حمزہ شہباز کی وطن واپسی، مریم نواز کے ہمراہ انتخابی مہم چلانے کیلئے تیار
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے احتساب کا مطالبہ پورا ہونے کے پیش نظر شریف خاندان کی نوجوان قیادت، مریم نواز اور حمزہ شہباز لاہور سے انتخابی سیاست کے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حمزہ شہباز کے بیرون ملک طویل قیام سے واپسی بظاہر پارٹی میں اپنی پوزیشن دوبارہ سنبھالنے کی کوشش سمجھی جارہی ہے جس کی سیاسی مہم فی الحال مریم نواز چلا رہی ہیں، توقع ہے کہ دونوں کزن اب صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز گزشتہ روز امریکا سے سعودی عرب کے راستے وطن واپس پہنچ گئے، انہوں نے گزشتہ برس بطور وزیر اعلیٰ پنجاب مختصر عرصہ گزارا تھا۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ عمران خان کے جیل جانے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کا ’انتخابات سے پہلے احتساب‘ کا مقصد پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ مطالبہ کوئی راز نہیں ہے کیونکہ دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کی پیشگی شرط کے طور پر مریم نواز بار بار عمران خان کے خلاف کارروائی اور اپنے والد نواز شریف کے لیے ریلیف کا مطالبہ کررہی ہیں۔
انہوں نے جولائی 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اب اگر عمران خان جیل جاتے ہیں تو ان کے مخالفین، خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے لیے پنجاب میں الیکشن لڑنا بہت آسان ہو جائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’جب نواز شریف کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل گرفتار کیا گیا تھا تو ان کی پارٹی انتخابات میں ہار گئی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے الزام ان طاقتوں پر عائد کیا تھا جو اس وقت اپنی پسندیدہ جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کر رہی تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اب عمران خان جیل میں ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) پنجاب میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگی جو اس وقت طاقتور حلقوں کے ساتھ بہتر تعلقات سے لطف اندوز ہورہی ہے‘۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی اندرونی سیاست کا تعلق ہے، حمزہ شہباز مبینہ طور پر اپنے والد کی ہدایت پر وطن واپس آئے ہیں، پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’حمزہ شہباز کی واپسی کو پارٹی صفوں میں پنجاب کے انتخابات کے لیے سینیئر قیادت کی جانب سے نوجوان قیادت کو آگے بڑھنے کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے اور ایک مختصر مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بھی رہے، اس لیے وہ پنجاب میں پارٹی امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے میں مریم نواز کے ساتھ شامل ہوں گے‘۔
حمزہ شہباز گزشتہ برس جولائی میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھوں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے محروم ہونے کے بعد سے سیاسی منظر نامے سے غائب تھے، پرویز الٰہی نے اس کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ حمزہ شہباز، مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا چیف آرگنائزر بنائے جانے کے بعد ناخوش ہیں کیونکہ اس پیش رفت نے شہباز کیمپ اور حمزہ کیمپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ پارٹی کی حتمی قیادت مریم نواز کے ہی پاس ہوگی اور وہ اپنے والد کی جانشین ہوں گی۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے جیتنے کی صورت میں مریم نواز وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکی ہیں، اس تناظر میں حمزہ شہباز کو لگتا ہے کہ ان کی پوزیشن مکمل طور پر خطرے میں ہے۔
پارٹی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ کے لیے دونوں کزنز کو آن بورڈ لیا جائے گا، حتمی فیصلہ پارٹی سربراہ نواز شریف کریں گے۔
عمران خان کو زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کے لیے پولیس آپریشن کے پس منظر میں مریم نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سیاسی میدان میں اتر چکی ہے اور پنجاب میں الیکشن جیتے گی۔
انہوں نے گزشتہ روز شیخوپورہ میں ایک جلسہ عام میں پارٹی کارکنوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اور وہ بھاری اکثریت سے جیتے گی‘۔
مریم نواز شریف اور ان کے والد نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مزاحمت پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے والد نے 2018 میں لندن واپسی پر بغیر کسی مزاحمت کے اپنی گرفتاری پیش کردی تھی۔
لندن میں موجود نواز شریف نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’گرفتاری کے ڈر سے عمران خان نے سرکس لگا دیا ہے، انہیں بزدلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سیاست چھوڑ دینی چاہیے تھی‘۔