ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: اسکردو کی پرواز اور معدے کی کنڈی
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
یہ راولپنڈی میں نوکری کے اولین دنوں کی بات ہے کہ ایک صبح دفتر سے فون آیا کہ خاور جلدی سے تیار ہوجائیں آپ کا اسکردو کی فلائٹ کے لیے پِک اپ ہے۔ میں نے بُرا سا منہ بنا کر خوش گوار لہجے میں ’جی اچھا سر‘ کہہ کر گاڑی آنے کا وقت پوچھا اور تیاری کرنے لگا۔
گلگت، چترال اور اسکردو کی پروازیں مجھے مشکل لگتی تھیں کیونکہ ان پر طبیعت ذرا گڑبڑ ہونے کا خطرہ رہتا تھا لیکن شکر ہے کہ اسکردو بوئنگ 737 جہاز جاتا تھا جو فوکر کے مقابلے میں بڑا جہاز تھا۔ نوکری شروع کیے 3، 4 مہینے ہوگئے تھے۔ ہم 4 دوست مل کر راولپنڈی میں ہوائی اڈے کے قریب ہی ایک کالونی میں رہتے تھے۔ بے سر وسامانی کا عالم تھا کہ ملتان سے کچھ ہی سامان ابھی شفٹ کیا تھا۔ باقی لڑکوں کا بھی یہی حال تھا۔
جلدی سے تیار ہونے بیت الخلا میں گھسا تو وہاں صرف ایک بالٹی خالی کائنات میں کسی بلیک ہول کی طرح بیت ’الخلا‘ کے بیچ میں کھڑی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ دن سردی کے تھے اور میں گرد و گدا اور گرما وغیرہ کا رہائشی تھا لہٰذا آدھی بالٹی سے پورا نہا کر تیار ہوگیا۔
گاڑی آئی تو میں نے ڈرائیور صاحب سے پوچھا اور کسی کو لینا ہے تو کہنے لگے نہیں جناب صرف آپ کا پک اپ ہے۔ میں نے سوچا آج اتنی عزت کہ اکیلے خاور صاحب کو گاڑی لینے آئی ہے اور ساتھ ہی میرا گلا خشک ہوگیا۔ میرے ذہن میں خطرے کا ہارمونیم بجنے لگا اور چھٹی حس ساتویں راگ میں پھڑک پھڑک کر رقص پیش کرنے لگی۔ میں نے سوچا ’کچھ تو گڑبڑ ہے‘۔
بریفنگ روم پہنچ کر میں بڑے آرام سے فارم وغیرہ جمع کرنے لگا جو پرواز سے پہلے بھرنا ضروری ہوتے ہیں۔ اتنے میں آواز آتی ہے، ’خاور جلدی جہاز پر پہنچیں باقی عملہ آپ کا انتظار کررہا ہے وہاں۔ فلائٹ کا ٹائم ہو گیا ہے‘۔ یہ سن کر میرے اوسان، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوگئے کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ عملہ پرواز کے لیے بمشکل پورا ہوگا اور اگر جلدی جہاز پر نہ پہنچا تو پرواز کی روانگی میں تاخیر کا سبب مجھ حقیر کو بننا پڑے گا۔
منہ جہاز کی طرف کرکے دوڑ لگائی لیکن کتنی دوڑ لگا سکتا تھا۔ آپ میں سے جن خواتین و حضرات نے اسلام آباد کے پرانے ہوائی اڈے سے اگر کوئی پرواز پکڑی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تین یا چار پروازوں کی آمد یا روانگی ایک ہی وقت میں ہو تو وہ ہوائی اڈہ کس طرح منہ تک بھر جاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کوئی کھانے کی چیز مفت مل رہی ہو اور ہو بھی مزیدار۔ اوپر سے اگر کوئی وی آئی پی شخصیت تشریف لے آئیں تو اور بھی ’ناکے‘ لگ جاتے تھے۔
خیر میں ٹام کروز کی طرح بھاگ کر مشن امپوسیبل کو پوسیبل بناتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگیا اور پھر جہاز تک پہنچ گیا۔ جہاز پر موجود عملے نے استقبالیہ مشروب دینے کے بجائے مجھے سر سے لےکر پیر تک دیکھنا مناسب سمجھا جس میں زیادہ دیر نہیں لگی کیونکہ میں کوئی لمبا تڑنگا اور لحیم شحیم انسان تو تھا نہیں۔ اس کے بعد مجھے جہاز کے پچھلے حصے میں بھیج دیا گیا جہاں میں عملے کا دوسرا رکن تھا۔ سب سے پہلے میں نے اپنے مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے حواس جمع کرنے کے لیے خود استقبالیہ مشروب مرینڈا کے گلاس کی صورت میں پیا اور پرواز کی تیاری میں لگ گیا۔
مسافروں کی آمد شروع ہوگئی، کچھ سیاح تھے اور کچھ اسکردو کے رہائشی۔ کچھ لوگ علاج کی خاطر بھی اسلام آباد آتے تھے۔ جہاز کے درجہ دوم میں جہاں میں کام کررہا تھا سروس کے نام پر صرف ٹھنڈے اور گرم مشروبات سے مسافروں کی تواضع کی جانی تھی۔ میرے ساتھ جو عملے کی رکن خاتون کام کررہی تھیں ان کو تقریباً ایک سال ہوچکا تھا اور وہ سب کام اچھے طریقے سے سنبھال رہی تھیں لیکن ان کو معلوم نہیں تھا کہ پرواز کے عین درمیان میرا کام بھی ان کو سنبھالنا پڑے گا، زیادہ نہیں بس تھوڑی دیر کے لیے۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اسکردو کی حدود میں داخل ہوتے ہی جہاز کو زکام ہوگیا۔ ذرا ذرا سی دیر میں بادلوں کی وجہ سے جہاز کو چھینک آتی (جھٹکا لگتا) اور میرا دل ایسے ڈوبتا جیسے اسٹاک ایکسچینج میں غلط شیئر پر لگایا گیا پیسہ۔ ذرا سا جھک کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو پہاڑ اتنے نزدیک لگے جیسے اسکن ٹائٹ پینٹ کی جیب میں رکھا ہوا اپنا بٹوا جو قربت کی تمام حدود کو پار کرکے پشت پر موجودگی کا مکمل احساس دلائے رکھتا ہے۔ بس مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے بیت الخلا کی جانب خروج کیا لیکن اندر کچھ خروج نہ ہوسکا۔ میں نے صرف مرینڈا کا گلاس ہی پیا ہوا تھا جس نے معدے میں جا کر اندر سے کنڈی لگا لی تھی۔
شکر جلدی حالت سنبھل گئی اور میں واپس سروس ٹرالی پر آگیا۔ دانت پیستے ہوئے زیرِ لب ساتھی خاتون نے پوچھا کہ کہاں چلے (مر) گئے تھے جس کے جواب میں میں نے ایسی مسکین شکل بنائی کہ ان کا غصہ جاتا رہا۔ کئی سال گزرنے اور شادی ہوجانے کے بعد میں نے ویسی شکل بنانے کی کوشش کی لیکن ابھی تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ شاید اس وقت ’مسکینی‘ میں سچائی تھی۔
خیر اسکردو کی لینڈنگ بہت زبردست نظارہ ہے۔ بالکل پہاڑوں کے بیچ سے دور رن وے نظر آرہا ہوتا ہے۔ ان دنوں برف باری بھی خوب ہوئی تھی چنانچہ مسافروں کے اترنے کے بعد ہم سب نے برف کو ہاتھ لگا کر محسوس کیا کہ کہیں یہ نقلی تو نہیں۔ واپسی کی پرواز سے پہلے میں نے دو سینڈوچ بھی کھائے تاکہ وہ معدے میں جا کر مرینڈا کو کچھ سمجھائے۔ ترکیب کارگر ثابت ہوئی اور اسکردو سے واپسی کے سفر پر اطمینان رہا۔
14 اگست کو اسکردو کا ہوائی اڈہ بین الاقوامی ہوائی اڈے کا درجہ حاصل کرچکا ہے اور دبئی سے براہِ راست پروازیں اسکردو آنے کی راہیں کھل گئی ہیں۔ خدا کرے کہ یہ اقدام خوش آئند ہو اور سیاحوں کی آمد و رفت بڑھے۔