’میں نے اپنی والدہ کے لیے مارچ کیا جنہیں اسکول جانے نہیں دیا گیا‘
یہ تقریباً 4 دہائیوں قبل کی بات ہے۔ شمال مغربی پاکستان میں واقع ایک دوردراز گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی جو اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو روزانہ اسکول جاتے دیکھتی تھی لیکن اس کا خاندان اسے اسکول جانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
جب وہ 10 سال کی عمر کو پہنچی تو اس نے اپنے بھائیوں کی طرح پڑھنے، لکھنے اور اسکول جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کی دادی نے اس پر رضامندی ظاہر کی۔ اس بچی نے اپنے لیے ایک تختی خریدی تاکہ وہ اس پر لکھ سکے۔ وہ بےحد خوش تھی اور وہ باقاعدگی سے اسکول جانے لگی۔ اسکول سے گھر آنے کے بعد ہر روز وہ اپنی تختی کو مٹی سے صاف کرتی تاکہ اسے اگلے روز بھی استعمال کیا جاسکے۔
ابھی اسے اسکول جاتے ہوئے چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک شام ایک عالم دین اور علاقے کے مذہبی سیاسی گروپ کے رہنما اس کے گھر آئے۔ انہوں نے کمرے میں اس لڑکی کی تختی دیکھی تو دادی سے اس متعلق دریافت کیا۔ دادی نے بتایا کہ یہ ان کی پوتی کی ہے جسے پڑھنے لکھنے کی لگن ہے اور اس لیے وہ روزانہ اسکول بھی جاتی ہے۔ وہ عالم دین یہ سنتے ہیں غصے سے آگ بگولا ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کا تعلیم حاصل کرنا ہماری روایات اور اقدار کے منافی ہے۔ اگر وہ لکھنا سیکھ لے گی تو وہ مردوں کو خط لکھے گی اور آپ کے خاندان کی عزت کو داغ دار کرے گی‘۔ انہوں نے دادی کو قائل کرلیا کہ وہ اپنی پوتی کو اسکول جانے سے روک دیں اور اس دن کے بعد اس لڑکی کو اسکول میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
وہ لڑکی میری والدہ ہیں۔ انہوں نے میری زندگی میں مجھے یہ کہانی متعدد بار سنائی ہے۔ جب بھی وہ اس حوالے سے بات کرتی ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور بے بسی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ جب بھی میں ان کے بچپن کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ جب ان کے خوابوں کو روندا گیا تب اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے وہ کافی کم عمر تھیں۔ پڑھنا اور لکھنا سیکھ لینے کے بعد کسی مرد کو خط لکھنے کے چھوٹے سے امکان نے ان سے تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق چھین لیا۔
2018ء کے بعد سے ہر سال خواتین کے عالمی دن پر پاکستان کے مختلف شہروں میں عورت مارچ ہوتا ہے جہاں خواتین اور صنفی اقلیتیں جمع ہوتی ہیں اور صنفی بنیاد پر کی جانے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔ اس سال میں عورت مارچ میں ’میں اپنی والدہ کے لیے مارچ کررہا ہوں جنہیں اسکول جانے نہیں دیا گیا‘ کا پلےکارڈ اٹھائے شریک ہوا۔
پھر میں نے اپنی والدہ کی کہانی سے متعلق ٹوئٹر پر لکھا اور میرے ٹوئٹس وائرل ہوگئے۔ مجھے مختلف لوگوں کی جانب سے حوصلہ افزا پیغامات بھی موصول ہوئے جو کہانی سے متاثر ہوئے اور بتایا کہ جس کرب سے میری والدہ گزریں وہ اس سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں۔ یہ ان کروڑوں خواتین کی کہانی ہے جو پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں رہائش پذیر ہیں۔
جب میں نے اپنی والدہ کی کہانی سنائی تب بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں شامل خواتین کی آپ بیتی بھی شیئر کی۔ ان میں سے 2 کہانیوں نے مجھے حیرت میں مبتلا کردیا۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس کی والدہ اپنی والدین کی 5ویں بیٹی تھیں۔ جب وہ پیدا ہوئیں تو ان کے والدین اداس ہوئے اور چونکہ وہ لڑکی تھیں اس لیے ان کی والدہ نے انہیں 2 دن تک دودھ پلانے سے بھی انکار کردیا تھا۔
فیس بُک پر ایک صارف نے کمنٹ کیا کہ جب ان کی والدہ اسکول جانے کی خواہش کا اظہار کرتیں تو ان کا بھائی خودکشی کرنے کی دھمکی دیا کرتا تھا کیونکہ اس کے نزدیک اس کی بہنوں کے لڑکوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کو اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی۔
میں ان کہانیوں کے ذریعے ایک بڑے مسئلے کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔
تعلیم میں صنفی تفاوت
پاکستان کے پرائمری اسکولوں میں ہونے والے داخلوں میں صنفی تفاوت کی شرح بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں لڑکوں کے مقابلے میں 20 لاکھ سے زائد لڑکیاں اسکول جانے سے محروم ہیں۔ ان لڑکیوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے۔ جبکہ لڑکوں سے موازنہ کیا جائے تو کبھی اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد لرکوں کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے پیش کیے جانے والے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس 2022ء کے مطابق اس معاملے میں پاکستان، افغانستان کے بعد دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہے (پاکستان 146 ممالک میں 145ویں نمبر پر ہے)۔ معاشی شراکت اور مواقع کے اشاریے میں پاکستان کو ایک بار پھر دوسرا کم ترین درجہ حاصل ہے جبکہ تعلیم کے حصول کے معاملے پر ہم 146 ممالک میں 135ویں نمبر پر موجود ہیں۔
جب ہم اعلیٰ تعلیم کی بات کرتے ہیں تب ہمارے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2019ء سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والوں میں خواتین کی شرح صرف 12 فیصد ہے جبکہ بنگلادیش میں یہ شرح 20 فیصد اور بھارت میں 30 فیصد ہے۔
تعلیمی اداروں میں داخلے کی کمی اور دیگر عوامل مل کر خواتین میں تعلیم کے حصول اور انہیں بااختیار بنانے کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں 1984ء میں اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگادی گئی تھی۔ بلاشبہ یہ پاکستان میں موجود تمام طالب علموں کے لیے ایک مسئلہ ہے لیکن اس سے سیاسی میدان میں خواتین کی نمائندگی میں غیرمتناسب انداز میں کمی آئی۔
میری والدہ کی کہانی ایک استعارے کی مانند ہے اور یہ اس غیرامتیازی سلوک کی نمائندگی کرتی ہے جس کا بڑے پیمانے پر ہمارے معاشرے کی خواتین سامنا کرتی ہیں۔
ہمیں اپنے ہمسائے سے سبق سیکھنا ہوگا
ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم کے حوالے سے آگہی کے فقدان کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ گزشتہ چند دہائیوں میں ہماری ثقافت میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ جب بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کی جاتی ہے تب ہمیں ضرور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن لوگوں کی بڑی تعداد خواتین میں تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہے، وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون کیسے اپنی نسلوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
ہمارے ملک کو اس وقت زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس سب سے بہترین مثال بنگلادیش کی ہے۔ بنگلادیش نے خواتین کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرنے کے بجائے انہیں پالیسی سازی اور تعلیم کے ذریعے بااختیار بنایا ہے اور انہیں افرادی قوت میں شامل کیا ہے جوکہ معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ملک کو بچانے کے لیے ہمیں ایسے ہی مستقبل کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مستقبل یہاں کی خواتین کا حق ہے۔
ایسی کروڑوں کہانیاں ہیں جن کو کبھی آواز نہیں مل سکی۔ یہ ضروری ہے کہ ایسے افراد کی سرگزشت کو اہمیت دی جائے تاکہ ایک مساوی اور ایک دوسرے سے جوڑنے والی دنیا کا قیام عمل میں آسکے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم اور انہیں بااختیار بنانے پر خصوصی توجہ دے۔
اگر ہم اپنے معاشرے کی تمام خواتین کو تعلیم دیں تو ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے پائیں گے جو انتہاپسندی، تعصب اور بدگمانی سے پاک ہوگا۔ یوں ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے۔
یہ مضمون 18 مارچ 2023ء کو ڈان پرِزم میں شائع ہوا۔
مصنف گرافک ڈیزائنر اور ایک ترقی پسند کارکن ہیں جو ماحولیات، سیاست اور ثقافت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔