اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
برٹن کو شمالی سندھ کے سفرپر بھیج کر ہم نے مختصراً انڈس فلوٹیلا کے اسٹیمروں کے متعلق جانا اور ساتھ میں ہم نے اس سفر میں یہ بھی کوشش کی ہے کہ اطراف میں معروضی حالات پر بھی نظر رکھی جائے جو ہمیں برٹن صاحب کی آنکھوں سے نظر آتے ہیں کیونکہ اسی لینڈ اسکیپ کو آنے والے برسوں میں تبدیل ہونا تھا۔ اب ہم سندھ ریلوے کے متعلق بات کریں گے جس کے لیے 1855ء میں ’سندھ ریلوے کمپنی‘ قائم کی گئی تھی۔
میرے سامنے سندھ ریلوے اور انڈس اسٹیم فلوٹیلا کے چیئرمین کی خط و کتابت ایک کتاب کی صورت میں موجود ہے جو اُس نے کمپنی سرکار سے کی اور یہ کتاب 1857ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ریلوے لائن جس کی شروعات کراچی سے ہونے والی تھی اور اُسے آگے چل کر لاہور، اٹک، پشاور، امرتسر اور دہلی تک جانا تھا۔ اس وسیع ریلوے سسٹم کا پہلا اہم نکتہ یہ تھا کہ اس سے فوج کو سرحدوں تک رسائی میں آسانی ہوگی اور ضرورت کے وقت فوج کو جلد سے جلد سرحدوں تک پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے بعد بیوپار کو وسعت دینے اور پھر لوگوں کو سفری سہولیات دینے کی بات کی گئی ہے۔ مطلب ایک پنتھ اور دو نہیں بلکہ تین کاج (ایک تدبیر سے دو نہیں تین حل نکالنا)۔ اس لیے ضروری ہے کہ مختصراً اُن حالات کا ذکر کرلیا جائے تو اس منصوبے کو سمجھنے میں آسانی رہے گی۔
ہندوستان اور روس سمیت وسطی ایشیا پر برطانیہ کا بڑھتا ہوا قبضہ عالمی منظرنامے کو تبدیل کر رہا تھا۔ کمپنی نے 1757ء میں بنگال کو فتح کیا۔ 1783ء تک اودھ، بِہار، اُڑیسہ، بنارس، مدراس اور بمبئی میں اپنا جھنڈا لہرایا۔ 1791ء کے آتے آتے گوروں کی سرکار روس کے قبضے سے خائف ہونے لگی تھی۔ 1797ء میں احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ زماں نے سرحد صوبے کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت کو وسعت دینا چاہی جبکہ 1798ء میں برطانیہ نے سیلون، مالابار اور دیگر علاقوں کو شامل کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔
1809ء میں فرانس کا نپولین برطانیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گیا جس نے برِصغیر میں پرشیا، میسور اور دیگر علاقوں میں مسلمان حکمرانوں سے تعلقات قائم کیے اور پرشیا کی وساطت سے سندھ کے حکمرانوں سے بھی سفارتی تعلقات استوار کیے۔ اسی زمانے میں نپولین کے مصر پر حملے نے یورپی طاقتوں کے روس اور ہندوستان کے دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے کے عمل کو تیز کردیا کہ جتنا اور جو مل جائے وہ اچھا۔
19ویں صدی کی ابتدا جمعرات کے دن سے ہوئی تھی لیکن اس کے ابتدائی سال اس خطے کے لیے کچھ اچھے ثابت نہیں ہونے والے تھے کیوں کہ آنے والے شب و روز میں بڑی اُتھل پُتھل ہونے والی تھی۔ اس زمانے کی سیاسی صورت حال جاننے کے لیے ہمیں محترم ایم ایچ پنھور صاحب کا تجزیہ ضرور پڑھنا چاہیے کیونکہ ان حالات کی وجہ سے یہ سب کچھ ہونے والا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’برطانیہ کی اولین خواہش یہ تھی کہ وہ روس کو ’دریائے آمو‘ (Oxus River) کی دوسری طرف تک ہی محدود رکھے۔
گزرے واقعات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب روس کے اس خطے میں آنے کا پورا یقین ہوگیا تھا تب برٹش سرکار نے اس خیال کو ترجیح دی کہ افغانستان کو بفر اسٹیٹ (حائلی ریاست) کی حیثیت دے کر وہ ہندوستان کے سرحدی بیلٹ یعنی چمن، زاہدان اور خیبر تک اپنا اثر و رسوخ قائم کرے تاکہ روس کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔ اس سرحد کو قائم رکھنے کے لیے برٹش سرکار کو معاشی اور نفسیاتی اعتبار سے کڑی محنت و مشقت کرنا پڑی’۔
اس سے 2 برس پہلے یعنی 1832ء میں پاٹنجر سندھ آیا اور حیدرآباد اور خیرپور کے میروں سے الگ الگ معاہدہ کیا جس کے بعد دریائے سندھ پر بیوپار کے راستے کھول دیے گئے۔ اس طرح طاقت کی بنیاد پر معاہدوں پر دستخط ہوتے رہے اور یوں 1843ء بھی آگیا۔ 1843ء سے کچھ برس پہلے جب ایسٹ وِک ٹھٹہ میں داخل ہوئے تھے تب لاہور میں اُس دن یعنی 27 جون 1839ء کو رنجیت سنگھ نے جند کور کو آخری بار دیکھا ہوگا۔ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوا اور سکھ سلطنت نے اُن سرحدوں کا رُخ کیا جہاں زوال کے سرکنڈے اُگتے ہیں۔
17فروری ہو یا 24 مارچ 1843ء، اگر کیلنڈر دیکھیں تو دونوں جمعے کے دن تھے۔ چارلس نیپئر جس کی سرشت میں بارود کی بُو مہکتی تھی، اس کے اندر بسی وحشت کو اس دن سکون ملا جب ’میانی‘ اور ’دبی‘ کے جنگ کے میدان خون سے سُرخ ہوچکے تھے۔ سندھ کے حاکموں کو اس نے کہیں کا نہ چھوڑا۔
جنوری 1851ء میں کمشنر کا چارج سنبھالنے کے لیے فریئر سمندری راستے سے یہاں پہنچا۔ جہاز کو بندر سے دُور کھڑا کیا اور ایک کشتی پر سوار ہوکر وہ کراچی کے کنارے پر اُترا۔ یہ شاید صبح کا وقت تھا کیونکہ اسی دوپہر چارلس نیپئر اپنے خاندان کے ساتھ دریائے سندھ پر سفر کرتے کراچی پہنچا تھا۔ اس وقت اس کا عہدہ ’کمانڈر ان چیف‘ کا تھا۔ 30 مارچ 1849ء کو گجرات میں دوسری ’اینگلو سکھ‘ جنگ ختم ہوچکی تھی اور انگریز بہادر نے پنجاب پر بھی یونین جیک کا دو رنگا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی پسند کا کام ختم کرکے گھومتا گھامتا یہاں آ پہنچا اور 4 دن تک فریئر کا مہمان رہا۔ یہ تھا ان دنوں کا منظرنامہ جس میں ضروری سمجھا گیا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے سرحدوں تک رسد جتنی جلدی ممکن ہو سکے پہنچائی جا سکے کیونکہ پہلی اینگلو افغان جنگ کی ناکامی کی تلخی ابھی تک کمپنی سرکار کی زبان اور ذہن میں گھُلتی تھی۔
ولیم پیٹرک اینڈریو اس سارے پروجیکٹ یعنی Railway System of the Indus Valley کا چیئرمین تھا اور وہ اپنے اس کام کے حوالے سے ایک سند کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’بھاپ پر چلنے والے انجنوں کے متعلق ہمارے پاس یہی معلومات ہیں کہ یہ سندھ اور پنجاب کی خشکی اور پانی کی آمدورفت کے وسیلوں کے لیے ایک جیسے ہی اہم ہیں، یہاں بھی ریل اور آگبوٹوں (بھاپ سے چلنے والی کشتی) کو استعمال کرکے تجارت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ میں نے ایسی ہی بات 1816ء میں گنگا ویلی کے لیے بھی کی تھی اور میری اس سفارش سے یہ وہاں کامیابی سے کام کررہی ہے۔ یہاں سندھ میں سمندر سے لے کر شمال میں کوٹری تک دریا کا بہاؤ سیدھا نہیں ہے بلکہ زیادہ ٹیڑھا میڑھا ہے جس کی وجہ سے آگبوٹوں کی رفتار سست رہتی ہے اور دوسری بات حیدرآباد سے سمندر تک جو دریا کا بہاؤ ہے اُس میں سمندر کے طرف جانے والی ڈھلان زیادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے آپ کو دریا میں تیزی نظر نہیں آئے گی اور یہ مسافت اندازاً 100 میل تک کی ہوگی۔
’اس مسافت کے لیے اگر ریلوے لائن بچھا دی جائے تو کمال ہو جائے گا، اس کے بعد کراچی سے حیدرآباد (کوٹری) کا سفر تیزی سے طے کیا جا سکتا ہے اور سفر بھی بالکل آسان ہو جائے گا۔ حیدرآباد سے ملتان تک 570 میلوں کی مسافت ہے۔ اس فاصلے میں چونکہ دریا کا پاٹ وسیع اور گہرا ہے اور زیادہ پُر پیچ نہیں ہے تو اگر اچھے اور طاقتور آگبوٹ ہوں گے تو وہ زیادہ سامان اُٹھا سکیں گے بلکہ ساتھ میں لوگوں کو بھی ساتھ لے جا سکیں گے، ملتان کے بعد خشکی کی آمد و رفت شروع کی جائے اور ریل کی پٹریاں بچھا کر لاہور اور امرتسر سے جوڑا جائے اور اسی طرح لاہور کو پشاور سے ملا دیا جائے جوکہ خیبر لک کے بالکل آمنے سامنے ہے اور انگریز حکومت کے شمال اور مغربی سرحد پر ہے۔
’اس منصوبے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس عظیم دریا کے شمال میں جو علاقے ہیں اُن سے روابط استوار ہوں اور تجارتی لین دین بھی شروع کی جاسکے۔ اس تجارت کی آڑ میں ہم اپنی فوجوں کو بھی وہاں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس منصوبے کو انگریز سرکار نے منظور بھی کرلیا ہے جس کے تحت پہلے سندھ ریلوے کراچی سے کوٹری تک بچھائی جائے گی اور انڈس فلوٹیلا آگبوٹوں کے وسیلے سے تجارتی آمد و رفت شروع کرے گا جوکہ حیدرآباد سے ملتان تک کام کرے گا‘۔
1853ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل نے صوبوں اور اُن کے مرکزی شہروں کو ریلوے پٹریوں سے جوڑنے کو خاص اہمیت دینے پر بات کی اور اُس نے شمال مغربی علاقوں اور مغربی بندرگاہوں کو اُن سے ملانے پر زور دیا۔ یہ بات اس نے اپریل کی ایک میٹنگ میں کی تھی جبکہ اسی برس اکتوبر کے مہینے میں، اُس وقت کے کراچی کسٹم کے ڈپٹی کلیکٹر مسٹر مئکلوڈ نے مرکز کے انجینئر مسٹر چاپسن کو ایک خط لکھا جس میں اُن دنوں کے بیوپار کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ انڈس فلوٹیلا کا کام ٹھیک چل رہا ہے، مگر شمالی اور مغربی سرحدوں تک اپنی فوج پہنچانے کے لیے ریلوے انتہائی ضروری ہے اور ساتھ میں وہاں تک کمپنی سرکار کے بنائے کپڑے اور دیگر سامان بھی آرام سے پہنچایا جا سکے گا۔
اس طرح بہت ساری میٹنگز، خطوط اور رپورٹز کے بعد 1855ء میں ’سندھ ریلوے کمپنی‘ قائم کی گئی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ سندھو گھاٹی میں ریلوے کو متعارف کروایا جاسکے۔ جس کا آغاز کراچی سے ہونا تھا۔ اس تحت ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی 5 فیصد بیاج پر کمپنی کو سرمایہ فراہم کرے گی اور ریلوے پٹری میں استعمال ہونے والی زمین 99 برس کے لیے ان کو لیز پر دینے کا فیصلہ ہوا۔
ریلوے پٹریوں پر آمدورفت شروع ہونے کے بعد جو منافع ہوگا اس کا نصف حصےداروں جبکہ نصف ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملے گا اور اسی نصف حصے سے کمپنی کو سود بھی دیا جائے گا اور جب سارا لیکھا چوکھا مکمل ہوجائے گا اُس کے بعد جو منافع ہوگا وہ حصےداروں میں برابر تقسیم کیا جائے گا اور اس معاہدے کی بنیاد پر کمپنی نے پہلی رقم 5 لاکھ پاؤنڈز جاری کی اور دسمبر 1857ء نے اپنی رقم دگنی کردی اور اس شرط پر دگنی کی کہ دو اور لائنوں پر بھی کام جلدی سے شروع کیا جائے گا۔ اُس میں پہلی سکھر سے شکارپور اور جیکب آباد سے ہوتی ہوئی بولان تک جائے گی جبکہ دوسری حیدرآباد سے عمرکوٹ اور وہاں سے ہوتی ہوئی دیسا پہنچائی جائے گی۔
اینڈریو لکھتے ہیں کہ ’میرے خیال میں، ریل کا ایک حصہ کراچی سے، دوسرا حصہ ملتان سے لاہور تعمیر کرکے سندھو میں حیدر آباد سے ملتان تک آگبوٹ چلانا نہایت عقلمندی کی بات ہوگی اور اس سے پٹری جلد بنانے میں بڑی مدد بھی ملے گی‘۔ مارچ 1856ء میں مسٹر اینڈریو کی اس بات کو مانتے ہوئے کمپنی سرکار نے منظوری دے دی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور سندھ ریلوے کمپنی کی خط و کتابت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ریلوے کا کام انتہائی تیز رفتاری سے جاری تھا کیونکہ جب کراچی سے کوٹری کی پٹری کا کام شروع ہوا تو اگلے برس یعنی 1857ء کی جنوری میں کے ایک خط سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ باقی سندھ اور پنجاب میں ریلوے کی پٹریاں بچھانے کے لیے سروے شروع ہوچکا تھا۔
مسٹر اینڈریو لکھتے ہیں کہ ’سندھ اور پنجاب کی کُل اراضی ایک لاکھ 30 ہزار میل ہے، جن میں ریاستیں بھی شامل کی جاتی ہیں جبکہ اس کی کُل مردم شماری 2 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ دونوں صوبوں میں یورپی اور مقامی لوگوں کی فوج 70 ہزار ہے جن میں سے 15 ہزار یورپی ہیں۔ انڈس ویلی کے شمال میں ریلوے کی آمدورفت کے طریقے پر مقامی افسران متفق ہوچکے ہیں جس کے نتیجہ میں سندھ ریلوے بورڈ، انڈیا ہاؤس کی طرف سے، ملتان سے لاہور اور لاہور سے امرتسر کے لیے جولائی 1856ء میں سروے کی اجازت دی گئی جس کے لیے ’پنجاب ریلوے کمپنی‘ بنائی گئی ہے جس کا انتظام، سندھ ریلوے کمپنی سنبھالے گی اور ان مراحل میں ریلوے کی پٹریوں کو بچھانے کا کام مکمل ہوگا۔ پہلے مرحلے میں،
- کراچی سے کوٹری تک پٹری بچھائی جائے گی جو 123 میل لمبی ہوگی۔
- حیدرآباد سے ملتان تک آگبوٹ چلائے جائیں گے (1857ء میں، ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈس فلوٹیلا کو سندھ ریلوے کمپنی کے حوالے کیا تھا اور نئے آگبوٹ خریدنے کے لیے پرانی سود کی شرائط پر 2 لاکھ 50 ہزار دینے کے لیے منظور کیے تھے)۔
- ملتان سے اوپر لاہور اور امرتسر تک ریلوے پٹری بچھائی جائے گی جو 246 میل طویل ہوگی۔
- امرتسر سے دہلی کی پٹری 314 میل طویل ہوگی۔
دوسرے مرحلے میں
- کلکتے اور پشاور کے بیچ میں ’نارتھ ویسٹ ریلوے‘ کی آمدورفت شروع کی جائے گی۔
- امرستر اور دہلی کے بیچ والے علاقوں، شمال مغربی صوبے یا اس کے ملحقہ علاقوں کا درآمدی تجارتی سامان کراچی پہنچے گا جو پہلے کلکتے اور بمبئی پہنچ کر بھیجا جاتا تھا۔
24 اکتوبر 1857ء کو ولیم پیٹرک اینڈریو نے کمپنی سرکار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ایک طویل خط لکھا جس میں وہ اُن دنوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’لاہور سے اٹک اور پشاور کا سروے شروع کردیا گیا ہے جو پنجاب سروے کے انجینیئر کررہے ہیں جبکہ ملتان، لاہور اور امرتسر کا سروے مکمل ہو چکا ہے‘۔
1858ء میں جو کام کراچی سے شروع ہوا تھا وہ اندازاً چار سال کے قریب اپنے اختتام کو پہنچا اور اس طرح 13 مئی 1861ء پیر کے دن پہلی ریل گاڑی گاڑھا دھواں اُڑاتی کراچی سے نکلی اور کوٹری پہنچی۔ اس طرح ’انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے‘ کی ابتدا ہوئی اور 1885ء میں، پنجاب ریلوے، دہلی ریلوے اور سندھ ریلوے کمپنیوں کو ’اسٹیٹ سیکریٹری آف انڈیا‘ نے خرید لیا۔ اس طرح ’نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلویز‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آیا جس کے تحت 1889ء میں کیماڑی اور کوٹری کے درمیان ریلوے کی دوسری لائن بچھا کر اسے ڈبل کردیا گیا۔ پھر 1898ء میں کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن بچھانے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی۔ ہم 19ویں صدی کے اختتام تک اس سفر کا اختتام کرتے ہیں۔
ہمارے دوست اور سفر کے ساتھی رچرڈ ایف برٹن نے اپنا دوسرا سفر (1876ء) کوٹری سے شمالی سندھ یعنی سکھر اور شکارپور کے لیے کیا تھا اور وہ گھوم پھر کر آگبوٹ کے راستے کوٹری آ پہنچے ہیں۔ برٹن نے یہ سفر ریلوے سروس شروع ہونے کے 16 برس بعد کیا تھا اس لیے کل جب وہ کوٹری سے کراچی جائیں گے تو اس ریل گاڑی میں جائیں گے کیوں کہ اُس نے ہمیں بتایا ہے کہ اس نے کل صبح ساڑھے 7 بجے والی ریل گاڑی میں اپنی اور اپنے ساتھیوں کے ٹکٹوں کی بکنگ کروادی ہے۔ وہ کوٹری کے حالات بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’کوٹری کا وہ کوٹ جو پہلے سفر میں اُس نے ٹھیک حالت میں دیکھا تھا وہ گر چکا تھا، مشرق میں جو کھجوروں کے جھنڈ تھے وہ تقریباً دریا بُرد ہوچکے تھے۔ البتہ کوٹری بستی سے شہر بننے کے سفر میں تھا۔ میونسپل کمیٹی بن چکی تھی البتہ اُس کی عمارت دیر سے بنی، شہر کی جامع مسجد بن چکی تھی جس کی تعمیر قاضی عبدالرحمٰن صاحب نے 1870ء تک مکمل کروادی تھی، خانپور کی طرف چرچ کی عمارت بھی بن چکی تھی اور ریلوے کا وسیع اسٹرکچر تو یقیناً تھا‘۔
ہمارا یہ سفر 19ویں صدی کے کوٹری اور اُس زمانے کی تعمیرات اور ترقی کے متعلق تھا۔ ہم کچھ عرصے کے بعد 20ویں صدی میں جلد واپس آئیں گے جب 1900ء میں کوٹری بریج کا افتتاح ہوا تھا اور گاڑی چھک چھک کرتی، دھواں اُڑاتی ٹرین اس شیر دریا کے اوپر سے بڑے شان سے گزری تھی۔ تب ہم موجودہ کوٹری، کوٹری سے آگے ریلوے کی تعمیرات پر تفصیل سے بات کریں گے مگر دُکھ کی بات یہ ہوگی کہ اب جو برٹن صاحب یہاں سے ریلوے میں کراچی جائیں گے اور وہاں سے انگلینڈ تو وہ یہاں واپس نہیں آئیں گے کیونکہ یہاں آنے کے لیے اُن کے نصیب میں صرف دو سفر لکھے تھے جو وہ کرچکے ہیں۔ مگر ہم کوئی اور ساتھی ضرور ڈھونڈ لیں گے جوکہ ہمارا اگلا ہمسفر ہو۔
حوالہ جات
- The Indus and Its Provinces. William Patrick Andrew. 1857.
- On The Completion of the Railway System of the Valley of the Indus. W.P. Andrew. 1869.
- Sind Revisted. Richard F. Burton, Vol: 1. London 1877
- ’نگری نگری پھرا مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2018ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’سندھ گزیٹیئر 1876ء‘۔ ہیوز۔ 2017ء۔ روشنی پبلیکیشنز، حیدرآباد