• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج میں مزید تاخیر تباہ کُن کیوں؟

شائع January 13, 2023

لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

سبسڈی پر آٹا فراہم کرنے والی دکانوں کے سامنے مجبور مردوں اور عورتوں کا ہجوم ملک میں غذائی اجناس کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی جھلک پیش کرتا ہے۔

میرپورخاص میں حال ہی میں آٹے کے حصول کے لیے قطار میں لگنے والا 6 بچوں کا باپ بھگدڑ مچ جانے کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ضروریاتِ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کو مفلسی میں دکھیل دیا ہے۔ یہ نہایت گھمبیر صورتحال ہے جبکہ معاشی سطح پر کسی قسم کی بہتری کے امکانات بھی نظر نہیں آرہے۔ خدشہ ہے کہ حالات اس سے بھی بدتر ہوں گے جبکہ ہمارے معاشی زار سب اچھا ہے کی خبر دے رہے ہیں۔

مالی بدحالی اور کمر توڑ مہنگائی کے اس بدترین دور میں وزارتِ خزانہ کی جانب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک اشتہار چلوایا گیا۔ اس اشتہار میں ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ملک کی معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے۔ یہ اشتہار دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ہے اور معیشت مستحکم ہورہی ہے۔

لگتا ہے جیسے ہمارے وزیرِ خزانہ بدترین معاشی بحران کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں یا پھر وہ اعداد و شمار کا وہی فرسودہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگر حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ وہ غلط اعداد و شمار دکھا کر اپنا کھویا ہوا سیاسی سرمایہ واپس حاصل کرسکتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ثابت ہوگی۔

یہ دعوے حقیقت سے بہت دُور ہیں۔ نہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آئے ہیں اور نہ ہی ہماری معاشی بحالی کے کوئی امکانات موجود ہیں۔ روپے کی قدر میں استحکام کا دعویٰ قوم کے ساتھ سب سے بڑا مذاق ہے۔ اس دعوے سے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کا ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کم کرنے کے جنون کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج کی اگلی قسط کے لیے مذاکرات بھی اسی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں جبکہ مذاکرات کا اگلا دور پہلے ہی 2 ماہ سے تاخیر کا شکار ہے۔

بڑھتے ہوئی ٹیکس ریونیو کی شرح اور کم ہوتی سبسڈیز جیسے اقدامات کے علاوہ روپے کی قدر بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی کی اہم شرط ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہماری حکومت سخت مگر ضروری اقدامات لینے سے گریز کررہی ہے۔

ڈالر کی قیمت کو مصنوعی بنیادوں پر کم رکھنے پر اسحٰق ڈار کے اصرار نے سنگین صورتحال کو جنم دیا ہے جبکہ اس سے ڈالر کی بلیک مارکیٹ میں فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں حوالہ سسٹم مضبوط ہوا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتوں میں فرق، بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجے جانے والی ترسیلات میں بڑی کمی کا باعث بنا ہے۔ وزیرِ خزانہ کا روپے کی قدر کو بہتر کرنے کے اس طریقے سے ملک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل اور قرضے کی نئی قسط التوا کا شکار ہے جس نے دیگر اداروں سے ملنے والے قرض اور دوست ممالک سے ملنے والی رقوم کو متاثر کیا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ لیکن ہمارے وزیرِ خزانہ اب بھی حالات کی سنگینی سے انکاری ہیں۔

اسحٰق ڈار اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آئی ایم ایف ان کی شرائط کو تسلیم کرسکتا ہے۔ نئی اتحادی حکومت کے لیے ٹیکس شرح بڑھا کر مہنگائی کو بڑھانا بھی کافی مشکل ہوگیا ہے۔ وہ اس حوالے سے شدید مخالفت کا سامنا کررہی ہے۔ بلاشبہ اس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن حکومت کے پاس یہ کڑوی گولی نگلنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج میں مزید تاخیر تباہ کُن ثابت ہوسکتی ہے۔

اب جب ملک پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان کو بلآخر حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا ہے اور انہوں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن شاید حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کا وعدہ کیے بغیر باضابطہ طور پر مذاکرات کی بحالی کا کوئی امکان موجود نہیں۔

مذاکرات سے قبل ہمیں کچھ پیشگی اقدامات بھی لینے ہوں گے جن میں روپے کی قدر میں کمی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہے۔ وزیرِاعظم کے اعلان کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم اگلے چند دنوں میں اسلام آباد پہنچ رہی ہے لیکن اس کے آثار نظر نہیں آرہے۔ پاکستان آنے کے بجائے آئی ایم ایف حکام نے جنیوا میں منعقد ہونے والی ڈونر کانفرنس میں وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار سے ملاقات کی لیکن اس ملاقات کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

اس ڈونر کانفرنس میں جہاں ممالک نے لاکھوں سیلاب زدگان کی بحالی اور تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو کے لیے تقریباً 10 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، وہیں وزیرِاعظم پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے کہا کہ کہ وہ پاکستان کو مالی قرضہ دینے سے قبل اپنی معاشی اصلاحات کی شرائط کو کم کردے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جو سیلاب کے تباہ کُن نتائج سے نمٹ رہا ہے، اسے ’سانس لینے کا موقع‘ دیا جائے۔

یہاں اس بات کا امکان موجود ہے کہ پچھلے سال پاکستان کے ایک تہائی حصے کو اپنی لپیٹ میں لینے والے سیلاب کے پیشِ نظر آئی ایم ایف اپنی شرائط میں کچھ نرمی کردے لیکن آئی ایم ایف ملک کی مالی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اقتصادی اصلاحات کو ملتوی کرنے پر ہرگز رضامند نہیں ہوگا۔ حالیہ مہینوں میں ریونیو میں آنے والی کمی نے اہم اقتصادی اصلاحات کو بہت ضروری بنادیا ہے۔

یقینی طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مشکلات سے نکلنے کا حل نہیں ہے لیکن دیگر مالیاتی اداروں سے معاملات طے کرنے کے لیے یہ اہم کردار ادا کرے گی۔ صرف بیرونی قرضوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کی وجہ سے بھی ملک دیوالیہ ہونے کے نزدیک آگیا ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے 22 کروڑ عوام بہت طویل عرصے سے چادر سے زیادہ ہی پاؤں پھیلاتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ریاستی معاملات چلانے کے لیے بھی ہم قرضے لیتے رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ہمارا ملک مالیاتی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم نے متعدد بار خود کو معاشی آئی سی یو میں پایا ہے لیکن ہم بیرونی امداد کی وجہ سے اس سے باہر آگئے تھے۔ ہم اسی امید میں جی رہے ہیں کہ ہمارے بیرونی سہولت کار ہمیں مشکل سے نکال لیں گے۔ شاید ہم اس حالیہ معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ہم ایک بار پھر مستقبل میں اس کا شکار ہوسکتے ہیں، اسی لیے خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔

ماضی کی طرح شاید اس بار بھی ہم دوست ممالک کی امداد اور تعاون سے ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آئیں گے لیکن قرض دینے والی ایجنسیوں اور دوست ممالک کی مدد سے ہمارے دائمی معاشی مسائل دُور نہیں ہوں گے۔ یہ معاشی مسائل اب وقتی پالیسیوں سے حل نہیں ہوں گے۔

جب تک ہم مسائل کو حل کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک ہمارا ملک یونہی معاشی مسائل کا سامنا کرتا رہے گا جو ہماری قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوگا۔

اقتصادی معاملات کے حوالے سے دوسروں پر انحصار کرنے سے ہم اپنی خودمختاری پر سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ اس انتظار میں بیٹھنے کے بجائے کہ بیرونی سہولت کار ہمیں اس مشکل سے نکالیں گے، ہمیں فوری سخت اصلاحات کرنی ہوں گی، اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔


یہ مضمون 11 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024