آزاد کشمیر: پاکستان تحریک انصاف ’فلور کراسنگ‘ قانون کو چیلنج کرے گی
آزاد کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قانون سازوں نے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو جاری غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے تناظر میں پارٹی کے لائحہ عمل اور قانونی اور آئینی معاملات کے بارے میں فیصلے کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق سینئر وزیر خواجہ فاروق احمد، سابق وزیر قانون سردار فہیم اختر ربانی اور سابق مشیر اطلاعات چوہدری رفیق نیئر پر مشتمل کمیٹی نے اعلان کیا کہ وہ چوہدری انوارالحق کی زیرقیادت حکومت کی جانب سے ریاست میں ’لوٹا کریسی‘ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے خفیہ طور پر جاری آرڈیننس کو چیلنج کرے گی۔
قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے برعکس جہاں آئین کا آرٹیکل 63-A کسی اسمبلی ممبر کے منحرف ہونے کے حوالے سے ایک جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے، آزاد جموں و کشمیر میں فلور کراسنگ کے معاملے کو ماتحت قانون سازی کے ذریعے نمٹا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر الیکشنز ایکٹ 2020 کے سیکشن 31 (3) کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سیاسی پارٹی کے نامزد امیدوار کے طور پر رکن قانون سازی اسمبلی (ایم ایل اے) کے طور پر منتخب ہو کر اس سیاسی پارٹی سے دستبردار ہو جاتا ہے تو وہ بقیہ مدت کے لیے دستبرداری کی تاریخ سے ایم ایل اے ہونے کے لیے نااہل قرار پائے گا، جب تک کہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہو جائے۔
ایکٹ کی اگلی ذیلی شق میں کہا گیا کہ اگر کوئی قانون ساز آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوتا ہے اور کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے تو اس کے لیے بھی وہی سزا ہے۔
ترمیمی قانون کے مطابق جس کا اطلاق 24 جون 2020 سے ہوگا، رکن قانون ساز اسمبلی صرف اسی وقت نااہل ہوگا جب وہ جس جماعت سے منتخب ہوئے تھے اس سے الگ ہو کر ’کسی اور جماعت میں شامل ہوں گے‘۔
چوہدری انوار الحق 20 اپریل کو قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد اسمبلی کے فلور پر پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے وزات عظمیٰ کے عہدے کے لیے بطور آزاد امیدوار (پی ٹی آئی کی نامزدگی پر نہیں) حصہ لیا تھا جبکہ انہیں پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور فاروڈ بلاک میں کچھ ساتھیوں کی حمایت حاصل ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی فاروڈ بلاک نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملے، لہٰذا انہیں خدشہ تھا کہ آزاد کشمیر الیکشن ایکٹ، 2020 کی دفعہ 31 (3) کے تحت ان کی نشستیں جاسکتی ہیں، اس لیے ترمیم کا اطلاق پرانی تاریخوں سے کیا گیا۔
سابق وزیر خواجہ فاروق احمد نے 1980 کی دہائی میں اسی طرح کی صورتحال میں ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کو یاد کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ وہ پُرامید ہیں کہ ترمیمی قانون کو کالعدم قرار دیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس جمہوریت کی روح کے خلاف ہے اور اس وقت بد نیتی کے ساتھ جاری کیا گیا ہے، لہذا یہ قانون عدالتوں کے ذریعہ منسوخ ہو گا۔
پی ٹی آئی کے 12 قانون سازوں نے خواجہ فاروق احمد کا نام بطور قائد حزب اختلاف دیا ہے، لیکن اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اب تک ایسا کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا، یہ عہدہ اب تک پیپلز پارٹی کے چوہدری لطیف اکبر کے پاس ہے حالانکہ ان کی جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔