سفرنامہِ ہسپانیہ: الحمرا کا حسن (پانچویں قسط)
اس سلسے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
غرناطہ کی گلیوں میں کُہرام مچا تھا۔ قصر الحمرا کے سب سے بلند مینار پر اسلام کا جھنڈا اُتر چکا تھا اور اب یہاں سنہری صلیب نصب کی جاچکی تھی۔ غرناطہ کی اسلامی حکومت کے آخری فرماں روا ابو عبداللہ اپنے وزرا، اُمرا اور چند نوجوان کے ساتھ گھوڑوں پر رنگارنگ ریشمی لباس زیب تن کیے مسیحی فوج کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔
الحمرا محل، مسلمانوں کے عروج و زوال کا شاہد
یہ تاریخ کے اوراق میں 2 جنوری 1492ء کا دن تھا جب ایک قوم غروب ہورہی تھی اور دوسری قوم کے ابھرنے کا وقت تھا۔ موت کے بعد کوئی زندہ نہیں ہوتا لیکن یہاں تو اسپین اور پرتگال دوبارہ زندہ ہونے جارہے تھے۔ ایسے میں قصر الحمرا کا دروازہ کھلتا ہے اور ملکہ ازابیل، بادشاہ فرنینڈس، شاہی خاندان کے اراکین اور شاہی لباس پہنے درجنوں افراد، فوجی موسیقی کی دھنوں اور خوشی کے شادیانوں کے ساتھ قصر الحمرا کی طرف بڑھتے ہیں۔
ان کے استقبال کے لیے سب سے آگے اندلس کے بدقسمت فرمانروا ابو عبداللہ اور اس کے دیگر وزرا اور امرا موجود تھے۔ یہ وہی ابو عبداللہ تھے جنہوں نے اقتدار کی خاطر اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تھی۔
وہ اپنے چچا الزاغل کے ساتھ بھی جنگیں لڑچکا تھا اور اپنوں کے خلاف ہمیشہ مسیحیوں سے مدد مانگتا تھا۔ اب وہی مسیحی فاتح قوم کی حیثیت سے اس کے محل میں داخل ہوچکے تھے۔ یہ اُسی غرناطہ کا حاکم تھا جہاں کے لوگوں نے یورپ کو حُریت افکار اور تمدن سکھائے۔ اب اسی بدقسمت ابو عبداللہ کے شہر میں مسلمان محاصرے میں تھے۔
دسمبر 1491ء کی یخ بستہ راتیں تھیں۔ مولائے حسن کی پہاڑی سمیت شہر بھر میں برف باری ہورہی تھی۔ اس دوران مسیحی فوج کے محاصرے اور برف باری کی وجہ سے رسد پہنچنی بند ہوگئی تو غرناطہ کے شہریوں نے جمع ہوکر ابو عبداللہ سے درخواست کی کہ اس طرح شہر میں بند رہنے اور مستقبل قریب میں فاقوں سے مرنے سے بہتر ہے کہ ہم باہر نکل کر مردوں کی طرح ان کا مقابلہ کریں۔ یوں یا تو ہم کامیاب ہوجائیں گے یا پھر شہید۔
اس وقت غرناطہ کی آبادی 8 سے 10 لاکھ تھی۔ مسلمان فوج کی تعداد بھی 20 سے 30 ہزار کے درمیان تھی۔ فوج کی مدد کے لیے ہزاروں رضاکاروں کا لشکر بھی جنگ میں شامل ہوسکتا تھا۔ مسیحی فوج کی تعداد 80 ہزار تھی اور انہیں گوریلا جنگ کے ذریعے بے بس بھی کیا جاسکتا تھا۔
تمام تر دشواریوں کے باوجود حالات اتنے بھی خراب نہیں تھے لیکن ابو عبداللہ اس پوزیشن میں فیصلہ کرنے سے قاصر تھا اس لیے اس نے اپنے امرائے سلطنت سے مشورہ کیا۔ بدقسمتی سے امرائے سلطنت میں وہ لوگ شامل تھے جو دشمن کے ہاتھوں پہلے ہی بِک چکے تھے اور انہیں صرف اپنی جاگیروں اور دولت کے تحفظ کی فکر تھی۔
لہٰذا طویل بحث کے بعد امرائے سلطنت، درباری فقہا اور مفتیوں نے فیصلہ کیا کہ عوام کے جان و مال وغیرہ کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی یقین دہانی جیسی شرائط پر مسیحی فوج کے ساتھ صلح کرلی جائے اور شہر کو ان کے حوالے کردیا جائے۔
30 دسمبر 1491ء کو ابو عبداللہ نے مسیحیوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرکے اندلس میں مسلمانوں کے 800 سالہ دور کی روح نکالی دی۔ معاہدے کی رو سے مسلمانوں کی جائیداد، مذہبی آزادی اور دیگر چیزوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ابو عبد اللہ کی جاگیر کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی مسیحی افواج کے فرائض میں شامل ہوگا اور کہا کہ اس معاہدے میں شامل تمام شرائط کی تکمیل 60 دنوں میں ہوگی۔ یعنیٰ فوری طور پر غرناطہ مسیحیوں کے حوالے کرنا ضروری نہ تھا۔
مسلمانوں کو جب اس معاہدے کی خفیہ شرائط کا پتا چلا تو انہیں شدید غصہ آیا اور وہ بے چینی میں مبتلا ہوگئے۔ ابو عبداللہ کو جب لوگوں کے غصے اور تیور کا پتا چلا تو بغاوت کے ڈر سے یکم جنوری 1492ء کو ہی اس نے مسیحیوں کو غرناطہ میں داخل ہونے کا کہہ دیا۔ یوں ملکہ ازابیل اور فرنینڈس الحمرا محل میں داخل ہوئے۔
ان کے استقبال کے لیے سب سے پہلے ابوعبداللہ اپنے گھوڑے سے اُترا اور مسیحی حکمران کے گھوڑے کی باگ تھام لی۔ کانپتے ہاتھوں سے قصرالحمرا کی چابیاں دشمن کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے ابو عبداللہ نے کہا کہ یہ چابیاں اندلس میں عرب حکمرانی کی آخری نشانی ہے۔ آج سے خدا کی مرضی کے مطابق ہمارا ملک، جانیں اور مال سب آپ کی ملکیت میں ہیں۔
بعدازاں تاریخ نے ثابت کیا کہ مسیحیوں نے اس معاہدے کا کیا حشر کیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ وہ غدار مقامی مسلمان اپنے انجام کو پہنچے جنہوں نے انعام و اکرام کی لالچ میں قوم کی پیٹھ پر خنجر گھونپا تھا۔ یہاں تک کہ ابوعبداللہ کا اپنا انجام یہ ہوا کہ تھوڑے عرصے بعد اسے اپنی جاگیر سے جان بچا کر اندلس سے تیونس منتقل ہونا پڑا جہاں پر وہ بادشاہ فاس کے پاس ملازم بھرتی ہوا اور ایک جنگ میں مارا گیا۔
الحمرا محل کی سیر
یہ ہفتے کا دن تھا۔ معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ دیر فیس بک اور دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ڈان نیوز و دیگر نیوز ویب سائٹ کو کھنگالا۔ اس کے بعد عبداللہ شاہ صاحب کے مشورے کے مطابق ناشتہ کرنے کے لیے قریبی ریسٹورنٹ کی جانب روانہ ہوئے۔ رات بھر بارش ہونے کی وجہ سے غرناطہ شہر پوری طرح بھیگ چکا تھا اور اب بھی ہلکی ہلکی بارش کی بوندوں کے ساتھ ٹھنڈی ہوا ہمارے چہروں پرصبح کی پُرنور تازگی لارہی تھی۔
ریسٹورنٹ اندر سے کافی خوبصورت تھا۔ ریسٹورنٹ کے اندر اور باہر موجود بینچوں پر کچھ ہسپانوی چائے اور شراب نوشی کررہے تھے۔ ریسٹورنٹ میں کاؤنٹر کی پشت پر ایک الماری میں وائن کی بوتلیں، چاکلیٹ کی ڈبیاں اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی نظر آرہا تھا جبکہ کاؤنٹر کے ساتھ ایک شوکیس میں بیکری کا سامان نظر آرہا تھا۔ ناشتے کے لیے ہم نے بریڈ، کیک اور چائے کا آرڈر دیا۔
الحمرا محمل میں جس وقت کے لیے ٹکٹ ملا ہو اسی ٹائم پر آپ کو انٹری ملتی ہے اور ہمیں 9 بجے کا انٹری پاس مل چکا تھا۔ اس لیے ہم نے آرام سے ناشتہ کیا اور پھر غرناطہ (گرنیڈا) کی نیم روشن گلیوں سے گزر کر ایک بازار پہنچ گئے۔ یہاں پر کچھ دکانیں اس وقت کُھل چکی تھیں اور ان میں مختلف چیزیں سجی ہوئی تھیں۔ یہاں پھل اور کتابوں کی دکانیں بھی موجود تھیں۔
کچھ دیر بازار میں وقت گزارنے کے بعد ساڑھے 8 بج چکے تھے۔ اس لیے قریب کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ کر ہم الحمرا محل کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً 10 منٹ میں ہم بذریعے ٹیکسی بلندی کی طرف جاتی مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے الحمرا محل کے ٹکٹ آفس میں پہنچے جہاں بارش ہونے کے باوجود سیاحوں کی ایک بڑی تعداد لمبی قطار میں ٹکٹ خریدنے میں مصروف تھی۔ روزانہ 8 ہزار افراد کو الحمرا کے محلات و باغات کی سیاحت کرنے کی اجازت ملتی ہے کیونکہ اس سے زیادہ سیاحوں کی اندر گنجائش موجود نہیں۔
روزانہ کے حساب سے تقریباً 6 ہزار سیاح الحمرا کے ان خوبصورت محلات کا وزٹ کرتے ہیں۔ الحمرا کا ٹکٹ 14 یوروز کا ہے۔ اس طرح اس محل کی روزانہ 84 ہزار یوروز کی آمدن ہوتی ہے جوکہ پاکستانی روپے میں 16 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ہے۔ پورے سال میں صرف الحمرا کی عجائبات سے کھربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ بات کرنا مناسب ہوگا کہ اندلس اور غرناطہ میں مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہونے کے ساڑھے 600 سال گزرنے کے باوجود ان کی چھوڑی ہوئیں یادگاروں سے آج بھی روزانہ کی بنیاد پر اسپین کروڑوں یوروز کماتا ہے۔
چونکہ ہم پہلے سے انٹرنیٹ کے ذریعے ٹکٹ بک کرواچکے تھے اس لیے ہم لمبی قطار میں کھڑے ہونے کی جھنجھٹ سے محفوظ رہے۔ الحمرا محل میں داخل ہونے کے لیے گیٹ پر لگی اسکینر مشینوں نے ہمارے ٹکٹس کی جانچ کی اور یوں ہمیں دنیا کے اس خوبصورت محل کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی جسے دیکھنے کے لیے دنیا کے کروڑوں لوگ تڑپتے ہیں۔
گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی ہم ایک کشادہ سڑک سے گزرتے ہوئے بنو نصر کے محلات کی طرف آگے بڑھ گئے جہاں داخل ہونے کے لیے ہمارے پاس 10 منٹ رہ گئے تھے۔ سڑک کے دونوں کناروں پر خوبصورت اونچے اونچے شاہ بلوط اور چنار کے درخت موجود تھے اور ان درختوں کے درمیان جگہ جگہ پر بیٹھنے کے لیے بینچ اور رنگارنگ پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ خیر ہم اسی سڑک پر چلتے گئے جو سیدھی باغ بہشت کی طرف جارہی تھی۔ چونکہ ہم نے پہلے بنو نصر کے محلات کو دیکھنا تھا، اس لیے ہم سڑک سے بائیں جانب مڑ گئے۔
یہ راستہ بھی سرسبز و شاداب تھا جس کے دونوں اطراف قلعے کی حفاظتی دیوار اور قدرے وقفے کے بعد حفاظتی برج تھے جن پر اسلامی وعیسائی ادوار میں فوجی ہر وقت چوکس کھڑے رہتے تھے۔ الحمرا کے اس قلعے کی دو میل لمبی دیواروں پر اس طرح کے تقریبا 30 برج ہوا کرتے تھے جن میں سے چند برج اب بھی اس دور کی یاد تازہ کررہے تھے۔
تھوڑا آگے سڑک کے دونوں اطراف سرو کے درختوں کا ایک مدہوش کُن منظر تھا۔ انتہائی نفاست سے تراش کر سرو کے درختوں کی ایک لمبی دیوار بنائی گئی تھی۔ محسوس ہورہا تھا جیسے سرو کے درخت صفیں باندھے ہمیں اور ہم جیسے لاکھوں سیاحوں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
سرو کے درختوں کے دائیں جانب محل کے ایک حصے میں اسپتال، قید خانہ، قبرستان اور حمام تھے۔ قبرستان میں آج بھی اس دور کی قبریں موجود ہیں۔ الحمرا محل کے احاطے میں سیاحوں کی رہائش کے لیے دو فائیو اسٹار ہوٹل بھی موجود ہیں جس کے سامنے ایک مختصر سا شاہی بازار بھی قدیم وقت سے یہاں موجود ہے۔ اس بازار میں چند دکانیں تھیں جن پر تحفے تحائف خریدنے کے لیے سیاح موجود تھے جبکہ ایک دو کھانے پینے کی دکانیں اور سیاحوں کے لیے واش رومز کی سہولت بھی موجود تھی۔ بازار میں رکے بغیر ہم ایک چکور عمارت کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
اس عمارت کی دیواریں فن تعمیر کا شاہکار تھیں۔ عمارت کی دیوارں کو سیمنٹ کے بڑے بڑے بلاکس سے تعمیر کیا گیا تھا جن کے ساتھ لوہے کے بڑے بڑے کڑے لٹک رہے تھے۔ یہ عمارت باہر سے کافی خوبصورت لگ رہی تھی جسے اندر سے دیکھنے کے لیے ہمارے دل میں تجسس بڑھ رہا تھا۔ چونکہ ہم نے محلات میں مقررہ ٹائم پر داخل ہونا تھا اس لیے پہلے ہم محلات کے مین گیٹ کے سامنے لگی سیاحوں کی قطار کی جانب بڑھنے لگے لیکن وہاں پہنچتے ہی پتا چلا کہ محلات کا دروازہ کھلنے میں ابھی 15 منٹ باقی ہیں۔ ابھی وقت تھا تو ہم اس خوبصورت عمارت کو دیکھنے کے لیے چل پڑے۔
باہر سے چکور شکل میں تعمیر کردہ یہ عمارت اندر سے کرکٹ گراؤنڈ کی طرح بالکل گول اور دو منزلہ تھی۔ اس عمارت کو الحمرا محل میں مسلمان دور کے خاتمے کے بعد عیسائی حکمران چارلس پنجم (اصل نام کوشارلیکان) نے تعمیر کروایا تھا۔ اندر سے یہ عمارت اتنی دلکش نہیں تھی جتنی یہ باہر سے لگ رہی تھی۔ یہ بالکل ہسپانوی کھیل بُل فائیٹنگ کے رِنگ جیسی تھی۔
اس عمارت میں ایک چھوٹا میوزیم بھی ہے جس میں مسلمانوں کی اسپین پر 800 سالہ حکومت کے کچھ پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا جبکہ یہاں ہسپانوی اور فرانسیسی حمکرانوں کے عہد کا بھی بہترین انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔
اس عمارت میں کچھ مقامات پر فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم ایک دفعہ پھر محلات میں داخل ہونے کے لیے قطار میں لگ گئے۔ اب شاہی محل کے دروازے کُھل چکے تھے اور سیاح محل کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے۔
1238ء میں قصر الحمرا کے شان دار محل کی تعمیر کا کام اندلس کے آخری مسلمان حکمران بنی الحمرا نے شروع کیا تھا۔ ان کی وفات کے بعد بھی قصر الحمرا کی تعمیر جاری رہی۔ محمد خامس الغنی نے الحمرا کی تعمیر اور آرائش میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ اس کے خوبصورت باغات میں دنیا بھر سے پودے منگوا کر لگائے گئے۔ محل میں جابجا بالکونیاں بنائی گئیں جن سے پورے شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس محل کی تعمیر اپنی مثال آپ ہے اور اسلامک آرٹ کا بہترین نمونہ ہیں۔ بنو نصر کے ان محلات کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصےکو دربار عدل (Mexuar)، دوسرے حصے کو شاہی دربار (Comares) جبکہ تیسرے حصہ کو حریم (Loins Palace) کہا جاتا ہے جوکہ شاہی رہائش گاہ ہے۔
سیاحوں کو دربار عدل کے مرکزی دروازے سے داخل کیا جارہا تھا۔ ہم بھی اسی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس دروازے پر مسلمانوں کے دور میں آویزان بورڈ پر لکھا ہوتا تھا کہ ’اندر تشریف لائیں اور بغیر کسی خوف کے انصاف طلب کیجیے، آپ کو یہاں انصاف ملے گا‘۔
ایوان عدل میں داخل ہوئے تو اندازہ ہوا کہ 800 سال تک حکومت کرنے والے مسلمان واقعی اس قابل تھے جو اس خطے میں طویل عرصے تک حکمرانی کرتے رہے۔ اس محل کی دیواروں پر کمال مہارت سے نقش و نگاری کی گئی ہے جو اُس وقت اسلامک آرٹ کا بہترین نمونہ تھی۔ دیواروں کے کچھ حصوں پر قرانی آیات سنہری حروف میں لکھی ہوئی ہیں۔ بنو نصر کے مسلمان حکمرانوں کا نعرہ ’ولا غالب الا اللہ‘ جگہ جگہ لکھا ہوا نظر آرہا تھا۔ محل کے اس حصے میں وہ مسجد بھی تھی جہاں بادشاہ، وزرا، قاضی اور سفیر نماز ادا کرتے تھے۔ مسجد کی محرابوں میں اندر اور باہر قرآنی آیات نقش تھیں۔
دربار عدل کا یہ حصہ ایک حویلی کی مانند تھا جہاں بعد میں عیسائی حکمرانوں نے بہت سی تبدیلیاں کیں۔ یہاں یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی کارروائی کہاں ہوتی تھی۔ قاضی کہاں پر بیٹھتا تھا اور ملزم کہاں۔ محل کے چاروں اطراف ہال اور کمرے ہیں جبکہ درمیان میں صحن موجود ہے۔
صحن سفید سنگ مرمر کا ہے اور درمیان میں فوارے اورسنگ مرمر کی پانی کی نالیاں موجود ہیں۔ مسیحی حکمران جب غرناطہ پر قابض ہوئے تو انہوں نے دربار عدل کے اس ہال میں چرچ بنا دیا اور پادری صحن میں لگے فوارے کے پانی کو بپتسما (Baptism) کے لیے استعمال کرنے لگے۔
یہاں ایک جاپانی گروپ کے ساتھ آئے ایک ہسپانوی ٹور گائیڈ نے بتایا کہ ایوان عدل کے اس ہال کے ساتھ والے کمرے سے نیچے جانے والا راستہ قید خانے کی طرف جاتا ہے جہاں سے قیدیوں کو دربار عدل میں لایا جاتا اور پھر یہیں سے واپس جیل منتقل کیا جاتا تھا۔
یہاں سے ہم دربار عدل سے بنو نصر کے محلات کے اہم حصے شاہی دربار کی طرف بڑھے۔ شاہی دربار محل کا وہ حصہ تھا جوکہ مسلمان بادشاہوں کی طاقت کا سرچشمہ تھا۔ شاہی محل میں بادشاہوں کا دربار لگتا تھا۔ محل کے ساتھ منسلک اس ہال میں سفیروں کا استقبال کیا جاتا تھا۔ اس ہال کی لمبائی 18 میٹر جبکہ چوڑائی 11 میٹر ہے۔ اس کی دیواروں اور چھتوں پر سنہری حروف میں سلطنت کے نعرے اور قرانی آیات کندہ ہیں۔ اس محل کے وسیع صحن میں سفید سنگِ مرمر سے بنا پانی کا تالاب بھی موجود ہے جس کے بیچ میں فوارہ ہے اور اس محل کے ہر طرف سنگ مرمر کی نالیوں میں پانی بہتا ہے۔
ایک مشہور سیاح نے اپنی مسیحی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے اس خوبصورت محل کی تعریف کچھ اس طرح کی تھی کہ ’ایک دور تھا جب دنیا کے بادشاہ زمین پر کھلے میدانوں میں اپنے محل تعمیر کرنے کا سوچ رہے تھے، اس وقت غرناطہ کے ان مسلمان حکمرانوں کا محل پانی کے اوپر بن چکا تھا‘۔
شاہی دربار سے ہم اب محلات کے اس حصے میں پہنچے جسے شیروں والا محل یا حریم کہا جاتا تھا۔ شیروں والا محل بلاشبہ اپنی تعمیر اور بہترین ڈیزائن کی وجہ سے دنیا کے خوبصورت ترین محلات میں سے ایک ہے۔ محل کی خوبصورتی کو دیکھ کر مجھ سمیت تمام سیاح ششدر رہ گئے۔ میں نے اس سے قبل اتنا خوبصورت محل کبھی نہیں دیکھا تھا۔
محل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ رہائشی کمروں سمیت محل کے تمام حصے قرانی آیات سے سجائے گئے ہیں۔ محل کا صحن 35 میٹر لمبا اور 20 میٹر چوڑا ہے۔ صحن کے وسط میں 12 شیروں کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان شیروں کے سروں پر ایک بڑا حوض بنایا گیا ہے۔ حوض میں پانی ہے اور شیروں کے منہ سے پانی فواروں کی طرح باہر نکلتا ہے۔ ان شیروں کی وجہ سے اس محل کو شیروں والا محل کہا جاتا ہے۔
محل کے مختلف حصوں کی سیر کے بعد ہم باب الاسد سے الحمرا کے باغات کی طرف روانہ ہوئے۔ الحمرا کے باغ فردوس بریں کا نمونہ ہیں۔ دنیا بھر سے ہر قسم کے پودے یہاں لگائے گئے تھے۔ الحمرا کے باغات کی اونچی دیواریں بھی پھول دار بیلوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ کجھور کے درختوں کے جھنڈ ایوان السفیر تک جاتے ہیں۔ پھول دار باغوں کو سیراب کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعے پانی بھی مہیا کیا گیا ہے۔
باغات میں جہاں کجھور اور دیگر اقسام کے پھولوں کے پودے لگائے گئے تھے وہیں انجیر، سنگتروں اور زیتون کے درختوں کی بہتات تھی جو اس محل میں مسلمان حکمرانوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلا رہی تھی۔ محل کے مختلف حصوں سے البائزین کی بستی کے نظارے بھی پرکشش لگ رہے تھے۔
میں فوٹوگرافی میں مصروف تھا کہ اس دوران عبداللہ شاہ صاحب نے ٹائم کی طرف توجہ دیتے ہوئے آواز دی کہ ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔ اگرچہ ہمیں دوپہر 2 بجے غرناطہ کو الوداع کہہ کر اندلس کی عظیم سلطنت کے تیسرے بڑے شہر اشبیلیہ کی طرف روانہ ہونا تھا لیکن قصر الحمرا میں بنے ان شاہکاروں کی دل کشی نے ہمیں ایسے جکڑے رکھا کہ ہمیں وقت گزرنے کا بالکل بھی اندازہ نہ ہوسکا۔
ہم نے محلات سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ باہر بارش تیز ہوچکی تھی جس کی وجہ سے قصر الحمرا سے نکلتے نکلتے ہمیں مزید 20 منٹ لگ گئے۔ باہر کھڑی ٹیکسی کے ذریعے ہم اپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے۔
تقریباً مزید 15 منٹ میں ہم اپنے اپارٹمنٹ سے سامان لے کر نیچے اترے اور بس اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے۔ بس نکلنے میں صرف 5 منٹ رہ گئے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے غرناطہ کی سڑکوں پر گاڑی دواڑئی لیکن ہمیں بس اسٹیشن کے ٹکٹ کاؤنٹر پر پہنچتے پہنچتے پتا چلا کہ بس نکل چکی ہے۔ اب اگلی بس سہ پہر 4 بجے روانہ ہوگی۔ ہمارے پاس انتظار کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہ تھا اس لیے اگلی بس کے ٹکٹس لےکر ہم بس اسٹیشن پر انتظار کرنے لگے۔
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔