• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
شائع March 27, 2023

ہمارے خطے جنوبی ایشیا میں واقع سری لنکا گزشتہ سال اپریل میں معاشی طور پر دیوالیہ ہوا تو پاکستان کے طول و عرض میں اس خبر نے ہیجان برپا کردیا۔ سوشل میڈیا پر سری لنکن عوام کے حکومت مخالف مظاہروں کی پوسٹس چھاگئیں، وزیروں کو ان کی گاڑیوں سے نکال کر گھسیٹنے اور صدارتی محلات پر حملوں کی تصاویر پاکستان میں ’نشانِ عبرت‘بنا کر پیش کی گئیں۔

پاکستان اور سری لنکا کے معاشی اور سیاسی حالات میں کئی لحاظ سے مماثلت کی وجہ سے سری لنکا، پاکستان میں ’ضرب المثل‘ بن چکا ہے۔ اس ملک کے سیاسی و معاشی اتار چڑھاؤ پر پاکستانیوں نے گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔

سری لنکا کو ملنے والا ریسکیو پیکیج

نادہندگی کا شکار ہونے کے تقریباً ایک سال بعد گزشتہ دنوں 20 مارچ کو آئی ایم آیف کی جانب سے سری لنکا کو 3 ارب ڈالر کا ریسکیو پیکج دے دیا گیا ہے جسے سری لنکا کے مالی بحران سے نکلنے کے لیے کلیدی پیش رفت قرار دیا جارہاہے۔ سری لنکا کے نئے صدر رانیل وکرم سنگھے نے بیل آوٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی ہیں جن میں مفرور صدرگوتابیا راجا پاکسے کی حکمران جماعت ’سری لنکا پوڈوجانا پیرا مونا‘ (ایس ایل پی پی) نے ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ سری لنکا کے موجودہ صدر بذات خود پارلیمنٹ میں صرف اپنی ایک واحد نششت رکھتے ہیں۔ وہ 2019ء کے انتخابات ہار گئے تھے۔ ان کی جماعت یونائیٹڈ نیشنل پارٹی الیکشن میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی جبکہ رانیل وکرم سنگھے اپنی پارٹی کو مجموعی ووٹوں کے تناسب سے ملنے والی ایک بونس سیٹ پر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔

نادہندہ قرار دیے جانے کے بعد سری لنکا کی صورتحال کے بارے میں ہم نے سری لنکا کے معروف ہفت روزہ سنڈے ٹائمز کے ڈپٹی ایڈیٹر، سینیئر صحافی امین عزالدین سے فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ سری لنکا نے معاشی بحران سے باہر نکلنے کی راہ کیسے ہموار کی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے ملک کے ’یہ دن دیکھنے‘ کے اسباب کے بارے میں بھی بات کی۔

   امین عزالدین— تصویر: فیس بک
امین عزالدین— تصویر: فیس بک

ایک انڈہ 65 روپے کا

46 ارب ڈالر کے بیرونی قرض کی عدم ادائیگی کے بعد مئی 2022ء میں سری لنکا کو نادہندہ قرار دے دیا گیا۔کولمبو کے رہائشی صحافی امین عزالدین، دارالحکومت میں اس پر آشوب دور کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ہمیں توقع نہیں تھی کہ ملک اس حال کو پہنچ جائے گا، سری لنکا کی 75 سالہ تاریخ کے یہ بدترین دن تھے‘۔

’میں آفس جانے کے لیے صبح سویرے گھر سے نکل کر ’پیٹرول شیڈ‘ پر لمبی لائن میں جاکھڑا ہوتا تھا، اہلیہ مجھے ناشتہ، لنچ کے ساتھ ہی پیک کر دیتی تھیں۔ پیٹرول کے لیے کئی مرتبہ 3، 4 دن تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ایک ماہ تک ہم گاڑی نہیں چلاسکے۔کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ بچوں کے لیے پاؤڈر دودھ دستیاب نہیں تھا (سری لنکا میں تازہ دودھ کی پیداوار ضرورت کے مطابق نہیں ہے، یہ امپورٹ کیا جاتا ہے)، ایک انڈے کی قیمت 65 روپے ہوگئی تھی جو پہلے 13 روپے کا ملتا تھا۔ ڈبل روٹی 100 روپے سے 200 روپے کی ہوگئی تھی۔

   کولمبو میں ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کے طویل قطاریں لگی ہیں— تصویر: اے ایف پی
کولمبو میں ایندھن کے حصول کے لیے گاڑیوں کے طویل قطاریں لگی ہیں— تصویر: اے ایف پی

’گیس ناپید ہوگئی تھی اور ریسٹورنٹ بند ہوگئے تھے، لوگوں کے پاس پیسے ہونے کے باوجود کھانے کو کچھ نہیں مل رہا تھا۔ گیس کی جگہ مٹی کے تیل کا استعمال شروع کیا گیا تو اس کی قیمت بھی 1000 روپے سے 8000 تک پہنچ گئی، کئی لوگ لکڑیاں جلانے پر مجبور ہوگئے مگر اپارٹمنٹس میں رہنے والے یہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔

گیس کے لیے مہینوں کا انتظار تھا، حکومت کہتی تھی جہاز آئیں گے تو گیس ملے گی۔ ہمارے ہاں ’شپ ٹو ماؤتھ‘ کا محاورہ استعمال ہونے لگا تھا۔ ادویات کی قلت ہوگئی تھی۔ بلڈ پریشر، ذیابیطس کی ادویات کی قیمتوں میں 300 گنا اضافہ ہوگیا تھا۔ ڈالر 400 روپےتک فروخت ہورہا تھا۔ ملک کی اس صورتحال میں جبکہ لوگ اپنے بچوں کے لیے دودھ، کھانے پینے اشیا اور مریضوں کے لیے دوا لینے سے قاصر ہوگئے تو صورتحال برداشت سے باہر ہوگئی، پھر عوام کا غیظ و غضب یقینی تھا۔

  لوگ مٹی کے تیل کے حصول کے لیے طویل قطار میں کھڑے ہیں— تصویر: رائٹرز/ فائل
لوگ مٹی کے تیل کے حصول کے لیے طویل قطار میں کھڑے ہیں— تصویر: رائٹرز/ فائل

احتجاج کا آغاز خواتین نے کیا

امین عزالدین بتاتے ہیں کہ ’احتجاج کے لیے سب سے پہلے گھریلو خواتین باہر نکلیں، اس کے بعد لوگوں کا ایک ریلا امڈ آیا، سب گرین چوک پر جمع ہوتے تھے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے تھے۔ یہ احتجاج سیاسی نہیں حقیقت میں عوامی تھا۔ ہم صحافی اگرچہ غیر جانب دار تھے لیکن اس ملک کے شہری بھی ہیں، ہم بھی ہر شام مظاہروں میں شریک ہوتے تھے۔ سری لنکا کے عوام کرپٹ سیاسی نظام سے فوری چھٹکارا چاہتے تھے۔ پاکسے خاندان کئی دہائیوں سے حکومت کررہا تھا۔ 2019ء میں بھی یہ اگرچہ یہ لوگوں کے ووٹوں سے برسراقتدار آئے تھے۔گوٹابایا راجا پاکسے صدر اور ان کے بھائی مہندرا راجا پاکسے، بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے لیکن ان کی متعصب اور ذاتی مفاد پر مبنی پالیسیوں، اقربا پروری اور کرپشن نے سری لنکا کو دیوالیہ کردیا۔ عوام کو احساس ہوگیا تھا کہ انہوں نے غلط انتخاب کیا‘۔

   مظاہرین صدارتی سیکریٹیریٹ میں جمع ہیں— تصویر: رائٹرز
مظاہرین صدارتی سیکریٹیریٹ میں جمع ہیں— تصویر: رائٹرز

امین عزالدین نے بتایا کہ ’جب لوگ پر امن طور پر صدر اور وزیراعظم سمیت ان کے تمام وزرا کے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے تو حکومت نے غنڈہ عناصر کے ذریعے انہیں منتشر کرنا شروع کردیا جس سے پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ صدارتی محل اور منسٹر ہاوسز پر حملے ہوئے۔ ایک سری لنکن وزیر کی عوام کے ہاتھوں ہلاکت بھی ہوئی۔ یہ وزیر بذاتِ خود اچھا شخص تھا لیکن غلط لوگوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مارا گیا۔ سری لنکا کی فوج بھی مظاہرین کو روکنے میں ناکام تھی۔ صدر نے اپنے بڑے بھائی، وزیر اعظم مہندرا راجا پاکسے سے استعفیٰ لے لیا لیکن یہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ لوگ صدر سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

   پولیس اور فوج بھی مظاہرین کو روکنے میں ناکام تھی— تصویر: رائٹرز
پولیس اور فوج بھی مظاہرین کو روکنے میں ناکام تھی— تصویر: رائٹرز

’کوئی اقتدار سنبھالنے کو تیار نہ تھا‘

امین بتاتے ہیں کہ اس گھمبیر صورتحال میں نہ تو صدر کی اپنی حکومتی پارٹی اور نہ ہی اپوزیشن،کوئی بھی وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بالاخر رانیل وکرم سنگھے (سری لنکا کے موجودہ صدر) نے حامی بھری، راجا پاکسے نے انہیں وزیراعظم مقرر کیا تو انہیں بھی عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب راجا پاکسے کے لیے بھی ملک سے فرار ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لوگ ان کے گھر تک پہنچ گئے تھے۔ وہ نیوی کے جہاز میں چھپ کر پہلے مالدیپ پہنچے، پھر سنگاپور چلے گئے اور وہاں سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔

سری لنکا کی مدد کے لیے کون آیا؟

شدید بحران کے دنوں میں سری لنکا کی مدد کے لیے بیرونی دنیا سے کون آیا؟ اس سوال کے جواب میں امین عزالدین نے بتایا کہ ’اقوام متحدہ اور بھارت سب سے پہلے مدد کے لیے آئے۔ اقوام متحدہ نے ایمرجنسی میں خوراک، ادویات اور اسکول بسوں وغیرہ کے لیے ایندھن کی فراہمی شروع کی۔ بھارت نے تقریباً 3 ارب ڈالر قرض پر تیل فراہم کیا اس کے علاوہ فرٹیلائزرز، توانائی اور دفاع کے شعبوں کے لیے بھی قرض فراہم کیا گیا۔

’یورپی یونین اور پیرس کلب نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غریب طبقے اور حاملہ خواتین کے لیے خوراک سمیت دیگر ضروری اشیا فراہم کیں۔امریکا ،جاپان اور چین نے بھی مدد کی تاہم چین نے ہماری توقعات کے برعکس حکمت عملی اپنائی۔ چین نے کہا وہ ہمیں مزید قرض دے گا لیکن سری لنکا قرض واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، چنانچہ قرض لینے سے منع کردیا گیا۔ چین نے فی الحال 2 سال تک سری لنکا کے ذمے واجب الادا قرض مؤخر کیا ہے۔ پاکستان نے دفاع کے لیے 5 کروڑ ڈالر قرض دیے‘۔

ملک بحران سے کیسے باہر نکلا؟

سری لنکن صحافی نے ہمیں بتایا کہ ’اندرونی طور پر صدر رانیل وکرم سنگھے نے ایسے کئی اقدامات کیے جن کی بدولت، خوراک، ایندھن اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا شکار عوام کو کسی حد تک ریلیف ملا۔ صدر وکرم سنگھے کی ایما پر انٹرنیشنل لا فرمز لازارڈ اور کلیفورڈ چانس کی خدمات حاصل کیں۔ ان فرمز نے ارجنٹائن کے دیوالیہ ہونے کے بعد اس کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی تھی۔ ان فرمز نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ڈونر ایجنسیوں سے لابنگ کرکے سری لنکا کو قرض کی ادائیگی کے لیے وقت لے کر دیا‘۔

’سری لنکا کے بونڈز کو انشورنس کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کیا گیا۔ حکومت نے دوطرفہ قرض کے لیے اسپین، بھارت، چین اور یورپی یونین سے مدد حاصل کی۔ صدر نے اندرونی سطح پر ہنگامی مالی اقدامات کیے، فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کیا اور ان کی تمام شرائط مان لی گئیں جن میں سبسڈی کا خاتمہ اور سری لنکن ایئر لائن سمیت دیگر کمپنیوں کو پرائیوٹائز کرنا شامل ہے۔

’اس سے پہلے راجا پاکسے کی حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اس ادارے کی عائد کردہ اسکروٹنی کی سخت شرائط پر عمل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہیں آڈٹ میں بتانا پڑتا تھا کہ بین الاقوامی امداد کہاں خرچ کی۔ راجا پاکسے 2015ء کا الیکشن ہار چکے تھے، 2019ء کا الیکشن جیتنے کے لیے انہوں نے اپنی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ ٹیکسوں میں چھوٹ دیں گے۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے ٹیکسوں میں اتنی چھوٹ دی کہ حکومت کے ریونیو میں 800 ارب تک کمی واقع ہوگئی۔ تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی تو حکومت نے نوٹ چھاپنے شروع کردیے۔ ملک میں گزشتہ 70 سال میں جتنے نوٹ نہیں چھاپے گئے اتنے پاکسے برادران کے دور میں ایک سال میں چھاپ دیے گئے۔ اس سے افراط زر بڑھ گئی۔

’حکومت نے مرکزی بینک کو بھی سیاسی کردیا تھا اور وہ ان کا ایجنٹ بن گیا تھا، ملکی مفاد کی بجائے ان کی ہدایات پر کام کر تا تھا۔ انہوں نے ڈالر کی قیمت 200 روپے پر فکس کردی جبکہ اوپن مارکیٹ میں یہ 300 سے لے کر 400 تک میں فروخت ہورہا تھا۔ بلیک مارکیٹ کو فروغ ملا تو حکومت مزید بحران میں آگئی۔ اسی دوران انہوں نے کیمیکل اور زرعی مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کردی جس سے ملک میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا۔

پاکسے خاندان کا سفر، مقبولیت سے نفرت تک

امین عزالدین نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر سری لنکا کی تاریخ میں پاکسے خاندان عوام میں بے حد مقبول بھی رہا اور اسے انتہا درجے کی نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن کے ذریعے مہندرا راجا پاکسے نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔ 2004ء سے لے کر 2015ء تک وہ صدر، وزیر خزانہ اور وزیراعظم کی مختلف حیثیتوں میں اقتدار میں موجود رہے۔ 2 مرتبہ صدر رہنے کے بعد انہوں نے آئین ہی تبدیل کردیا اور غیر معینہ ادوار تک صدارتی انتخاب لڑنے کا اختیار حاصل کرلیا تاہم 2015ء میں وہ الیکشن ہار گئے۔

2019ء میں ان کے چھوٹے بھائی گوٹابایا پاکسے صدر منتخب ہوگئے تو انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو دوبارہ وزیراعظم مقرر کردیا۔ 2019ء کے بعد 2022ء تک کے اقتدار کے 3 سالوں میں پاکسے خاندان نے زوال کا سفر نہایت تیزی سے طے کیا، یہاں تک کہ عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بننے کے بعد انہیں نہ صرف طویل اقتدار بلکہ ملک بھی چھوڑنا پڑا۔

   سری لنکا کے سابق صدر گوٹوبایا پاکسے— تصویر: فائل فوٹو/ اے ایف پی
سری لنکا کے سابق صدر گوٹوبایا پاکسے— تصویر: فائل فوٹو/ اے ایف پی

امین کے مطابق پاکسے خاندان نے نسل پرستی کی پالیسی سے اپنی سیاست کو فروغ دیا۔ سری لنکا کی 70 فیصد آبادی سنہالی ہے۔ پاکسے برادران سنہالی ہونے کی بنا پر اکثریت کے مفاد میں پالیسیاں بناتے تھے۔ تاہم تامل، عیسائی اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات نے ان کی اقتدار سے بے دخلی کی راہ ہموار کی۔ خصوصاً 2019ء کے ایسٹر بم دھماکوں کے بعد (جن میں 3 چرچ اور 2 ہوٹلوں کو تباہ کیا گیا تھا، 46 غیر ملکیوں سمیت 300 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ سری لنکا کی سیاحت کو اس حادثے نےبہت متاثر کیا) گوٹابایا پاکسے نے مسلم مخالف پالیسیوں کو فروغ دیا۔

اسلاموفوبیا کا شکار ہوکر سری لنکا کی تمام مسلم آبادی کو دہشت گرد سمجھ کر نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ امین کے مطابق ’ذاتی طور پر مجھے اپنی فیملی کی باحجاب خواتین کے ساتھ کئی مرتبہ عوامی مقامات پر نفرت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ مسلمان تحفظ کی خاطر اپنی خواتین کو حجاب کے استعمال سے خود روکنے لگے‘۔

امین عزالدین نے بتایا کہ کورونا کے دوران گوٹابایا پاکسے حکومت نے مسلمانوں کے میتیں دفنانے پر پابندی عائد کردی اور انہیں جلانے کے احکامات دیے۔ اس پر شدید ردعمل ہوا۔ مسلمانوں نے عالمی ادارہ صحت، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر مسلم ممالک سے رابطے کرکے اس پابندی کو ختم کروایا۔

مالی طور پر نقصان دہ اورملک کی بجائے ذاتی مفاد میں اپنائی گئی پالیسیوں نے بالآخر ملک کی اکثریتی سنہالی آبادی کو بھی پاکسے خاندان سے برگشتہ کردیا اورتاریخ میں پہلی بار سری لنکا کی نادہندگی کے ذمہ دار ہونے کی بنا پر عوام کے غیظ وغضب نے انہیں ملک سے دربدرکردیا۔

   سری لنکا کے سابق صدر گوٹابایا پاکسے (دائیں) اور ان کے بھاءی، سابق وزیر اعظم مہندرا پاکسے (بائیں)— تصویر: اے ایف پی
سری لنکا کے سابق صدر گوٹابایا پاکسے (دائیں) اور ان کے بھاءی، سابق وزیر اعظم مہندرا پاکسے (بائیں)— تصویر: اے ایف پی

ایک سیٹ کا حامل صدرِ مملکت

امین عزالدین نے بتایا کہ موجودہ صدر وکرم سنگھے کے متعلق بھی یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ حالیہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے وہ انتہائی غیر مقبول تھے۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے بھی 6 مرتبہ سری لنکا کے وزیراعظم رہ چکے ہیں لیکن بعد ازاں ان کی جماعت یونائیٹڈ نیشنل پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر 2 حصوں میں بٹ گئی نتیجتاً 2019ء کے الیکشن میں ان کی پارٹی ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی۔ جبکہ رانیل وکرم سنگھے جماعت کے عہدیدار ہونے کی بنا پر بونس میں ایک نشست حاصل کر پائے تھے۔

   سری لنکن صدر رانیل وکرم سنگھے— تصویر: رائٹرز
سری لنکن صدر رانیل وکرم سنگھے— تصویر: رائٹرز

امین عزالدین کہتے ہیں کہ ’وکرم سنگھے صحیح وقت میں سری لنکا کے ’مرد بحران‘ ثابت ہوئے۔ انہوں نے اگرچہ کئی سخت اور غیر مقبول فیصلے کیے مگر عوام اب اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ملک کو بحران سے نجات دلانے میں کامیاب ہوں گے۔ وکرم سنگھے جو عوام کے ووٹ کی بجائے پارلیمنٹ کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں، معیشت کی بحالی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔

مشکل مگر برمحل فیصلے

سری لنکا میں پیٹرول کا ہفتہ وار راشن سسٹم شروع کیا گیا ہے۔ امین نے بتایا کہ گاڑیوں کے لیے ہفتہ وار 20 لیٹر، آٹو رکشہ کے لیے 5 لیٹر، موٹر سائیکل کے لیے 4 لیٹر اور پبلک ٹرانسپورٹ بسوں کے لیے 50 لیٹر دستیاب ہے۔ راشن سسٹم کی بدولت حکومت نے اپنا ایندھن کا بل 40 فیصد تک کم کرلیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط مان لینے کے بعد ورلڈ بینک سے گھریلو استعمال کی گیس کی سہولت بھی مل گئی ہے۔ بجلی کی ترسیل میں بھی بہتری ہوئی ہے۔گزشتہ سال دن میں 5 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی، پھر ڈھائی گھنٹے کر دی گئی، بجلی کے نرخ بڑھا کر 50 سے 70 روپے فی یونٹ کردیے گئے ہیں، صنعتوں کے لیے جو کنکشن 3 سے 4 ہزار روپے میں دستیاب تھے انہیں 10 سے 12 ہزار روپے میں کردیا گیا ہے تاہم بجلی کی قیمت میں 66 فی صد کے اضافے کے بعد اب لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔

حکومت نے اپنے اخراجات بھی کم کیے ہیں، وزرا بزنس کی بجائے اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، ان کے روزانہ الاؤنس میں 50 فیصد کمی کی گئی ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کمی نہیں کی البتہ انکریمنٹ اور اوور ٹائم کی ادائیگی بند کردی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پروفیشنلز کی تنخواہوں پر 36 فیصد ٹیکس لازمی کردیا گیا ہے جو کہ 2 سال پہلے 15 فیصد تھا۔

امین نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے حالیہ 3 ارب ڈالر کے معاہدے کے بعد سری لنکا کے معاشی بحران سے باہر نکلنے کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ڈالر کا بحران بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔گزشتہ ماہ ڈالر 370 روپے کا تھا اس ماہ 320 تک آگیا ہے۔ معاہدے کے بعد مزید کم ہوگا۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے، انڈہ اب 53 روپے میں دستیاب ہے۔ امین عزالدین کے مطابق صدر وکرم سنگھے نے کہا تھا کہ ’پاپولر فیصلے، بعض اوقات درست فیصلے نہیں ہوتے، میں مشکل فیصلے کروں گا جو درست ثابت ہوں گے‘۔

ایک بحران کے دوران منتخب کیے گئے سری لنکا کے صدر اپنے ملک کو، جس کے ذمے کل 84 ارب کا قرض واجب الادا ہے، نادہندہ کی فہرست سے نکالنے میں کوشاں ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال چشم کشا ہے۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔