سپریم کورٹ: سرکاری املاک اور دستاویزات پر سیاستدانوں اور عہدیداران کی تصاویر پر پابندی عائد
سپریم کورٹ نے سرکاری املاک اور دستاویزات پر سیاست دانوں اور عہدیداروں کی تصاویرپر پابندی عائد کردی۔
سپریم کورٹ نے راولپنڈی کی کچی آبادی سے متعلق وقف املاک راولپنڈی کے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے کچی آبادی کی زمین خالی کروانے کے لیے درخواست پر فیصلہ جاری کردیا جوکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلے میں کہا کہ سرکاری وسائل پر ذاتی تشہیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی، پاکستان کسی کی جاگیر نہیں جہاں عوام حکمرانوں کے سامنے جھک جائیں۔
فیصلے میں کہا کہ جمہوری ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے چوکنا رہنا ہوگا، سرکاری املاک پر ذاتی تشہیر کے لیے تصاویر چسپاں کرنا اخلاقی اقدار کو مجروح کرتا ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام چیف سیکریٹریز اور وفاقی انتظامیہ کو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔
فیصلے میں مقدمے کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ کچی آبادی کو دی گئی زمین وقف املاک کی تھی اور ریکارڈ میں یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ زمین کے مالکانہ حقوق بورڈ یا وفاقی حکومت کے پاس تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ہم نے جب وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ڈائریکٹوریٹ جنرل کچی آبادیوں کی طرف سے مذکورہ اراضی کچی آبادی قرار دینے کا نوٹی فکیشن چلینج ہوا تو انہوں نے اس پر کہا کہ نوٹی فکیشن کبھی چیلنج نہیں ہوا، تاہم وکیل نے ہائی کورٹ کے ایک اور فیصلے کا حوالہ دیا جس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ بورڈ چیئرمین نے اس زمین پر ایسا کچھ کہا تھا کہ یہ زمین خیراتی، مذہبی یا دیگر فلاحی ادارے کی ہوگی۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ اہم بات یہ ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل کچی آبادی کی طرف سے کچی آبادی قرار دینے کے حوالے سے چیلنج نہیں کیا گیا اوراس کے بجائے بورڈ نے کہا کہ چونکہ مذکورہ زمین دھرم شالہ کا حصہ تھی اس لیے ٹرسٹ ایکٹ کے اعلان کے بعد خود بخود یہ زمین بورڈ میں شامل ہوگئی مگر بورڈ کی ایسی بات ٹرسٹ ایکٹ سے نہیں ملتی۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ تاہم زمین نہ تو ٹرسٹ پول کا حصہ تھی اور نہ ہی ٹرسٹ پراپرٹی قرار دی گئی تھی۔
مزید کہا گیا کہ کچی آبادی کی زمین پر لوگوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے جہاں نہ تو دھرم شالہ کی انتظامیہ اور نہ ہی ہندو کمیونٹی کے کسی فرد نے اس کے مالکانہ حقوق کچی آبادی کو دینے سے انکار کیا، اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وفاقی حکومت نے مذکورہ زمین کچی آبادی کو دینے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر اپیل مسترد کر دی گئی ہے۔