سی پیک سیاحت: استور روڈ (چھٹی قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
بونجی کی خوفناک چڑھائی پیچھے رہ گئی اور ہم ایک ایسے منظر میں داخل ہوئے جہاں سڑک کا وجود ایک میلوں وسیع بیابان میں بالکل بے حیثیت ہو کر گُم ہو رہا تھا۔ یہ پتھریلا صحرا ہمارے دائیں جانب نیچے دریائے سندھ کی طرف ڈھلوان ہوتا جارہا تھا۔
دریا کی پرلی جانب بھی اسی طرح کا صحرائی میدان دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اس کنارے کے وسیع صحرائی منظر میں دُور ایک سیاہ لکیر بھی نظر آتی تھی جس پر چند نقطے ترتیب سے حرکت کر رہے تھے۔ یہ سیاہ لکیر شاہراہ قراقرم کی تھی اور یہ نقطے ٹرکوں کا کوئی قافلہ تھا۔ شاید ٹرکوں والے بھی وہاں سے ہماری جانب دیکھتے ہوں لیکن ہم تو زمین کے ایک ہم رنگ راستے پر اس طرح کیموفلاج ہوچکے تھے کہ ان کو نظر ہی نہیں آتے ہوں گے۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے پہلے کاغان کے راستے درّہ بابوسر سے گزر کر جو راستہ گلگت آتا تھا وہ بھی صرف ایک صدی پُرانا ہے۔ یہ راستہ برطانوی دور میں 1890ء میں شروع ہوا تھا۔ اُس سے پہلے گلگت آنے کا واحد راستہ یہی ’استور روڈ‘ ہوا کرتا تھا جس پر آج ہم سفر کر رہے تھے۔ یہ راستہ سری نگر سےآتا تھا اور دراس، کارگل، درّہ برزل، دیوسائی اور استور سے گزر کر یہاں بونجی میں دریائے سندھ کو عبور کرکے گلگت پہنچتا تھا۔
شاہراہ قراقرم پر دائیں بائیں پہاڑوں کے درمیان جگہ جگہ درّہ نما راستے کئی وادیوں کو جاتے نظر آتے ہیں مگر استور کو جانے والا راستہ کچھ خفیہ سا ہے۔ دریائے استور جس مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے وہ پہاڑوں کی دیوار میں ایک دراڑ کی طرح کھلتا ہے۔ اس دراڑ کے پیچھے پھر پہاڑ ہیں اس لیے شاہراہ قراقرم پر کھڑے ہو کر اس جانب دیکھیں تو یہ راستہ نظر ہی نہیں آئے گا مگر قریب پہنچیں گے تو اس دراڑ کی تہہ میں ایک گرجدار مٹیالا دریا انتہائی تیز رفتاری سے دریائے سندھ کی رفاقت اختیار کرنے کو لپکتا نظر آتا ہے۔
بونجی کے صحرا کو عبور کرکے ہم اس دراڑ کے قریب پہنچے تو ایک موڑ لیتے ہی دریائے استور کا جھاگ اڑاتا وجود اور اس پر لٹکتا رسوں کا پُل ہمارے سامنے تھا۔ یہ پُل پہاڑوں کی اُس دراڑ کے دہانے پر تھا جہاں سے دریائے استور برآمد ہوکر چند سو میٹر آگے دریائے سندھ میں شامل ہو رہا تھا۔ پُل عبور کرکے ہم دوسری طرف استور روڈ پر آگئے جو رائے کوٹ سے یہاں تک دریائے سندھ کے کنارے کنارے آرہی تھی۔ دریائے استور کے کنارے کنارے ہم اس کچی سڑک پر کچھ آگے بڑھے تو وادی کُھل گئی۔ دریا کا پاٹ بھی کچھ وسیع ہوا، مگر پتھروں سے دیوانہ وار ٹکراتے پانی کی غصیلی کیفیت ابھی برقرار تھی۔ مسلسل جھاگ اڑاتے پانیوں سے اٹھنے والی سفید دھند دریا کی سطح سے چند فٹ اوپر بادلوں کی طرح معلق تھی۔ دوسرے کنارے پر دیوار نما پہاڑ دریا پر جھکے ہوئے تھے اور ہم ان دیواروں کی سیکڑوں فٹ اونچائی پر بھی پانی بہنے کے قدیم آثار دیکھ رہے تھے۔ پانی کے مسلسل بہنے سے گول اور تہہ دار ہو جانے والی پہاڑی دیوار ظاہر کرتی تھی کہ کبھی دریائے استور اس اونچائی تک بھی بہا کرتا ہوگا۔ دریائے استور بہت تیزی سے نیچے اترتا ہے۔ مسلسل ڈھلوان کی وجہ سے اس کے پانی بے حد تیز رفتار ہیں۔
’استور سے نانگا پربت بھی نظر آتا ہے؟‘ میں بولا۔
’نہیں استور سے نانگا پربت نظر نہیں آتا۔ استور سے اوپر ایک جگہ ہے راما، وہاں سے نظر آتا ہے۔ پھر استور سے آگے ایک قصبہ ہے تریشنگ جس کے ایک گاؤں روپل سے بھی نانگا پربت نظر آتا ہے۔ بلکہ اس گاؤں کا نام روپل بھی نانگا پربت کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ روپل ہم چاندنی کو کہتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں جب چاند نانگا پربت کے سامنے والے پہاڑوں کے پیچھے نکلتا ہے تو نیچے گہرائی میں روپل والوں کو بالکل نظر نہیں آتا لیکن اس کی روشنی سامنے نانگا پربت کی سفید برف سے ٹکراتی ہے تو نانگا پربت اس چاندنی کو ایک آئینے کی طرح منعکس کر کے نیچے روپل میں ڈال دیتا ہے۔ یوں وہاں روپل میں چاند نظر نہ آنے کے باوجود چاندنی ہی چاندنی ہو جاتی ہے یعنی روپل ہی روپل ہو جاتی ہے۔ اسی لیے لوگ اس گاؤں کو روپل کہتے ہیں‘۔ فیاض بولتا گیا اور ہم اس کے چہرے پر اس چاندنی کا عکس دمکتے محسوس کرتے رہے۔ اتنا رومانٹک گاؤں دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو۔
استور آگیا۔ ہم پہاڑ کی بلند دیوار سے پیٹھ لگائے پرانی دوکانوں کی ایک قطار میں سے گزرنے لگے۔ استور کے باسیوں نے ایک لحظے کے لیے ہمیں دیکھا اور پھر اپنے کاموں میں لگ گئے۔ ہماری گاڑیاں ایک جگہ رک جاتی ہیں۔ انجن بند ہوتے ہی شور تھم جاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک بوسیدہ سا ہوٹل تھا۔ ٹورسٹ ڈریم لینڈ، جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں سیاحوں کو صرف ڈراؤنے خواب ہی آتے ہوں گے۔ آج ہمارا قیام اسی ہوٹل میں تھا۔ہوٹل میں کُل 3 کمرے تھے۔ ہر کمرے میں 2، 2 سبستر بھی تھے اور فرش پر دریاں بھی بچھادی گئی تھیں۔ ہر طرف اندھیرا تھا کیونکہ کارگل میں جنگ کی وجہ سے استور میں بلیک آؤٹ تھا۔ ہوائی حملے کا خطرہ تھا۔ ٹورسٹ ڈریم لینڈ میں ہم رات بھر ہوائی حملوں کے خواب دیکھتے رہے۔
صبح میڈیکل کیمپ کے بعد سب فارغ ہوئے تو نانگا پربت دیکھنے کے لیے ’راما‘ جانے کا پروگرام بنا۔ استور سے راما کا فاصلہ ہے تو صرف 6 کلو میٹر، مگر اس مختصر فاصلے میں ہی یہ راستہ 3500 فٹ بلند ہو جاتا ہے۔ استور کی بلندی 7000 فٹ ہے جبکہ راما 10500 فٹ کی بلندی پر ہے ۔ ہم سب ڈرائیورکفایت کی نیلی جیپ اور بقیہ لوگ اشتیاق کی لینڈ کروزر میں سوار ہوگئے۔کچے پکے مکانوں کے بیچ میں سے راستہ اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا گیا۔ آبادی ختم ہوئی اور ویرانہ شروع ہوگیا۔ راستہ مستقل اوپر ہی جا رہا تھا۔ ایک جگہ پر جیپ نے دائرے میں ایک بڑا سا موڑ لیا اور اوپرکی طرف جاتے جاتے ایک دم سیدھی جو ہوئی، تو سامنے سڑک غائب تھی لیکن اس کی جگہ ایک ہوش رُبا منظر آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔۔۔
سڑک یہاں اوپر جانے کی بجائے نیچے اتر رہی تھی، اور نیچے کیا تھا؟۔۔۔ نیچے میلوں وسیع ڈھلوانوں پر گہرے سبز رنگ کا ایک ریشمی قالین بچھا ہوا تھا۔ کھیت لہلہا رہے تھے اور ان میں کہیں کہیں کسانوں کے چھوٹے چھوٹے مکان اور جابجا گھنے درختوں کے جھنڈ تھے۔ دوسری طرف کے پہاڑ دُور تھے اور ان کے پیچھے سے مزید دُورکے پہاڑ اپنی سفید برفانی چوٹیاں لیے جھانک رہے تھے۔ یہ نانگا پربت کے سلسلے تھے۔ بائیں ہاتھ پر نیچے نگاہ کی تو دُور گہرائی میں ننھے منے مکانوں کا ایک سلسلہ پہاڑ کی ڈھلان سے چمٹا ہوا تھا۔ یہ استور تھا اور استور سے مزید نیچے پہاڑوں کی جڑ میں ایک نالی سے بہتی نظر آرہی تھی۔ یہ نالی دریائے استور تھا۔ حسن فطرت کی اس فراوانی نے ہم سب کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ جیپیں رک گئی تھیں۔ مسافر گاڑیوں سے اورکیمرے تھیلوں سے باہر آگئے تھے۔ راستے کے اطراف میں سرسبز کھیت آنکھوں کو تازگی بخش رہے تھے۔ ہوا ٹھنڈی تھی اور خوبانی اور اخروٹ کے درخت ہم پر سایہ کر رہے تھے۔
سب اس راستے کی دلکشی میں مگن چلے جا رہے تھے کہ ایک مشکل پیش آگئی۔ ایک جگہ ایک تیز رفتار پہاڑی نالا شور مچاتا سڑک کے نازک وجود کو پامال کرتا نیچے کھیتوں میں گم ہو رہا تھا اور اس نالے کی وجہ سے سڑک میں اتنا گہرا گڑھا بن چکا تھا کہ جس میں سے بھری جیپ کا گزرنا محال تھا۔ سب جیپ سے اتر آئے۔ نالے میں بڑے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے ۔سب ان پتھروں پرپیر جما جما کر آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے دوسری طرف آگئے اور اب یہ ہجوم دوسری طرف کھڑا، اس تیز رفتار پانی کو عبور کرنے کی کوشش میں لڑکھڑاتی جیپ کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ ایک فیصلہ ہوگیا کہ جیپ آگے نہیں جائے گی۔ طوعاً و کرہاً ہم سب پیدل چل پڑے۔ راستے کی اٹھان برقرار تھی۔کھیتوں میں پوشیدہ پانی کی نالیوں کی سر سراہٹ خاموش فضا میں صاف سنائی دیتی تھی۔ آسمان زیادہ نیل دیے گئے کپڑے کی مانند نیلگوں ہو رہا تھا۔ استوری کسانوں کے ننھے منے بچے کھیلتے کھیلتے ٹھٹک کر ہمیں دیکھتے اور ہم میں سے کسی کے اشارے پر شرما کر بھاگ جاتے۔ برتن دھوتی کوئی عورت ہمیں دیکھ کر چونکتی اورچہرہ رنگین چادر سے چھپا کر ہماری طرف پیٹھ کرلیتی۔
چلتے چلتے ہمارے سامنے سفید چمک دار برف کا ایک عظیم ڈھیر پہاڑوں کے بیچ میں سے سورج کی طرح طلوع ہوا۔ یہ برف پوش چوٹی نانگا پربت کا ایک حصہ ’چانگرا پیک‘ تھی۔ تقریباً 2 گھنٹے کی چڑھائی کے بعد ہم سب ایک گھنے جنگل میں کھڑے تھے۔ نانگا پربت کی چوٹی ہماری آنکھوں کے عین سامنے درختوں کے اوپر سے بلند ہو رہی تھی۔ راستے کے دائیں طرف راما ریسٹ ہاؤس کا بورڈ نصب تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے درخت کچھ پیچھے ہٹ گئے تھے اور وہاں ایک دلفریب تصویر سجی ہوئی تھی۔ یہ ایک وسیع چراگاہ تھی جس کے گہرے سبز میدان میں قدرتی پھولوں کے جھرمٹ ستاروں کی طرح ٹنکے ہوئے تھے اور اس میدان کے بیچ میں چاندی جیسے پانی کی ایک ننھی منی ندی کروٹیں لیتی ہوئی بہہ رہی تھی۔
اس دلفریب منظر کے سامنے راما ریسٹ ہاؤس کی خوبصورت عمارت ہماری منتظر تھی۔ اچانک بوندا باندی شروع ہوگئی اور ہم ریسٹ ہاؤس کے اندر چلےگئے۔ چیڑ کے درختوں میں گھرے راما ریسٹ ہاؤس کی چھت برستی بوندوں سے جلترنگ بنی ہوئی تھی اور اندر ایک زبردست رونق تھی۔ نفاست سے تلی ہوئی ٹراؤٹ مچھلی کا طشت میز پر سجا ہوا تھا اور گرما گرم چائے سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ ریسٹ ہاؤس کی عمارت باہر سے تو حسین تھی ہی، اندر سے بھی کم نہ تھی۔ عالیشان فرنیچر، دبیز قالین اور بھاری پردوں سمیت تمام آسائشوں سے مزین۔ محسوس ہی نہ ہوتا تھا کہ ہم شہروں سے کہیں دُور، دشوار گزار پہاڑوں میں، نانگا پربت کی گود میں، راما کے مقام پر ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ڈیفنس یا گلبرگ کے کسی محلاتی ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوں۔
تھوڑی دیر بعد باہر بارش تھم چکی تھی، طشت میں ٹراؤٹ کا ایک ذرّہ بھی بچا نظر نہ آتا تھا اور چائے کی چسکیاں بھی معدوم ہوچکی تھیں۔ اب واپسی کا سفر تھا اور یہ اترائی کا سفر تھا۔ راما کے جنگل سے باہر نکلتے ہی ڈھلوان پر کھیتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ کچی سڑک وادی میں لہراتی نیچے استور تک جاتی نظر آرہی تھی۔ ہم سب اس سڑک پر چل پڑے۔ اترائی کے راستے پر پیدل چلنے سے اندازہ ہوا کہ چڑھائی پر آدمی ہانپتا ضرور ہے مگر رکنا اور چلنا پھر بھی اس کے اختیار میں ہوتا ہے، لیکن اترائی پر تو کچھ بھی اختیار میں نہیں رہتا۔ میں اس بے اختیاری سے بے خبر اپنی عکس بندی میں مگن لا پرواہی سے چلتے ہوئے باقی لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔
’بھئی اب تو اترائی ہے، شارٹ کٹ مارتے ہیں‘۔ فیاض ایک جگہ پر سڑک سے اتر کر کھیتوں میں گھس گیا۔ باقی سب بھی لبیک کہتے ہوئے ڈھلوان پر کھیتوں میں اترگئے۔ فیاض تو ان وادیوں کا پلا بڑھا تھا۔ اس کے لیے ان ڈھلوانوں پر جسم کو تیر کی طرح سیدھا رکھ کر اترنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر ہم تو میدانوں کے باسی تھے۔ تھوڑا ہی چلے ہوں گے کہ نانی یاد آگئی۔ڈھلواں سڑک پر بے اختیار ہوتے جسم کو سنبھالنا پھر بھی کچھ آسان تھا مگر کھیتوں کی ناہموار زمین اور منڈیروں کی گیلی گھاس پر خود کو سنبھالنا اور اترنا دو الگ الگ دشوار کام تھے۔ آج بھی جب میں اپنی اُس ریکارڈ کی ہوئی فلم کو دیکھتا ہوں تو مجھے ایک سبز ڈھلوان پر کچھ سراسیمہ اجسام گھاس پر کولھے ٹکائے آہستہ آہستہ نیچے کی طرف کھسکنے کی کوشش میں مصروف اور اس عمل سے کامیاب گزر جانے والے بقیہ لوگ نیچے کھڑے بوتھیاں اوپر کیے قہقہے لگاتے نظر آتے ہیں۔
میں اپنے تئیں پہاڑوں کا واقف، میرے خیال میں تو ان ڈھلوانوں پر چڑھنا اترنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ مجھے اپنے قدموں پر پورا اعتماد تھا لیکن یہ بھولے ہوئے تھا کہ میرے دائیں ہاتھ میں جو کیمرہ ہے وہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اسی لیے جہاں باقی سب چوپائے بن کر اتررہے تھے وہاں میں سہ پایہ بنا ہوا تھا۔ البتہ بظاہر ایک شانِ بے نیازی سے اِدھر اُدھر دیکھتا فلسفیوں کے انداز میں غور و فکر کرتا چلا جا رہا تھا۔ سڑک ایک جگہ طویل موڑ لے کر دوبارہ نیچے سے گزر رہی تھی اور ہم کھیتوں کا شارٹ کٹ لے کر اس تک پہنچنے والے تھے۔ لیکن کھیتوں کی منڈیروں پر جو گھاس ہمارے قدموں تلے تھی اس میں پانی سرایت کیے ہوئے تھا جو ہماری بے خبری میں جوتوں کے تلوے دھو دھو کر چکنے کر چکا تھا۔
سمیع اور اسرار مجھ سے چند قدم آگے رینگ رہے تھے کہ اچانک اسرار کا پاؤں پھسلا۔ ایک لمحے کے لیے اس کی دونوں ٹانگیں ہوا میں بلند ہوئیں اور دوسرے ہی لمحے وہ گیلی گھاس پرچاروں شانے چت پڑا تھا۔ بد قسمتی سے آخری لمحے میں کسی سہارے کی تلاش میں اس کے بے تابی سے لہراتے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں سمیع کی ٹانگ آگئی۔ چنانچہ اگلے ہی لمحے سمیع بھی اس کے ساتھ چت تھا اور وہ دونوں کیچڑ پانی میں لت پت ہو کرپھسلتے ہوئے نیچے کی طرف لڑھک رہے تھے۔ دور نیچے سڑک کی عافیت میں کھڑی بقیہ ٹیم کے قہقہے اوپر ہم تک پہنچ رہے تھے اوران میں میرے قہقہے بھی شامل تھے۔ ایک ہاتھ کولہے پر رکھے، دوسرے ہاتھ میں کیمرہ سنبھالے، اسرار اور سمیع کے پہاڑوں کا ناتجربہ کار ہونے کا طنز چہرے پر لیے میں بھی قہقہے لگا رہا تھا۔
سمیع اور اسرار تھوڑا نیچے جا کر بالآ خر رک گئے تھے مگر وہیں نڈھال پڑے تھے۔ میں ان کی طرف لپکا۔ مگر یہی وہ لمحہ تھاجب میرا اٹھا ہوا پاؤں تو ہوا میں اٹھا ہی رہا،پچھلا پاؤں بھی گیلی گھاس پر پھسل کرہوا میں اٹھ گیا۔ الٹ کر پیچھے گرنے سے بچنے کے لیے میں صرف اس ایک ہاتھ کو استعمال کر سکتا تھا جس میں کیمرا نہیں تھا۔ مگر اسی لمحے میرا کیمرے والا ہاتھ بھی خالی ہوچکا تھا۔ میں فضا میں جتنا بلند تھا کیمرا اس سے دگنا اوپر معلق ہوگیا۔ میں نے گرنے سے بچنے کی بجائے کیمرا سنبھالنے کے لیے فضا میں ہاتھ چلائے، لیکن گیلی گھاس پر پھسلتا ہوا وہ وجود میرا ہی تھا جو سمیع اور اسرار کے چت پڑے اجسام کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا۔ میرا دماغ ماؤف ہوا، نیچے سڑک پر کھڑی ٹیم کے قہقہے مدھم پڑے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا اور میں ایک اندھیری ڈھلوان میں اترتا چلا گیا۔
لیکن یہ تو میں نے کئی سال بعد کا قصہ بیان کر دیا۔ اس وقت تو میں 1986ء میں پہلی بار گلگت جارہا تھا اور یہ آدھی رات کا وقت تھا جب ہم جگلوٹ سے گزرے۔ شاہراہِ قراقرم تھاکوٹ سے رائے کوٹ تک دریائے سندھ کے کنارے کنارے دائیں طرف کوہ ہمالیہ کے دامن میں چلتی ہے اور رائے کوٹ پُل کو عبور کرنے کے بعد جگلوٹ اور اسکردو موڑ تک دریائے سندھ کے بائیں کنارے کوہ ہندوکش کے دامن میں چلتی ہے۔ جگلوٹ کے قصبے سے 15 کلومیٹر آگے آئیں تو یہاں دریائے سندھ شاہراہ قراقرم کو چھوڑ کر دائیں سمت میں اسکردو کی طرف مڑ جاتا ہے اور شاہراہ قراقرم سیدھی گلگت کی طرف چلتی رہتی ہے، لیکن اب بھی اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا دریا بہہ رہا ہوتا ہے۔۔۔ یہ دریائے گلگت ہے۔
جگلوٹ کے اور اسکردو موڑ کے درمیان ہی وہ انوکھی جگہ آتی ہے جہاں کوہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں دریائے گلگت اور دریائے سندھ آپس میں ملتے ہیں اور دریاؤں کا یہ سنگم اپنے اطراف میں موجود پہاڑی سلسلوں کی حد بندی کر دیتا ہے۔ کوہ ہمالیہ اس مقام سے نیپال تک چلا جاتا ہے جہاں اس کی چوٹی ایورسٹ دنیا کا بلند ترین پہاڑ ہے جبکہ پاکستانی حدود میں اس سلسلے کی چوٹی نانگا پربت کے علاوہ کوہِ مری اور کوہِ مارگلہ بھی شامل ہیں۔ اس مقام پر بنی یادگار اندھیرے میں اوجھل نہ جانے کب گزر جاتی ہے۔
دریائے سندھ اور دریائے گلگت کے درمیانی خطے میں کوہ قراقرم کا سلسلہ ہے جو چین تک چلاگیا ہے ۔ پاکستانی حدود میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے2 اسی سلسلہ قراقرم کا حصہ ہے۔ کوہ ہندوکش یہاں سے افغانستان تک چلاگیا ہے جس کی بلند ترین چوٹیاں ترچ میر وادیِ سوات اور فلک سیر وادیِ چترال میں واقع ہیں۔
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔