• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

3 - جب پاکستان بدل گیا

شائع August 27, 2013 اپ ڈیٹ May 20, 2014

السٹریشن -- صابر نذر --.


یہ اس بلاگ کا تیسرا حصّہ ہے، پہلا، دوسرا اور تیسرا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں

سنہ 1979 ایک فیصلہ کن سال تھا- اگر کسی کو ایک سال کا انتخاب کرنا پڑے جس میں پاکستان کی سیاست اور ثقافت کا جھکاؤ مذہبی ذہنی خلل کی طرف ہوا، تو وہ یقیناً سنہ 1979 کو ہی چنے گا- اس فیصلہ کن سال کا آغاز، سنہ 1977 میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف ان کے اپنے منتخبہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی بغاوت سے ہوا-

معاشرتی غیر یقینی کی حالت اسی طرح برقرار رہی- اسی حالت کا نتیجہ تھا کہ لوگوں نے ایک متنازعہ مقدمے میں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کو خاموشی سے قبول کر لیا- بھٹو کو 4 اپریل سنہ 1979 کے دن، سپریم کورٹ میں چلاۓ گۓ ایک مضحکہ خیز مقدمے کے بعد پھانسی دے دی گئی- انکی موت کے نتیجے میں اکا دکا مظاہرے اور کچھ تشدد کے واقعات پیش آۓ- ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی عوام ابھی تک سنہ 1977 میں مذہبی جماعتوں اور بھٹو مخالف عناصر کے 9 جماعتی اتحاد کی قیادت میں چلائی گئی بھٹو مخالف تحریک سے تھکے ہوئے تھے- سنہ 1979 تک، ایک 'پرہیزگار' فوجی جنرل کے 'اصلی اسلام' کے وعدے اور پی پی پی حکومت کے زوال اور اس کے لیڈر کی موت کے ساتھ، ایک دہائی پر مشتمل ملنسار عوامیت پسندی اپنے اختتام کو پنہچی- پاکستانی سوسائٹی، خصوصاً شہری مڈل کلاس طبقہ اندر ہی اندر گھٹت، غیر جذباتی اور خودپرست ہوتا چلا گیا- پاکستانی سوسائٹی کے آفاقی عذاب کے نئے نظریے کو اور تقویت ملی، جب سکائی لیب واقعے کے فوراً بعد پاکستانیوں کو یہ خبر ملی کہ اسلام کے مقدس ترین مقام، خانہ کعبہ میں درجنوں مسلح افراد نے گھس کر قبضہ کر لیا ہے- 20 نومبر، 1979 کو مکہ میں، حد سے زیادہ قدامت پرست اور رسوا اسلامی گروہ کے ارکان، مسجد الحرام میں داخل ہو گۓ- محاصرہ کرنے والا گروہ 10 درجن افراد پر مشتمل تھا، جس میں زیادہ تر سعودی تھے- وہ سب سعودی عرب کے بڑے مفتی، عبدلعزیز بن باز کے پیروکار تھے- باز سعودی عرب میں مغربی ورکروں کی موجودگی پر چراغ پا تھے، جنہیں سعودی بادشاہت نے ریاست میں موجود تیل کی دولت کے انتظام و انصرام کے لئے ملازم رکھا تھا- مسجد پر حملہ اس وقت ہوا جب وہاں حاجی موجود تھے، کچھ کو جانے دیا گیا جبکہ باقیوں کو یرغمال بنا لیا گیا- محاصرے کے دن، پی ٹی وی، انڈین شہر بنگلورمیں کھیلے جانے والا پاکستان اور انڈیا کا ٹیسٹ میچ نشر کر رہا تھا، جب اچانک نشریات روک دی گئیں اور اظہر لودھی سکرین پر وارد ہوے- دوبارہ اپنی سپاٹ، سنجیدہ آواز میں انہوں نے حملہ آوروں کے بارے زیادہ تفصیلات دیے بغیر، حملے کی خبر سنائی، اور ناظرین کو اس شش و پنج میں چھوڑ دیا کہ آخر یہ لوگ کون ہو سکتے ہیں؟ پی ٹی وی دوبارہ میچ کی طرف نہیں لوٹا بلکہ اس کی جگہ نعت خوانی اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دی گئی- پی ٹی وی کے پاس حملے کی تفصیلات موجود تھیں، لیکن فوجی حکومت کے احکامات کے مطابق یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ حملہ آور مسلمان تھے- پاکستانیوں نے بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس لگائی، جو اسلامی انقلابی حکومت کے زیر اثر، ایرانی سرکاری میڈیا کا حوالہ دے رہا تھا- اس رپورٹ کے مطابق یہ حملہ 'امریکی-یہودی لابی' کا کارنامہ تھا- اگلے دن محاصرے کی مذمت میں، پاکستان کے اہم شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے- سب سے بڑا مظاہرہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا- یہ ایک بیساختہ مجمع تھا جو امریکی قونصلیٹ کے باہر جمع ہو گیا تھا- یہ مجمع اس وقت مشتعل ہو گیا، جب ایک قدامت پرست طالب علم نے اپنی جذباتی تقریر میں امریکا کو کعبہ پر حملے کا موردالزام ٹھرایا- مجمع جلد ہی ایک جذباتی بلوہ میں تبدیل ہو گیا اور قونصلیٹ کے کمپاؤنڈ اور آفس میں زبردستی گھس گیا- اس ہجوم نے بی بی سی پر سنے گۓ ایرانی حوالے کو اصلی خبر سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا- ایرانیوں کو اچھی طرح خبر تھی کہ مسجد پر حملہ آور سعودی انتہا پسند تھے- لیکن انہوں نے یہ تاثر دے کر کہ یہ سب مکہ پر قبضہ جمانے کا امریکی/اسرائیلی منصوبہ ہے، امریکا اور سعودی عرب کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی تھی- اگرچہ پاکستان کا ریاستی میڈیا اس واقعے کے حوالے سے خاموش رہا اور لوگوں کو صرف اس قبضے پر افسوس کرنے کی تلقین کرتا رہا، ضیاء الحق حکومت نے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو اس قبضے کی کسی بھی قسم کی تفصیلات بیان کرنے سے منع کیا ہوا تھا- لوگ اس شخص کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے جس نے یہ شیطانی منصوبہ بنایا تھا- انہوں نے تفصیلات کے لئے بی بی سی کا رخ کیا- لیکن چونکہ سعودی حکام نے مکہ سے آنے والے تمام خبروں کو بلاک کیا ہوا تھا- بی بی سی نے مختلف ذرایع کی قیاس آرائیوں پر مبنی خیالات کا حوالہ دیا، خصوصاً ایرانی- ایرانی ریاستی ملکیت ریڈیو کی طرف سے ایک ایسی ہی رپورٹ میں غیر حقیقی دعویٰ کیا گیا تھا، جسے نا صرف پاکستان کے چند روزناموں نے اٹھا لیا اور ایک اصلی خبر کی حیثیت دے دی- ضیاء الحق کی حکومت نے، جو پہلے ہی (سنہ 1977 کے قبضے پر) امریکی تنقید کی وجہ سے خار کھاۓ بیٹھی تھی اور جسے بہت سی پابندیوں کا سامنا تھا، حملہ آوروں کی تفصیلات جاری کرنے کے لئے کچھ نہ کیا- اس حقیقت کے باوجود کہ ضیاء الحق نے سعودی بادشاہت کو مسجد سے انتہا پسندوں کو باہر نکالنے کے لئے فوجی مدد کی پیشکش کی تھی- اور اچانک ہی، ضیاء الحق حکومت کی لا علمی میں، ایرانی ریڈیو سے نشر کی گئی اور پاکستانی اخباروں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبر کو، پرو ضیاءالحق، جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ کے ایک طالب علم نے امریکی سفارت خانے کے باہر دھرنا دینے کے لئے استعمال کیا- مسجد پر حملے کا ذمہ دار امریکا کو ٹھراتے ہوئے، دھرنے کے بیچ میں کچھ شور مچاتے نو جوان پہنچے اور مجمعے کو سفارت خانے پر حملے کے لئے اکسایا- مشتعل مجمع آگے بڑھا اور سفارت خانے کو آگ لگا دی، یہ حملہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا، لیکن پولیس اپنی جگہ سے نہ ہلی- پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر جلتی ہوئی عمارت کے اوپر اڑتے رہے، لیکن جب مجمعے نے دو امریکیوں اور دو پاکستانی ملازمین کو، جو سفارت خانے میں کام کرتے تھے قتل کر دیا تب وہ گرتی ہوئی عمارت کی چھت پر اترے- اس ہنگامے میں دو احتجاجیوں نے بھی اپنی جان گنوا دی- پر تشدد واقعات اور مظاہرے تب رکے جب فوجی حکومت نے حملے کی تفصیلات جاری کرنے کا فیصلہ کیا- حملہ آور سارے مسلمان تھے- بہرحال، امریکا نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے پر مشتعل مجمے کے حملے کا ذمہ دار فوجی حکومت کو ٹھیرایا- مکہ کی جنگ میں ابتدائی چند دنوں تک عسکریت پسندوں کا پلڑا بھاری رہا- بہت سے سعودی فوجی مارے گۓ- حالات کو قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر سعودی حکومت نے بیرونی مدد کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا- جیسا کہ مسجد الحرام میں غیر مسلموں کا داخلہ منع ہے، سعودی حکومت نے پاکستانی اور اردنی کمانڈوز کو استعمال کرنے کا سوچا- لیکن آخرکار سعودیوں نے فرنچ کمانڈوز کو بلایا اور ان سے مکہ کے باہر سعودی فوجیوں کو تربیت دینے اور ہتھیار مہیا کرنے کی درخواست کی- اس کے بعد، سعودی فوج کو عسکریت پسندوں کو شکست دینے اور مسجد کو خالی کرانے میں تین دن اور لگے- اس لڑائی میں 900 جانوں کا زیاں ہوا- جاری ہے ...


یہ اس بلاگ کا تیسرا حصّہ ہے، پہلا، دوسرا اور تیسرا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں


 ندیم ایف پراچہ ، ایک ثقافتی مورخ اور ڈان اخبار کے سینئر کالم نگار ہیں ترجمہ: ناہید اسرار

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

عظیم حسن Aug 27, 2013 07:37pm
واہ جی پراچہ صاحب مزا آگیاخوب تجزیہ کر رہے ہیں
4 – جب پاکستان بدل گیا Aug 30, 2013 06:05am
[…] اس بلاگ کا چوتھا اور آخری حصّہ ہے، تیسرا،  دوسرا اور پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک […]

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025