کراچی: مبینہ کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں وقار ذکا کے ایک مرتبہ پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
کراچی کی مقامی عدالت نے 8 کروڑ 60 لاکھ کے مبینہ کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں مشہور ٹی وی میزبان وقار ذکا کے ایک دفعہ پھر ناقابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کردیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے اس سے قبل وقار ذکا کو ان کے بینک اکاؤنٹ سے مبینہ ورچوئل کرنسی سے متعلق ٹرانزیکشن کی انکوائری سے متعلق کیس میں نامزد کیا تھا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ رمیش کمار کی عدالت میں حال ہی میں سماعت ہوئی تھی جہاں ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی تھی کہ وقار ذکا کو پیش کریں اور ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے بیان جمع کرایا تھا کہ عدالت کی جانب سے 22 دسمبر کو جاری کیے گئے وارنٹ ملزم تک نہیں پہنچائے جاسکے کیونکہ ان کی رہائش گاہ کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔
بعد ازاں ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے عدالت میں پیش ہو کر وقار ذکا کے دستخط اور نیویارک میں قائم پاکستانی سفارت خانے سے تصدیق شدہ پاور آف اٹارنی جمع کرادی تھی۔
وکیل نے درخواست جمع کراتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے مؤکل عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ پیشہ ورانہ کام کے سلسلے میں امریکا میں موجود ہیں لہٰذا ان کو پیش ہونے سے استثنیٰ دے دی جائے۔
مجسٹریٹ نے نشان دہی کی تھی کہ ملزم نہ تو عدالت میں پیش ہوئے ہیں اور نہ ہی ضمانت کے لیے کسی عدالت سے رجوع کیا اور نہ ہی خود کو اس عدالت کے حوالے کیا۔
جج نے استثنیٰ کی درخواست پر حکم دیے بغیر ملزم کے وکیل سے استثنیٰ کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل شروع کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کیونکہ ان کے مؤکل نے عدالت کے سامنے سرنڈر نہیں کیا اور موجودہ کیس میں ضمانت کی درخواست بھی نہیں دی۔
جج نے مزید سماعت 19 جنوری تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ عدالت نے ابتدائی طور پر دسمبر کے اواخر میں 8 کروڑ 60 لاکھ روپے کرپٹو کرنسی اسکینڈل میں مشہور ٹی وی میزبان وقار ذکا کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
وقار ذکا کے خلاف انکوائری
ایف آئی اے نے بتایا تھا کہ فنانشنل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی وصولی پر وقار ذکا کے خلاف ایک انکوائری شروع کردی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ تین برس کے دوران ان کے بینک اکاؤنٹ میں مجموعی طور پر 8 کروڑ 61 لاکھ روپے آئے اور 8 کروڑ 70 لاکھ روپے جاری کیے گئے اور اسی طرح بینک اسٹیٹمنٹ میں انکشاف ہوا کہ ان کے بینکوں میں پیسے بیرونی ترسیلات اور چیک کے ذریعے آئے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ باہر سے آنے والی رقم خاندان کے مختلف اراکین کے اکاؤنٹس میں انٹرنل ٹرانسفر کے ذریعے نکالی جاتی تھی۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ وقار ذکا سوشل میڈیا کو فلاحی مقاصد اور انٹرنیشنل فنڈنگ کے لیے استعمال کرتے تھے، جس کے ذریعے انہوں نے 68 لاکھ حاصل کیے اور بینکوں سے رقم پے آرڈر یا انٹربینک فنڈ ٹرانسفر کے ذریعے نکالی گئی۔
ایف آئی اے نے الزام عائد کیا کہ ’پبلک ڈیٹا بیس میں درجنوں خبریں، بلاگز اور ویڈیوز پائی گئیں جس سے وقار ذکار کی کرپٹو کرنسی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا ثبوت ملتا ہے‘۔
مزید بتایا گیا کہ ’انکوائری کے دوران بٹ کوائن یا کرپٹو کرنسی سے متعلق پوسٹس ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں پائی گئی، ملزم نے بٹ کوئن جیسی کرپٹو کرنسی کو فروغ بھی دیا‘۔
ایف آئی اے نے بتایا کہ بینک اور اداروں کے ریکارڈز کی نقول اور زبانی شواہد کی صورت میں حاصل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ ملزم بینکوں کے قواعد و ضوابط اور ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرپٹو کرنسی کی تجارت اور فنڈز کی منتقلی اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے ورچوئل اثاثوں کے لیے سہولت کاری میں فراڈ اور بددیانتی کرتے پایا گیا۔
مزید بتایا گیا کہ انکوائری شروع کرنے کے بعد ملزم کو طلب کیا گیا تو انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا۔
الزامات دہراتے ہوئے بتایا گیا کہ ملزم کو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف قابل اعتراض مواد نشر کرنے اور بیانات دینے، سرکاری عہدیداروں کو دھمکانے اور عوام کو ریاست کے خلاف اکساتے ہوئے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا۔
ایف آئی اے نے کہا کہ وقار ذکا مبینہ طور پر پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016، تعزیرات پاکستان، انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2020 اور فارن ایکسچینج ریگیولیشن ایکٹ 1947 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوگئے ہیں۔