پی ٹی آئی لانگ مارچ: ’کوریج کے دوران جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا‘
’ہمارے محبوب قائد اب سے کچھ دن بعد ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم پاکستان کا حلف اٹھائیں گے‘۔۔۔ یہ الفاظ حقیقی آزادی مارچ کے کنٹینر سے بلند ہوئے اور آواز تھی سینیٹر فیصل جاوید کی۔
یہ سن کر میں خیالوں کی دنیا میں چلا گیا اور سوچنے لگا کہ آخر ایسا کیسے ہوگا؟ اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے اب تحریک انصاف کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں ہے لیکن اگلے ہی لمحے لبرٹی چوک لاہور پر ہجوم کے دھکے نے مجھے واپس حقیقی دنیا کی جانب دھکیل دیا۔ خیال آیا کہ جیسے میں خیالی دنیا میں گم ہوگیا تھا ویسے ہی فیصل جاوید سیاسی دنیا کے خیال میں گم ہیں۔
حقیقی آزادی مارچ کا پہلا دن
28 اکتوبر بروز جمعہ لاہور کے لبرٹی چوک سے تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کا آغاز ہوچکا تھا۔ تقریباً دوپہر 3 بجے عمران خان کنٹینر پر تشریف لائے لیکن صبح 11 بجے سے ہی لبرٹی چوک پر سیاسی رنگ جمے ہوئے تھے۔ ہر جانب ڈھول کی تھاپ پر بے خود رقص کرتے کارکنان اور رنگوں کی بہار تھی۔ لبرٹی چوک پر کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی جو لاہور سمیت قریبی اضلاع سے لبرٹی چوک پہنچے تھے۔
یہ وہی لبرٹی چوک ہے جہاں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا تھا۔ محسوس یوں ہوا جیسے تحریک انصاف کا روایتی شہری مجمع بڑی تعداد میں موجود نہیں ہے بلکہ مضافات سے آئے ہوئے افراد کی تعداد زیادہ ہے، لیکن اس مقام پر پنجاب کی سیاست کے مشہور قیمے والے نان اور کراچی میں مشہور بریانی کی تقسیم کا منظر نہیں دکھائی دیا۔
عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کی جلسہ گاہ کے باہر بسوں، کوچ اور ویگن کی بڑی تعداد قطار در قطار کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن یہاں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ یہاں تک کہ 4 دن مسلسل کوریج کے دوران بھی لانگ مارچ کے قافلے میں شاید ہی کوئی کمرشل گاڑی دکھائی دی البتہ نجی گاڑیوں پر مارچ کے ہمراہی مناسب تعداد میں تھے۔
لاہور میں آزادی مارچ کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات خانہ پری جیسے ہی تھے۔ پولیس سمیت تحریک انصاف کے ذرائع سے جب بھی ہم نے اس حوالے سے بات کی تو ایک ہی جواب آیا کہ یہ ریلی ہے اور اس کی سیکیورٹی ایسی ہی ہوگی۔ لیکن مجھے ناجانے ایک انجانا خوف مسلسل محسوس ہو رہا تھا اور کل جو کچھ مارچ میں ہوا اس نے مزید خوفزدہ کردیا ہے۔
میں یہ بتاتا چلوں کہ لبرٹی کے قریب جب یہ مارچ موجود تھا تو ہر طرف سے لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت تھی، حتیٰ کہ آس پاس کی گلیوں میں بھی لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ اگر مارچ کسی اوور ہیڈ برج کے پاس سے گزرتا تو عام لوگوں اور خان صاحب میں کوئی فاصلہ ہی نہیں رہتا، جو انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔
یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے کراچی میں بھی بہت سارے جلسے اور ریلیاں کور کی ہیں، خصوصاً محرم سے متعلق جب بھی سیکیورٹی کے انتظامات کیے جاتے تو ریلی کے دوران کسی بھی عام آدمی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی، ساتھ اردگرد کی عمارتوں پر اسنائپرز تعینات ہوتے جو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔
میں نے اس ساری صورتحال پر تحریک انصاف کی مقامی قیادت سے بھی بات کی، مگر ان کی طرف سے یہی کہا جاتا رہا کہ ریلیوں کی سیکیورٹی اس سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔
اچھا مزے کی بات یہ کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے، لیکن پولیس کی جانب سے بھی جو نفری سیکیورٹی کے لیے تعینات کی گئی تھی وہ بس اعداد پورے کرنے کے لیے تھی کیونکہ انہیں دیکھ کر ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فرخ حبیب سے نوجوانوں کی شرکت پر بات ہوئی جس پر انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف نوجوانوں کی جماعت ہے اور یہ لانگ مارچ بھی نوجوانوں پر مشتمل ہوگا۔ ملیکہ بخاری، کنول شوذب اور عالیہ حمزہ خواتین کے ہمراہ تھیں اور خواتین کی مارچ میں شرکت کے لیے پُرعزم تھیں۔
پہلے دن مارچ نے مینارِ پاکستان کے قریب اختتام پذیر ہونا تھا۔ راستے میں مختلف مقامات پر مارچ کا استقبال کیا جا رہا تھا۔ خیر مقدمی بینرز اور پھول کی پتیوں کی بھرمار تھی۔ مارچ میں کسی مقام پر زیادہ اور کسی جگہ نسبتاً کم افراد کا قافلہ استقبال کے لیے موجود تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے ظاہری طور پر صرف 5، 6 گاڑیوں کا اہتمام تھا یعنی ایک مرکزی قائدین کے لیے کنٹینر جس پر طاقتور لاؤڈ اسپیکر نصب تھے۔ اس کے علاوہ سب سے آگے بھی ایک مزدا ٹرک تھا جس پر اسپیکر لدے ہوئے تھے۔ مزدا ٹرک اور کنٹینر کے بیچ میں 2 ہائی ایس وین تھیں جن پر ڈش نصب تھی، یہ نجی طور پر سوشل میڈیا کے لیے تحریکِ انصاف کے زیرِ انتظام تھیں۔
باقی کسی بھی فرد کے لیے تنظیمی طور پر کوئی انتظام دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ 3 دن تک ایک اور کنٹینر ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا جس پر خواتین سوار تھیں لیکن چوتھے دن کامونکی میں وہ بھی دکھائی نہیں دیا، شاید واپس چلا گیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر ضلع کی ذمہ داریاں تفویض ہیں جیسے لاہور کے ٹائیگرز کی ذمہ داری کامونکی تک کنٹینر کو حصار میں رکھنے کی تھی جو کامونکی کے بعد گجرانوالہ کے ٹائیگرز نے نبھانا شروع کردیں تھیں۔
ابتدا میں یہی بتایا گیا کہ مارچ لاہور سے سیالکوٹ کی جانب جائے گا لیکن بعد میں پلان تبدیل ہوا اور مارچ نے جی ٹی روڈ پر سیدھا اسلام آباد کی جانب سفر کو ترجیح دی۔
چوتھے روز تو خود عمران خان نے یہ اعلان کردیا کہ ہماری رفتار انتہائی سُست ہے، شام میں سیکیورٹی خدشات کے سبب سفر جاری نہیں رکھا جا سکتا لہٰذا راستے میں جس کو جو کام ہے وہ خود مارچ کے پہنچنے کا اندازہ کرتے ہوئے اسے ترتیب دے۔ مارچ کے 5ویں روز تو باقاعدہ نیا روٹ پلان جاری کردیا گیا اور آخرکار مارچ نے دیے گئے روٹ پلان کے مطابق اپنی رفتار کو بھی بڑھا لیا۔
حقیقی آزادی مارچ کا دوسرا دن
دوسرے دن کا آغاز لاہور کے داخلی علاقے شاہدرہ سے ہوا۔ لبرٹی کے مقابلے شاہدرہ میں باقاعدہ سیاسی میلے کا اہتمام محسوس ہورہا تھا۔ لبرٹی میں گہما گہمی ضرور تھی لیکن پاکستان میں سیاست کا خاص رنگ یعنی ڈھول، رقص اور رنگوں کی کہکشاں کچھ ویسی نہیں تھی جیسے شاہدرہ میں محسوس ہوئی۔ مرکزی کنٹینر تو اپنی جگہ ہی تھا لیکن مقامی رہنما مارچ کو لاہور سے رخصت کرنے کے لیے بڑی تعداد میں موجود تھے۔
بڑے بڑے ٹرالر تھے جو ہر سطح کے لیڈران سے لدے ہوئے تھے۔ ایک جانب گلوکار ابرار الحق اور لاہور کے مقامی رہنما زبیر نیازی کا ٹرالر تھا تو سامنے ہی عمران خان کے بھانجے اور تحریک انصاف کے جوان وکلا کے نمائندے حسان نیازی کا ٹرالر تھا۔ دونوں جانب سے خوب نعرے بازی اور تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔
شاہدرہ اب تک کے مارچ کا وہ واحد مقام تھا جہاں پاکستان کا روایتی سیاسی کلچر دکھائی دے رہا تھا یعنی یوں کہہ لیں کہ پاکستان کی روایتی سیاسی بہار تھی جس میں پُرجوش نعرے، مقامی لیڈران کی تند و تیز تقاریر، کھانے پینے کے اسٹال اور بہت کچھ تھا۔ یہاں بھی عمران خان نے تقریباً 2 بجے دوپہر تقریر شروع کی اور پھر قافلہ اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ ہم نے یہاں بھی تحریک انصاف کے بہت سے قائدین سے بات چیت کی تھی اور ایک، ایک دو، دو جملے کچھ تڑکے کے لیے ضرور بتا دیتے ہیں۔
حسان نیازی خوش تھے کہ ایک دن پہلے ہی سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں ان کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور مارچ کی کامیابی تو ظاہر ہے ان کے نزدیک ہوہی چکی تھی۔
ابرار الحق کے لیے ہم یہی سمجھتے رہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر نارووال سے الیکشن لڑیں گے اور شاید یہ ٹرالر بھی وہاں سے ہی آیا ہوگا لیکن ابرار الحق نے تصیح کی کہ وہ اگلا الیکشن لاہور کے علاقے شاہدرہ سے لڑیں گے یعنی وہ اس دن مارچ کے میزبان بھی تھے۔
ہم سے سینیٹر اعجاز چوہدری نے بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سی سیاسی تحریکیں دیکھی بھی ہیں اور ان کا حصہ بھی رہے ہیں لیکن عمران خان کی موجودہ سیاسی تحریک کو سب سے زیادہ عوامی حمایت کا حامل سمجھتے ہیں۔
عمر ایوب خان کنٹینر کے اردگرد بہت مصروف دکھائی دے رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ کنٹینر سے منسلک جنریٹر گزشتہ رات سے ہی مسائل کا شکار ہے اس لیے عمر ایوب صاحب ساؤنڈ سسٹم اور جنریٹر کے لیے متبادل انتظام کے ساتھ ساتھ دیگر آپریشنل امور کے لیے انتظامات میں مصروف ہیں۔
اسد عمر اور شاہ محمود قریشی صاحب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ کہ وہ ہم سے بات کرنے کنٹینر سے نیچے تشریف لائے ورنہ صحافی حضرات کو یہی شکایت تھی کہ بہت سے ایسے رہنما جو سارا دن رابطے میں ہوتے ہیں اب کنٹینر پر چڑھنے کے بعد نظر ملانے کے لیے تیار نہیں۔
اسد عمر اور شاہ محمود قریشی صاحب سے بہت سے سوال ہوئے لیکن اسد عمر صاحب سے ایک سوال پوچھنا ضروری تھا اور پوچھا بھی۔ وہ یہ کہ گزشتہ رات کنٹینر پر عمران خان کی موجودگی میں اسد عمر صاحب، حماد اظہر کو ڈانٹ کیوں رہے تھے۔ ویڈیو چونکہ کافی دُور سے بنی تھی اور آواز سے محروم تھی اس لیے قیاس آرائیاں یہ کی گئیں کہ شاید شرکا کی تعداد یا مارچ کے کسی انتظامی مسئلے پر اسد عمر صاحب لاہور میں مارچ کے ذمہ دار حماد اظہر کو ڈانٹ رہے ہیں۔
ہمارے سوال پر اسد عمر نے مسکرا کر کہا کہ اچھا کیا آپ نے یہ سوال کر لیا، بس قصہ یہ تھا کہ جنریٹر اور لاؤڈ اسپیکر درست کام نہیں کر رہے تھے لہٰذا وہ حماد اظہر سے کہہ رہے تھے کہ اس طرح سارا مارچ خراب ہو رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کا بھی ایک سوال شامل کر لیتے ہیں۔ میں نے پوچھا شاہ جی لانگ مارچ کرکے حکومت گرانا تو آخری تیر ہوتا ہے اب اگر یہ بھی چلا لیا تو عمران خان کا ترکش تو خالی ہے۔ شاہ صاحب روایتی انداز میں مسکرائے اور کہا کہ سیاست میں بہت سے آپشن ہوتے ہیں آخری کچھ نہیں ہوتا۔ شاہدرہ سے تقریباً 3 بجے روانہ ہونے والا قافلہ شام مغرب کے بعد مرید کے پر اختتام پذیر ہوا۔
حقیقی آزادی مارچ کا تیسرا دن
لانگ مارچ کا تیسرا دن جی ٹی روڈ پر مرید کے سے شروع ہوا۔ اس سے قبل ہم بھی خان صاحب کی طرح رات لاہور واپس آگئے تھے۔
رات بھر یہ باتیں ہوتی رہیں کہ شاید عمران خان کسی مفاہمتی میٹنگ کے لیے لاہور روانہ ہوئے ہیں کیونکہ اس تاثر کو پنجاب کے صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے اپنے بیان اور اس کے بعد اسد عمر کے معنی خیز تصدیقی بیان نے مزید مضبوط کیا تھا۔ رات بھر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر یہی سرخی گردش کرتی رہی کہ لانگ مارچ کسی ڈیل کے تحت سُست کیا گیا ہے اور اب شاید یہ جلد اختتام بھی ہوجائے۔
لیکن پھر چیئرمین تحریک انصاف نے ٹوئٹ کرکے خود ایسی تمام افواہوں کو رد کردیا۔
اتفاق ایسا ہوا کہ صبح سب سے پہلے ہمیں مرید کے میں کنٹینر کے پاس میاں اسلم اقبال ہی مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اس لیے گھر واپس گئے تھے کہ لاہور مرید کے سے بہت ہی قریب ہے اور ان کی کچھ خاندانی مصروفیات بھی تھیں۔ میٹنگ سے مراد انہوں نے پارٹی اور خاندانی میٹنگ قرار دی۔
حماد اظہر صاحب چونکہ تمام تر انتظامات کے ذمہ دار تھے اس لیے دوسرے دن بھی ان کا ہی ایک کلپ وائرل ہوچکا تھا جس میں وہ عمران خان کی موجودگی میں 2 مرتبہ سینیٹر فیصل جاوید سے مائیک مانگتے ہیں لیکن فیصل جاوید مائیک دینے سے کچھ انکاری دکھائی دیتے ہیں اور آخرکار حماد اظہر مائیک چھین ہی لیتے ہیں۔ اس کلپ میں بھی عمران خان خاموش ہی دکھائی دیتے ہیں۔
حماد اظہر جیسے ہی ملے تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ حماد بھائی اب گزشتہ رات کیا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحے ٹھٹکے پھر مسکرائے اور کہنے لگے یار ٹی وی چینلز کو بھی اسکینڈل بنانے کا شوق ہے۔ میں صرف اس لیے مائیک مانگ رہا تھا کہ ہمارے استقبال کے لیے مرید کے کے مقامی بزرگ رہنما راحت صاحب موجود تھے اگر مزید دیر کرتا تو ان کا استقبالی کیمپ نکل جاتا لہٰذا جلدی سے مائیک لے کر ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
مارچ کے تیسرے دن کنٹینر کا جنریٹر بند ہوچکا تھا لیکن کنٹینر کے پیچھے علیحدہ سے ایک جنریٹر ٹرالی کے ہمراہ فکس کیا جاچکا تھا۔ کامونکی کے بعد اس بیچارے جنریٹر میں بھی آگ لگنے کا واقع بھی پیش آیا۔
مرید کے سے چلنے والا قافلہ کچھ ہی کلو میٹر دُور شہر کامونکی میں شام کو اختتام پذیر ہوا لیکن تب تک ایک خاتون صحافی کی دردناک موت کا افسوس ناک واقع بھی رونما ہوچکا تھا۔ لانگ مارچ کی ابتدا سے ہی کنٹینر کے اردگرد جمع ہونے سے لوگوں کو نہیں روکا جارہا تھا۔ ہمارے دوست رضوان جرال اور ہم اس امر کو بخوبی محسوس بھی کر رہے تھے لیکن توجہ دلوانے کے لیے کوئی میسر نہیں آرہا تھا۔
صحافی حضرات کے لیے کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی آخر تک کوئی ایسی ترتیب دکھائی دی کہ جس سے اندازہ ہو کہ صحافیوں کے لیے باقاعدہ کوئی انتظام ہے اور وہ کب اور کس طرح کنٹینر پر موجود قائدین سے گفتگو کرسکیں گے۔ ہر کوئی لائن بنائے انتظار میں تھا اور یہ ایک بدانتظامی تھی۔
حقیقی آزادی مارچ کا چوتھا دن
چوتھے دن کا آغاز کامونکی شہر سے ہوا۔ مارچ 3 دن جاری رہنے کے بعد بھی صرف چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کر پایا تھا۔ سیالکوٹ کا روٹ بائی پاس ہوچکا تھا۔ گزشتہ رات خاتون صحافی کی موت کا واقعہ ہوچکا تھا۔ چوتھے دن کنٹینر کے آس پاس ہلچل کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
اب تک یہی دیکھا گیا تھا کہ مارچ دن میں صرف 5 سے 6 گھنٹے تک سفر کرتا ہے اور رفتار بھی معمولی ہوتی ہے لہٰذا جمعہ 4 نومبر تک اسلام آباد پہنچنا شاید ممکن نہیں ہوگا۔ پھر جب عمران خان کنٹینر پر تشریف لائے تو باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ مارچ جمعہ 4 نومبر کو نہیں پہنچ سکے گا اور شام تک نئے روٹ کا اعلان بھی ہوا۔
چوتھے دن لاہور سے مسلسل ساتھ رہنے والے صحافی بدانتظامی کی شکایت بھی کر رہے تھے اور بہت سے مرکزی قائدین کے ترش رویے کی شکایت بھی کر رہے تھے کہ شاید جان بوجھ کر کنٹینر پر جانے کے بعد آنکھیں نہیں ملائی جاتیں کہ اوپر بلانا شاید اختیار میں نہیں یا پھر جان کر ایسا کیا جاتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ بہت سے ارکانِ اسمبلی بھی کنٹینر پر جانے سے محروم تھے جیسے پہلے دن کراچی سے نومنتخب رکن قومی اسمبلی محمود مولوی لبرٹی پر اکیلے کھڑے تھے اور مرید کے میں سندھ سے سینیٹر منتخب ہونے والے سیف اللہ ابڑو بھی آوازیں لگاتے رہے لیکن اوپر نہیں بلایا گیا۔ ممکن ہے بعد میں سنوائی ہوگئی ہو اور ہماری نگاہ سے معاملہ اوجھل رہا ہو۔
چوتھے دن کامونکی سے قافلہ روانگی کے لیے تیار تھا کہ فواد چوہدری صاحب کسی کام سے داخلی دروازے کے عین اوپر تشریف لائے۔ ہمارے ساتھ رضوان جرال تھے جو چوہدری صاحب کے پرانے واقف ہیں بلکہ اس وقت سے واقف ہیں جب وہ ٹی وی پر فواد چوہدری صاحب کے پروگرام کے ایگزیکٹو پروڈیوسر تھے۔ فواد چوہدری صاحب نے دیگر قائدین جیسا رویہ بالکل روا نہیں رکھا بلکہ رضوان کو دیکھتے ہی ہاتھ ہلایا اور اپنے ساتھ موجود کنٹینر کی سیکیورٹی پر مامور کسی فرد کو کہا کہ رضوان کو اوپر بلائیں۔
کچھ دیر ہم انتظار ہی کرتے رہے اور شاید فواد چوہدری بھی ایسا ہی کررہے تھے اس لیے آخرکار وہ ہمیں لینے نیچے خود تشریف لے آئے۔ ہم دونوں بڑی دھکم پیل کے بعد آخرکار کنٹینر پر سوار ہوچکے تھے۔ عمران خان صاحب تقریر کر رہے تھے اور مجمع پُرجوش تھا۔ کنٹینر کی چھت پر چاروں جانب بیٹھنے کا انتظام تھا اور چند ایک کرسیاں بھی موجود تھیں۔ فواد چوہدری صاحب تحریک انصاف میں دبنگ کردار کے مالک ہیں۔ کچھ ہی دیر میں سمجھ گئے کہ ہم عمران خان کا انٹرویو کرکے شاید جانا چاہتے ہیں تاکہ باقی کوریج دیکھ سکیں۔
تقریر کے فوری بعد ہی ہمارے لیے راستہ بنایا گیا حالانکہ اس وقت خان صاحب نیچے موجود شرکا کو ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ ماحول دیکھتے ہوئے ہم نے اپنی بات کو چند سوالات تک ہی محدود رکھنا بہتر سمجھا۔
عمران خان نے ہماری ملاقات سے گھنٹہ بھر پہلے ہی ٹوئیٹ کیا تھا کہ اگر ووٹ سے تبدیلی کا راستہ روکا گیا تو خونی انقلاب آسکتا ہے اس لیے ہم نے فوری سوال کے ذریعے وضاحت کی درخواست کی۔ خان صاحب نے کہا کہ ووٹ کا راستہ روکنے کے بعد سری لنکا جیسا پُرتشدد معاملہ فطری ہے اس لیے ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرنا ہی بہتر ہے۔
اس سے کچھ دیر پہلے ہی خان صاحب نے تقریر میں چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا اعلان کیا تھا اور جانبداری کا الزام بھی لگایا تھا لہٰذا ایک سوال تو یہ بھی بنتا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن جانبدار ہے تو پھر ضمنی الیکشن میں نتائج خان صاحب کے حق میں کیوں آرہے ہیں۔
عمران خان صاحب نے جواب دیا کہ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ان کی کامیابی کی شرح اس قدر زیادہ ہے کہ الیکشن کمیشن کوشش کے باوجود انہیں ہرانے میں ناکام ہورہا ہے۔
4 دن کی مسلسل کوریج کے بعد ادارے کی طرف سے ہمیں واپس بلا لیا گیا اور میں سیکیورٹی کے خدشات لیے واپس آگیا، مگر جس بات کا ڈر مجھے تھا، وہ ہوچکا۔ اس وقت عمران خان اسپتال میں ہیں جہاں ان کا علاج ہورہا ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ انہوں نے پارٹی کا اجلاس اسپتال میں ہی بلا لیا ہے۔ اب وہاں کیا فیصلہ ہوتا ہے، یہ یقیناً اہم ہوگا۔ تحریک وہیں سے دوبارہ شروع ہوتی ہے جہاں روکی گئی تھی یا اس میں کچھ وقفہ آتا ہے۔
بہرحال ہماری دعا یہی ہے کہ جو بھی ہو اچھا ہو، کیونکہ نہ ہمارا ملک اور نہ ہماری سیاست مزید خون خرابہ برداشت کرسکتا ہے۔