پاکستان ٹیلی ویژن: ’ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو‘
جشنِ آزادی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کا ذکر نہ کیا جائے تو مسرت و شادمانی کے نظارے ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویردکھائی دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی ویژن نے 1960ء کی دہائی میں اپنے قیام کے بعد پاکستانیوں کی زندگی میں بے شمار تفریحی اور تہذیبی رنگ بھر دیےجو آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں۔
پی ٹی وی کے اپنی مٹی کی محبت اجاگر کرتے ڈرامے ہوں یا شہدا و غازیوں کی قربانیوں کے عکاس، تاریخ کے جھروکوں سے روشناس کرواتے یا محبت فاتح عالم کے جلوے دکھاتے ڈرامے، محافل نعت ہوں، کوئز شوز، مذاکرے، مکالمے، مسالمے۔ مشاعرے، طنز و مزاح، کھیل تفریح ہرشعبے میں قومی ادارے نے اپنے ہنر و فن کے جھنڈے گاڑے اور پاکستانیوں کے دل موہ لیے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کا شعبہ خبر اگرچہ ہمیشہ حکومتوں کا ترجمان ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہا لیکن اس میں دورائے نہیں کہ کئی دہائیوں تک پی ٹی وی ہمارا واحد ’جامِ جہاں نما‘ رہا ہے۔ پاکستان کی 76ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے قیام کے پچاسویں سال میں داخل ہونے والے پاکستان ٹیلی ویژن کے ماضی، حال اور مستقبل پر ایک تحریر نذر قارئین ہے۔
کراچی سینٹر مرکز نگاہ
راحیلہ فردوس 14 سال (1987ء تا 2001ء) پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نیوز کاسٹر وابستہ رہی ہیں۔ رات نو بجے کے معروف پی ٹی وی ’خبرنامہ‘ میں وہ کراچی سے قومی نشریاتی رابطے پر خبریں پڑھنے والی واحد خاتون تھیں۔ راحیلہ اب امریکا میں مقیم ہیں۔
راحیلہ نے پی ٹی وی پر بحیثیت نیوز کاسٹر اپنے تجربات پر گفتگو کا آغاز اس بات سے کیا کہ ’پاکستان ٹیلی ویژن ایک ایسی درسگاہ تھی جہاں نہ صرف افراد کی پروفیشنل تربیت ہوتی تھی بلکہ ان کےقومی کردار کی تشکیل بھی کی جاتی تھی۔ اس ادارے کے تربیت یافتہ لوگ آج دنیا میں جہاں بھی موجود ہیں ایک شاندار شناخت رکھتے ہیں‘۔
راحیلہ فردوس نے کہا کہ ’1980ء کی دہائی میں پی ٹی وی کراچی سینٹر نو بجے کی خبروں میں مرکزی حیثیت کا حامل تھا۔ خبروں کی پیشکش کا انتہائی کڑا معیار تھا۔ خبرنامے کی ہر خبر نہایت چھان پھٹک کے بعد اور ریہرسل کر کے پڑھی جاتی تھی۔ اسلام آباد سے ’خبروں کے خلاصے‘ سے خبرنامے کا آغاز ہوتا تھا، صدر، وزیراعظم کی خبروں کے بعد کیمرہ کٹ کرکے کراچی آتا تھا، یہاں سے تمام بین الاقوامی خبریں، صوبے کی خبریں، اسٹاک ایکسچینج، کھیل اور موسم کی خبریں پیش کی جاتی تھیں۔ کئی مرتبہ اسلام آباد سے صرف ہیڈ لائنز ہوتیں اور 35 منٹ کے خبر نامے میں زیادہ تر وقت کیمرا کراچی میں رہتا۔ اس لائیو کوریج کے دوران جبکہ نیوز کاسٹرز اسکرین پر چلتی ریل/ فلم سے ہم آہنگ ہوکر خبریں پڑھ رہے ہوتے تھے تو نیوز روم کے تمام اسٹاف کی جان پر بنی ہوتی تھی۔ پی ٹی وی کی خبریں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ کی سرگرمیوں سے شروع ہوتی تھیں اور خبرنامے کی وڈیو روزانہ ان صاحبان کو بھیجی جاتی تھی، کسی بھی معمولی غلطی کی صورت میں عملے کی ملازمتیں داؤ پر لگی ہوتی تھیں‘۔
نیوز کاسٹر کی چپل
راحیلہ فردوس نے بتایا کہ ’خبروں سے پہلے ریہرسل کی جاتی تھی تاہم کبھی عین ٹائم پر وی آئی پی نیوز جاتیں اور ایک افراتفری مچ جاتی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ نو بجے کے خبرنامے کے لیے مجھے ٹھیک آٹھ بج کر انسٹھ منٹ پر ڈائریکٹر اقبال جمیل نے وی آئی پی نیوز کا اسکرپٹ تھما دیا کہ یہ نیوز پڑھنی ہے۔ بغیر ریہرسل کیے نیوز کے لیے اس افراتفری میں کیمرے کی طرف بھاگتے ہوئے حقیقتاً میرے پاؤں سے چپل نکل گئی اور میں اسی طرح ننگے پاؤں جا کر اپنی نشست پر بیٹھی اورجب کراچی کی خبریں مکمل ہونے کے بعد کیمرا کٹ ہوگیا تو اپنی چپل کی فکر کی۔
پی ٹی وی کا کڑا معیار
راحیلہ نے بتایا کہ انہوں نے نیوز کاسٹر کے لیے درخواست دی تھی۔ ان کا آڈیشن پروڈیوسر اقبال جمیل اور نیوز ایڈیٹر ثمینہ قریشی نے لیا تھا۔ ان سے دو مرتبہ خبریں پڑھوائی گئیں، وہ سمجھیں کہ شاید وہ درست نہیں پڑھ رہیں لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ دوسری مرتبہ ریکارڈنگ کی جارہی تھی۔ پہلے آڈیشن کے بعد انہیں دوبارہ بلایا گیا اور میک اپ کر کے آڈیشن لیا گیا۔ راحیلہ کی سلیکشن ہوگئی تاہم پانچ چھ ماہ تک ان سے خبریں پڑھوانے کی بجائے صرف ڈیسک پر بٹھایا گیا جہاں ان کا کام نیوزکاسٹرز کا مشاہدہ کرنا تھا۔
سینئر پروڈیوسر شاہد کامرانی جن کا اردو تلفظ بہترین تھا وہ راحیلہ سے خبریں پڑھوا کر سنتے تھے۔ ایک ایک لفظ کی قابل فہم ادائیگی، لہجے کا زیر و بم، تلفظ کی درستی یقینی بنائی جاتی تھی۔ چھ ماہ بعد انہیں بتایا گیا کہ وہ اب مقامی خبریں پڑھیں گی۔ دو ماہ تک پانچ بجے کی مقامی خبریں کامیابی سے پڑھنے کے بعد راحیلہ کو رات نو بجے کے مرکزی ’خبرنامہ‘ کے لیے موقع دیا گیا۔ کراچی مرکز پر دس سال تک راحیلہ واحد خاتون نیوز کاسٹر رہیں، ان کے ساتھی نیوزکاسٹرز میں زبیرالدین، شہاب الدین اور مصباح الدین شامل تھے۔
ٹیلی پرامپٹر کا کراچی سے آغاز
راحیلہ نے بتایا خبروں کے لیے ٹیلی پرامپٹر کا استعمال کراچی مرکز سے شروع ہوا۔ اس کے ذریعے خبریں پڑھنا اچھا خاصا چیلنج تھا۔ ٹیلی پرامپٹر کی سیٹنگ کے لیے جن صاحب کو رکھا گیا وہ ضعیف تھے۔ پرامپٹر چلاتے ہوئے وہ اکثر گڑ بڑ کردیتے تو نیوز کاسٹرز کو ہوشیاری سے معاملہ سنبھالنا پڑتا۔
کراچی مرکز کا حال اور ماضی
راحیلہ نے کہا پاکستان ٹیلی ویژن پر خبروں کے ذریعے سنسنی پھیلانے کی سخت ممانعت تھی۔ شہر میں بدامنی اور جلاؤ گھیراؤ کی خبروں میں نہایت احتیاط سے کام لیا جاتا تھا۔ حالات حاضرہ کے پروگراموں میں اپنے شعبے کے ماہرین کو بلایا جاتا، پینل ڈسکشنز میں مہذب اندازاپنایاجاتاتھا، اختلاف رائے بھی شائستگی سے کیا جاتا تھا۔
راحیلہ فردوس 1990ء کی دہائی میں پی ٹی وی کراچی مرکز کی چہل پہل، اس کے ماحول اور رونق کو یاد کرکے افسردہ ہو جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان آمد پر وہ پی ٹی وی اسلام آباد گئیں، ان کا کہنا ہے کہ جدید ترین سہولیات سے لیس بین الاقوامی معیار کے حامل پاکستان ٹیلی ویژن کا مرکز دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے لیکن کراچی مرکز کوپہلے کے مقابلے میں بے رونق دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ شہر آج بھی سیاست، صنعت، تجارت، کھیل اورثقافت کا مرکز ہے، پی ٹی وی کراچی کو اس شہر کی رنگارنگی اجاگر کرنے کے لیے فعال ہونا چاہیے۔
نانی اماں کا پی ٹی وی کے لیے اشتیاق
پچیس سے زائد کتابوں کی مصنفہ، ڈراما نگار اورمعروف مزاح نگار انور مقصود کی اہلیہ عمرانہ مقصود پاکستان ٹیلی ویژن کے حال، ماضی اورمستقبل کے متعلق بات کرتے ہوئے پی ٹی وی کے سنہرے دنوں کو یاد کرتی ہیں۔
عمرانہ مقصود نے کہا کہ ’پی ٹی وی کو میں اس زمانے سے یاد کروں گی جب اس کا دورانیہ پانچ گھنٹے تھا۔ میری انور سے شادی ہوچکی تھی۔ یہ ہمارے لیے ایک جادو کا ڈبہ تھا جس نے سب کو اسیر کر لیا تھا۔ شام پانچ یا چھ بجے ٹی وی شروع ہوتا تھا، ہم اس کے شروع ہونے سے پہلےانتظار میں بیٹھ جاتے تھے، کوشش ہوتی تھی ٹی وی ٹائم ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ آٹھ بجے جو ڈراما آتا تھا اس کے لیے حقیقتاً سڑکوں سے ٹریفک غائب ہوجاتی تھی، اس وقت کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا ڈرامہ دیکھنے کے لیے شام کو ہی سارے کام نمٹا لیے جاتے تھے‘۔
’مجھے یاد ہے انور مقصود کی نانی جنہیں ہم سب ’آپا جان‘ کہتے تھے، وہ پندرہ منٹ پہلے ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتی تھیں، اس وقت ٹی وی اسکرین پر لہریں چل رہی ہوتیں اورمحض ’گھوں گھوں‘ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ آپا جان اس پر بھی نظریں جمائے بیٹھی رہتیں، انتظار میں کبھی اپنے کپڑے درست کرتیں، کبھی دوپٹہ سنبھالتیں، جب ’بسم اللہ‘ سے ٹی وی شروع ہوتا تو آپا جان میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ وہ شوق سے ایک کے بعد ایک اناؤنسمنٹ کا انتظار کرتیں کہ اب ڈرامہ آئے گا، اب نغمہ بجے گا، خبریں نشر ہوں گی، تین چار گھنٹے وہ ٹی وی کے سامنے سے ہلتی نہیں تھیں۔ ہم سب کے اشتیاق کا بھی یہ ہی عالم تھا۔ میرا بیٹا بلال مقصود جب ڈھائی تین سال کا ہوا تو کارٹونز شروع ہوچکے تھے وہ بھی نانی کی طرح آنکھیں پھاڑے سارا وقت کارٹون دیکھتا تھا۔
بیٹی کے رونے پر مجھے پر رونا آتا
عمرانہ مقصود نے کہا ’پی ٹی وی پر ایسے موضوعات کے ڈرامے آتے تھے جن میں سب کو دلچسپی تھی۔ مہمانداری کی بہت روایت تھی لیکن ڈرامے کے ٹائم لوگ خود ہی کسی کے گھر جانے سے احتراز کرتے تھے۔ میری بیٹی انجو انہی دنوں پیدا ہوئی تھی، ٹی وی دیکھتے ہوئے، وہ میری گود میں ہوتی، جب وہ رونے لگتی تو مجھے رونا آجاتا تھا کہ کیا کروں اسے بہلانے میں میرا ڈرامہ نکل جائے گا‘۔
انور مقصود کے شوق میں گاڑی کی ٹکر
عمرانہ مقصود نے کہا کہ ’انور نے جب ٹی وی کےلیے لکھنا شروع کیا تو انہیں جلد ہی بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ انور مقصود کا طنزو مزاح بہت تمیز کا ہوتا تھا اور سمجھدار لوگوں کے لیے ہوتا تھا۔ انور مقصود کے پروگراموں کو لوگوں کی فرمائش پر کئی بار دوبارہ نشرکیا جاتا تھا۔ ہمیں عام زندگی میں انور کی مقبولیت کا اکثر اندازہ ہوتا تھا، ایک مرتبہ کہیں باہر نکلے تھے تو ایک خاتون جو گاڑی چلارہی تھیں، انہوں نے اپنے بچوں کو انور مقصود کو دکھانے کے لیے گاڑی تیزی سے ہماری طرف بڑھائی اور ہماری گاڑی سے ٹکرا دی۔
’ایک مرتبہ ایک بس بھی ٹیڑھی ہوگئی تھی، ہوا یوں کہ انور گاڑی چلارہے تھے، قریب سے بس گزر رہی تھی، کسی نے آواز لگادی کہ انور مقصود جارہے ہیں، اب سب نے کھڑکیوں سے لپک کر دیکھنا شروع کیا تو بس ٹیڑھی ہوگئی اور ڈرائیور کو ہارن بجا کر لوگوں کو روکنا پڑا‘۔
’مقبولیت سے بوریت تک‘
عمرانہ کہتی ہیں پی ٹی وی سے تفریح کا عنصر ختم ہوگیا ہے۔ پی ٹی وی بہت بور ہوگیا ہے، جسے انٹرٹینمنٹ کے لیے دیکھنے کی اب کوئی وجہ نہیں بنتی۔ عمرانہ کے خیال میں پاکستان ٹیلی ویژن کو چاہیے کہ یہ اپنا خزانہ کھول دے اور ماضی کی چیزیں دوبارہ دکھانا شروع کردیں وہ آج بھی مقبولیت حاصل کریں گی۔
آزادی اور پی ٹی وی
تمغہ امتیاز کے حامل کاظم پاشا کراچی مرکز پر شعبہ ڈرامہ کے سربراہ اور ایگزیکٹو پروڈیوسر رہے ہیں۔ انہوں نے قومی زندگی میں کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی پر 14 اگست کے موقعے پر سارے اسٹیشنز خصوصی پروگرام تیار کرتے تھے۔ ہر اسٹیشن ڈرامہ تیار کرتا تھا، شروع میں ڈھاکہ سے بھی تیار ہوتے تھے، جو معروف پروڈیوسر ظہیر خان اور دیگر چند لوگ جو وہاں تعینات تھے، پیش کرتے تھے۔ یہ لوگ 1971ء کی جنگ میں وہیں قید ہوگئے تھے اور بعد میں رہائی پاکر یہاں پہنچے۔
’میرا چونکہ ڈرامے کا شعبہ تھا اور کراچی سینٹر ویسے بھی اس میں پیش پیش تھا تو ہم یوم آزادی کے موقع پر حب الوطنی پر مبنی اثر انگیز ڈرامے پیش کرتے تھے۔ اسپیشل ڈراموں کے سلسلے میں ہم نے بہت اچھے، یادگار ڈرامے کیے تھے۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ انور مقصود نے لکھا تھا اور طلعت حسین نے مرکزی کردار ادا کیا تھا، میں نے اسکی مزار قائد پر بھی شوٹنگ کی تھی۔ یہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کے متعلق تھا جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا، ڈرامے میں والد (طلعت حسین) اپنے بیٹے کو جو بینک سے قرضہ لے کر سامان آسائش خریدنا چاہتا تھا، سمجھاتا ہے کہ ’یہ قرض ادا کیسے ہوگا‘ اس ڈرامے کے پیغام کو بہت سراہا گیا۔ ہم اپنے ڈراموں میں اسی طرح کوئی نہ کوئی مقصدیت لے کر چلتے تھے۔
خاندان کا ٹی وی
کاظم پاشا کہتے ہیں پی ٹی وی نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی ہماری معاشرت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ڈرامے کی بات کریں تو کراچی مرکز اس میں پیش پیش تھا۔ پی ٹی وی میں ہر سہ ماہی میں اسلام آباد میں جنرل منیجرز کانفرنس ہوتی تھی جس میں سارے اسٹیشنز سے منگوائے گئے آئیڈیاز پر گفتگو ہوتی تھی۔ کراچی سے ہم ہمیشہ آئیڈیاز بھیجتے تھے، میں عموماً سنگل پلے، سیریل اور سیریز جو بھی آئیڈیاز بھیجتا تھا وہ اللہ کے فضل سے بیشتر منظور ہو جاتا تھا۔ ڈرامے ہماری تہذیب اور معاشرت کے عکاس ہوتے تھے اور انہیں پورا خاندان اکٹھے بیٹھ کر دیکھتا تھا۔
کاظم پاشا نے کہا پی ٹی وی نے ثقافت کے فروغ میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آج ہمیں جو 50 سے زائد پرائیویٹ چینل نظر آتے ہیں یہ بھی پی ٹی وی کی دین ہیں کیونکہ ان کے چلانے والوں میں پی ٹی وی کے رائٹرز، پروڈیوسرز، آرٹسٹس اور دیگر تربیت یافتہ لوگ ہی شامل ہیں۔
بھارتی ہمارے شیدائی
کاظم پاشا نے کہا کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز بھارت سے پہلے ہوگیا تھا۔ پاکستانی ڈرامے بھارت میں دیوانہ وار دیکھے جاتے تھے۔ مشہور بھارتی اداکار اوم پوری، کراچی ایک پاکستانی فلم کی شوٹنگ کے لیے آئے تھے، یہاں فرئیر ہال میں میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہایت پرتپاک انداز سے ملتے ہوئے کہا کہ جب سے پی ٹی وی شروع ہوا وہ پاکستانی ڈرامے دیکھتے رہے ہیں، انہوں نے نام لے کر میرے اور دیگر پاکستانی ڈراموں کی بے حد تعریف کی۔
شہیدوں، غازیوں کا خراج تحسین
کاظم پاشا نے کہا ’پاکستان ٹی وی نے مادرِوطن کی حفاظت پرمعمور اور اس کی خاطر جان قربان کر دینے والے شہدا اور غازیوں کو ہمیشہ بے مثال خراجِ تحسین پیش کیا۔ پروڈیوسرز نےبہت اچھے اچھے ڈرامے بنائے۔ کراچی سے سینئرپروڈیوسر قاسم جلالی نے نیوی، آرمی اور پاک فضائیہ پر بہت اچھے ڈرامے بنائے۔ ہمارے جتنے شہدا کو نشان حیدر ملا سب پر ڈرامے بنائے گئے تھے۔ ان ڈراموں میں فوجیوں کی پروفیشنل زندگی کی مشکلات، ان کی گھریلو زندگی اور قربانیوں کو اس طرح اجاگر کیا جاتا تھا کہ عوام کے دل میں افواج کی محبت سو گنا زیادہ جاگزیں ہو جاتی تھی۔ لوگ افواج پاکستان کے لیے جان دینے کو تیار تھے۔ یہ جذبہ پی ٹی وی نے پیدا کیا تھا۔
’پاکستان نیوی نے آبدوز ’غازی‘ جو کہ بھارت کے خلاف ایک معرکے میں شہید ہوگئی تھی اس پر ڈرامہ تیار کرنا تھا۔ 19 پروڈیوسرز کے انٹرویو کیے گئے، ان میں سے مجھے منتخب کیا گیا۔ ہم نے کام شروع کیا، شبیر جان، عدنان جیلانی مرکزی کردار میں تھے۔ ہمایوں سعید نئے نئے آئے تھے، انہوں نے آپریٹر کا چھوٹا سا رول کیا تھا۔
’آبدوز کی زندگی کی حقیقی عکاسی کرنے کے لیے ہم خود 24 گھنٹے، 800 فٹ گہرے پانی میں رہے۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے، وہاں ایئر کنڈیشنر سے ٹپکنے والا پانی محفوظ کیا جاتا تھا کہ وقت پر کام آئے گا۔ مجھے یاد ہے ’غازی‘ کے بعد مجھ سمیت چار لوگوں، عدنان جیلانی، شبیر جان اور کیمرہ مین تنویر ملک کو پاکستان نیوی کی طرف سے ایک سرٹیفکیٹ بھی ملا جس میں تحریر تھا کہ ہم چار سیویلینز نے 24 گھنٹے پانی میں 800 فٹ گہرائی میں سب میرین میں رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس ڈرامے پر مجھے تمغہ امتیاز دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، ان کی جانب سے نیول چیف کے ذریعے مجھے خصوصی لیٹر بھی دیا گیا جس میں اس خوبصورت ڈرامے کی تیاری پر میری کارکردگی کی تعریف کی گئی تھی‘۔
اب پہلےجیسے ڈرامے کیوں نہیں بنتے؟
کاظم پاشا کہتے ہیں ’ میں سمجھتا ہوں ریٹنگ کے سلسلے سے گڑ بڑ شروع ہوئی، جیسے جیسے پرائیویٹ چینلز آئے، مقابلہ بڑھتا گیا، زیادہ اشتہارات حاصل کرنے کے لیے ریٹنگ کی دوڑ شروع ہوئی اور اقدار کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ مجھے یاد ہے پی ٹی وی میں ایک مختصر وقت سے زیادہ اشتہارات کی اجازت نہیں تھی۔ آج ایک وقفہ میں دس منٹ کے اشتہارات چلتے ہیں
پی ٹی وی کے ڈراموں میں سماجی موضوعات کو لیا جاتا تھا، میں نے ایک سیریز کی تھی جس کی ہر کہانی کا محور بچہ ہوتا تھا، مثلاً میاں بیوی میں طلاق ہوگئی تو بچہ کیسے متاثر ہوا۔ ماں باپ بہن بھائی سب مل کر یہ ڈرامے دیکھ سکتے تھے۔ پی ٹی وی کے ڈراموں میں شادی شدہ کرداروں کا افیئر دکھانا ممنوع تھا، آج پرائیویٹ چینلز میں ایسے موضوعات کی بھرمار ہے۔
آٹھ سالہ لڑکے کا جادوئی ڈبہ
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ماضی کو ملک کا ایک تہذیبی عہد قرار دیتے ہیں۔ احمد شاہ نے پی ٹی وی کے آغاز کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں آٹھ برس کا تھا جب کراچی آیا، اس وقت ہر گھر میں تو ٹی وی نہیں تھا، البتہ ناظم آباد میں ہمارے گھر کے قریب ایک ہوٹل تھا جس میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی تھا، اس کی اسکرین اکثر دھندلی ہوجاتی تھی۔ ہم ٹی وی کے چاروں طرف گھوم کر دیکھتے اور یہ سوچتے تھے کہ یہ جادوئی ڈبہ ہے لوگ اس میں داخل کیسے ہوتے ہیں اور نکلتے کیسے ہیں۔ یہ پورا ایک قصہ الف لیلیٰ تھا جس کی سمجھ بہت بعد میں آئی۔
پروڈیوسر بادشاہ
احمد شاہ نے کہا کہ میں جب یونیورسٹی میں پہنچا تو میرے کچھ دوست ٹی وی پروڈیوسر بن چکے تھےتو میرا ان کے پاس آنا جانا شروع ہوا۔ محسن علی صاحب، اس زمانے میں تاریخی ڈراما ’شاہین‘ پیش کررہے تھے، اس کے تین ہیروز میں سے ایک میرے دوست تھے، اسی زمانے میں ٹی وی پر اطہر وقار عظیم، ظہیر خان اور دیگر سے دوستی ہوئی۔ یہ بھی بتاؤں کہ اس زمانے میں پی ٹی وی کے اندر جانا بھی گویا وزیر اعظم ہاؤس میں جانے سے مشکل تھا۔ پروڈیوسر بادشاہ ہوتا تھا، اس کے نام کی پرچی جب تک گیٹ پر نہ پہنچے تو بڑے سے بڑا فنکار بھی اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
ٹی وی کے مذہبی اور ادبی پروگراموں میں میں شرکت کرتا تھا۔ اس زمانے میں عبیداللہ علیم، افتخار عارف، قریش پور، مدبر رضوی جیسے اعلیٰ پائے کے شاعر، ادیب اور عالم فاضل ان پروگراموں سے وابستہ تھے۔ وہ کمال کے ایڈیٹر تھے، کوئی ایک لفظ غلط آن ایئر جا نہیں سکتا تھا۔ ٹی وی پر مشہور تھا کہ گردن چلی جائے تلفظ غلط نہ ہو۔ دراصل ٹی وی کی بنیاد رکھنے والی شخصیات جیسے کہ اسلم اظہر، زیڈ اے بخاری، آغا ناصر اوردیگر جو خود فارسی، اردو اور انگلش کے ماہر تھے ان کی موجودگی میں غیر معیاری زبان و گفتگو کا تصور بھی محال تھا۔
ستاروں کی کہکشاں
احمد شاہ کہتے ہیں ’تقریباً چالیس سال تک پی ٹی وی کا نہایت تابناک دور رہا جس میں ہمارے پاس بہترین تخلیقی دماغ موجود تھے۔ کراچی میں ٹی وی کا آغاز ہوا تو ایک سے بڑھ کر ایک بلند پایہ ادیب، شاعر، فنکار، لکھاری سب ٹی وی سے وابستہ ہوتے گئے۔ ان میں سے بیشتر ریڈیو کا پس منظر رکھتے تھے۔ نابغہ روزگار شخصیات نے ٹی وی کی کیا زبردست بنیاد ڈالی۔ پی ٹی وی کی پروگرامنگ میں قومی تشخص اجاگر کیا جاتا تھا، اس کے ڈراموں میں بے مثال کہانیاں پیش کی گئیں، شہرہ آفاق ادبی تخلیقات، ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی گئی۔ شوکت صدیقی کے ناول پر مبنی ڈرامے ’خدا کی بستی‘ جو میں نے اپنے لڑکپن میں دیکھا تھا آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے‘۔
پی ٹی وی کو دھچکا
احمد شاہ نے کہا کہ ’بدقسمتی سے پی ٹی وی کو شدید دھچکا ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں پہنچا جب کلچر کو مکمل طور پر پابند سلاسل کردیا گیا اور یہ حال ہوگیا کہ فیض احمد فیض پر پابندی لگائی اور علامہ اقبال کے اشعار بھی ایڈٹ ہونے لگے کہ اس میں حکومت کے خلاف باغیانہ خیال کا اظہار نہ ہو۔ اس دور میں جعلی لوگوں کو پروموٹ کیا گیا اور حکومت کے کاسہ لیسوں کی ایک پوری فوج تیار کردی جو پی ٹی وی پر براجمان ہوئی۔ اس سخت سنسرشپ میں بھی اگرچہ ہمارے باکمال ادیب ڈائریکٹرز نے اپنا پیغام بین السطور کسی نہ کسی طرح عوام تک پہنچانے کی ترکیب نکالی لیکن قومی ادارے کے لیے یہ ایک المیہ ثابت ہوا۔
گل ہائے نمایاں
احمد شاہ کہتے ہیں پی ٹی وی نے پاکستان میں پوری ایک تہذیب رائج کی اور اس کی نشوونما کی۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر بہترین نعت خوانوں کے ساتھ محافل نعت، محرم الحرام میں جید علما و ذاکرین کی مجالس اور محافل مسالمہ منعقد کی جاتی تھیں۔ مشاعرے پی ٹی وی کی نہایت خوبصورت روایت تھی جس میں جگر مرادآبادی، جوش صاحب سے لے کر فیض احمد فیض، جون ایلیا سب بڑے شاعر پی ٹی وی پر موجود ہوتے تھے۔
احمد شاہ نے کہا کہ ڈرامے کی طرح پی ٹی وی نے مزاح کے شعبے میں کمال کام کیا، ففٹی ففٹی، اسٹوڈیو ڈھائی، الف نون اور طنز ومزاح کے کئی شو جنہیں کمال احمد رضوی، انور مقصود جیسے رائٹر لکھتے تھے معین اختر، ننھا، اسمٰعیل تارا، عمر شریف جیسے فنکار کامیڈی میں اپنے جوہر دکھاتے تھے۔ موسیقی کے شعبے میں دیکھیں تو کلاسیکی موسیقی کی سیکڑوں سالہ روایات کے امین فنکاروں، بڑے غلام علی خان، روشن آرا بیگم، استاد فتح علی، صداقت علی خان، سلامت علی کو پی ٹی وی کے پروگرام ’راگ رنگ‘ میں مدعو کیا جاتا تھا۔ یہ پروگرام رات کو پیش کیا جاتا تھا اور برصغیر پاک وہند میں شائقین موسیقی کے لیے ایک ’ٹریٹ‘ ہوتا تھا۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے موسیقی کے بہترین پروگرام ہوتے تھے، سہیل رعنا کے پروگرام سے افشاں احمد، نازیہ حسن جیسے گلوگار نکلے عالمگیر، محمد علی شہکی یہ سب پی ٹی وی کے بنائے ہوئے اسٹار ہیں۔
کیا پی ٹی وی کے سنہرے دور کا احیا ممکن ہے
اس سوال کے جواب میں احمد شاہ نے کہا کہ اصل میں جب تک پی ٹی وی پرمیرٹ رائج نہیں ہوگا، امید محال ہے، آپ دیکھیں پی ٹی وی کا اسسٹنٹ پروڈیوسر بھی نہایت قابل ہوتا تھا اب بڑے عہدے کی تقرریوں پر بھی معیار کا سوال اٹھتا ہے۔ اگرچہ بعض سینٹرز پر اعلیٰ عہدیدار اپنے طور پر بہتری لانے کی کوشش کررہے ہیں، جیسے کہ کراچی مرکز کے موجودہ جی ایم جو کہ پروگرامنگ سے وابستہ رہے ہیں، میوزک پروڈکشن میں ان کا نام ہے اور وہ سینٹرپرپروڈکشن بحال کررہے ہیں لیکن ضرورت ہے کہ مجموعی سطح پر مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہیے۔ میرٹ کے مطابق اور باصلاحیت افراد کو مواقع فراہم کرنے چاہیں۔
پی ٹی وی کے کلاس روم
مجسم تہذیب وشائستگی، معروف اداکارہ جہاں آرا حئی 1970ء کی دہائی میں پی ٹی وی سے منسلک ہوئیں۔ انہیں لیجنڈ رائٹر فاطمہ ثریا بجیا ٹی وی پر لائیں جو چاہتی تھیں کہ تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواتین ٹی وی پر آئیں تاکہ یہ سٹگما ختم ہو کہ اچھے گھرانوں کی لڑکیاں ٹی وی پر نہیں آتیں۔ جہاں آرا بتاتی ہیں کہ ’میں نے ’آبگینے‘ سیریز سے کام کا آغاز کیا۔ میری سات پشتوں میں سے کسی نے اس شعبے میں کام نہیں کیا تھا میرا سسرال اور ننھیال بشمول میری والدہ سب علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ پہلی مرتبہ ٹی وی پہنچی تو میں اندر سے گھبرائی ہوئی تھی لیکن ٹی وی کے ماحول میں اپنائیت ملی۔ سب اس طرح پیش آ رہے تھے جیسے ایک خاندان کے افراد ہوں۔ پی ٹی وی ایک درسگاہ تھی، اس نے مجھ جیسے لوگوں کو جن کا اداکاری سے کبھی واسطہ نہیں رہا تھا، یہ فن سکھا دیا۔
’پی ٹی وی میں مکالمے کی ادائیگی میں لہجے اور تلفظ کی درستگی پر بہت توجہ دی جاتی تھی، گرامر درست کروائی جاتی تھی۔ باقاعدہ کلاس ہوتی تھی۔ تیرہ قسطوں کا عموماً ڈرامہ ہوتا تھا تو پہلا ہفتہ ریڈنگ ہوتی تھی جس میں پوری کاسٹ کی موجودگی ضروری تھی خواہ کوئی ہیرو کا رول کر رہا ہو یا میزپر چائے لا کر رکھنے والے ملازم کا۔ سب آرٹسٹ اپنا اسکرپٹ پڑھتے تھے، ڈائریکٹر اس کی نوک پلک درست کرتے تھے، دو دن تک ریڈنگ ہوتی، تیسرے دن کے لیے حکم ملتا کہ ’خبردار، کوئی اسکرپٹ یاد کیے بغیر نہ آ ئے‘ ہم یاد کر کے پہنچتے، اسی طرح پورا ہفتہ ریہرسل ہوتی پھر ڈرامے کی ریکارڈنگ شروع ہوتی تھی‘۔
ڈراما سیریل ’سائے‘
جہاں آرا حئی نے کہا کہ پاکستان ٹیلی ویژن سماجی موضوعات پر خصوصی توجہ دیتا تھا، اس ضمن میں بہت یادگار ڈرامے بنائے گئے۔ رضیہ اکبر کا لکھا ہوا پلے ’سائے‘ ان میں سے ایک تھا۔ یہ میرے کریئر کا اہم ڈرامہ تھا۔ ڈرامے کی کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی تھی جو نہایت وہمی تھی، یہاں تک کہ اپنے بچوں کو گلے نہیں لگاتی تھی، ان کی بیٹی ماں کی بے توجہی کی وجہ سے ذہنی طور پر پسماندہ رہ گئی اور بڑی بیٹی (خالدہ ریاست مرحومہ)گھر کی دیکھ بھال کی وجہ سے شادی نہیں کرتی۔ اس ڈرامے میں شکیل (مرحوم) نے میرے شوہر کا کردار کیا، شہزاد خلیل مرحوم ڈائریکٹر تھے جنہوں نے مجھ سے یہ مشکل کردار بخوبی کروالیا۔ اس کے ذریعے بتایا گیا کہ عورت جو گھر کا محور ہے کیسے اس کی وجہ سے گھر متاثر ہوسکتا ہے۔ آج بھی مجھے لوگ ملتے ہیں تو اس ڈرامے کا ذکر کرتے ہیں’۔
’بیٹے کا گھر بچ گیا‘
جہاں آرا نے کہا اسی طرح ’گھر ایک نگر‘ ڈرامہ بہت مقبول ہوا تھا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کس طرح ایک عورت گھر کو جوڑ کر رکھ سکتی ہے، میرا مرکزی کردار تھا، عذرا شیروانی مرحومہ میری سخت گیر ساس تھیں، میاں ریٹائرڈ تھے، بہو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی اور بیٹی گھر داری سیکھنے پر آمادہ ہی نہیں تھی لیکن میں ان سب مسائل سے بہت عمدگی سے نپٹتی ہوں۔
’اس ڈرامے کا اثر یہ تھا کہ ایک مرتبہ میں اپنا پاسپورٹ بنوانے گئی تو وہاں ایک صاحب آکر ملے، بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ ’آپ کے اس ڈرامے کی وجہ سے میرے بیٹے کا گھر تباہ ہونے سے بچ گیا‘ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم نے آپ کی مثال سے اپنے بہو بیٹے کو سمجھایا کہ دیکھیں ایک عورت کس طرح حالات کا مقابلہ کررہی ہے تو آپ دونوں میاں بیوی مل کر کیوں نہیں کرسکتے۔
’اسی طرح ’مہندی ’ ڈراما جس میں چار بیٹیاں اور چاروں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، میں اور ڈرامے میں میرے شوہر عابد علی مرحوم اسے حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک جگہ شادی میں ایک صاحب ملے جنہوں نے کہا ہمارے گھر میں چار پانچ حافظ قرآن ہیں ہم سب آپ کے لیے دعا کرتے ہیں، آپ جس طرح گھریلو مسائل کے حل کے لیے ڈرامے کرتی ہیں‘۔
حقیقی مسائل کے متعلق ڈرامے بننا ضروری ہیں
جہاں آرا کہتی ہیں کہ ’میڈیا کا اثر یہ ہے اگر گالی دی جائے تو وہ بھی وائرل ہوجاتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ اس طرح کے ڈرامے دکھائیں گے کہ جس میں بارہ قسطوں میں آپ نے ظلم و زیادتی، برائی دکھا دی، بدمعاشی کی پوری کہانی سنادی اور آخری قسط میں بدمعاش کو پھانسی چڑھا دی تو اس سے پہلے جو کچھ منفی دکھایا جارہا ہے وہ تو کہیں نہ کہیں اثر انداز ہو رہا ہے۔ میرے گھر کام کرنے والی رات کو دیکھے ڈرامے ڈسکس کرتی ہے کہ ’دیکھیں وہ کیسی خبیث عورت ہے، اب آگے دیکھیں کیا کرتی ہے‘ اس طرح معاشرے میں منفی رحجان پروان چڑھ رہے ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان کے حقیقی مسائل کے متعلق ڈرامے بننا ضروری ہیں۔
’پی ٹی وی کو ریٹنگ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن جو بات کہنا چاہتا ہے کہہ سکتا اس کا یہ فرض ہے کہ پاکستان کے بارے میں، اس کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں آگاہی دے۔
پی ٹی وی پہلے سے بہتر
سید امجد شاہ گزشتہ پچیس سال سے زائد عرصے سے پی ٹی وی سے وابستہ ہیں، بحیثیت پروڈیوسر انہوں نے موسیقی کے شعبے میں بہترین پروگرام پیش کیے، کراچی مرکز پر پروگرام مینیجر رہے اور اب جنرل منیجر ہوتے ہوئے مختلف پروگرامز بھی پروڈیوس کر رہے ہیں۔
امجد شاہ پی ٹی وی کے روبہ زوال ہونے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پی ٹی وی بالکل زوال کی طرف نہیں گیا۔ یہ ضرور ہے کہ اب مقابلے پر بہت سے چینلز آگئے ہیں جس سے ظاہر ہے ویور شپ بھی تقسیم ہو گئی ہے مگر پی ٹی وی اب بھی ماضی کے مقابلے میں بڑے پیمانے پر شوز بھی کررہا ہے، ڈرامے اور ڈاکومینٹریز وغیرہ سب بنا رہا ہے۔ بڑی تعداد میں پروگرامنگ بھی ہورہی ہے۔ پی ٹی وی روایتوں کا امین ہے۔ ہمیشہ قومی دنوں پر خواہ 14 اگست ہو، 23مارچ یا 6 ستمبر پی ٹی وی نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر کام کیا ہے۔ ملی نغمے ہوں، مباحثے ہوں یا ڈرامے، ان میں بھرپور انداز میں قوم کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ہم اسی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’آج کل ہم جتنے بڑے کنسرٹس اور اہم ایونٹس پر پروگرام کر رہے ہیں اتنے کبھی ماضی میں بھی نہیں ہوئے۔ ہاں ماضی میں جو کام ہوا وہ بہت زیادہ مشہور اس لیے ہوا کہ پی ٹی وی ایک ہی چینل تھا اور سب لوگ اسے ہی دیکھتے تھے۔اگر کسی شخص کی ایک جھلک بھی نظر آجاتی تھی تو وہ اگلی صبح پورے محلے میں مشہور ہو جاتا تھا۔ اب یہ دیکھیں کہ سو کے قریب چینلز آگئے ہیں مگر پی ٹی وی اب بھی اخلاقی اقدار اور روایات کا خیال رکھتے ہوئے کام کر رہا ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں ہمارے تمام پروگراموں میں کوئی بھی ایسی چیز نہ ہو جو تہذیب اور شائستگی کے دائرے سے ہو‘۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی وی کراچی میں ہم زبردست تبدیلی لاے ہیں۔ ہم نے آرکائیو سے چیزیں نکالی ہیں، چھوٹا سا میوزیم بنایا ہے اور پی ٹی وی کی بلڈنگ بہتر بنائی جا رہی ہے‘۔
’پی ٹی وی کا انقلابی قدم‘
امجد شاہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی وی فلکس‘ کی صورت میں انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ پی ٹی وی فلکس 1960ء سے 1990ء کی دہائی تک بننے والے مختلف ڈراموں اور پروگراموں کی لائبریری ہے، اس ایپ پر دنیا بھر میں آپ ڈرامے، شوز، میوزک پروگرامز اور وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جن سے ہماری یادیں وابستہ ہیں۔
’پی ٹی وی کی پہنچ اب پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ آج کے دور کے مطابق ہم ڈیجیٹل کی طرف گئے ہیں، سوشل میڈیا، یو ٹیوب اور فیس بک وغیرہ پر بھی پی ٹی وی کے پروگرام موجود ہیں۔ پی ٹی وی ان تمام لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جو کیبل، ڈش افورڈ نہیں کرسکتے وہ ایک انٹینا لگا کر پی ٹی وی دیکھ سکتے ہیں‘۔
’لیاری سے کیماڑی‘ پی ٹی وی کا احیا
امجد شاہ نے کہا کہ ’طویل عرصے کے بعد پی ٹی وی کراچی سے پچاس منٹ کا سیریل ’لیاری سے کیماڑی تک‘ آن ایئر ہے جسے بہت شوق سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ’کہانی گھر‘ کے نام سے ایک پچاس منٹ کی سیریز بھی جاری ہے جس میں مختلف ڈرامے اور شوز پیش کیے جارہے ہیں، اسے بھی بہت اچھا فیڈ بیک مل رہا ہے۔ پی ٹی وی کراچی نے ایک طویل عرصے کے بعد سیریل اور سیریز کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس میں ہم بڑے اچھے اور نامور رائٹرز سے رابطے کر رہے ہیں، انہیں بُک بھی کر رہے ہیں، ہمارے سینٹر سے سِٹ کام بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ خواتین، شوبز اور سماجی مسائل ان تمام کے متعلق پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ پی ٹی وی پر موجودہ دور کے نوجوان پروڈیوسرز بھی بہت اچھا، تخلیقی کام کررہے ہیں۔ اس طرح پی ٹی وی کی ماضی کی شاندار روایات کی تجدید کی جارہی ہے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔