• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ماضی میں بننے والے نگران وزرائے اعظم کن حوالوں سے منفرد رہے؟

1973ء کے آئین میں نگران وزیر اعظم کے تقرر کی کوئی شق شامل نہیں تھی لیکن جولائی 1977ء میں مارشل کے آر سی او کے اجرا کے بعد نگران وزیر اعظم اور نگران حکومت کا تصور متعارف کروایا گیا۔
شائع August 15, 2023

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کل پاکستان کے آٹھویں نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ انوار الحق کاکڑ دوسرے سینیٹر ہیں جو اس عہدے پر نامزد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دوسرے نگران وزیر اعظم ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اسی طرح 15 برس کے بعد نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کسی ٹیکنوکریٹ کی جگہ ایک سیاسی شخصیت کا انتخاب کیا گیا ہے۔

آخری مرتبہ 2007ء میں سیاسی شخصیت کی نگران وزیر اعظم کی حیثیت سے نامزدگی کی گئی تھی تاہم اس وقت نگران وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے لیے موجودہ طریقہ رائج نہیں تھا اور نگران وزیر اعظم کی نامزدگی صدر مملکت کا اختیار تھا۔

2007ء میں اس وقت کے صدر مملکت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ کا نگران وزیر اعظم نامزد ہونا ملکی تاریخ کا انوکھا اقدام تھا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔

نئے اور آٹھویں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے پہلے وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس اور نگران وزیر اعظم جسٹس میر ہزار خان کھوسو کا تعلق بھی بلوچستان سے ہی تھا وہ پہلے نگران وزیر اعظم تھے جن کی نامزدگی آئینی ترمیم کے بعد نئے طریقہ کار کے ذریعے 2013ء میں کی گئی تھی۔

ملک میں ایسے نگران وزیر اعظم بھی رہے جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے نگران وزیر اعظم بنے تھے۔ ان میں غلام مصطفٰی جتوئی، سردار بلخ شیر مزاری اور ملک معراج خالد کے نام نمایاں ہیں۔ یہ ایک طرح کی روش بن گئی تھی کہ نگران وزیر اعظم برطرف ہونے والی جماعت کے مخالف تصور کیا جاتا تھا۔

نگران وزیر اعظم کے بغیر بننے والی نگران حکومت

پاکستان کے 1973ء کے آئین میں نگران وزیر اعظم کے تقرر یا نامزدگی کی کوئی شق شامل نہیں تھی لیکن جولائی 1977ء کے مارشل کے آر سی او یعنی بحالی آئین احکامات کے اجرا کے بعد نگران وزیر اعظم اور نگران حکومت کا تصور متعارف کروایا گیا۔ اس سے پہلے جب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا تو وہ نئی حکومت کے قیام تک وزیر اعظم کی حیثیت سے فرائض ادا کرتے رہے تھے۔

1988ء میں فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار 58 ٹو بی (جسے عام طور پر آٹھویں ترمیم کہا جاتا تھا) کے تحت وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف اور اسمبلی کو تحلیل کیا اور نگران حکومت مقرر کی لیکن نرالی بات یہ ہوئی کہ نگران وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کرکے نگران وزیر اعظم تو مقرر نہیں کیا لیکن آئندہ انتخابات 3 ماہ یعنی 90 دنوں کے بجائے لگ بھگ 6 ماہ بعد نومبر میں ہوئے۔

  محمد خان جونیجو (بائیں) جنرل ضیا الحق کے ساتھ
محمد خان جونیجو (بائیں) جنرل ضیا الحق کے ساتھ

1988ء سے 2018ء تک کُل 8 نگران حکومتیں قائم ہوئیں جن میں ایک نگران وزیر اعظم کے بغیر تھی جبکہ دیگر حکومتوں میں سے 4 میں سیاست دان اور 3 میں ٹیکنوکریٹس نگران وزیر اعظم رہے۔ ان میں سے ایک نگران وزیر اعظم اپنی 60 دنوں کی معیاد سے زیادہ عرصے تک نگران وزیر اعظم رہا تو ایک نگران وزیر اعظم اپنی 90 دنوں کی آئینی مدت بھی مکمل نہ کرسکا۔

ملک کے پہلے نگران وزیر اعظم

  سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی— تصویر: ایکس
سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی— تصویر: ایکس

1990ء میں ملک کے پہلے نگران وزیر اعظم ہونے کا اعزاز غلام مصطفی جتوئی کو ملا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایک عرصے تک ان کا نام وزیر اعظم کے لیے گردش کرتا رہا۔ وہ وزیر اعظم تو نہ بن سکے لیکن انہیں پہلے نگران وزیر اعظم بننے کا اعزاز مل گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر اعلیٰ سندھ اور بھٹو کی کابینہ کے رکن رہنے والے غلام مصطفیٰ جتوئی اس وقت نگران وزیر اعظم بنے جب وہ تحلیل ہونے والی اسمبلی میں سی او پی یعنی اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کی طرف سے قائد حزب اختلاف یا اپوزیشن لیڈر تھے۔ صدر مملکت غلام اسحٰق خان نے اگست 1990ء میں بےنظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی اور اسمبلی کو تحلیل کرکے غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگران وزیر اعظم بنایا۔ اس طرح پیپلز پارٹی یا بےنظیر بھٹو مخالف شخیصت کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا۔

صرف 5 ہفتے برقرار رہنے والی نگران حکومت

  سابق نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری— تصویر: فیس بک
سابق نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری— تصویر: فیس بک

1993ء میں صدر مملکت غلام اسحٰق خان نے میعاد مکمل ہونے سے پہلے ہی نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے نگران حکومت بنائی۔ ماضی کی روش کو بر قرار رکھتے ہوئے اس مرتبہ بھی ختم ہونے والی حکومت کے مخالفین کی نگران حکومت بنائی گئی لیکن اس مرتبہ یہ موقع بےنظیر بھٹو کو ملا۔ نگران کابینہ میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کو وزیر کا قلمدان ملا اور بلخ شیر مزاری نگران وزیر اعظم بنے۔

سردار بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں قائم وفاقی نگران حکومت کو تشکیل پائے صرف 5 ہفتے ہی ہوئے تھے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے نواز شریف کی حکومت کو بحال کر دیا اور نگران حکومت اس عدالتی فیصلے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ یعنی یہ نگران حکومت ڈیرھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہی۔

بیرون ملک سے ’درآمد‘ نگران وزیراعظم

  سابق نگران وزیر اعظم معین قریشی— تصویر: ریڈیو پاکستان
سابق نگران وزیر اعظم معین قریشی— تصویر: ریڈیو پاکستان

حکومت بحالی کے بعد صدر مملکت غلام اسحٰق خان اور بحال ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تعلقات معمول پر نہ آسکے۔ آخر کار صدر مملکت غلام اسحٰق خان اور وزیر اعظم دونوں مستعفی ہوئے۔ تمام اسمبلیاں توڑ دی گئیں، چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بنے اور نیوٹرل نگران وزیر اعظم معین قریشی کو بیرون ملک سے درآمد کیا گیا جو ایک ٹیکنوکریٹ تھے۔ آج بھی ان کے بارے میں جب بھی بات ہوتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک امپورٹڈ وزیر اعظم تھے۔

دو مرتبہ اسپیکر قومی اسمبلی رہنے والے فرد کی تقرری

  سابق نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد— تصویر: ایکس
سابق نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد— تصویر: ایکس

مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو نگران وزیر اعظم بنانے کی جو روش معین قریشی کے نگران وزیر اعظم بننے سے وقتی طور پر رک گئی تھی وہ 1996ء میں پھر سے شروع ہو گئی۔ بےنظیر بھٹو کے قریبی ساتھی جنہیں وہ فاروق بھائی کہتی تھیں انہوں نے نومبر 1996ء میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کو رخصت کردیا۔ سردار فاروق لغاری نے ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی رہنے والے ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم بنایا۔ یہ وہی حکومت تھی جس کے بارے میں یہ عام کہا جاتا تھا کہ یہ دو برس کے لیے قائم کی گئی لیکن 90 دنوں میں انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اپوزیشن یعنی مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی اور پیپلز پارٹی 17 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی۔

بےنظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے پہلے لاہور میں ایک اسکول کی تقریب میں صدر فاروق لغاری اور ملک معراج خالد اکٹھے تھے۔ ملک معراج خالد پیپلز پارٹی سے ناراض تھے اور خطاب کے دوران انہوں نے فاروق لغاری کے بارے میں کہا کہ وہ کے ان یار اور دل کے جانی ہیں جن سے وہ ہر بات کرسکتے ہیں۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا فاروق خان لغاری اُسی حکومت کو توڑ کر کے معراج خالد کو نگران وزیر اعظم بنائیں گے جس وزیر اعظم کی کابینہ میں وہ وزیر خارجہ رہے اور بعد میں بےنظیر بھٹو نے ’اپنا بندہ‘ ہونے کی وجہ سے انہیں صدر مملکت بنوایا۔

آئینی مدت سے زیادہ برقرار رہنے والی نگران حکومت

  سابق نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو— تصویر: ایکس
سابق نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو— تصویر: ایکس

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف آخری صدر مملکت تھے جنہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرکے اس وقت کے چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو نگران وزیر اعظم بنایا۔ وہ بھی ایک طرح سے اپوزیشن مخالف نگران وزیر اعظم تصور کیے جاتے تھے۔ چیئرمین سینیٹ کا نگران وزیر اعظم نامزد ہونا ملکی تاریخ کا انوکھا اقدام تھا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔

2007ء میں سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے انتخابات کو ڈیڑھ ماہ کے لیے ملتوی کیا گیا تو نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو کو اپنی آئینی مدت سے زیادہ وقت مل گیا۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد بننے والے پہلے نگران وزیر اعظم

  سابق نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو—تصویر: فائل/ پی پی آئی
سابق نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو—تصویر: فائل/ پی پی آئی

اٹھارویں ترمیم میں نگران حکومت کی تشکیل کا طریقہ کار تبدیل ہوا۔ اب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر نگران وزیر اعظم کے تجویز کردہ ناموں پر غور کرتے ہیں۔ ان پر اتفاق نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے اور یہاں ناکامی کی صورت میں الیکشن کمیشن نگران وزیر اعظم کا چناو کرتا ہے۔

پہلی مرتبہ اس ترمیم پر 2013ء کے انتخابات میں عمل کیا گیا لیکن اُس وقت حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کر درمیان نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا اور یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی سے ہوتا ہوا الیکشن کمیشن کے پاس پہنچا۔

الیکشن کمیشن نے وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ پیپلز پارٹی نے میر ہزار خان کھوسو اور عشرت حسین کے نام تجویز کیے تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور رسول بخش پلیجو کے نام نگران وزیر اعظم کے لیے دیے تھے۔

وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نگران وزیر اعظم کی تقرری

  سابق نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک
سابق نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک

2018ء میں ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے باہمی مشاورت سے پہلے ہی مرحلے میں نگران وزیراعظم کا انتخاب کرلیا۔

مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ناصر الملک کے نام پر اتفاق کیا تھا اور نامزدگی کا یہ عمل پہلے ہی مرحلے میں اتفاق رائے سے مکمل ہوگیا تھا۔

موجودہ نگران وزیر اعظم جن کا نام ’کہیں‘ نہیں تھا

  موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ— تصویر: ایکس
موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ— تصویر: ایکس

گزشتہ روز حلف اٹھانے والے پاکستان کے آٹھویں نگران وزیراعظم اس حوالے سے منفرد ہیں کہ ان کا نام قیاس آرائیوں پر مبنی کسی فہرست میں نہ تھا، میڈیا پر گردش کرنے والے ایک درجن کے قریب ناموں میں انوار الحق کاکڑ کہیں نظر نہیں آئے۔

2013ء اور 2018ء میں دو ٹیکنوکریٹس کو نگران وزیر اعظم بنانے کے بعد اب ایک سیاسی شخصیت سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا ہے۔ یہ نام اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے تجویز کیا جس سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اتفاق کیا تھا۔

یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ماضی کی طرح دیگر نام منظر عام پر نہیں آئے اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دیگر کون کون سی شخصیات کے نام باقاعدہ طور پر نگران وزیر اعظم کے لیے زیر غور تھے۔ گزشتہ حکومت میں شامل جماعت پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے نئے نگران وزیراعظم کے انتخاب پر اظہار تحسین تو کیا ہے مگر کچھ لوگوں نے ہلکے پھلکے انداز میں شکوہ بھی کیا ہے۔

عباد الحق

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔