ریاض: سعودی استغاثہ ٹوئٹس پر ممتاز عالم دین کو پھانسی دینے کا خواہاں
سعودی پراسیکیوٹرز، ممتاز عالم دین کو بے امنی پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کے الزامات کے تحت سزائے موت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جائزہ لی گئی عدالتی دستاویز کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے۔
عواد القرنی ان درجنوں ممتاز علما اور ناراض شخصیات میں شامل تھے جنہیں ستمبر 2017 میں ولی عہد محمد بن سلمان کے تخت نشین ہونے کے لیے سب سے مضبوط شخصیت بننے کے 3 ماہ بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنان شہزادہ محمد بن سلمان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ناقدین کے خلاف جاری سخت کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں جب کہ یہ کریک ڈاؤن سعودی عرب کے معیار کے مطابق بھی بہت سخت ہے جس میں سیاسی مخالفت کی اجازت نہیں ہے۔
استغاثہ کی یہ دستاویزات عواد القرنی کے صاحبزادے ناصر نے شیئر کی تھی جو گزشتہ سال پناہ کی تلاش کے لیے برطانیہ فرار ہوگیا تھا۔
استغاثہ نے عواد قرنی پر فیس بک اور ٹوئٹر پر حکومت مخالف پیغامات پھیلانے کا الزام لگایا، ان کے ٹوئٹر اور فیس بک پر 20 لاکھ فالوورز ہیں۔
عدالتی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وہ ہر موقع پر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہیں اور اسے اپنی گمراہ کن رائے کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عدالتی دستاویز میں جن قابل اعتراض سوشل میڈیا پوسٹس کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں اخوان المسلمون کی حمایت میں دیے گئے بیانات، سعودی عدالتی فیصلوں پر تنقید اور سفارتی پالیسیوں پر بیانات شامل ہیں جس میں سعودی عرب نے پڑوسی ملک قطر کا ایک سالہ طویل بائیکاٹ کیا تھا۔
بعد ازاں دونوں خلیجی ممالک نے جنوری 2021 میں سربراہی اجلاس کے دوران تعلقات کو بحال کیا۔
عدالتی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ان پوسٹس کو قوم کی بنیادوں کو غیر مستحکم کرنے، معاشرے کو حکمرانوں کے خلاف اکسانے، بے امنی پھیلانے اور دشمن ریاست قطر سے ہمدردی ظاہر کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
عدالتی دستاویز کے مطابق عواد القرنی وطن اور اس کے حکمرانوں کے خلاف دہشت گرد تنظیم اخوان المسلمون کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔
عواد قرنی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سماجی اقدار کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ مسلمانوں، حکمرانوں او رعایا کے درمیان بغاوت کو ہوا دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔
سعودی حکام نے ان مقدمات سے متعلق کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی عواد قرنی کے خلاف مقدمے کے بارے میں ردعمل دینے کی درخواست کا جواب دیا۔