1973ء کے آئین کی گولڈن جوبلی: ’دستور میں ہی ملک کی بقا ہے‘
’حزب اختلاف اور حکومت میں سمجھوتے کے بعد سنگین بحران ختم ہوگیا‘، ’قومی اسمبلی نے پاکستان کامستقل آئین منظور کرلیا‘، پاکستان کا نیا آئین جمہوری، وفاقی، اسلامی اور عوامی امنگوں کا آئینہ دارہے’۔
آج کے دن، 10 اپریل 1973ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک کا پہلا متفہ آئین منظور کرلیا تھا۔ اگلے روز تمام اخبارات میں مندرجہ بالا خبریں، شہ سرخیوں کا موضوع بن گئی تھیں۔ قیام پاکستان کے 25 سال بعد تشکیل دیے گئے آئین سے قوم نے امیدیں باندھ لی تھیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے وجود میں آنے والا دستور ملک کو ایک روشن مستقبل کی راہ دکھائے گا۔
ملک کے تیسرے آئین میں پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ حکومت کے سربراہ، وزیراعظم کو مقرر کرے جبکہ اس عہدے کو ملک کے ایگزیکٹیو کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے، نئے آئین میں بھی گزشتہ برسوں میں پیش کیے گئے 2 آئینی مسودوں کی طرح بنیادی حقوق، آزادی اظہار رائے جبکہ اضافی طور پر مذہب، پریس، تحریکوں، ایسوسی ایشن کی آزادی، زندہ رہنے اور اسلحہ رکھنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگر آزادیاں دی گئیں، آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا، جسے انتظامی حوالے سے 4 صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔
اس کے علاوہ مذکورہ آئین کی نمایاں خصوصیات میں پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وزیراعظم کو ملک کا سربراہ قرار دیا جانا، اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا جانا، صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا، آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا لازمی قرار دینا، اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینا، عدلیہ کی آزادی کی ضمانت، عصمت فروشی سمیت دیگر غیر اخلاقی معاملات پر پابندی اور عربی زبان کو فروغ دینا وغیرہ شامل ہیں۔
آج 50 سال بعد جب ملک کے آئینی ادارے آپس میں دست و گریبان ہیں، اقتدار اور اختیارکی حدود کی تشریح لاینحل ہوگئی ہے، حکومت اور اپوزیشن میں سرپھٹول جاری ہے، عوام معاشی بدحالی سے نڈھال ہیں اور آئین بنتے دیکھنے والی شخصیات دل گرفتہ ہیں تو ’ فیضؔ’ یاد آتے ہیں کہ
پاکستان کی داغ دار آئینی تاریخ جو 1956ء اور 1962ء کے متنازع دساتیر کا پس منظر رکھتی ہے، بصد مشکل 1973ء کے جمہوری آئین کا رخ دیکھ پائی۔ سیاست دانوں کی ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں ملک اس نہج پر پہنچا تھا۔ آئین کی تیاری کے دوران کیا مسائل درپیش تھے،کیسے انہیں حل کیا گیا اور آئین پر کڑے وقت کیسے گزرے اس کے متعلق ہم نے اس عہد کی شخصیات جو آئین کی تاریخ کا مشاہدہ رکھتی ہیں ان سے گفتگو کی ہے۔
120 دن کا ہدف
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اراکین میں شامل، جہان دیدہ سیاستدان تاج حیدر نے آئین کی تیاری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’یحییٰ خان اقتدار میں آئے تو دستورکی بحالی کے مطالبہ ماننے کی بجائے انہوں نے نئے آئین کی تیاری کا حکم دیا۔ انہوں نے آئین بنانے کے لیے 120 دن دیے تھے، اگر اس دورانیے میں آئین نہ بنتا تو اسی پی سی او کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جاتی۔
’ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت یہ کہا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی دونوں مرکزی جماعتیں (پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ) مل کر مسودہ قانون تیار کریں گی۔ انہوں نے کہا جب تک ہم متفق نہیں ہوتے، اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا جائے یا 120 دن کی مہلت ختم کردیں۔
’شیخ مجیب الرحمٰن نے جلسہ عام میں 6 نکات دیے اور کہا کہ انہیں مانا جائے وہ اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں تھے، بھٹو ان سے مذاکرات کے لیے دو مرتبہ مشرقی پاکستان گئے لیکن مجیب یہاں آنے پر بھی تیار نہیں تھے۔ یوں آئین پر ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا‘۔
’اسمبلی وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے نہیں بلکہ آئین سازی کے لیے بنائی گئی تھی۔ یحییٰ خان نے بھٹو کی بات نہ مانی اور اجلاس کی تاریخ دے دی جس کا ذوالفقار علی بھٹو نے بائیکاٹ کیا اور کہا کہ اجلاس میں کوئی ممبر نہیں جائے گا اور اپنی شرائط رکھ دیں۔ یحیی خان نے اس پر ملٹری ایکشن لے لیا اور متحدہ پاکستان میں آئین سازی کا عمل ناکام ہوگیا۔ یحییٰ نے 120 دن کی شرط رکھی ہی اس لیے تھی کہ وہ جانتے تھے اس عرصے میں آئین نہیں بن سکے گا۔ اے آر صدیقی نے حال ہی میں یحییٰ خان پر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک میٹنگ کے دوران یحییٰ نے کہا تھا کہ ہماری حکومت 14سال تک رہے گی‘۔
بھٹو نے مارشل لا اٹھانے کی شرط رکھ دی
تاج حیدر نے کہا کہ یحییٰ خان نے 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار بھٹو کے حوالے کیا تو انہوں نے اس وقت مارشل لا کے تحت حلف اٹھایا کیونکہ اس وقت قانون یہی موجود تھا۔ جیسے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد انڈین ایکٹ 1935ء کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب ایڈمنسٹریٹر بن گئے تو تمام جماعتوں سے کہا کہ آئیں ایک عبوری آئین پر بات کرتے ہیں، آئین منظور کریں اور میں مارشل لا اٹھاتا ہوں۔ بھٹو کی یہی سیاست تھی کہ انہوں نے دیگر پارٹیوں سے یہ منوالیا اور 4 ماہ کے اندر ہی عبوری آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا جسے دیگر جماعتوں نے منظورکیا اور بھٹو کو لکھ کر پیش کش کی کہ حالات ایسے ہیں، آپ ڈیڑھ سال تک حکومت چلائیں۔ اس کے بعد بھٹو نے مستقل آئین بنانے پر کام شروع کردیا۔
’بھٹو رسک لینا نہیں چاہتے تھے‘
تاج حیدر نے کہا کہ پاکستان میں جب آئین سازی پر کام شروع ہوا تو بھٹو کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا اور ایک متفقہ آئین بنانا چاہتے تھے۔ بھٹو صدارتی نظام چاہتے تھے لیکن دیگر جماعتوں کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام ہو۔ بھٹو نے اسے تسلیم کرلیا۔ انہوں نے اس فورم کو عام کھول دیا اور کہا کہ اس پر بحث ہونی چاہیے۔ قومی سطح پر گفتگو، سیمینار، میٹنگز ہونے لگیں جس میں سب اظہارِ خیال کرتے تھے۔
رجعت پسند بمقابلہ ترقی پسند
تاج حیدرکہتے ہیں کہ ’آئین کی تیاری کے دوران دو بڑے چیلنج یہ سامنے آئے کہ ایک طرف تو اسلامی جماعتوں کا مؤقف تھا دوسری طرف ہمارا (پیپلز پارٹی) ان سے مختلف اس لحاظ سے تھا کہ ہم اسلام کی ترقی پسند تشریح کرتے تھے۔
’دوسرا صوبائی خودمختاری کا معاملہ تھا جس پر اتفاقِ رائے نہیں ہورہا تھا بلکہ اپوزیشن پارٹیوں نے بات کرنے سے ہی انکار کردیا تھا۔ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر ولی خان اپوزیشن کی توانا آواز تھے‘۔
تاج حیدرنے کہا کہ ’بھٹو صاحب نے یہ کہا کہ جیسے بھی ہو اپوزیشن سے بات چیت ضرور ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنے کچھ لوگوں کو ٹاسک دیا کہ اپوزیشن رہنماؤں کو میز پر لے آئیں انہیں رام کرنا میرا کام ہے۔ اس میں میر غوث بخش بزنجو آگے بڑھے اور ایک دن بغیر کوئی وقت مقرر کیے وہ اچانک پروفیسر غفور احمد اور ولی خان کو بھٹو کے پاس لے آئے۔ اب وزیر قانون حفیظ پیر زادہ کو بلایا گیا تو وہ کہیں غائب تھے، ان کی تلاش شروع ہوئی اور 3 گھنٹوں بعد وہ مل سکے۔ بات چیت شروع ہوئی تو ذوالفقار علی بھٹو نے پوری لچک دکھائی اور کہا ٹھیک ہے تمام اسلامی دفعات شامل کرتے ہیں۔ بھٹو اگر یہ نہ مانتے تو خطرہ تھا اس سے ملک میں انتشار پھیلتا۔
’صوبائی خودمختاری کے بھی کئی امور طے کرلیے گئے۔ بھٹو نے تجویز دی کہ اس کا 10 سال بعد دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔صوبائی خود مختاری کا معاملہ پاکستان دولخت ہونے سے بہت حساس ہوگیا تھا۔ بہت سے گروپ کام کررہے تھے اور صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ غیر ملکی طاقتوں کا بڑا عمل دخل تھا۔ اپوزیشن نے ان کی بات مان لی۔ تاج حیدر نے کہا ’اس وقت کوئی عمران خان نہیں تھا، دونوں طرف سمجھ دار لوگ تھے جنہوں نے لچک دکھائی۔ اس طرح ایک متفقہ مسودہ قانون سامنے آیا جس پر بعد میں سب اراکین اسمبلی نے دستخط کر دیے‘۔
ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کے بعد جو آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں مولانا شاہ احمد نورانی، غوث بخش بزنجو، پروفیسر غفور احمد، ولی خان، مولانا مفتی محمود، حفیظ پیر زادہ یہ سب شامل تھے، بھٹو اس کمیٹی کے صدر تھے۔
رضا ربانی جب سینیٹ کے چیئرمین بنے تو انہوں نے اس تاریخ ساز کمیٹی کی یادگار کے لیے آرٹس کونسل سے اس میٹنگ کی مجسمہ سازی کروائی، یہ اتنا اچھا کام ہوا ہے کہ تمام رہنماؤں کے مجسمے میٹنگ کرتے ہوئے دیکھ کر یہ منظر آنکھوں کے سامنے زندہ جاوید محسوس ہوتے ہیں۔
اسمبلی میں گرما گرمی کا ماحول
ممتاز صحافی،کالم نگار اور اینکر سجاد میر 1973ء میں ہفت روزہ ’زندگی‘ کے ایڈیٹر تھے۔ وہ اس وقت بھی اسمبلی میں رپورٹنگ کے لیے موجود تھے جب بھٹو دور میں عبوری دستور بنا اور 1973ء کے آئین کی منظوری بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔
آئین سازی کے تاریخی مراحل کے متعلق اپنے مشاہدات و تاثرات بیان کرتے ہوئے سجاد میر نے کہا کہ ’آئین کی تیاری کے دوران ہم اسمبلی میں گرما گرم بحثیں دیکھتے تھے۔ اراکین جمہوری انداز میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں نے آئین کی تیاری میں دن رات ایک کردیے تھے۔ بھٹو کی ٹیم، خاص طور پر پیرزادہ اور دوسری جانب پروفیسر غفور، مولانا شاہ احمد نورانی اور مفتی محمود نے بے انتہا کام کیا۔ اس آئین کی تیاری کا کریڈٹ تمام جماعتوں کو جاتا ہے۔
ایک سال کی آئینی جنگ
سجاد میر کہتے ہیں کہ دستورکی تیاری کے لیے ایک سال تک سخت جنگ جاری رہی۔ ایک طرف جمہوری قوتیں تھیں اور دوسری طرف اقتدار میں رہنے والی قوتیں تھیں۔ اختلاف اس پر تھا کہ بھٹو دستور کو آمرانہ انداز میں صدارتی طرز پر چاہتے تھے، اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی جمہوری نظام چاہتی تھیں۔ بھٹو کہتے تھے کہ پہلی اسمبلی جو بنے گی اس میں وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے ہوگی، اس کے بعد دوسری اسمبلی سے سادہ اکثریت کا اصول رائج ہوگا۔
بھٹو کی کوشش تھی زیادہ تر اختیارات وزیراعظم کے پاس ہوں، دوسری جماعتوں کی کوشش تھی کہ ایک جمہوری دستور بن جائے۔ لوگوں کو اسمبلیوں سے اٹھا کر باہر بھی پھینکا گیا مگر وہ لوگ ڈٹے رہے۔ بالاخر ایک متفقہ دستور پاس ہوگیا۔
اسلامی دفعات
سجاد میر نے کہا ’اسلامی دفعات پر اس دستور میں بہت بحث ہوئی۔ پاکستان کا پہلا دستور ’اسلامی جمہوریہ‘ کے نام سے بنا تھا اس دستوریہ کے بعد کوشش کی گئی کہ ’اسلامی‘ کا لفظ نکال دیا جائے اور ایوب خان نے دوسرے دستور میں اسے ’جمہوریہ پاکستان‘ کردیا۔ اس پر سب سے پہلے مولانا صلاح الدین صاحب نے اعتراض کیا۔ مولانا ادبی دنیا کے ایڈیٹر اور بہت پائے کے ادیب تھے۔ انہوں نے حمایت الاسلام کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دستور اسلامی جمہوریہ کے نام سے ہونا چاہیے۔ جب یہ دستور اس نام سے بنا تو روزنامہ نوائے وقت نے ’ادیب کی جیت‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا‘۔
سجاد میر کہتے ہیں ’بھٹو چاہتے ہوئے بھی 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات کو نظر انداز نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اس وقت اتنی طاقتیں موجود تھیں جو دستور کی غیر اسلامی تشکیل کو روک سکتی تھیں۔ بھٹو خود بھی یہ بات جانتے تھے کہ اسے اسلامی جمہوریہ قرار دیے بغیر چارہ نہیں۔ اسلام اور سوشلزم کی کوئی لڑائی نہیں تھی، بھٹو اسے سیاسی طور پر استعمال کر رہے تھے، وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کے بغیر کوئی دستور نہیں بن سکتا۔ پھر دستور بنا اور چلتا رہا‘۔
دستور کی تیاری اور میڈیا کا کردار
تاج حیدر کے مطابق بحث کے لیے ٹی وی، ریڈیو کے پروگرام شروع کیے گئے۔ پی ٹی وی پر مجوزہ آئین پر گفتگو سے متعلق ایک پوری سیریز چلی تھی، فرہاد زیدی اس پروگرام کے میزبان تھے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے وہ انٹرویو کرتے تھے اور آئین کے ڈرافٹ پر ان کے جو بھی اعتراضات تھے وہ ٹی وی پر سنے جارہے تھے۔
آئین کی تیاری کے دوران اس وقت میڈیا کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے سجاد میر نےکہا کہ ’میڈیا رائٹ اور لیفٹ میں بٹا ہوا تھا، اس وقت ان دونوں نظریات کی جنگ تھی اور اس لڑائی کے بانی ذوالفقار بھٹو ہی تھے تاہم اس وقت سیاست اور صحافت میں اختلاف شائستگی سے کیا جاتا تھا‘۔
سب سے پہلے بھٹو نے ترامیم کیں
سجاد میر نے کہا کہ ’بھٹو کا مزاج آمرانہ تھا۔ بھٹو نے دستور منظور ہونے کے بعد انسانی حقوق معطل کردیے اور ایک سال کے دوران ہی آئین میں ترامیم شروع کردیں۔ انہوں نے 7 ترامیم کیں، پھر ضیا الحق نے 8ویں ترمیم کرڈالی۔ 18ویں ترمیم اتفاقِ رائے سے مشرف کے مارشل لا کے بعد ہوئی ہے۔ دستور ان مراحل سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے اگرچہ یہ ایک قدرتی عمل ہے مگر بہت سی ترامیم نظریہ ضرورت کے تحت ہوئی ہیں جو شاید اس وقت کی حکومت کی نیت بھی نہیں تھی۔ مثلاً کبھی یہ کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 4 سال ہوگی، کبھی یہ کہ صدر مملکت اسمبلی توڑ سکتا ہے یا اراکین اسمبلی پارٹی بدل سکتے ہیں وغیرہ۔
سجاد میر کہتے ہیں کہ ’ترامیم سے دستور بدل گیا ہے، پہلے 8 ویں ترمیم نے حلیہ بگاڑا، 18ویں ترمیم کے ذریعے سیاستدانوں نے خود صوبائی خودمختاری کے نام پر دستور تبدیل کردیا ہے۔ جو طالع آزما آتا ہے وہ آئین کو اپنے اقتدار کے لیے توڑ مروڑ لیتا ہے‘۔
’آئین سے بحیثیت طالبعلم ہمارا تعارف‘
قانون دان، انسانی حقوق کے ایکٹوسٹ، سماجی وسیاسی تجزیہ کار اور ادارہ برائے سماجی انصاف کے ڈائریکٹر پیٹر جیکب بتاتے ہیں کہ ’میں اسکول کا طالب علم تھا جب 1973ء کا آئین منظور ہوجانے کا ذکر ہم نے خبروں میں سنا۔ اس سے پہلے 1971ء کی جنگ ہوئی۔ اس نے بچے بڑے سب ہی کے ذہنوں کو متاثر کیا۔ ہم خبروں میں سنتے تھے کہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا لیکن کورس کی کتابوں میں مشرقی پاکستان کا جغرافیہ، وہاں کی صنعتیں اور بود وباش کے متعلق پڑھتے تھے، کتابوں سے پاکستان کے اس حصے کو علیحدہ ہونے میں وقت لگا۔ یہ بات ہم پر بعد میں واضح ہوئی کہ 1971ء کے بعد ہمارے ہاں جتنی بھی پالیسیاں بنیں یا آئین بنا اس پر سقوط ڈھاکا کے اثرات اور ردعمل نمایاں ہیں، اس دور میں نئی شناخت اور قومی سلامتی کا گہرا ادراک پایا جاتا تھا‘۔
پیٹرجیکب نے کہا کہ ’آئین بننے کے بعد ہمارے زمانہ طالب علمی میں ہی اس میں ترامیم شروع ہوگئی تھیں۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی مختلف شقوں اور ترامیم کو ہم نے بحیثیت طالب علم براہ راست اپنے اوپر اثر انداز پایا۔ بھٹو دور کی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکول قومیا لیے گئے تو ہمارا اسکول بھی پرائیویٹ سے گورنمنٹ میں تبدیل ہوگیا۔ نویں جماعت میں گئے تو آئین کے آرٹیکل 31 کے تحت اسلامیات لازمی مضمون بن چکا تھا۔ ہمارا اسکول پہلے چرچ کے زیر انتظام تھا، اسلامیات پڑھنا ہمارے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ یہ مسلمان بچوں کے لیے لازمی کیا گیا تھا لیکن غیر مسلم طالب علموں کے لیے کوئی متبادل مضمون نہیں تھا اس لیے ہم نے بھی اسلامیات پڑھی۔
آئین کی طاقت اس کی کمزوری؟
پیٹر جیکب دو مارشل لا اور 25 ترامیم کے باوجود آئین کے برقرار رہنے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ضیا الحق اور مشرف دونوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے آئین کو معطل کیا، اس سے پہلے فوجی آمروں کی طرح منسوخ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ آئین میں ترامیم کرکے کام چلایا جاسکتا ہے تو انہوں نے اپنے طرز پر اس کوڈھال لیا‘۔
پیٹر جیکب کے مطابق ’یہ آئین کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے یہ بچا ہوا ہے۔ اس بات کا سپریم کورٹ میں بھی ذکر ہوچکا ہے جب ججز اپائنٹمنٹ کیس آیا تھا تو اس کیس کا بھی تذکرہ ہوا۔ اس وقت کے وزیر قانون نے دلیل دی کہ آئین ایک کمزور دستاویز ثابت ہوا ہے اور جمہوریت اور حقوق کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ انہوں نے یہ قرار دی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس میں سوشلزم کا عنصر بھی ڈالا ہے اور اسلام کو بھی استعمال کیا، آئین میں دو متضاد قسم کے لیگل فریم ورک موجود ہیں۔
آئین اور پاکستان کی مذہبی اقلیتیں
پیٹر جیکب نے کہا کہ آئین پر ایک اعتراض یہ ہے کہ ’اس میں بنیادی اسٹرکچر طے ہی نہیں کیا گیا جیسے کہ بھارت کے آئین میں بیان کیا گیا ہے اسی بنا پر عدالت کی تشریح پر اعتراضات آتے ہیں کہ آئین میں جو امر موجود نہیں وہ تشریح میں آجاتا ہے‘۔
پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ ’مذہبی اقلیتوں کے متعلق آئین میں کئی متضاد شقیں ہیں، مثلاً آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں تو پھر مختلف عہدوں کی مذہبی لحاظ سے تخصیص کیسے ہوسکتی ہے؟
’آئین کے آرٹیکل 31 کے تحت اسلامیات کی تعلیم لازمی ہے اور آرٹیکل 22 کے مطابق کسی بچے کو اس کے عقیدے کے مخالف تعلیم نہیں دی جائے گی، اسلامیات کا متبادل غیر مسلموں کے لیے اخلاقیات کا مضمون ہے لیکن تاریخ، اردو اور انگلش میں اسلامیات سے متعلقہ مضامین غیر مسلم طالب علموں کو بھی لازمی پڑھنے پڑتے ہیں اور اس کا امتحان بھی دیتے ہیں۔
’آرٹیکل 28 تک آئین میں بنیادی حقوق بیان ہیں لیکن اس کے بعد کی شقیں ان وعدوں کو پورا نہیں کرتیں۔ 8ویں ترمیم کے آرٹیکل 203 ای کے مطابق فیڈرل شریعت کورٹ میں غیر مسلم وکیل پیش نہیں ہوسکتا جبکہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے ملک کے تمام شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں۔
’آرٹیکل 36 اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس سے پہلے لفظ ’جائز‘ استعمال کیا گیا ہے وہ ان حقوق کے جائز ہونے کی شرط عائد کرتا ہے۔ حقوق بھی کبھی ناجائز ہوتے ہیں؟
’حق کی تعریف یہ کہ قانون اسے تسلیم کرتا ہے ان کی پریکٹس میں شرائط لگائی جاتی ہیں۔ جب کورٹ یا دیگر اس کی تشریح کریں گے تو وہ کسی بھی چیز کو جائز یا ناجائز قرار دے سکتے ہیں۔ جب قانون اپنی اصولی خلاف ورزی کرتا ہے تو لاقانونیت کا راستہ کھول دیتا ہے۔ اسی طرح آئین پر حلف اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے، غیر مسلم اراکین بھی اسی پرحلف اٹھاتے ہیں۔ آئین میں تضادات اسے کمزور اور اس کا نفاذ مشکل بناتے ہیں‘۔
آئین کی مذہبی اقلیتوں کے لیے موافق خصوصیات کے سوال پر پیٹر جیکب نے کہا کہ ’آرٹیکل 20 کی جیلانی ججمنٹ میں بہت خوب تشریح کی گئی ہے۔ تمام شہریوں کے ساتھ غیر مشروط طور پر عقیدے کے احترام کو فروغ دیا گیا ہے‘۔
18ویں ترمیم کے تحت مذہبی اقلیتوں کو سینیٹ میں نمائندگی دی گئی ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ پیٹر جیکب نے کہا ’آئین کی کمزوریوں کے باوجود ہم اس بات پر خوش اور مطمئن ہیں کہ ملک کا نظام چلانے کے لیے ہمارے پاس آئین موجود ہے اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ گولڈن جوبلی کے موقع پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ آئین اگر ریاست کو چلانے، جمہوریت کو بچانے اور حقوق کے نفاذ میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا تو غیر مساوی عوامل کو درست کرنا ہوگا‘۔
ایک امید افزا ماحول
شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کی سابق چیئرپرسن پروفیسر شاہدہ قاضی نے 1966ء میں ڈان سے اپنا صحافتی کیریئر شروع کیا، 1968ء میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن میں بحیثیت نیوز پروڈیوسر تعینات ہوئیں۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کے آئینی بحران کے دور کو یاد کرتے ہوئے شاہدہ قاضی نے نے بتایا کہ ’پہلا آ ئین جو 1956میں بنا صرف 2 سال چل سکا۔ ایوب خان نے مارشل لا نافذ کردیا تو 1962ء میں صدارتی آئین بنایا جس میں سارے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ 1973ء کے آ ئین میں دوبارہ پارلیمانی نظام رائج کیا گیا۔
1973ء میں جب آئین بنا تو اس وقت ایک امید افزا ماحول بن چکا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا تھا، وہ مزدوروں، کسانوں، خواتین کے حقوق اور سوشلزم کی بات کرتے تھے۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کے نعرے پسند کرنے لگا۔ انہوں نے بھٹو سے ٹوٹے ہوئے پاکستان میں بڑی تبدیلی کی توقعات وابستہ کرلی تھیں اور انھیں امید تھی کہ پاکستان اب ترقی کرے گا۔
شاہدہ قاضی نے کہا کہ ’میں خود بھی سوشلسٹ مزاج رکھنے کی وجہ سے بھٹو صاحب کی بڑی سپورٹر تھی۔ ان کے ہمارے خاندان کے ساتھ مراسم بھی تھے، وہ میرے والد (محمد حسن قاضی) کو ’چاچا‘ کہتے تھے۔ بھٹو صاحب اپنی گفتگو سے دوسروں کو متاثر کر لیتے تھے‘۔
’1973ء کا آئین بنا تو لوگ بہت خوش تھے۔ یہ تمام جماعتوں کا متفقہ آئین تھا۔ اس آئین کی خاص بات یہ بھی تھی کہ پہلے صرف ایک ہاؤس، قومی اسمبلی تھا، اس آئین کے تحت پہلی مرتبہ ملک میں پارلیمنٹ کو ایوان بالا یعنی سینیٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا‘۔
’شاہدہ قاضی نے بتایا کہ اس کے بعد بھٹو نے کئی انقلابی اقدامات کیے۔ ٹریڈ یونینوں کو اہمیت دی جارہی تھی۔ زمینوں کی تعداد محدود کردی گئی، وہ الگ بات ہے کہ تمام جاگیر داروں نے اپنی زمینیں بچوں اور دیگر کے نام کرکے بچالیں۔ ان اصلاحات سے لوگ خوش تھے‘۔
خوشی کا عرصہ مختصر ہوا
شاہدہ قاضی نے کہا کہ ’آئین پر شروع میں اچھا عمل درآمد ہورہا تھا لیکن یہ ماحول زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ بھٹو کے نظریاتی، سوشلسٹ ساتھی انہیں چھوڑ رہے تھے، وہ ان کے رویے سے دل برداشتہ ہوگئے تھے۔ بھٹو الیکٹ ایبلز لوگوں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں کو اہمیت دینے لگے، پرانے ساتھیوں کو محسوس ہوا کہ ان کی سیاسی ترجیحات تبدیل ہوگئی تھیں۔ اس زمانے میں معراج محمد خان اور جے رحیم جیسے لوگ بھٹو کو چھوڑ گئے‘۔
’عوام بھی کچھ ہی عرصے میں ناامید ہونے لگے۔ بھٹو نے جب صنعتوں اور اسکولوں وغیرہ کو قومیایا تھا تو عوام بہت خوش تھے لیکن قومیائے جانے کے بعد ان اداروں کا اچھا انتظام نہ کیا جاسکا۔ اچھے پرائیویٹ اسکولوں اور دیگر اداروں کا معیار گر گیا۔ بھٹو نے خود آئین میں ترامیم شروع کردیں‘۔
’شاہدہ قاضی نے کہا کہ بھٹو نے اور بھی کئی غلط پالیسیاں اپنائیں، مثلاً بلوچستان میں سوشلسٹ پارٹی بھٹو کی حامی تھی ان کے خلاف ایکشن شروع کردیا، انہیں غدار قرار دیا جاتا تھا، انہیں حکومت سے نکالا، اسی طرح سرحد میں کیا تو 1975ء تک بلوچستان اور سرحد میں بہت گڑبڑ ہوگئی تھی۔
’بھٹو نے اقتدار میں آکر شروع میں میڈیا کو آزادی دی تھی لیکن بعد کے دور میں ہم بلوچستان و دیگر حالات پر کھل کر بات نہیں کرسکتے تھے‘۔
’آئین کی معطلی‘
شاہدہ قاضی نے کہا کہ ’1977ء میں بھٹو نے جب الیکشن کروایا تو اس وقت تک رائے عامہ ان کے خلاف ہوچکی تھی۔ بھٹو نے الیکشن جیت لیا لیکن اپوزیشن اتحاد نے دھاندلی کا الزام عائد کرکے بھٹو کے خلاف بھرپور تحریک چلائی‘۔
’ملک کی 9 اپوزیشن جماعتوں نے ایک اتحاد، پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے نام سے قائم کیا اور بھرپور طریقے سے ان کی مخالفت شروع کی۔ 9 جماعتی اتحاد نے الیکشن جیتنے کے بعد بھٹو کو اقتدار سنبھالنے نہیں دیا۔ بھٹو اگر چاہتے تو ایک سال مزید اقتدار میں رہ سکتے تھے۔ الیکشن 1978ء میں ہونا تھا لیکن بھٹو بہت پر اعتماد تھے کہ وہ مقبول ہیں اور یہ الیکشن جیت جائیں گے۔ اپوزیشن کی بھرپور احتجاجی تحریک کے سامنے بھٹو جھک گئے تھے ،وہ ان سے مذاکرات پر تیار تھے اور اس پر بات ہورہی تھی لیکن اس دوران ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کرکے آئین معطل کردیا۔ اس طرح عوام 1973ء میں بنائے گئے متفقہ آئین کے ثمرات سے محروم ہوگئی۔
سخت جان آئین اور موجودہ حالات
شاہدہ قاضی نے کہا کہ ’فوجی حکمرانوں، ضیا الحق اور مشرف کے دور میں آئین معطل ہوا، اس میں اب تک دو درجن کے قریب ترامیم ہوچکی ہیں جن میں اچھی بھی ہیں اور بری بھی، لیکن ہمیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ کم از کم آئین زندہ ہے۔ اس آئین کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ متفقہ ہے اور اس میں عوام کے حقوق کی پاس داری کی گئی ہے‘۔
شاہدہ قاضی نے کہا ’ملک کے موجودہ حالات میں بہت ڈپریشن کا شکار ہوں۔ آئین کا اور ملک کے تمام اداروں کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے اس ملک کی سیاسی تاریخ میں بہت برے وقت دیکھے ہیں لیکن آئینی انتشار کے متعلق یہ بدترین دور ہے۔ ہر ادارہ آئین کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے، ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے‘۔
شاہدہ قاضی کے مطابق موجودہ حالات کا حل صرف بات چیت سے نکلے گا۔ مذاکرات میں سیاسی جماعتیں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کے نمائندے سب کو شامل ہونا چاہیے۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو ملک کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
دستور میں ہی ملک کی بقا ہے
سجاد میر نے کہا ’یہ دستور اتفاق رائے کی وجہ سے قائم ہے۔ آج ہم جس دستور کی 50 ویں سالگرہ منارہے یہ ٹوٹے ہوئے ادھورے پاکستان کا آئین ہے، یہ بہت بڑی قیمت ہے جو اس کے لیے ادا کی گئی‘۔
’1970ء میں جب دستور کی بحالی کی تحریک چلی تو یحییٰ خان نے الیکشن کروانا چاہے لیکن کہا دستور بحال نہیں ہوگا اور نیا دستور بنانے کی رسم ڈالی، یہ دستور نہ بن سکا اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ اس کے بعد بھٹو نے بحیثیت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر دستور سازی کا آغاز کیا۔ ایک طرف جمہوری قوتیں تھیں دوسری طرف اقتدار میں رہنے والی قوتیں تھیں جن کے درمیان ایک سال تک سخت جنگ جاری رہی اوربالآخر قرارداد مقاصد کے بعد قوم کو ایک متفقہ دستاویز حاصل ہوئی‘۔
سجاد میر نے کہا آج ہم ڈانواں ڈول حالت میں پھر رہے ہیں۔ پاکستان کو بچانے کا واحد راستہ دستور پر قائم رہنا ہے۔ اگر دستور باقی ہے تو اتحاد باقی ہے۔ یہ ایک کم از کم معاہدہ عمرانی ہے۔ دستور کسی قوم کی روایت، مزاج، اس کے اصول و ضوابط ہیں جن پر وہ قوم چلتی ہے دستور غالباً لکھا ہوا نہیں ہونا چاہیے جیسے کہ برطانیہ کا نہیں تھا یہ قوم کے مزاج میں راسخ ہونا چاہیے۔
آئین کے ادھورے کام
تاج حیدر کہتے ہیں کہ ’50 سال بعد بھی آئین کے مطابق بہت سے کام کرنا ابھی باقی ہیں۔ مثلاً آرٹیکل 3 (ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ) آرٹیکل 37 اے، بی اور ای، آرٹیکل 25 اے پر عملدرآمد باقی ہے۔ اس ملک میں غربت اور جہالت کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہے ہمارے پاس؟ گڈ گورننس کی بات ہم کرتے رہتے ہیں وہ تب ہوگی جب ہم بے روزگاری، غربت، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرسکیں گے‘۔
ضیا الحق نے 8ویں ترمیم سے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ صوبائی خودمختاری کا معاملہ لٹک گیا تھا کیونکہ مارشل لا آگیا تھا جسے اب 18ویں ترمیم سے پورا کیا گیا ہے۔
تاج حیدرنے کہا ’ابھی کچھ عرصہ پہلےسینیٹ کا 50 سالہ جشن ہوا جس میں بڑے بڑے بینکز اور چیمبرز کے چیئرمین مدعو کیے گئے،کسی ٹریڈ یونین، کسانوں کے نمائندے، دہشت گردی کا شکار ہونے والے پولیس اہلکاروں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ کچلے ہوئے لوگوں کے لیے آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں تو آئین صرف ایک کتاب ہے۔
میں سینیٹ میں کہتا رہا ہوں کہ آپ نے 50 سال آئین کا دفاع کیا ہے اب اس پر عمل درآمد کریں۔ سینیٹرز کا جب یہ رونا دیکھتا ہوں کہ یہ نہیں ہوا وہ نہیں ہوا تو افسوس ہوتا ہے کہ اگر نہیں ہوا تو یہ آپ کے کرنے کے کام ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان سے بالاتر تو پھر عرشِ الٰہی ہی ہے’۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔