• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

کیا 2023ء میں ہم ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹ پائیں گے؟

شائع December 29, 2022

لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

2022ء کسی بھی تناظر سے یادگار سال نہیں رہا۔ یہ ایک ایسا سال تھا جہاں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر رہا جبکہ ملک میں دہشتگردی نے بھی دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔

سیاسی عناصر اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والی مسلسل تکرار نے ملک کو خانہ جنگی کی حالت میں ڈال دیا۔ اس صورتحال میں کہ جہاں ہماری معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے، وہیں ہمارے اوپر ممکنہ ڈیفالٹ کے بادل بھی منڈلا رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کو سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ کیا آنے والے سال میں ہم مسائل کے اس دلدل سے نکل پانے میں کامیاب ہوپائیں گے؟

بدقسمتی سے ہم ان بدترین حالات کے ساتھ نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اقتصادی فیصلے بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ آپسی اختلاف رکھنے والے اس اتحاد میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ملک کی مشکلات کو دُور کرسکے۔ یہ اتحاد درست فیصلے کرپانے میں ناکام ہوگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں معاشی بحران مزید سنگین ہوگیا ہے۔ اندرونی کشمکش کی وجہ سے اتحادی اپنی اصلاح کرنے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں۔

پاکستان اس وقت معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم پہلے ہی ممکنہ ڈیفالٹ کا سامنا کررہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج سے متعلق مذاکرات بھی جاری ہیں۔ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں جس سے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔

یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے جبکہ ملک کے معاشی منظرنامے میں کوئی واضح تبدیلی کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ صرف بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے بھی ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک ہے۔

پاکستان کا شمار اب دنیا کے کمزور ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ’ڈارنامکس‘ نے ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چُھو رہی ہے اور بینکوں کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ جاری نہ ہوپانے کی وجہ سے صنعتی پیداوار شدید متاثر ہورہی ہیں۔ بہت سے صنعتی حلقے بند ہوچکے ہیں یا پھر وہ جزوی طور پر کام کررہے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں مسائل کو وقتی طور پر حل کردیتی تھیں لیکن اب صورتحال عارضی انتظامات سے قابو میں نہیں آئے گی۔

عالمی منڈی میں پیٹرول اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے جیسے بیرونی عناصر نے بھی ہماری اقتصادی مشکلات میں حصہ ڈالا ہے لیکن یہ سب ہماری پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم بحران کا شکار ہیں۔

موجودہ مالیاتی ٹیم کی موجودگی میں ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے نکل پانے کی امیدیں بہت کم ہیں۔ اندرونی استحکام اور ایٹمی قوت کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ملکی معاشی مضبوطی آنے والے سال کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

موجودہ قومی اسمبلی کی مدت اگست 2023ء میں پوری ہوجائے گی جبکہ ملک میں اس وقت قبل ازوقت انتخابات کے امکانات نہایت کم ہیں۔ عام انتخابات کے انعقاد میں صرف 8 ماہ کا وقت رہ گیا ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کی تکرار کی وجہ سے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد مشکوک لگ رہا ہے۔

صوبہ پنجاب میں جاری سیاسی جنگ نے سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل ہوجائیں گی تو اس سے صورتحال مزید غیرمستحکم ہوسکتی ہے اور اس سے وفاقی حکومت پر دباؤ بھی بڑھے گا۔

اگرچہ عسکری قیادت سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے دُور رہنے کا اعادہ کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی منظرنامے میں اثرانداز ہورہی ہے۔

اپنے 4 سالہ دور میں ہونے والے تمام غلط اقدامات کا ذمہ دار گزشتہ آرمی چیف کو ٹھہرانے والے عمران خان اب یہ چاہتے ہیں کہ نئے آرمی چیف اسٹیبلشمنٹ کی ماضی کی کوتاہیوں کو درست کرنے کے لیے سیاست میں مداخلت کریں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دے کر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔

عمران خان اور ان کی جماعت کا حکومت سے مذاکرات سے انکار اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی عدم موجودگی نے جمہوری سیاسی عمل کو کمزور کردیا ہے۔ شدید سیاسی بحران میں اس بات کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ کہیں فوج سیاست میں مداخلت نہ کردے۔ اب یہ اسٹیبلشمنٹ کا امتحان ہوگا کہ وہ اقتدار کے اس کھیل میں کیسے غیر سیاسی رہتے ہیں۔

اس دوران کہ جب ہم سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، ایسے میں پاک سرزمین پر دہشتگردوں کی واپسی نے ہمارے سیکیورٹی مسائل بھی بڑھا دیے ہیں۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے دارالحکومت اسلام آباد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس نے افغانستان سے کام کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کی بحالی کا اشارہ دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں خودکش حملہ کیا گیا جس کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ اس حملے نے ہمیں یاددہانی کروائی کہ دہشتگردی کا یہ سنگین خطرہ اب دارالحکومت تک پہنچ چکا ہے۔ اسلام آباد کی سیکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش میں دہشتگردی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں دہشتگردانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملے اور سیکیورٹی تنصیبات پر حملے اب خیبرپختونخوا میں روز کا معمول بن چکا ہے۔ افغانستان کی سرحد سے متصل اس صوبے میں ٹی ٹی پی نے گزشتہ 3 ماہ میں 141 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان عسکریت پسند گروہوں کا اصل ہدف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں جبکہ یہ گروہ ایسے کام کر رہے ہیں جیسے وہ سزاؤں سے مستثنیٰ ہوں۔ دہشتگردی کے سامنے بدقسمتی سے صوبائی انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے۔

دہشتگردی کی اس نئی لہر نے صرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو ہی اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان کُن عنصر ٹی ٹی پی اور بلوچستان علحیدگی پسند گروہوں کا الحاق ہے۔ یہ دونوں گروہ مغربی صوبے میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کے تازہ سلسلے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ماضی میں ان پر کافی حد تک قابو پالیا تھا لیکن حالیہ حملے اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ علحیدگی پسند گروہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔

عسکریت پسند گروہوں کا ایک بار پھر سرگرم ہونا ہماری انسدادِ دہشتگردی کی حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان ہے۔ ہم اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ کس طرح دہشتگردوں کے سامنے ہماری سیکیورٹی ادارے ناکام ہورہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے سرحد پار عسکریت پسند گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشتگردانہ حملوں کی جڑیں افغان طالبان کے عالمی دہشتگرد نیٹ ورک کی سرپرستی میں ہیں۔

جبکہ دوسری جانب پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجز کا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کررہے ہیں۔

اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہم ان متعدد چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہوگا۔ ایک بار پھر ہم متعدد سوالات کے ساتھ نئے سال میں داخل ہورہے ہیں جبکہ یہ مسائل حل ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔


یہ مضمون 28 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024