خواتین کو ہراساں کرنےکو جرم تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟
’میں پبلک ٹرانسپورٹ میں دفتر سے گھر جارہی تھی کہ اس دوران ایک نوجوان لڑکا بس میں سوار ہوا اور میرے سامنے بیٹھی لڑکی کے سامنے انتہائی نازیبا حرکت کرنا شروع کردی، لڑکے کے اس گھٹیا فعل پر دیگر مرد حضرات اسے روکنے کے بجائے ہنس رہے تھے، جس نے مجھے مزید پریشان کردیا، میں نے چاہا کہ کاش کچھ ایسا ہوجائے کہ میں بس سے غائب ہوجاؤں‘ ۔۔
یہ الفاظ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والی کراچی کی بسمہ کے ہیں جو آج بھی کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود اس واقعے کو نہیں بھلا پائیں۔
ہم آئے روز میڈیا پر پاکستان بھر میں راہ چلتی، بس میں سفر کرتی، کسی کام کے لیے مارکیٹ جانے والی یا پھر ملازمت کے لیے دفتر جانے والی خاتون کے ساتھ کسی نہ کسی نامناسب واقعے کی رپورٹ پڑھتے یا دیکھتے ہیں اور بدقسمتی سے یہ ہمارا ’معمول‘ بنتا جارہا ہے۔
میڈیا پر چلنے والی رپورٹس اگرچہ ملک کی مجموعی صورت حال کا تعین نہیں کرتیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رپورٹ ہونے والے واقعات اصل میں پیش آنے والے واقعات سے انتہائی کم ہوتے ہیں۔
پاکستان کے ہر بڑے اور چھوٹے شہر سے آئے دن خواتین اور طالبات کے ساتھ راہ چلتے ہوئے چھیڑ خانی اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے ہیں، جنہیں اسکرین پر دیکھنے کے بعد اکثر افراد نفسیاتی و ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ٹی وی اسکرین یا سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے کی وائرل ہونے والی ویڈیوز کو دیکھ کر عام طور پر وہ لڑکیاں ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہیں، جن کے ساتھ کبھی نہ کبھی اس طرح کا کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ چکا ہوتا ہے۔
ایسی ہی خواتین میں صوبہ سندھ کے درالحکومت کراچی کی 26 سالہ بسمہ (فرضی نام) بھی ہیں جو گزشتہ کئی سال سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی آ رہی ہیں۔
وہ بھی کراچی جیسے بے ہنگم شہر کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو اس مہنگائی کے دور میں نہ چاہتے ہوئے بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہیں، جہاں گاڑیوں پر نہ صرف گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کرتے ہیں بلکہ وہاں پر خواتین کو نامناسب رویوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے دفتر سے واپس گھر جا رہی تھیں کہ ملیر ہالٹ پر جب بس پہنچی تو ایک نوجوان لڑکا سوار ہوا جو خواتین کے حصے کے انتہائی قریب کھڑا ہوگیا۔
بسمہ نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس لڑکے نے ان کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی کے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی گھٹیا حرکتیں کرنا شروع کردیں، جس سے ان کے قریب بیٹھی لڑکی شدید پریشانی کا شکار ہوگئی لیکن مجبوری کے باعث وہ کچھ نہ بول سکی، اس وقت میرا دماغ بھی سُن ہوگیا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا ردعمل دینا چاہیے‘۔
بسمہ نے دعویٰ کیا کہ ’اس دوران انہیں اس بات پر شدید حیرت ہوئی کہ اسی لڑکے کے قریب موجود دیگر مرد حضرات لڑکے کے اس قبیح فعل کو روکنے اور کوئی ردعمل دینے کے بجائے ہنس رہے تھے۔ ’
انہوں نے بتایا کہ لڑکوں کے ہنسنے کے بعد انہیں شدید غصہ آیا اور فوری طور پر تیز آواز میں چلانا شروع کردیا، جس پر وہ لڑکا تیزی سے بس سے اترگیا۔
بسمہ کی طرح دیگر لاکھوں خواتین روز مرہ کی زندگی میں تعلیم کے حصول یا پھر ملازمت کے لیے دفتر جاتے وقت کسی نہ کسی طرح ہراسانی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور خطرناک بات یہ ہے کہ لڑکیوں کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات کو جرم یا غلط کام کے طور پر بالکل بھی دیکھا نہیں جاتا۔
اکثر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ہراسانی کے ایسے واقعات کو گھر میں شیئر نہیں کرتیں اور وہ اپنے گھر والوں یا دیگر دوستوں اور رشتے داروں کو بتانے سے اس لیے بھی گریز کرتی ہیں کہ کہیں وہ ان کے باہر جانے اور نوکری کرنے پر پابندی نہ لگا دیں۔
ایسے ہی ایک نامناسب واقعے کا شکار بننے والی یونیورسٹی کی طالبہ زرین کہتی ہیں کہ جب ان کا یونیورسٹی جانے کا پہلا دن تھا تو اسی دن ایک لڑکے نے یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے انہیں پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے فوری طور پر مزاحمت کی اور اسے دھکا دے کر بھاگ گئی۔‘
زرین بتاتی ہیں کہ ’اس واقعے کو 3 تین سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی جب ایسے واقعات ٹی وی پر رپورٹ ہوتے سنتی ہوں یا سوشل میڈیا پر پڑھتے دیکھتی ہوں تو دل کانپنے لگتا ہے‘۔
ان کے مطابق یونیورسٹی کے پہلے ہی روز اپنے ساتھ ہراسانی کے واقعے نے ان کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے اور آج تک انہیں لگتا ہے کہ کبھی نہ کبھی ان کے ساتھ ایسا دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔
زرین نے بتایا کہ جس روز ان کے ساتھ واقعہ پیش آیا تھا اسی روز وہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں کافی دیر تک روتی رہیں اور آج تک انہوں نے مذکورہ واقعے کا ذکر والدین سے اس لیے نہیں کیا کیونکہ شاید وہ ان کے یونیورسٹی جانے پر پابندی نہ لگا دیں۔’
زرین اور بسمہ کے ساتھ ہونے والے واقعات نئی بات نہیں، اس طرح کے واقعات دیگر شہروں میں بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔
خواتین نہ صرف عوامی مقامات بلکہ انٹرنیٹ پر بھی محفوظ نہیں اور انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ہراسانی اور نامناسب رویوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ فرحین بھی آن لائن ہراسانی کا شکار ہونے والی لڑکیوں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے اپنے ساتھ پیش ہونے والے واقعے سے متعلق بتایا کہ ایک بار انہوں نے آن لائن کھانا منگوایا اور جو رائیڈر ان کے پاس کھانا لے کر آیا تھا وہی رائیڈر کچھ دن بعد ان کے گھر آیا اور انہیں ہراساں کرنے لگا، یہاں تک کہ وہ انہیں واٹس ایپ پر فحش ویڈیوز بھی بھیجنے لگا۔
ان کے مطابق ایسا ان کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا، انہوں نے کوئی بڑا قدم اٹھائے بغیر رائیڈر کو بلاک کردیا۔
رائیڈر کے رویے پر کمپنی یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو رپورٹ کرنے سے متعلق سوال پر فرحین نے مایوس دکھائی دیں انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ایسے واقعات میں ملزمان کو کوئی سزا نہیں ہوتی بلکہ رپورٹ کرنے والوں کی بدنامی ہوتی ہے، اس لیے انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور رائیڈر کو بلاک کرنے کے بعد خاموش ہوگئیں۔’
خواتین کو ہراسانی کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد اگرچہ بعض افراد ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی کے خلاف کھل کر سامنے آتے ہیں، تاہم زیادہ تر افراد مبہم انداز میں ایسے عمل کو لڑکیوں کے لباس، ان کے عمل اور طرز زندگی سمیت مرد حضرات کے نفسیاتی مسائل سے بھی جوڑتے ہیں۔
عام طور پر جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ملزم پر انگلیاں اٹھانے سے قبل ہی متاثرہ خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا جاتا ہے کہ وہ فلاں جگہ پر اکیلی کیوں گئی تھی؟ اس طرح کا لباس کیوں پہنا تھا؟ ضرور انہوں نے کوئی اشارہ دیا ہوگا جب ہی تو مرد نے حرکت کی ہوگی؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
لیکن مرد حضرات کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے مردوں کی ان کے گھروں میں تربیت درست نہیں ہوتی یا بعض افراد بچپن میں اپنے ساتھ پیش آنے والے مظالم اور واقعات کا غصہ نکالنے کے لیے کمزور یعنی خواتین کو تنگ کرکے ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں اور کچھ افراد نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ نے لڑکوں کی جانب سے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے سوال پر ’ڈان ’ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے بہت سارے عوامل ہوسکتے ہیں، مذکورہ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے لیکن کسی طرح بھی لڑکوں کی ہراسانی کو جائز یا درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں، ہراسانی کا خواتین کے لباس سے ہرگز تعلق نہیں ہوتا کیونکہ آج کل بہت سے ایسے کیسز ہیں جہاں باحجاب خواتین ایسے واقعات کا شکار ہو رہی ہیں۔‘
ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ نے کہا کہ ’والدین لڑکوں کو بچپن سے وہ پرورش نہیں دے پاتے جو انہیں دینی چاہیے، بچپن سے ہی انہیں اپنے احساسات کا اظہار کرنے سے روکا جاتا ہے، اگر کوئی نوعمر لڑکا یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے شادی کرنی ہے تو والدین یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ ’تم ابھی بہت چھوٹے ہو، ابھی تم پر بہت ذمہ داریاں ہیں‘۔
ان کے مطابق ’ایسا کہنے کے بجائے والدین کو بچے کی بات سن لینی چاہیے کہ وہ ایسا کیوں چاہتا ہے، گھر میں بچے کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی، کہیں نہ کہیں جب بچوں کو گھر میں دبا کر رکھا جاتا ہے تو وہ اپنی نوجوانی کی عمر میں لڑکیوں کو تنگ نظری کےساتھ دیکھتے ہیں۔‘
’بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر گہری نظر رکھی جائے‘
ڈاکٹر حلیمہ کہتی ہیں کہ ’والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بچپن سے ہی اخلاقی اقدار سکھائیں۔ ’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل کے بچے موبائل کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں، موبائل فون پر جو مواد بچے دیکھتے ہیں، اس پر والدین کو گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کو اگر جنس یا تعلقات کے حوالے سے کوئی مواد نظر آجائے تو اس تجربے سے وہ خود گزرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اس لیے بچوں کے اسکرین ٹائم پر گہری نظر رکھی جائے، بچوں کو موبائل دینے کے بجائے انہیں اچھے اور بُرے میں فرق سمجھایا جائے۔ ’
انہوں نے بتایا کہ ’عوامی مقامات پر لڑکیوں کی جانب سے نامناسب حرکتیں کرنا بعض اوقات ایک بیماری بھی ہوسکتی ہے، جسے طبی اصطلاح میں فیوچرسٹک ڈس آڈرfuturistic disorder کہاجاتا ہے، یہ اصل میں ذہنی بیماری ہے جس میں انسان جنسی حرکتوں کے ذریعے لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔
ڈاکٹر حلیمہ نے بتایا کہ اس بیماری کی وجوہات مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہیں جن میں کبھی کبھار انسان کے بچپن میں ایسے واقعات سے گزرنا شامل ہے جس نے اس کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا ہو یا دوسری جنس کے حوالے سے غیر حقیقی تصورات رکھنا بھی شامل ہے۔
اس بیماری کے علاج سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ ’اس بیماری کا علاج ممکن ہے، ادویات کے ذریعے یا تھراپی کے ذریعے اس نفسیاتی عارضے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
’سیکس ایجوکیشن فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘
ڈاکٹر حلیمہ نے جنسی تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’لڑٖکوں کے ساتھ بھی ہراسانی کے واقعات ہوتے ہیں، اس لیے لڑکیوں سمیت لڑکوں کو بھی چھوٹی عمر سے سیکس ایجوکیشن کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ’ آج کل ہمارے معاشرے میں consent کی اہمیت نہیں بتائی جاتی، کسی سے اجازت لینے کی اہمیت بہت ضروری ہے، ایسا کرنے سے آپ دوسری جنس کے احساسات کو اہمیت دیتے ہیں لیکن معاشرے میں اس بات کو اہمیت نہ دینے سے ازدواجی ریپ کے واقعات بھی عام ہوگئے ہیں جسے خواتین دوسروں کو بتانے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔’
’معاشرے میں اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی ختم ہوگئی ہے‘
ڈاکٹر حلیمہ نے بتایا کہ خواتین کو ہراسانی کا نشانہ بنانے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ’کبھی کبھار مرد اپنی مردانگی جتانے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں، وہ خواتین پر اپنی طاقت آزمانا چاہتے ہیں۔
اسی حوالے سے انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے بتایا کہ ’مرد سمجھتا ہے کہ عورت اس کی ملکیت ہے، وہ جیسا چاہے اس کے ساتھ سلوک کرسکتا ہے، عورت کو ایک جسم سے زیادہ ایک انسان ہونے کا درجہ نہیں دیا جاتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب مرد گھر میں ہی عورت کو ملکیت سمجھنے لگتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہے تو مرد وہی ذہنیت لے کر سڑک پر نکلتا ہے اور کسی عورت کو دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ جب وہ کسی عورت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا بدتمیزی کرے گا تو اسے لگے گا کہ یہ کوئی جرم نہیں ہے۔‘
فرزانہ باری کہتی ہے کہ ایک زمانے میں جنسی ہراسانی کو جرم بھی تسلیم نہیں کیاجاتا تھا۔
ان کے مطابق اب جنسی ہراسانی کے ایکٹ میں عورت کو بُری نظر سے دیکھنے اور گھورنے کو بھی جنسی ہراسانی میں شامل کیا گیا ہے ورنہ مردوں کو لگتا ہے کہ عورت کو نیچے سے اوپر دیکھ لینا اور کسی خاتون کو دیکھ کر آوازیں نکالنا کوئی جرم نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’لوگوں میں ہراسانی کے قانون کے حوالے سے شعور نہیں ہے، کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کو اپنایا نہیں گیا چونکہ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی کمزور پڑتی جارہی ہے تو لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سامنے کھڑی عورت سے کوئی مرد بدتمیزی کر رہا ہے یا ہراسانی کررہا ہے ۔‘
فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں، پاکستان میں عورت کو انسان ہونے کے تصور کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اسی وجہ سے پاکستان میں ہراسانی کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ ’
ایسے ملزمان کے خلاف پاکستان میں کیا قانون ہے؟
پاکستان میں آئے روز خواتین کے ساتھ ایسے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، ایسے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہراساں کرنے والے ملزم کے خلاف ملک میں کیا قانون ہے؟
جب ڈان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ محمد فاروق سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں ہراسانی کرنے والے ملزم کے خلاف کیا سزا ہوتی ہے؟ تو محمد فاروق نے بتایا کہ عوامی مقامات پر ہراسانی کرنے پر پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 354 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی خاتون کے ساتھ نازیبا حرکت کرے اور طاقت کا استعمال کرے تو اسے دو سال قید یا جرمانہ یا پھر قید اور جرمانہ دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
محمد فاروق ایڈووکیٹ نے مزید بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 354 اے کے مطابق اگر کوئی شخص عوامی مقام پر کسی خاتون کے ساتھ فحش حرکت کرے اور ان کا لباس اتاردے تو اسے سزائے موت یا عمر قید ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ کام کی جگہ یا عوامی مقام پر توہین آمیز سلوک یا جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 509 کے تحت مجرمانہ کارروائی قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا 3 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک کا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
’قانون کمزور نہیں، تفتیش کمزور ہوتی ہے‘
ایڈووکیٹ محمد فاروق سے جب خواتین کی جانب سے مقدمہ درج کرنے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کراچی میں صرف ایک فیصد خواتین ایسے واقعات کے خلاف مقدمہ درج کرواتی ہیں۔
پاکستانی میں قانون کی حکمرانی کمزور پڑنے اور نفاذ نہ ہونے کے حوالے سے ایڈووکیٹ محمد فاروق کہتے ہیں کہ ’ قانون کمزور نہیں ہوتا بلکہ کیس میں پولیس کی تحقیقات اور تفتیش میں کمی ہوتی ہے۔ ’
انہوں نے کہا کہ ’ہراسانی کے کیسز میں پولیس کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ملزمان سلاخوں سے باہر نکل آتے ہیں، عدم شواہد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص تحقیقات کیس کو کمزور کردیتی ہیں جس کی وجہ سے مظلوم کیس واپس لینے پر مجبور ہوجاتا ہے یا پھر کیس رپورٹ ہی نہیں کرتا۔ ’
تھانے میں رپورٹ درج کرنے پر پیش آنے والے مسائل کے سوال پر سندھ کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نزہت شیریں نے ڈان کو بتایا کہ تھانے میں اگر کوئی عورت ہراسانی کا واقعہ رپورٹ کرنے جاتی ہے تو انہیں طویل گھنٹے انتظار کروایا جاتا ہے، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہراسانی کی شِق کے بجائے کسی اور شِق کے تحت ایف آئی آر درج کرلی جاتی ہے۔
انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’جب میں ایک ادارے کی چیئرپرسن ہونے کی حیثیت سے ایک ہندو لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کروانے رات 8 بجے تھانے گئی تو مقدمہ درج ہونے کے لیے مجھے تقریباً 6 گھنٹے لگے، میں تھانے سے رات 2 بجے واپس آئی، تو سوچیں کہ عام شہری کو کس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟‘
نزہت شیریں کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ تھانے میں میٹرک اور انٹر پاس پولیس اہلکار تعینات کردیے جاتے ہیں اور وہی ایف آئی آر درج کررہے ہوتے ہیں جنہیں قانون کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔ ’
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں قانون موجود ہے، کیس کی تحقیقات کے لیے فرانزک لیب اور دیگر جدید آلات موجود ہیں، اداروں کو آپس میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اہل لوگوں کو بھرتی کرکے ہی معاشرے میں جرائم کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ ’
نزہت شیریں نے بتایا کہ ’ قانون کا عدم نفاذ اور ملزمان کو سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے بھی ایسے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، صرف صوبہ سندھ میں رواں برس کے ابتدائی 4 ماہ میں خواتین پر تشدد، ریپ اور قتل کے ایک ہزار کے قریب واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔’
انہوں نے سندھ پولیس کی رپورٹ فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا ادارہ پولیس کی رپورٹس پر اکتفا کرتا ہے، سندھ پولیس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2023 سے لے کر 30 اپریل 2023 تک صوبے بھر میں خواتین کے خلاف تشدد اور ہراسانی کے ایک ہزار کے قریب مقدمات درج ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں سال کے ابتدائی چار ماہ میں 529 اغوا کے کیسز، 119 گھریلو تشدد، ریپ اور جنسی ہراسانی کے 56 کیسز، 37 کیسز غیرت کے نام پر قتل، کام کی جگہ پر ہراسانی کے 20 کیسز اور جسمانی تشدد کے 10 کیسز رپورٹ ہوئے۔
خواتین کو عوامی مقامات کے علاوہ آن لائن پلیٹ فارمز پر ہراسانی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ اگرچہ رپورٹ ہونے والے کیسز انتہائی کم ہیں لیکن ہر سال ان میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
خواتین کو سب سے زیادہ انسٹاگرام، دوسرے نمبر پر فیس بک اور واٹس ایپ پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ایسے کیسز سے نمٹنے کے لیے سرکاری سطح پر صرف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ہی کام کر رہا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق ادارے نے 2022 کے دوران آن لائن ہراسانی کی 2 ہزار 600 سے زائد شکایات درج کیں۔
’سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کی سالانہ رپورٹ 2022‘ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا کہ پورے سال میں ادارے کو 2 ہزار 695 نئے کیسز موصول ہوئے، یعنی تنظیم کو اوسطاً ہر ماہ 224 کیسز موصول ہوئے۔
یہ اعداد و شمار ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ’سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن‘ اور ای میل اور ڈی آر ایف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے رپورٹ کیے گئے کیسز کی بنیاد پر مرتب کیے گئے۔
کُل شکایت کنندگان میں سے تقریباً 52 فیصد افراد کی عمر 18 سے 30 سال تھی جبکہ کُل شکایات میں سے تقریباً 58.6 فیصد خواتین کی جانب سے درج کروائی گئیں۔