• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستانی سیاست اور مذاکرات کی کہانی

ابھی تک حکومت اور اپوزیشن جماعت کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں لیکن معاملات حل ہوتے نظر نہیں آرہے۔
شائع May 2, 2023

’بڑے فیصلے میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ہوتے ہیں۔ سیاست دان مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کرتے‘۔

’سمجھ دار لوگ ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار رہتے ہیں‘۔

’سنگین نوعیت کے بحران کا حل بھی آپس میں مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے‘۔

یہ وہ الفاظ یا جملے ہیں جو کسی نہ کسی وقت آپ کو سننے پڑے ہوں گے۔ ملکی سیاست میں بھی مذاکرات کا اہم کردار رہا ہے۔ حزب اقتدار ہو یا پھر حزب اختلاف دونوں نے ہمیشہ ہی مل کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہی وجہ ہے پورے ملک میں انتخابات ایک دن کروانے کے لیے حکومت اور حزب اختلاف بھی مذاکرات کی میز پر اکٹھے ہوئے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے عدالتی کارروائی کے دوران باور کروایا کہ ’حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کرسکتی۔ عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے۔ عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں‘۔

یہ پہلا موقع ہے جب ملک کے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں انتخابات (وقت سے پہلے) ایک ہی دن کرانے کے لیے آپس میں بات چیت کررہے ہیں۔ ورنہ سیاسی جماعتوں میں اس قسم کے مذاکرات نہیں ہوئے البتہ لگ بھگ 25 برس پہلے انتخابات کے نتائج کے تنازع پر سیاسی جماعتوں نے باقاعدہ مذاکرات کیے تھے۔

اس طرح یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ 1977ء اور 2023ء میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو مذاکرات ہوئے اور ہورہے ہیں، ان میں جہاں انتخابات کا ایک عنصر انتہائی اہم رہا ہے وہیں حکومت اور حزب اختلاف میں تناؤ بھی کم وبیش ایک ہی طرح کا رہا ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے کسی طور تیار نہیں تھے لیکن پھر بھی بات مذاکرات تک پہنچی۔

  پہلی مرتبہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے مذاکرات کررہے ہیں
پہلی مرتبہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی دن انتخابات کرانے کے لیے مذاکرات کررہے ہیں

1977ء میں بھی ایک طرف 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف کے اتحاد نے سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے بات چیت کی اور آج 2023 ء میں سیاسی جماعتوں کا حکمران اتحاد اپوزیشن کی جماعت کے ساتھ مذاکرات کررہا ہے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ ملک میں انتخابات کے ذریعے جب بھی حکومتیں وجود میں آئیں تو ان انتخابات کے نتائج سیاسی جماعتوں نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیے اور کوئی نہ کوئی تنازع کسی نہ کسی شکل میں کھڑا رہا۔

ملک کے پہلے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی پاداش میں ملک ٹوٹ گیا تھا لیکن اس المیے کے بعد بھی جب ملک کے دوسرے انتخابات 1977ء میں ہوئے تو اس کے نتائج پر ایک تحریک نے جنم لیا اور پھر 4 برس پہلے متفقہ طور پر منظور ہونے والا 1973ء کا آئین، 5 جولائی 1977ء کو فوجی آپریشن فیئر پلےکے بعد معطل ہوگیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کی آئینی میعاد مکمل ہونے سے ایک برس پہلے ہی عام انتخابات کا اعلان کردیا تھا اور اس پر صدر مملکت نے نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن نہیں ہوتے تھے۔

قومی اسمبلی کے نتائج میں 9 جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے سرکردہ رہنماؤں کی شکست کی وجہ سے دھاندلی کا شور مچ گیا۔ ان میں سابق وزیراعظم اور موجودہ حکومت کے اتحادی چوہدری شجاعت حسین کے والد اور چوہدری ظہور الہیٰ سمیت کئی رہنماؤں کو عام انتخابات میں مات کا سامنا کرنا پڑا۔

پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد جو نو ستاروں کے نام سے بھی مشہور تھا، اس نے 3 دن بعد 10 مارچ کو ہونے والے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور دھاندلی کے الزام کو لےکر ایک تحریک شروع ہوگئی۔ آخرکار تقریباً 3 ماہ کے بعد جون میں حکومت اور حزبِ اختلاف مذاکرات کے لیے اکٹھے ہوئے اور بات چیت کی ایک درجن سے زائد نشستیں ہوئیں اور یہ تمام سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہا۔

  مذاکراتی دور کے بعد لی جانے والی حکومتی اور پی این اے کے رہنماؤں کی تصویر
مذاکراتی دور کے بعد لی جانے والی حکومتی اور پی این اے کے رہنماؤں کی تصویر

مذاکراتی ٹیم میں حکومت کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو، مولانا کوثر نیازی اور عبدالحفیظ پیر زادہ شامل تھے جبکہ اپوزیشن کی ٹیم، مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور پر مشتمل تھی۔ مذاکرات میں اصل نکتہ یہ تھا کتنی نشستوں پر انتخابات منعقد ہوں جس پر دونوں فریق راضی ہوگئے۔ مذاکرات میں بلوچ رہنماؤں کی رہائی پر بھی بات ہوئی۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ان مذاکرات میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ اس نکتے پر بھی بات ہوئی کہ دوبارہ انتخابات کب ہوں گے؟

  حکومتی اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے دور کا منظر۔ دائیں جانب پی این اے رہنما مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصر اللہ خان براجمان ہیں جبکہ بائیں جانب حکومتی رہنما کوثر نیازی، ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ موجود ہیں
حکومتی اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے دور کا منظر۔ دائیں جانب پی این اے رہنما مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور نوابزادہ نصر اللہ خان براجمان ہیں جبکہ بائیں جانب حکومتی رہنما کوثر نیازی، ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ موجود ہیں

اپوزیشن اور حکومت میں اس بات پر اتفاق نہیں ہورہا تھا اور اس دعوے کی کوئی تصدیق بھی نہیں ہوسکی۔ اسی دوران 5 جولائی کی درمیانی رات کو ملک میں مارشل لا لگ گیا۔

  پانچ جولائی کی درمیانی شب جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا
پانچ جولائی کی درمیانی شب جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا

2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی کے 4 حلقوں میں دوبارہ انتخابات کراوائے جائیں۔

1977ء میں ہونے والے مذاکرات میں ٹیم کے اہم رکن نواب زادہ نصر اللہ خان کے قریب رہنے والے وکیل رہنما شاہد محمود بھٹی یاد کرتے ہیں کہ ’نواب زادہ نصر اللہ یہ کہتے تھے مذاکرات کی کامیابی میں پی این اے میں شامل ایک جماعت کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان بھی رکاوٹ تھے‘۔

1977ء کے بعد اب تک 9 عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں لیکن انتخابات کی تاریخ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ فروری1997ء میں پہلی مرتبہ الگ الگ دن انتخابات کروانے کی روایت کو تبدیل کیا گیا اور ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی نئی ریت ڈالی گئی۔ اس ریت کے آغاز کے بعد سے پہلی مرتبہ اب ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں حکومت کا اصرار ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے جبکہ اپوزیشن کا دو ٹوک موقف ہے کہ اسمبلی اگر وقت سے پہلے تحلیل ہوگی تو آئین کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات ہوں گے اور اس سے انحراف ممکن نہیں ہے۔

اعلیٰ عدلیہ نے بھی اپنے فیصلے میں 90 دنوں میں انتخابات کروانے کا حکم دیا ہے لیکن حکومت اس پر تیار نہیں ہے اور اس طرح پارلیمان اور عدلیہ بہ ظاہر آمنے سامنے آگئے ہیں۔ اس تمام صورت حال میں حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف شدید کشیدگی کے بعد انتخابات ایک ہی دن کروانے کے نکتے پر آپس میں مل بیٹھے ہیں اور اس معاملے پر بات چیت شروع کردی ہے۔

ابھی تک مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں۔ اگرچہ مذاکرات ٹیم کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ بات چیت میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے لیکن اس کے باوجود فریقین کے بیانات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ وہ کسی اتفاق کی طرف جاتے نظر نہیں آرہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے شرط رکھی ہے کہ 14 مئی تک اسمبلیاں تحلیل کی جائیں لیکن روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق حکومتی اتحاد کے اہم رکن وفاقی وزیر احسن اقبال نے اس شرط یا مطالبے کو ناقابلِ عمل قرار دیا ہے بلکہ ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو انتخابات میں ایک برس کی تاخیر ہوسکتی ہے۔

دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے مذاکرات سے ایک دن پہلے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اداروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

ماہرینِ قانون کی رائے ہے کہ یہ قانونی نکتہ بھی اہم ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن کروانے کی کوئی شق نہیں ہے اور اب تک انتخابات ایک دن ہوں یا الگ الگ یہ معاملہ ایک روایت پر قائم ہے البتہ ایسی کوئی آئینی شق دستیاب نہیں ہے اگر اسمبلی اپنی میعاد پوری کرے تو 60 ورنہ 90 دن کے اندر انتخابات ہونے کی ایک آئینی پابندی ضرور ہے۔

ادھر سپریم کورٹ کے 14 مئی کو انتخابات کرانے کے حکم میں دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے جبکہ حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف میں مذاکرات کا تیسرا دور آج رات منعقد ہوگا جس کا نتیجہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔

فریقین کی طرف سے اپنی بات چیت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا لچک دکھائی جاتی ہے اور مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن کیسے عمل ہوگا؟ یہ اہم سوالات ہیں بلکہ کسی پہیلی کو بوجھنے اور معمے کو حل کرنے سے کسی طور کم نہیں ہیں۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔