شدید گرمی کے منفی اثرات: ایمنسٹی انٹرنیشنل کا پاکستان میں عالمی سطح پر ایکشن کی ضرورت پر زور
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے زور دیا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کو سخت متاثر کرنے والی شدید گرمی کی لہروں کے سلسلے کے تناظر میں عالمی سطح پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ’جلتی ہوئی ایمرجنسی: شدید گرمی اور پاکستان میں صحت کا حق‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس کی نئی رپورٹ میں پاکستان میں لوگوں کی زندگیوں، صحت اور ذرائع معاش کے حق پر شدید گرمی کے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں دنیا کے چند گرم ترین شہروں میں غربت میں رہنے والے لوگوں کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔
پاکستان موسمیاتی بحران سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، آب و ہوا سے متعلق ناانصافی واضح طور پر نظر آتی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستانی عوام کے بہت کم کردار کے باوجود اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ یہ نتائج جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹردنوشکا ڈسانائیکے نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے کے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی توجہ اور اقدامات کی ضرورت ہے، امیر ممالک کو اپنے اہم کردار کے بارے میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری رپورٹ انتہائی درجہ حرارت کا سامنا کرنے والے پسماندہ ترین لوگوں کے لیے ہماری اجتماعی ذمہ داری کی یاد دہانی کا کام کرے گی، انہیں سخت حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جب کہ سخت درجہ حرارت ہر سال بڑھتا جا رہا ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے وقت گزرنے دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مزید تاخیر کیے بغیر امیر ممالک کو کاربن کے اخراج کو کم کرنے، فوسل فیول کو تیزی سے ختم کرنے اور لوگوں کی مدد کے لیے کاپ 27 میں قائم ’لاس اینڈ ڈیمیج‘ فنڈ کو تیزی سے متحرک کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے فیصلہ کن عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے انسانی حقوق کے قانون اور معیارات کے مطابق جامع ہیٹ ایکشن پلان تیار کرنے اور ان گروپوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کا بھی کہا جو خاص طور پر شدید گرمی کے صحت پر پڑنے والے اثرات کا شکار ہیں۔
یہ رپورٹ پاکستانی شہروں جیکب آباد اور لاہور میں 2021 اور 2022 کے موسم گرما کے مہینوں میں شدید گرمی کے منفی اثرات کا سامنا کرنے والے 45 افراد کے ذاتی انٹرویوز پر مبنی ہے۔
جیکب آباد کرہ ارض کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے جہاں جون 2021 میں اس کا سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
رپورٹ کی تیاری کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایسے لوگوں کے انٹرویو کیے جو گرمی کا زیادہ سامنا کرتے ہیں جن میں کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدور، ڈیلیوری کرنے والے، پولیس افسران، خاکروب اور دیگر کھلے مقامات پر کام کرنے والے افراد شامل ہیں۔
جیکب آباد اور لاہور میں ہیلتھ ورکرز کا انٹرویو کیا گیا جنہوں نے شدید گرمی کے دوران ہیٹ اسٹروک، غنودگی، سانس لینے میں دشواری، پیٹ میں جلن، چکر آنا، بخار، جسم میں درد، آنکھوں میں انفیکشن اور سر درد میں اضافے کی شکایات کا ذکر کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کو دئے انٹرویو میں دن کے اوقات میں کام کرنے والے افراد نے کہا کہ شدید گرمی کے دوران گھر کے اندر رہنے کی ہیلتھ ایڈوائزری کے باوجود ان کے پاس کام جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
جیکب آباد اور لاہور میں شدید درجہ حرارت کے باوجود نہ تو ان شہروں میں ہیٹ ایکشن پلان ہے اور نہ ہی ماحولیاتی تحفظ کے لیے سماجی تحفظ کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔
پاکستان میں چار کروڑ سے زائد افراد کو بجلی کی سہولت میسر نہیں جب کہ لاکھوں لوگ اس کی مسلسل فراہمی سے محروم ہیں، غربت کےباعث پنکھے یا ایئر کنڈیشنگ یونٹس کے لیے بجلی خریدنے اور سولر پینل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستانی حکومت اور عالمی برادری کے لیے مرتب جامع سفارشات میں پاکستانی حکام سے ہیٹ ویو کے تناظر میں ضروریات کا جائزہ لینے، پسماندہ ترین لوگوں پر توجہ مرکوز کرنے، انسانی حقوق کے مطابق گرمی کے ایکشن پلان کی تیاری اور ان پر عمل درآمد کرنے اور موثر سماجی تحفظ فراہم کرنے کا کا مطالبہ شامل ہے تاکہ شدید گرمی سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کی جا سکے۔