم اور ہیلتھ کیئر پروفیشنل ڈاکٹر اطہر پاشا سے بھی رائے طلب کی جو نصاب کی تیاری سمیت طلبہ، اساتذہ اور والدین کی ٹریننگ کے لیے سرگرم معروف ادارے 'آفاق' میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '8ویں جماعت تک یہ طے ہوجانا چاہیے کہ طالب علم کس شعبے کا انتخاب کرے گا، اس کے بعد اس فیصلے میں جتنی تاخیر ہوگی اتنی مشکلات بڑھیں گی'۔
انہوں نے کہا کہ 'طلبہ کے کیریئر کا انتخاب نہ کر پانے کی بڑی وجہ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہے، معاشرے کے دباؤ اور خاندان کے دباؤ کی وجہ سے وہ کیریئر کے انتخاب کے لیے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے رجحانات کا اظہار بھی نہیں کر پاتے اور نہ ہی اسکول میں ایسے مواقع دیے جاتے ہیں کہ وہ ان رجحانات کا اظہار کر سکیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس حوالے سے طلبہ کو اپنے سینیئرز یا کیریئر کاؤنسلرز سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ ہمارے یہاں عموماً ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کسی مالی لحاظ سے کامیاب فرد کو دیکھ کر اسی کا پروفیشن اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ کے اصل تخلیقی رجحانات کا تعین ہوہی نہیں پاتا، یہ کام کوئی کیریئر کاؤنسلر یا کیریئر کاؤنسلنگ کی صلاحیت رکھنے والا استاد ہی کر سکتا ہے'۔
ایک کیریئر کاؤنسلر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر آپ تاحال اپنے شوق، رجحان اور اہداف کا تعین نہیں کرسکے تو وہ آپ کی چھپی ہوئی خصوصیات، صلاحیتیں اور ٹیلنٹ کو باہر نکال کر کیریئر کے انتخاب میں آپ کو مدد اور رہنمائی فراہم کرے، لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں طلبہ کو ایسے کتنے کیریئر کاؤنسلر میسر ہیں؟ اس کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ آپ کتنے کیریئر کاؤنسلرز سے واقف ہیں؟ جبکہ موٹیویشنل اسپیکرز کے نام زبان زدعام ہیں۔
موسم کے بدلتے رنگوں میں دلچسپی رکھنے والے جواد میمن اب پاکستان بھر میں جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ موسم کے مزاج سے شہریوں کو قبل از وقت ہی خبردار کر دیتے ہیں. اپنے رجحان پر عمل پیرا ہوکر شہرت پانے والے جواد میمن 'ویدر اپڈیٹس پی کے' کے بانی ہیں۔
انہوں نے اپنے اس سفر کے بارے میں بتایا کہ 'بادل، بارش اور موسم کا مشاہدہ کرنا میرے لیے ہمیشہ سے ایک دلچسپ تفریح تھا۔ میں 2007ء میں اکاؤنٹنگ پڑھ رہا تھا اس لیے پڑھائی میں مدد کے لیے گھر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ انٹرنیٹ لگوایا گیا، لیکن اس سے مجھے موسم کی پیشگوئی کرنے والے ٹولز تک بھی رسائی مل گئی۔ میں نے ایک آن لائن فورم بھی جوائن کیا جہاں گروپ ممبران مختلف چیزوں پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ 2008ء یا 2009ء میں ایک روز شدید بارش ہو رہی تھی، اس آن لائن فورم پر موجود کسی ممبر نے بارش کی وجہ سے اپنا انٹرنیٹ کنکشن کھو جانے کی فکر کا اظہار کیا تو وہاں میں نے بتایا کہ تیار رہیں کیونکہ اگلے ایک یا 2 گھنٹے مزید موسم خراب رہے گا، میری پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور وہاں موجود سب لوگوں نے یہ دیکھا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'اس کے بعد مزید لوگ مجھ سے موسم کا احوال پوچھنے لگے اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور میں نے موسم کی اپڈیٹس سے متعلق اپنا آن لائن فورم بھی بنا لیا۔ سوشل میڈیا صارفین کے علاوہ ریڈیو اور نجی نیوز چینلز موسم کا احوال جاننے کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور میری پیشگوئیاں اکثر محکمہ موسمیات سے زیادہ درست ثابت ہوتی ہیں'۔
طعنوں اور سماجی دباؤ سے عام طلبہ کی طرح جواد میمن بھی محفوظ نہ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ 'اس شوق کو زیادہ وقت دینے پر مجھے بھی طنز اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا، لیپ ٹاپ پر سیٹلائٹ نقشوں کا مشاہدہ کرنے یا اپنے فون پر موسم کی صورتحال سے متعلق کسی ایپ میں مصروف رہنے پر والد صاحب بھی ناراضگی کا اظہار کرتے تھے، لیکن میں جب 2019ء میں پہلی بار موسم کا احوال بتانے ٹی وی پر آیا تو سب سے پہلے میرے والد نے ہی مجھے مبارک باد دی اور میرے اس رجحان کا بھی اعتراف کرنے لگے'۔
انہوں نے کہا کہ 'طلبہ کو میرا یہی مشورہ ہے کہ اسکوپ ضرور دیکھیں، طعنوں کو بھی برداشت اور نظرانداز کرنا سیکھیں لیکن کریں وہی جس کا آپ خود شوق رکھتے ہوں، اگر کیریئر کاؤنسلنگ کے اداروں سے یا کہیں اور سے رہنمائی نہیں ملتی تو انٹرنیٹ سے مدد لیں، آج کل انٹرنیٹ پر ہر شعبے سے متعلق رہنمائی دستیاب ہے'۔
ان تمام مسائل کی نشاندہی کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ اب دھڑا دھڑ کیریئر کاؤنسلنگ کے ادارے کھول کر ان کو بھی کاروبار کا ذریعہ بنالیا جائے، بلکہ اس مسئلے کا بہتر حل یہ ہے کہ کیریئر کاؤنسلنگ کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی دور کے آغاز سے ہی طلبہ میں اپنے شوق اور صلاحیتوں کی پہچان کی ترغیب نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے، کیریئر کاؤنسلنگ کے ذریعے ہی بہترین کیریئر پلاننگ کرکے بچے کی درست سمت میں رہنمائی کی جاسکتی ہے۔
اسکولوں میں کیریئر کاؤنسلنگ کے معیار سے متعلق ڈاکٹر اطہر پاشا نے بتایا کہ 'پاکستان کے ایک سرفہرست اسکول چین میں زیرتعلیم ایک طالب علم سے ہم نے اسکول میں دستیاب کیریئر کاؤنسلنگ سے متعلق پوچھا تو انہوں نے یہی بتایا کہ اسکول میں کیریئر کاؤنسلنگ کے نام پر ہمیں صرف اے/او لیول کرنے اور بیرون ملک کی فلاں فلاں یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی ترغیب ہی دی جاتی ہے، جبکہ ہماری صلاحیتوں اور رجحان کے تعین سے متعلق رہنمائی سرے سے موجود نہیں ہے'۔
چند سال قبل پاکستان میں کیریئر کاؤنسلنگ کی ایک نئی لہر اٹھی ضرور تھی لیکن جلد ہی اسے موٹیویشنل اسپیکرز کا ریلا بہا لے گیا، اب صورتحال یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر کیریئر کاؤنسلنگ کا کوئی ادارہ تو دُور کی بات کوئی ایک ماہر کیریئر کاؤنسلر بھی دستیاب نہیں ہوتا جبکہ موٹیویشنل اسپیکنگ کے ادارے کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ اُگ گئے ہیں، ہر دوسرا شخص موٹیویشنل اسپیکر ہے یا پھر کیریئر کاؤنسلنگ کے نام پر بھی موٹیویشنل اسپیکنگ کا ہی بازار گرم ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کیریئر کاؤنسلنگ قدرے مشکل اور انتہائی ذمہ داری والا کام ہے، آپ کے ایک مشورے پر طلبہ اپنی مکمل تعلیمی اور پروفیشنل زندگی کا فیصلہ کررہے ہوتے ہیں جبکہ موٹیویشنل اسپیکنگ میں آپ بہت آرام سے بغیر کسی ذمہ داری کے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ہزاروں اور لاکھوں بٹور سکتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سید عاصم علی نے کہا کہ 'المیہ یہی ہے کہ آج کل کیریئر کاؤنسلنگ کے نام پر سیمینار وغیرہ تو ہورہے ہیں لیکن ان نام نہاد کیریئر گائیڈنس فراہم کرنے والوں کو خود کیریئر گائیڈنس کی ضرورت ہے، انہیں خود ہی نہیں معلوم کہ طلبہ کے لیے کون کون سے مواقع موجود ہیں، یہ لوگ آپ کو یوٹیوب پر بھی بہت مل جائیں گے جہاں ان کے فالوورز بھی بہت ہوں گے۔ ان کی ویڈیوز بھی کسی انگریزی ویڈیو کا چربہ ہی ہوتی ہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوجود طلبہ کو رہنمائی نہیں مل رہی'۔
ڈاکٹر اطہر پاشا کا خیال ہے کہ 'کیریئر کاؤنسلرز کی عدم دستیابی کی صورت میں طلبہ سینیئرز کے علاوہ انٹرنیٹ سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے خاندان میں اپنے رجحانات کا کھل کر اظہار کرسکیں تاکہ انہیں اپنی منزل کے درست تعین میں مدد ملے۔ بعض اوقات ہمارے پاس ایسے طلبہ آتے ہیں جو اپنی دلچسپی کسی اور جانب ظاہر کرتے ہیں لیکن جب ہم ان کے رجحانات کا تعین کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے بالکل الٹ صلاحیتیں اور رجحان رکھتے ہیں۔ جب ہم ان سے اس حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہ اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں اور اپنا ذہن تبدیل بھی کرلیتے ہیں'۔
ڈاکٹر سید عاصم علی کی تجویز ہے کہ 'اس حوالے سے 2 چیزیں دیکھنی ہوں گی، ایک تو یہ کہ ایک طالبعلم کیا کیا پڑھ سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ اسے کیا کیا پڑھنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ایک طالبعلم نے ٹیکسٹائل انجینئرنگ پڑھ لی لیکن ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت موجود ہی نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟ ہمیں ملکی سطح پر یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ آئندہ 50 برسوں میں ہمیں کس طرح کے لوگوں کی ضرورت ہے؟ جب ہم یہ طے کرلیں گے کہ ہمیں کن شعبوں کے ماہرین کی ضرورت ہے تو پھر اس کے مطابق طلبہ کو فیصلے لینے میں زیادہ آسانی ہوگی اور پھر ان شعبوں میں روزگار کے زیادہ مواقع بھی پیدا ہوں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'طلبہ کے پاس یہ سہولت ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی مدد سے رہنمائی حاصل کریں، دنیا کا ہر دروازہ انٹرنیٹ نے کھولا ہوا ہے اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انٹرنیٹ کی مدد سے طلبہ ان شعبوں میں بھی کام کررہے ہیں جن کا پاکستان میں نام و نشان تک نہیں ہے۔ طالب علم کی لگن سچی ہو تو بالآخر وہ ایسے لوگوں تک ضرور پہنچ جائے گا جو اس کی بہتر رہنمائی کر سکیں گے'۔
ڈاکٹر سید عاصم علی نے جامعہ کراچی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ 'طلبہ کی رہنمائی کے لیے ہم نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، ہم نے اپنی ویب سائٹ اور ویب پیجز بہتر بنائے ہیں جہاں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کے سوالات کے بروقت جوابات دے سکیں، اس کے علاوہ گزشتہ برس ہم نے ایک کام یہ کیا کہ ہر شعبے کی ایک تعارفی ویڈیو تیار کی جس میں ان شعبوں کی خصوصیات کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ کون سے طلبہ ان شعبوں میں داخلہ لے سکتے ہیں اور یہاں سے پڑھ کر عملی زندگی میں وہ کون کون سے کیریئر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد یہی تھا کہ داخلہ لینے کے لیے آنے سے قبل ہی طلبہ اپنے کیریئر کا انتخاب کر چکے ہوں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس یہ سہولت موجود ہے کہ بالفرض اگر کسی طالبعلم کو دوسرے سیمسٹر میں آکر اندازہ ہورہا ہے کہ اس نے غلط شعبے کا انتخاب کرلیا ہے تو وہ اسی فیکلٹی کے کسی دوسرے شعبے میں داخلہ لے کر اسی سیمسٹر سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر بات کریں تو طلبہ کے لیے یہ سہولت ہر یونیورسٹی میں دستیاب نہیں ہوتی جس کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے'۔
ڈاکٹر سید عاصم علی نے کہا کہ 'اگر داخلے کے بعد کسی طالبعلم کو احساس ہوکہ یہ شعبہ اس کے رجحان کے مطابق نہیں ہے تو شعبہ تبدیل کرنے میں ہرگز دیر نہیں کرنی چاہیے، لیکن ہمارے معاشرے نے 'یوٹرن' کو گالی بنا دیا ہے، طلبہ کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اب تو کافی دیر ہوچکی ہے، اتنا پڑھنے کے بعد دوسرے شعبے میں جاکر دوبارہ آغاز کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے، حالانکہ جتنی جلدی راستہ تبدیل کرلیں اتنا اچھا ہے کیونکہ آپ کا مقصد منزل پر پہنچنا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے ہمارے معاشرے نے ہر چیز کی 'ایکسپائری ڈیٹ' طے کردی ہے، یعنی ایک خاص عمر تک اگر آپ نے پڑھائی مکمل نہیں کی اور کمانے کے قابل نہ ہوئے تو اس کا یہ مطلب سمجھا جائے گا کہ آپ 'لیٹ' ہوگئے، ہم نے تو لڑکیوں کے اچھے رشتوں اور شادیوں کے لیے بھی 'ایکسپائری ڈیٹ' طے کردی ہے۔ اس قسم کے کئی معاشرتی دباؤ ہیں جنہوں نے ہمارے بچوں کو ذہنی تناؤ سے بھرپور ماحول میں دھکیل دیا ہے، وہ صرف اس لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس دباؤ سے نکل سکیں، اس لیے بچوں کو بہتر رہنمائی دینے کے لیے پہلے ہمیں بڑوں کو تربیت دینی پڑے گی کہ رہنمائی دیتے کیسے ہیں'۔