’برہنہ کرکے جسم جانچا گیا‘ مس یونیورس انڈونیشیا کی امیدواروں کا الزام
قدامت پسند اسلامی ملک انڈونیشیا میں خواتین کی خوبصورتی کے مقابلے میں بطور امیدوار شرکت کرنے والی کم از کم 6 خواتین نے الزام عائد کیا ہے کہ مقابلوں کے دوران انہیں مرد حضرات کے سامنے برہنہ کرکے ان کے جسم کو جانچا گیا۔
’مس یونیورس‘ کے نام سے خوبصورتی کے مقابلے کو عالمی حیثیت حاصل ہے اور ہر ملک کے ’مس یونیورس‘ کے آرگنائیزر اپنی منتخب ہونے والی امیدوار کو فائنل میں بھیجتے ہیں۔
انڈونیشیا ان چند اسلامی ممالک میں سے ایک ہے جو مس یونیورس اور مس ورلڈ کے مقابلہ حسن میں حصہ لیتا ہے اور وہاں ان مقابلوں میں شرکت کے لیے ہزاروں نوجوان لڑکیاں کوشش کرتی ہیں۔
قدامت پسند اور اسلامی ملک ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں ایسے مقابلوں کے دوران بہت سارے بولڈ ایونٹس نہیں کرائے جاتے، تاہم اس باوجود اب ’مس یونیورس‘ 2023 کے مقابلے میں حصہ لینے والی نصف درجن امیدواروں نے سنگین الزامات عائد کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’مس یونیورس انڈونیشیا‘ منتظمین پر الزام لگانے والی 6 امیدواروں نے جکارتا پولیس میں جنسی ہراسانی اور ناروا سلوک کی شکایت درج کروادی۔
پولیس نے خواتین کی جانب سے موصول ہونے والی شکایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کو بنیاد بنا کر معاملے کی تفتیش کی جائے گی اور ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
منتظمین پر الزام لگانے والی 6 میں سے پانچ خواتین نے پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ انہیں کمرے میں اپنا زیر جامہ تک اتارنے کا کہا گیا اور کمرے میں 20 افراد موجود تھے۔
مقابلہ حسن میں شامل ہونے والی خواتین نے دعویٰ کیا کہ جسم کو جانچنے کے بہانے برہنہ کرکے ان کی تصاویر بنائی گئیں۔
ایک خاتون نے دعویٰ کیا کہ انہیں انتہائی نامناسب انداز میں تصاویر بنوانے کا بھی کہا گیا۔
خواتین نے کہا کہ مس یونیورس انڈونیشیا کے رویے پر وہ بہت پریشان ہیں، انہیں نیند تک نہیں آتی، وہ ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوگئیں۔
دوسری جانب مس یونیورس انٹرنیشنل نے بھی کہا ہے کہ وہ انڈونیشیا میں سامنے آنے والی شکایات کو دیکھ رہے ہیں۔
انڈونیشیا میں ’مس یونیورس‘ کے مقابلے جولائی کے اختتام سے اگست کے پہلے ہفتے تک رہے اور اس میں ملک بھر سے درجنوں نوجوان لڑکیوں نے شرکت کی۔
انڈونیشیا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک ہے، وہاں کے قدامت پسند حلقے خوبصورتی کے مقابلوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
اسی خبر کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپنی رپورٹ میں مختلف نشریاتی اداروں کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جن خواتین کو کمرے میں برہنہ ہونے کا کہا گیا انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمرے میں مرد حضرات بھی موجود تھے۔
خواتین کے مطابق جس کمرے میں ان کے جسم کو جانچا گیا، اس کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا، جس سے انہیں شدید پریشانی ہوئی کہ باہر کے لوگ بھی کمرے کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔