• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان میں سابق وزرائے اعظم کب کب گرفتار ہوئے؟

پاکستان میں وزارت عظمیٰ پر رہنے والے افراد کو گرفتار اور قید کیے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔
شائع August 5, 2023

ہفتے کو اسلام آباد کی ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو ’کرپٹ پریکٹسز‘ میں ملوث ہونے پر مجرم قرار دیا جس کے فوری بعد پنجاب پولیس نے عمران خان کو زمان پارک لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔

یہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی دوسری گرفتاری ہے۔ اس سے قبل انہیں 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔

عمران خان گرفتار ہونے والے یا مقدمات کا سامنا کرنے والے پہلے سابق وزیر اعظم نہیں ہیں۔ پاکستان میں وزارت عظمیٰ پر رہنے والے افراد کو گرفتار اور قید کیے جانے کی ایک تاریخ موجود ہے۔

یہاں ڈان آپ کے لیے ان سابق وزرائے اعظم کی ایک ٹائم لائن پیش کررہا ہے جنہوں گرفتاریوں اور قید کا سامنا کیا۔

1960 کی دہائی

جنوری 1962ء: حسین شہید سہروردی پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم تھے (ستمبر 1956ء تا اکتوبر 1957ء)۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی توثیق سے انکار کردیا تھا۔ ان پر پہلے الیکٹیو باڈیز ڈسکوالیفیکیشن آرڈر (ای بی ڈی او) کے تحت سیاست کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور بعد ازاں جولائی 1960ء میں ان پر ای بی ڈی او کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ جنوری 1962ء میں انہیں 1952ء کے سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ کے من گھڑت الزامات کے تحت گرفتار کرکے کسی مقدمے کے بغیر کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔

   31 جنوری 1962ء کے ڈان اخبار میں حسین شہید سہروردی کی گرفتاری کی خبر
31 جنوری 1962ء کے ڈان اخبار میں حسین شہید سہروردی کی گرفتاری کی خبر

1970ء کی دہائی

ستمبر 1977: ذوالفقار علی بھٹو اگست 1973ء سے جولائی 1977ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ستمبر 1977ء میں انہیں 1974ء میں ایک سیاسی مخالف کو قتل کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

   4 ستمبر 1977ء کے ڈان اخبار میں بھٹو کی گرفتاری کی خبر
4 ستمبر 1977ء کے ڈان اخبار میں بھٹو کی گرفتاری کی خبر

انہیں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے اس بنا پر رہا کیا کہ ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ لیکن 3 دن بعد ہی مارشل لا ریگولیشن 12 کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ اس ریگولیشن کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتے ہیں جو سلامتی، امن و امان، یا مارشل لا کے بلا روک ٹوک چلنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہو۔ اس قانون کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

بلآخر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی اور انہیں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی۔

1980ء کی دہائی

اگست 1985ء: بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں (دسمبر ء1998 تا اگست 1990ء اور اکتوبر 1993ء تا نومبر 1996ء)۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت (1977ء-1988ء) میں بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر رہیں۔ وہ اگست 1985ء میں اپنے بھائی کے جنازے میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچیں اور 90 دن تک گھر میں نظر بند رہیں۔

   30اگست 1985ء کو ڈان اخبار میں بےنظیر بھٹو کی گرفتاری کی خبر
30اگست 1985ء کو ڈان اخبار میں بےنظیر بھٹو کی گرفتاری کی خبر

اگست 1986ء: بے نظیر بھٹو کو کراچی میں یوم آزادی کے موقع پر ایک ریلی میں حکومت کی مذمت کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

1990ء کی دہائی

مئی 1998ء: لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

جون 1998ء: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بے نظیر بھٹو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

جولائی 1998ء: احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

  بےنظیر بھٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبریں— ڈان اخبار
بےنظیر بھٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبریں— ڈان اخبار

اپریل 1999ء: احتساب بینچ نے کسٹم فراڈ سے نمٹنے کے لیے رکھی گئی ایک سوئس کمپنی سے کِک بیکس لینے کے جرم میں بےنظیر بھٹو کو 5 سال قید کی سزا سنائی اور عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا۔ اس وقت بےنظیر بھٹو ملک میں موجود نہیں تھیں، بعد ازاں اس سزا کو ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اکتوبر 1999ء: احتساب بینچ نے ایسَٹ ریفرنس کیس میں عدم حاضری کی بنیاد پر بےنظیر بھٹو کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

  اپریل اور اکتوبر 1999ء میں بے نظیر بھٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے— ڈان اخبار
اپریل اور اکتوبر 1999ء میں بے نظیر بھٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے— ڈان اخبار

2000ء کی دہائی

ستمبر 2007ء: 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جلا وطن کیے جانے کے بعد نواز شریف وطن واپس لوٹے۔ ان کی واپسی پر اسلام آباد ایئرپورٹ کو سیل کردیا گیا تھا۔ واپسی کے چند گھنٹوں کے اندر ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا اور 10 سالہ جلاوطنی کے باقی 3 سال پورے کرنے کے لیے سعودی عرب کے شہر جدہ بھیج دیا گیا۔

   ڈان اخبار میں نواز شریف کی گرفتاری اور جلاوطنی کی خبر
ڈان اخبار میں نواز شریف کی گرفتاری اور جلاوطنی کی خبر

نومبر 2007: بےنظیر بھٹو کو پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر لطیف کھوسہ کے گھر ایک ہفتے کے لیے نظر بند کردیا گیا تاکہ انہیں جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی قیادت سے روکا جائے۔

   ڈان اخبار میں بےنظیر بھٹو کو نظر بند کیے جانے کی خبر
ڈان اخبار میں بےنظیر بھٹو کو نظر بند کیے جانے کی خبر

2010ء کی دہائی

جولائی 2018ء: قومی احتساب بیورو کی جانب سے نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی مریم نواز کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دو ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا جب عدالت نے ہائی کورٹ کی جانب سے حتمی حکم آنے تک ان کی سزا کو معطل کیا۔

دسمبر 2018ء: نواز شریف کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور ان کے خاندان کی سعودی عرب میں ایک اسٹیل مل کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ نومبر 2019ء میں انہیں علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ وہ اس کے بعد سے پاکستان واپس نہیں آئے ہیں۔

جولائی 2019ء: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی جنوری 2017ء سے مئی 2018ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ 19 جولائی کو انہیں 12 رکنی نیب ٹیم نے گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2013ء میں وزیر پیٹرولیم ہوتے ہوئے ایل این جی کی درآمد کے اربوں روپے کے ٹھیکے میں مبینہ کرپشن کی ہے۔ انہیں 27 فروری 2020ء کو ضمانت ملنے پر اڈیالہ جیل سے رہا کیا گیا۔

2020ء کی دہائی

ستمبر 2020ء: منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب کیس میں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو 28 ستمبر کو گرفتار کیا گیا۔ انہیں تقریباً 7 ماہ بعد لاہور کی کوٹ لکھپت سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔

مارچ 2023ء: جج کو دھمکی دینے اور توشہ خانہ تحائف کے حوالے سے جاری کیسز میں پیش نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے دو علیحدہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری روکنے کے لیے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پارٹی کارکان جمع ہوگئے۔ اس دوران کارکنان اور سیکیورٹی فرسز کے درمیان پر تشدد تصادم ہوا جس میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی۔

مئی 2023ء: 9 مئی کو عمران خان کو القادر یونیورسٹی ٹرسٹ سے متعلق کرپشن کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا۔ دو دن بعد سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کو ’غیر قانونی اور ناجائز‘ قرار دیا جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

  رینجرز اہلکار عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے لے جارہے ہیں— اسکرین گریب/ فائل
رینجرز اہلکار عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے لے جارہے ہیں— اسکرین گریب/ فائل

اگست 2023ء: القادر ٹرسٹ کیس میں اپنی گرفتاری اور رہائی کے تقریباً 3 ماہ بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب پولیس نے لاہور کے علاقے زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات چھپانے پر عمران خان کو (جو عدالت میں موجود نہیں تھے) 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ اس موقع پر عمران خان کے وکلا بھی عدالت میں موجود نہیں تھے۔


یہ تحریر 5 اگست 2023ء کو ڈان پرزم پر شائع ہوئی۔

عریشہ ریحان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔