• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سندھ: بلدیاتی انتخابات کے دوران نوجوان ووٹرز کی پولنگ میں عدم دلچسپی

شائع January 16, 2023
پریزاڈنگ افسر کا کہنا تھا کہ نوجوان ووٹرز کی شرح صرف 20 فیصد تھی—فوٹو: وائٹ اسٹار
پریزاڈنگ افسر کا کہنا تھا کہ نوجوان ووٹرز کی شرح صرف 20 فیصد تھی—فوٹو: وائٹ اسٹار

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران نوجوان کی عدم دلچسپی واضح طور پر دکھائی دی، کئی لوگوں نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کیا تو کسی نے جماعت اسلامی کو ووٹ دے کر اسے اپنا آخری آپشن قرار دیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران نوجوانوں کی عدم شرکت تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر سیاسی جماعتوں کے دعووں پر سوالیہ نشان ہے تاہم کچھ لوگوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کو کم ٹرن آؤٹ کی وجہ قرار دیا۔

کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔

نارتھ کراچی کی یو-سی 13 کے اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر جبران رئیس نے ڈان کو بتایا کہ ’الیکشن کے دوران ٹرن آؤٹ بہت کم تھا اور نوجوانوں کی زیادہ تعداد نہیں تھی، تاہم صرف ان لوگوں نے ووٹ ڈالا جو اپنے والدین کے ساتھ آئے تھے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ 20 فیصد ووٹرز نوجوان تھے۔‘

اس کے علاوہ نارتھ ناظم آباد کی یو-سی 4 کے پولنگ افسر نے بتایا کہ عموماً انتخابات کے دوران نوجوانوں کی شرح 30 سے 35 فیصد ہوتی ہے لیکن اس بار شرح مشکل سے صرف 20 فیصد تھی۔

حیدرآباد کالونی میں ووٹ ڈالنے والے اجمل زبیر نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا ہے کیونکہ آج کل اس جماعت کو ووٹ دینا ’فیشن‘ ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کیا ہے اس سے قبل سنہ 2018 کے انتخابات کے دوران میں نے پی ٹی آئی اور پاک سر زمین (صوبائی اسمبلی کے لیے) کو ووٹ دیا تھا۔‘

رافع شریف نامی نوجوان نے بھی بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کیا، رافع نے ڈان کو بتایا کہ ’سنہ 2018 کے عام انتخابات کے دوران انہوں نے کراچی کے سابق میئر مصطفیٰ کمال کو ووٹ دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مصطفیٰ کمال نے ماضی میں شہر کے لیے بہت کام کیا تھا۔‘

رافع شریف نے مزید بتایا کہ ’اس بار بلدیاتی انتخابات کے دوران انہوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا ہے کیونکہ ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو وہ کبھی ووٹ نہیں دیں گے، انہوں نے کہا کہ ’ہم نے پاکستان تحریک انصاف کو بھی آزما کر دیکھ لیا لیکن اس جماعت نے بھی ہمیں مایوس کیا اس لیے صرف جماعت اسلامی ہی آخری آپشن ہے۔ ’

انہوں نے مزید بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا ووٹ ضائع ہوجائے لیکن اب تک ہم نے تمام جماعتوں کو آزما کر دیکھ لیا ہے اس لیے ہم جماعت اسلامی کو بھی ایک موقع دے رہے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی نے بہت محنت کی ہے اور ایسا لگتا ہے یہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں سمجھدار ہیں، یہی ہمارا آخری آپشن ہے، اگر یہ جماعت بھی شہر کےلیے کام کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو میں آئندہ ووٹ نہیں دوں گا‘۔

ڈان کے صحافی نے کراچی کے مختلف پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیا جس سےمعلوم ہوا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران جنہوں نے ووٹ کاسٹ کیا انہوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا کیونکہ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہی جماعت ان کی آخری امید ہے۔

گلبرگ ٹاؤن کی یوسی 6 میں دوست احباب کے گروہ نے بتایا کہ ’ہم نے سب کو آزما کر دیکھ لیا اور صرف جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے جسے ہم نے نہیں آزمایا، اس لیے انہیں ایک موقع ملنا چاہیے، اگر یہ جماعت بھی ناکام ہوگئی تو آئندہ انتخابات میں ہم سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے‘۔

اس کے علاوہ زیادہ تر نوجوان جنہوں نے پہلی بار بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دیا ان کی بھی یہی رائے تھی۔

عائشہ منزل کی رہائیشی 23 سالہ فاطمہ نے صحافی کو بتایا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں جماعت اسلامی کو ووٹ دوں گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ صرف یہی آخری آپشن ہے، اگر یہ جماعت بھی شہر کے لیے کام کرنے میں ناکام نظر آئی تو آئندہ میں کسی کو ووٹ نہیں دوں گی‘۔

انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل نوجوان افراد پولنگ اسٹیشن کے اندر ہونے مقابلے پولنگ اسٹیشن کے باہر چائے کی دکان میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔

چائے کی دکان میں دوستوں کے ساتھ موجود نارتھ ناظم آباد بلاک اے کے رہائشی شمیل احمد نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی وہ آخری جماعت تھی جس پر میں نے یقین کیا تھا لیکن انہوں نے بھی ہمیں دھوکا دیا، مجھے نہیں لگتا کہ میں آئندہ کسی کو ووٹ دوں گا، آخر میں ہمیں سارے کام خود ہی کرنے ہیں تو اس ووٹ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے‘۔

دوسری جانب ماہم اعوان حیدری میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پولنگ اسٹیشن آئیں تھی لیکن ووٹ کاسٹ نہیں کرسکیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’میں دوسری بار ووٹ ڈالنے آئی ہوں، پہلی بار جب ووٹ دیا تھا تو میرا خیال تھا کہ صورتحال بہتر جائے گی، ہمیں بولا گیا تھا کہ ہم تبدیلی لائیں گے، لہٰذا اس بار میں نے یقینی بنایا کہ میں بیوقوف نہ بنوں گی۔

البتہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کی صرف یہ وجہ نہیں تھی بلکہ کچھ نوجوانوں کا خیال تھا کہ انتخابات میں پہلے ہی دھاندلی ہورہی ہے اس لیے مزید کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

نیا ناظم آباد کے رہائیشی یحییٰ خان نے بتایا کہ میں پورا دن یہی سن رہا تھا کہ پیپلزپارٹی جیتے گی، اگر ساری چیزیں پہلے ہی طے ہوچکی ہیں تو میں کئی میل سفر کرکے ووٹ ڈالنے کیوں آؤں؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے، اس لیے میں نے چھٹی کا دن انجوائے کیا اوراپنی نیند پوری کرنے کو ترجیح دی۔

تاہم اس دوران جن لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا انہیں بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں مایوسی ہوئی۔

گلشن اقبال کی یوسی 8 کے پولنگ اسٹیشن میں ایک نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ وہ پولنگ اسٹیشن میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے گئےتھے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پیغام موصول ہونے کے باوجود ان کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024