ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: پرواز کا غیر انسانی وقت اور سلاٹ ٹائم
اگر حساب لگائیں تو فضائی میزبانوں نے اپنی زندگی میں اتنے کھانے (Major Meals) چھوڑے ہوں گے کہ شمار نہیں۔ کبھی ناشتہ نکل جاتا ہے تو کبھی دوپہر کا کھانا۔ کبھی عین رات کے کھانے کے وقت پرواز کی روانگی ہوتی ہے تو کبھی بالکل ناشتے کے وقت پرواز کراچی کے بجائے رحیم یار خان اتر جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ عملہ بھوکا پیاسا نوکری کررہا ہوتا ہے کیوں کہ جہاز پر مسافروں کے ساتھ ساتھ عملے کے لیے بھی طعام کا خاطر خواہ انتظام ہوتا ہے لیکن میں یہاں باقاعدہ بیٹھ کر سکون سے کھانے کی بات کررہا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ پروازوں کے بدلتے ہوئے اوقات ہیں۔
زیادہ تر بیرونِ ملک روانگی کے لیے پروازوں کا وقت غیر انسانی ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ منزل مقصود کے ہوائی اڈے پر ایئر لائن کے جہاز کو پارک کرنے کی جگہ کا کیا وقت دیا گیا ہے۔ اس کو انگریزی میں سلاٹ ٹائم (Slot time) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک پرواز کو لاہور سے ریاض جانا ہے تو ریاض کے ہوائی اڈے کی انتظامیہ وہ وقت متعین کرے گی کہ کب وہ پرواز ریاض کے ہوائی اڈے پر اترے گی، پارک ہوگی اور پھر نئے مسافر لے کر واپس لاہور کے لیے روانہ ہوسکے گی۔
اب ریاض کے ہوائی اڈے پر ریاض کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 5 بجے سے 7 بجے تک کا وقت یعنی سلاٹ ٹائم موجود ہے۔ چنانچہ لاہور سے اڑنے والی پرواز کو 2 چیزوں کا دھیان رکھنا ہوگا۔ ایک لاہور سے ریاض کی مکمل اڑان کا وقت اور دوسرا دونوں شہروں کے درمیان وقت کا فرق جیسے کہ ریاض لاہور سے 2 گھنٹے پیچھے ہے۔ اب 5 بجے ریاض پہنچنے کے لیے پرواز کو لاہور سے رات ڈھائی بجے تک اڑان بھرنی ہوگی کیوں کہ راستہ بھی تقریباً 4 گھنٹے 30 منٹ کا ہوتا ہے۔
اب فضائی عملے کی بات کر لیتے ہیں کہ جن کو اس پرواز پر ڈیوٹی دینی ہے۔ پرواز سے 3 گھنٹے پہلے گھر سے چلنے کا مطلب ہوا کہ ساڑھے 11 بجے رات گھر سے نکلنا ہوگا۔ اس سے پہلے اگر ڈٹ کر کھا لیا تو رات کو زیادہ نیند آئے گی رات اور اگر نہیں کھایا تو طبیعت عجیب سی رہے گی، لہذٰا عملے کو کھانا کھانے میں میانہ روی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ رات گئے کی پروازوں پر ویسے بھی باقاعدہ کھانا کھانے کا دل نہیں کرتا تھا چنانچہ میں کبھی اسنیکس اور کبھی چاکلیٹ وغیرہ سے کام چلا لیا کرتا تھا۔
کھانے کے وقت کھانا نہ کھانا اور سونے کے وقت جاگتے رہنا اس نوکری کا خاصا ہیں۔ چوں کہ یہ ’گھنٹہ نوکری‘ ہے یعنی گھنٹوں کے حساب سے چلتی ہے لہٰذا جہاں گھنٹہ شروع یا ختم ہوگا وہیں آپ کا گھنٹہ بھی بج جائے گا۔ اب یہ آپ کی قسمت ہے کہ وہ گھنٹہ کھانے کے وقت بجتا ہے یا سونے کے وقت۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ گھنٹہ ایسے وقت پر بج جاتا ہے جو کھانے کے بعد سونے کا ہوتا ہے۔ یہاں عملے کو ایک اور مشکل درپیش ہوتی ہے یعنی کھانے کہ بعد فوراً سو جانا۔ یہ مسلسل عمل صحت کے لیے تو مضر ہوتا ہی ہے ساتھ ساتھ جسمانی ساخت کو بگاڑنے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
فضائی عملہ چونکہ کسی بھی ایئر لائن کے سفیر کے طور پر جانا جاتا ہے لہٰذا اراکین یہ کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اور عمدہ نظر آئیں۔ اسی طرح ایئر لائن بھی عملے کے اراکین کے سالانہ طبی معائنے کے ساتھ ساتھ وزن کو بھی نظر میں رکھتی ہے جس کو عرف عام میں بی ایم آئی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب تو ’Body Mass Index‘ ہے لیکن میں اپنے ساتھیوں کے لیے اسے ہمیشہ ’بڑی مصیبت آئی‘ کے نام سے یاد کرتا تھا۔ خدا کا شکر ہے مجھے کبھی وزن بڑھنے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ مجھے تو اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ ’بیٹا آپ کھایا پیا کریں‘ اور میں ’جی بالکل‘ کہہ کر اپنی راہ لیتا۔
ظاہر ہے ہر ایک کا جسم اس کی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔ ورزش کرتے ہیں تو بھلے زیادہ کھالیں ورنہ سرزنش کریں اپنے آپ کی اور کم کھائیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعد غالباًَ یہی نوکری ہے کہ جس میں اسمارٹ اور فٹ رہنے پر زور دیا جاتا ہے۔ بسیار خوری اور بد احتیاطی بیماریوں کو خوش آمدید تو کہتی ہی ہے لیکن اس نوکری میں یہ دگنا نقصان پہنچاتی ہے۔ وہ ایسے کہ اگر ہلکا زکام ہے یا ہاتھ میں پٹی یا پلاسٹر لگا ہے تو آپ اپنے دفتر جاسکتے ہیں، لیکن اگر آپ فضائی میزبانی کے پیشے سے منسلک ہیں تو پھر آپ گھر ہی بیٹھیں۔
زکام شروع ہو رہا ہے تو آپ پرواز پر نہیں جاسکتے کیوں کہ ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران جہاز میں ہوا کے دباؤ کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے کانوں میں شدید درد ہوگا۔ ہاتھ پر پٹی بندھی ہے تو مسافروں کو کھانا کیسے پیش کیا جائے گا کیوں کہ سروس انڈسٹری میں ایسا نہیں ہوتا۔ بخار اور کھانسی تو ویسے بھی مکمل آرام مانگتی ہے۔ اس کے علاوہ جب تک دوائیوں کا استعمال جاری ہے تو آپ کا پرواز پر جانا ناممکن ہے کیوں کہ دوائیوں کے زیر اثر پرواز پر کسی بھی قسم کی ہنگامی صورت حال سے دوچار ہونا خود اپنی اور مسافروں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے جب تک عملے کا رکن مکمل صحت یاب نہیں ہوجاتا اسے جہاز پر جانے کی اجازت نہیں ملتی۔
ایک بار پشاور میں قیام تھا۔ رات میں ہم دوستوں نے چپلی کباب کھانے کا پروگرام بنایا۔ ایک دوست کو بڑی مشکل سے راضی کیا، وہ جانے کو تیار نہ تھا کیوں کہ ’بڑی مصیبت آئی‘ ہوئی تھی اور وہ اتنا بسیار خور تھا کہ اس کو ’بس یار‘ کہنا پڑتا تھا۔ خیر وہ مان گیا اور کھانے کے بعد ہم نے سبز چائے کے 2 دور چلائے اور سوچا کہ اب یہ تمام کباب گھل کر بخارات بن جائیں گے۔
کچھ دن کے بعد دوست سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ زیرِ عتاب ہے۔ ایک غیر حلال جانور کے کبابوں سے اس نے ہم سب ساتھیوں کو تشبیہ دی کہ ہم نے اس دن چپلی کباب کھانے پر اصرار کیوں کیا جس کے بعد ہم نے اپنے دفاع میں بس اتنا کہا کہ بھائی کم کھا لیتے کباب، تمہارا جسم تمہاری مرضی۔