بجلی 2 روپے 31 پیسے فی یونٹ تک مہنگی کرنے کی منظوری
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے فیول کوسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی مد میں پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے 1.81 روپے فی یونٹ اور کے-الیکٹرک صارفین کے لیے بجلی 2.31 روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جس سے 29 ارب روپے کے مالیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صارفین جون میں استعمال کی گئی بجلی پر اپنے اگست کے بلوں میں یہ اضافی چارجز الگ دیکھیں گے۔
نیپرا نے ڈسکوز کے لیے جاری کردہ اپنے نوٹی فکیشن میں کہا کہ سوائے الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز اور لائف لائن صارفین کے 1.81 روپے فی یونٹ کی ایڈجسٹمنٹ تمام صارفین پر لاگو ہوگی۔
کے الیکٹرک کے لیے اسی طرح کے ایک نوٹی فکیشن میں ایف سی اے کو 2.31 روپے فی یونٹ مقرر کیا، جس سے 4.3 ارب روپے کا مالیاتی اثر ہوگا۔
کے الیکٹرک نے اپنی درخواست میں اگست کے بل میں اضافی فنڈز کی مد میں 4.4 ارب روپے کی وصولی کے لیے جون میں استعمال کی گئی بجلی پر فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 2.34 روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم نیپرا نے 2.31 روپے فی یونٹ کی منظوری دی۔
اسی طرح ڈسکوز نے اگست میں 25 ارب روپے کی وصولی کے لیے جون کے لیے 1.88 روپے فی یونٹ ایف سی اے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ریگولیٹر نے 1.81 روپے فی یونٹ کی منظوری دی ہے۔
اپریل میں 54 فیصد اور مئی میں 56 فیصد کے مقابلے میں سستے مقامی ایندھن سے 58 فیصد سے زائد بجلی کی پیداوار کے باوجود فیول کوسٹ ایڈجسٹمنٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔
یہ ایڈجسٹمنٹ ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب بنیادی اوسط ٹیرف میں 7 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا جاچکا ہے اور فرنس آئل اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) جیسے درآمدی ایندھن کی لاگت میں کمی آئی ہے۔
فیول کوسٹ ایڈجسٹمنٹ کے پیچھے ایک اہم وجہ پہلے سے طے شدہ ریفرنس ٹیرف میں تخمینہ سے ہائیڈرو پاور جنریشن کی نسبتاً کم دستیابی (پیدوار میں 30 فیصد حصہ) ہے۔
مئی میں نیشنل گرڈ میں ہائیڈرو پاور جنریشن 26.96 فیصد تھی جبکہ یہی تناسب ایک ماہ قبل 24 فیصد تھا، ہائیڈرو پاور میں ایندھن کی کوئی لاگت نہیں آتی۔
جون میں بجلی کی کل پیداوار میں ایل این جی کا حصہ 18.55 فیصد تھا جو مئی میں 24.33 فیصد تھا، لیکن ہائیڈرو پاورکے بعد ایل این جی نے اپنی دوسری پوزیشن برقرار رکھی۔
بجلی کی پیداوار میں تیسرا سب سے بڑا حصہ (17.75 فیصد) کوئلے کا رہا جبکہ مئی میں اس کا شیئر 16.78 فیصد رہا تھا، نیوکلیئر سے مئی میں 12.6 فیصد بجلی پیدا ہوئی تھی لیکن جون میں اس میں قدرے بہتری آئی اور یہ 13.54 فیصد پر آگئی جو اپریل میں 19 فیصد اور فروری میں 24.28 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
مقامی گیس سے بجلی کی سپلائی جون میں کم ہو کر 8.54 فیصد تک رہ گئی جبکہ مئی میں یہ 10.35 فیصد اور اپریل میں 12 فیصد تھی، فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار مئی میں 23.24 روپے فی یونٹ کے مقابلے میں بڑھ کر جون میں 26.1 روپے فی یونٹ ہوگئی۔
ایل این جی سے بجلی کی پیداوار مئی میں 24.5 روپے فی یونٹ کے مقابلے جون میں کم ہوکر 24.07 روپے فی یونٹ ہوگئی، فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار جون میں بڑھ کر 5.4 فیصد ہوگئی جو کہ مئی میں 1.96 فیصد تھی۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے ڈسکوز کی جانب سے دعویٰ کیا کہ جون میں صارفین سے ایندھن کی قیمت 7.51 روپے فی یونٹ وصول کی گئی لیکن اصل قیمت 9.39 روپے فی یونٹ تھی، لہٰذا 1.885 روپے فی یونٹ اضافی چارجز عائد کرنے کی ضرورت ہے۔
مقامی گیس سے بجلی کی پیداواری لاگت مئی میں 12.45 روپے فی یونٹ کے مقابلے جون میں قدرے کم ہوکر 11.74 روپے فی یونٹ ہوگئی لیکن حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے فروری میں یہ قیمت 10.07 روپے فی یونٹ سے زیادہ تھی۔
کوئلے سے بجلی کی پیداوار جون کے مہینے میں بڑھ کر 14.05 روپے فی یونٹ تک ہو گئی جبکہ مئی میں یہ 10.5 روپے فی یونٹ تھی۔
تینوں قابل تجدید توانائی کے ذرائع (ہوا، بیگاس اور شمسی توانائی) نے مل کر جون میں تقریباً 5.6 فیصد توانائی کی پیداوار میں حصہ ڈالا جو کہ مئی میں 6.6 فیصد تھا، ہوا اور شمسی توانائی پر ایندھن کی کوئی لاگت نہیں آتی جبکہ بیگاس سے بجلی کی پیداوار کی لاگت 6 روپے فی یونٹ پر برقرار ہے۔
ملک بھر میں لاگو ٹیرف رجیم کے مطابق فیول کوسٹ ایڈجسٹمنٹ کا ہر ماہ جائزہ لیا جاتا ہے اور عام طور پر یہ صرف ایک ماہ کے لیے صارفین کے بلوں پر لاگو ہوتا ہے۔