’پولیس کی ذمہ داری میں ناکامی پر عدلیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ عدالتیں صرف ججوں کے سامنے پیش کیے گئے شواہد اور مواد پر ہی کارروائی کر سکتی ہیں، اگر پولیس اور ذمہ داران اپنی ذمہ داری میں ناکام ہوجائیں تو عدلیہ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مشاہدہ نقیب اللہ محسود قتل کیس کے تفصیلی فیصلے میں سامنے آیا جس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے کہا کہ چونکہ ماورائے عدالت قتل کیس میں قابل اعتماد اور خاطر خواہ شواہد اکٹھے نہیں کیے گئے اور نہ ہی پیش کیے گئے، اس لیے عدالت میں اس طرح کے ہائی پروفائل کیسز میں شک کے فائدے کے حق کو چھینا نہیں جاسکتا۔
جج نے کہا کہ عدالتیں فوجداری نظام انصاف کا بنیادی جزو ہونے کے باوجود صرف اپنے سامنے پیش کیے گئے شواہد اور مواد پر ہی کام کر سکتی ہیں جنہیں ذمہ داران نے اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو/پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوجائیں تو عدالتوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، ایگزیکٹو/پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد کا جائزہ قوانین اور قواعد اور عدالتی معیارات کے مطابق ہونا چاہیے، حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ استغاثہ کی حمایت کے لیے ٹھوس شواہد اکٹھے کیے جائیں اور عدالت میں پیش کیے جائیں۔
نقیب اللہ محسود اور دیگر 3 افراد کے ماورائے عدالت قتل پر ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے 17 ماتحتوں کا 5 سالہ طویل ٹرائل بنیادی طور پر جائے وقوع پر پولیس اہلکاروں کی موجودگی اور مقابلے کے وقت سے متعلق ہے۔
تاہم پراسیکیوشن نے پولیس اہلکاروں اور متاثرین کے کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) اور موبائل فونز کی جیو فینسنگ جمع کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر استعمال نہ کرکے نصف ذمہ داری ادا کی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ 2 عینی شاہدین محمد قاسم اور حضرت علی نے ابتدائی طور پر 6 پولیس اہلکاروں ارشد علی، عبدالعزیز، شفیق احمد، اللہ یار، غلام نازک اور محمد اقبال کو شناختی پریڈ کے دوران شناخت کیا۔
تاہم اسے قبول نہ کیا جاسکا کیونکہ انہوں نے عدالت کے سامنے پیش ہونے پر فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کی دفعہ 161 کے تحت پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیانات سے رجوع کرلیا تھا۔
جج نے نوٹ کیا کہ ملزم پولیس کانسٹیبل شکیل، سابق ایس ایس پی راؤ انوار، سابق ڈی ایس پی قمر احمد شیخ، فیصل محمود، محمد انور اور خیر محمد کے کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) عدالت میں پیش کیے گئے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر ایک دوسرے سے رابطے میں رہے اور مفرور ملزمان کی حوصلہ افزائی کی جنہوں نے 4 افراد کو ہلاک کرکے پولیس مقابلے کا آغاز کیا تھا اور چاروں مقتولین کی لاشوں پر ہتھیار پھینک کر جھوٹے ثبوت گھڑے تھے۔
جج نے کہا کہ پہلے تحقیقاتی افسر عابد حسین قائم خانی نے جرح کے دوران اعتراف کیا تھا کہ اس نے دوران تفتیش عینی شاہدین حضرت علی اور محمد قاسم اور استغاثہ کے دیگر گواہوں شیروف خان، ہمایوں اور مقتول نقیب اللہ کا کال ڈیٹا ریکاڑد جمع نہیں کیا۔
جج نے کہا کہ تحقیقاتی افسر نے جرح میں اعتراف کیا کہ انہوں نے نقیب اللہ کی لوکیشن حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، انہوں نے جرح میں کہا کہ انہیں 4 جنوری 2018 کو الآصف اسکوائر پر مقتول نقیب کے 3 موبائل نمبرز کی لوکیشن یاد نہیں ہے۔
جج نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ان لوکیشنز کی تردید نہیں کی، وہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ انہیں یاد نہیں ہے، وہ جواب دینے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، نقیب اللہ محسود کے کال ڈیٹا ریکارڈ تیار نہ کرنے سے قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 129 (جی) کو منفی اندازے کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ مقتول نقیب اللہ کا آغا شیرگل ہوٹل سے حضرت علی اور قاسم کے ہمراہ اغوا ہونا ڈیجیٹل طور پر ثابت نہیں ہے۔
جج نے کہا کہ ’مغوی حضرت علی، محمد قاسم اور مقتول نقیب اللہ کے اغوا کے واقعے کے حوالے سے قابل اعتماد اور خاطر خواہ شواہد اکٹھے نہیں کیے گئے اور نہ ہی پیش کیے گئے لہٰذا اس طرح کے ہائی پروفائل کیسز میں بھی ملزمان کے لیے شک کے فائدے کے حق کو روکا نہیں جاسکتا۔
فیصلے میں جج نے لکھا کہ ’شواہد کے مشاہدے سے پہلے فوری طور پر کیس کا مشاہدہ کرنا مناسب ہے، یہ انتہائی ہائی پروفائل کیس ہے جو وسیع پیمانے پر میڈیا میں رپورٹ کیا گیا اور پولیس کی بربریت کے بدنام زمانہ مقدمات میں سے ایک ہے‘۔
جج نے فیصلے میں 15 نومبر 2022 کو ’ٹیسٹ کیس‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ڈان کے اداریے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے لیے راؤ انوار کا ٹرائل ایک ٹیسٹ کیس ہے، یہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا فوجداری نظام انصاف میں ایک اعلیٰ پولیس اہلکار (جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں) کو جوابدہ ٹھہرانے کی سکت ہے جس کی اس واقعے سے پہلے بھی ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کے طور پر خوفناک شہرت تھی اور واقعے کے بعد بھی پیشہ ورانہ طور پر ترقی پانے میں کامیاب رہے۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اداریے میں جج کو ایک خاص سمت میں لے جانے کی ترغیب تھی لیکن عدالت نے سپریم کورٹ کی طرف سے ٹی وی ٹاک شوز میں زیر بحث مباحثے کے حوالے سے دی گئی ہدایات پر انحصار کیا۔
جج نے کہا کہ یہ تمام میڈیا کے لیے یکساں طور پر رہنما گائیڈلائنز ہونی چاہئیں تاکہ قانون اور اخلاقیات کی حدود کا احترام کیا جائے جو طویل تجربات کے بعد قائم کی گئی ہیں، زیر التوا مقدمات کو اس طرح رپورٹ کرتے ہوئے منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق کو پامال نہیں کیا جانا چاہیے اور آزادی اظہار کے بنیادی حق کا بے دریغ استعمال خاص طور پر ایسے کیس میں نہیں کیا جانا چاہیے جب معزز عدالتی فورمز کے سامنے کارروائی زیر سماعت ہو۔