ککڑی: انتہائی اہم موضوع پر بنائی گئی ناقص فلم
اچھی فلم ہویا بری، اس کو بنانے کے لیے یکساں محنت کرنا پڑتی ہے۔ مذکورہ فلم’ککڑی’ کی بات کی جائے، تو ایک جملے میں اس کی تعریف یہ ہے ’انتہائی اہم موضوع پر بنائی گئی ناقص فلم‘۔ اب اس یک سطری جملے کی تفہیم کے لیے آپ کو یہ تبصرہ مکمل طور پر پڑھنا ہوگا، اگر تبصرے سے بھی بات واضح نہ ہو تو پھر ایک بار فلم ضرور دیکھ لیں، بات بن کہے سمجھ آجائے گی۔
اسکرین پلے/پلاٹ
اس فلم کی کہانی کا مرکزی خیال بہت عمدہ ہے،کیونکہ ہمارے ہاں سماجی شعور کی بیداری اور پاکستانی فلمی صنعت میں متوازن سینما (پیرلل اور آرٹ فلمیں)کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے، ایسی کہانیوں کی ضرورت ہے لیکن کوئی کہانی ہماری فلمی صنعت کو تب ہی اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے جب اس کو درست طور سے پیش کیاجائے۔
مذکورہ فلم 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں میں، لاہور میں متحرک ایک ایسے سیریل کلر ’جاوید اقبال‘ کی تھی جس نے 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا تھا۔ اس حقیقی کہانی کے آغاز اور انجام سے تو سب واقف ہی ہیں، اب ایسے میں اس فلم کے اسکرین پلے رائٹر کی ذمے داری تھی کہ وہ اس کہانی کو یوں سناتا کہ اسکرین پر بھی کہانی حقیقی محسوس ہوتی۔ اس کے برعکس مذکورہ فلم کے اسکرین پلے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، ایسا محسوس ہوا کہ ہم فلم نہیں دیکھ رہے ،بلکہ کوئی صحافتی رپورٹ یا پھر کوئی تمثیل کاری یا ری اینیکٹمنٹ دکھائی جارہی ہے۔
اس فلم کے اسکرین پلے رائٹر علی سجاد شاہ عرف ابوعلیحہ ہیں جو اس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔ ماضی میں پیشے کے اعتبار سے صحافی بھی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی میں سے اس کہانی کا انتخاب کیا۔ پہلے اس پر 2 حصوں میں ناول لکھا، جو ’ککڑی‘ کے عنوان سے تھا، یہ نام جاوید اقبال کی عرفیت تھی۔میں نے وہ دونوں ناول بھی پڑھے ہیں، مجھے کبھی بھی ان کی ادب نگاری نے متاثر نہیں کیا،کیونکہ ان کی نثر صحافتی رپورٹنگ میں جکڑی ہوئی ہے، وہ مکالمہ اچھا کہتے ہیں، جملے بازی بھی کرلیتے ہیں لیکن کہانی کہنے کے فن سے عاری اور زبان و بیان کے تخلیقی اور ادبی ہنر سے ناآشنا ہیں۔ البتہ وسیع مطالعے کے حامل ہیں جس کے اثرات ان کی مکالمہ نگاری پر عیاں ہیں۔
مذکورہ فلم، ان کی 10ویں فلم ہے جس کو انہوں نے لکھا ہے اور لگ بھگ اتنی ہی کتابیں بھی لکھ چکے ہیں جو ان کے کئی ناول اور افسانوں پر مبنی ہیں۔ لیکن نہ ہی اُن کہانیوں نے متاثر کیا نہ ہی اِن فلموں نے۔ ان کی کتابیں پھر شاید فروخت ہوجاتی ہوں مگر میں نے یہ فلم سینما ہال میں 12 افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھی جن میں میرے اہل خانہ کو شمار نہ کیاجائے توصرف 8 لوگ تھے۔ باکس آفس کا نتیجہ پہلے دن کا یہ ہے، باقی اب اعداد و شمار کا ہیرپھیر کرکے جومرضی بنالیں۔ فلم کی کہانی 1990ء کے آخری برسوں میں شائع ہونے والی اخباری رپورٹوں سے آگے نہیں نکل سکی۔ فلم دیکھیں، اگر میرے لکھے کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں۔
ہدایت کاری
اس فلم کے ہدایت کار علی سجاد شاہ عرف ابوعلیحہ کی 5 برسوں میں یہ 10ویں فلم ہے۔ سال میں دو غیر معیاری فلمیں بنانے کی اس دوڑ کو وہ مستقبل میں بھی دوڑنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ فلم سے وابستہ ناقدین کی اکثریت کا دو باتوں پر اتفاق رہا ہے کہ نئے فلم سازوں کو مہلت ملنی چاہیے اور چھوٹے بجٹ کی فلمیں پورا سال بنتی رہنی چاہیئں تاکہ پاکستانی فلمی صنعت کا پہیہ پوراسال گھوم سکے اور یوں وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوسکے۔ اسی لیے نئے آنے والے فلم سازوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بھلے تخلیقی طور پر ان کا کام قدرے ہلکا بھی ہو۔
تاہم نو فلمیں بنانے کے بعد بھی ہدایت کار ٹس سے مس نہ ہو، آزمائشی حالت سے باہر نہ نکلے اور جو میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہے کہ میں نے پچھلی فلمیں اس لیے بنائی تھیں کہ میری مشق ہوسکے اور میں ’ککڑی‘ بناسکوں تو اس فلم کو دیکھنے کے بعد یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ تاحال وہ مشق کی ذہنی کیفیت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اتنے اہم موضوع کو ضائع کرنے پر پاکستان میں متوازی سینما سے محبت کرنے والے فلم بینوں کا انہوں نے جو دل دکھایا ہے اس کا تو کوئی شمار نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس فلم کے ٹریلر کے بعد سے بہت امیدیں تھیں، اس پر لگنے والی پابندی نے ان امیدوں کو مزید قوی کیا لیکن میں اگر اپنی بات کروں تو میں نے اس فلم کے ٹریلر کے ریویو میں، جب یہ ریلیز ہوا تھا، تب بھی یہ کہا تھا کہ یہ فلم اس ہدایت کار کے فلمی کرئیر کا فیصلہ کرے گی،کیونکہ بڑے موضوعات کا اپنا ایک وزن ہوتا ہے، اس کو سنبھالنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
مجھے افسوس ہے کہ مذکورہ ہدایت کار اس بھاری بھرکم موضوع کے تلے دب گئے ہیں۔ اس فلم سے جڑے تنازعات کی بھی ایک بڑی طویل فہرست ہے، جس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں البتہ یہ حیرت ضرور ہے کہ اس فلم میں کون سی ایسی بات تھی کہ اس کو پاکستان میں ممنوع قرار دیاگیا؟ بہرحال ایک اچھی کہانی ضائع کردی گئی۔کہیں کہیں معدودے چند اچھی پنچ لائنیں اور دو تین اچھے مونولوگز (مکالماتی یا خودکلامی کے انداز کے ڈائیلاگز) آپ کی تخلیق حس کو تسکین دے سکتے ہیں، باقی برتن خالی ہے۔
اداکاری و دیگر شعبہ جات
اس فلم کی تکنیکی حالت خاصی پتلی ہے۔ دھندلے مناظر،کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے کانپتا ہوا کیمرا ورک، تھانے کے نام پر کھنڈر نما سیٹ، مس کاسٹنگ، پارس مسرور جیسے باصلاحیت اداکار کا زیاں، اس کا خراب اور بناوٹی لہجہ، عائشہ عمر کی بے تاثر اداکاری، دیگر ذیلی کمزور کرداروں کا ہجوم، ٹکڑوں میں چلتی ہوئی کہانی،کبھی آگے جاتی کبھی پیچھے آتی، بالکل بے ربط۔ پس منظر میں ادھوری موسیقی، جہاں شاید موسیقی کی ضرورت تھی، وہاں اسے استعمال ہی نہیں کیاگیا، مثال کے طورپر ربیعہ کلثوم کا مونولاگ، جس میں وہ جاوید اقبال سے مخاطب اور اپنے بیٹے کا پوچھ رہی ہے، یا پھر یاسر حسین کا وہ مونولاگ جو وہ پولیس والے سے کرتا ہے، جب وہ اس کو سگریٹ پلاتا ہے۔
عائشہ عمر کا خراب میک اپ، ناقص ایڈیٹنگ اور بہت کچھ گنوایا جاسکتاہے۔ تھوڑے لکھے کو زیادہ جانیں، بس ایک چیز اس میں کمال ہے اور شاید پوری فلم کے معیار کا نچوڑ نکالاجائے، تو وہ یاسر حسین کا حلیہ، میک اپ، لب و لہجہ، ادائیگی اور کمال کی اداکاری ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائےکم ہے۔ اگریہ فلم ڈھنگ سے لکھی اور بنائی گئی ہوتی تویہ اس سال کی سب سے بڑی فلم ہوتی اور یاسر حسین پاکستان میں متوازی سینما کا آئیکون ہوتا لیکن صد افسوس۔۔۔
اس فلم کے پروڈیوسر جاوید کاکی پوتو نے اداکاری کا شغل بھی فرمایا۔ جب منجھے ہوئے اداکاروں کو اسکرین پلے نہ سنوار سکا تو انہیں بھلا کون نمایاں کرتا لیکن بطور پروڈیوسر ان کو داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے اتنے اہم موضوع پر بننے والی فلم کو پروڈیوس کیا اور پاکستان میں متوازی سینما کو مضبوط کرنے کی ایک عملی کوشش میں اپنا حصہ ڈالا۔ انہی کی عملی کوششیں رنگ لائیں تویہ فلم ریلیز بھی ہوگئی ورنہ خواہ مخواہ میں ہی یہ فلم بغیر دیکھے ہوئے ماسٹر پیس کے طور پر ٹریٹ ہوتی رہتی۔
حرف آخر
یہ تنقید برائے اصلاح ہے جو اس لیے کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے موضوعات پر اس سے بہتر کام ہوسکے۔ اس تنقید کے باوجود ہم سب کو ایسی فلموں کو سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان میں ایسے تلخ اور حقیقی موضوعات پر فلمیں بننا شروع ہوں، پاکستانی سینما ایک خود فریبی کے اثر سے نکلے ،اولڈ از گولڈ سینما کی ماضی پرستی سے پیچھا چھڑائے اور جدید دور میں پوری دنیا میں بننے والے سینما کے ساتھ کھڑا ہو تاکہ ہمارے فلم سازوں کو لندن نہیں جاؤں گا کرتے کرتے جوائے لینڈ پہنچ کر قائد اعظم زندہ باد کے نعرے نہ لگانے پڑیں۔ فلم بینوں سے نہ ہی منی بیک گارنٹی کے جھوٹے وعدے کرنے پڑیں اور نہ ہی ان کو ہوئے تم اجنبی جیسی اذیت جھیلنی پڑے۔
ماسٹر پیس بنانا تو دور کی بات ہے فی الحال ہمارے فلم سازوں کو اچھے ماسٹر صاحب کی ضرورت ہے جس سے یہ کہانی کہنے کا فن لے سکیں۔ ہمارے پڑوسی ملک چین اور ایران ایسی فلموں سے بھرے پڑے ہیں جن کا بجٹ انتہائی کم اورکہانیاں اور پیشکش شاندار ہے۔کم ازکم اپنے پڑوسیوں کا سینما دیکھنا ہی شروع کردیں۔کچھ عرصہ پہلے جب ہندوستانی پڑوس سے ایک فلم ساز ’وشال بھردواج‘ پاکستان آئے (یہ ذہن نشین رہے کہ وہ شیکسپیئر کی کہانیوں کو ہندی سینما کے لیے فلمانے میں ماہر ہیں) تو میں نے ان سے پوچھا کہ ہماری فلمی صنعت کے لیے سب سے ضروری چیز کیا ہے؟ ان کا جواب تھا ’اچھی کہانیاں‘۔
مذکورہ فلم ’ککڑی‘ کے ہدایت کار جو ایک عمدہ انسان ہیں اور ہمارے دوست بھی، ان کو مشورہ ہے کہ اپنی فلم کے پوسٹر پر شیکسپیئر کاجملہ لکھنے کی بجائے، اس کی تخلیق کو اپنے دل میں اتاریں۔ اس کے لیے بڑے بجٹ کی نہیں صرف باشعور ہونے کی ضرورت ہے۔کہانی نہیں کہہ سکتے، تو کہانی کے نام پر اچھے موضوعات ضائع نہ کریں۔ اس سال کی دو بہترین کہانیاں جو ہمارے دونوں فلم سازوں (اتفاق سے دونوں کاپس منظر صحافت کا ہے) نے ضائع کردیں، وہ ’ککڑی‘ اور ’ہوئے تم اجنبی‘ ہیں۔
باقی رہ گیا کمرشل سینما تو انہیں کسی کی پروا نہیں، نہ ہمیں ان سے کوئی امید ہے، سوائے ایک دو فلم سازوں کے۔ بس ہم سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی فلمی صنعت کو اس کے قدموں پر دوبارہ کھڑا کرنا ہے، جس کے لیے سب کو مل کر حقیقی جدوجہد کرنا ہوگی۔ خالی اور کھوکھلے نعرے لگانے، زبانی جمع خرچ کرنے اور چند اچھے مونولوگز لکھ لینے سے یہ کام ہرگز نہ ہوگا۔ فلم بینوں کے لیے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی صورت میں پوری دنیا کاسینما دیکھنے کے لیے دستیاب ہے جو سارا نہ تو ناقص ہے نہ غیر معیاری۔ اس لیے آپ کو اب سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، انتہائی سنجیدہ ورنہ فلم بین تو یہ جانتا ہی ہے۔