• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

بداخلاقی اور بے امنی پھیلانے میں فلموں اور ڈراموں کا بھی ہاتھ ہے، سہیل احمد

شائع August 31, 2023
— اسکرین شاٹ
— اسکرین شاٹ

سینئر اداکار، پروڈیوسر و لکھاری سہیل احمد نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں پھیلی بداخلاقی اور بے امنی میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کا بھی ہاتھ ہے۔

سہیل احمد گزشتہ پانچ دہائیوں سے شوبز انڈسٹری کا حصہ ہیں، انہوں نے درجنوں ڈراموں اور فلموں سمیت تھیٹرز میں کام کیا ہے۔

سہیل احمد ڈرامے لکھتے بھی رہے ہیں، انہوں نے متعدد ڈراموں کو پروڈیوس بھی کیا جب کہ انہوں نے ہدایت کاری بھی کر رکھی ہے۔

حال ہی میں انہوں نے ’وی نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ٹی وی اور فلموں کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات سمیت دیگر معاملات پر کھل کر بات کی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 42 سال قبل جب انہوں نے اداکاری شروع کی، اس وقت پاکستانی معاشرہ تنگ نظر اور سادہ تھا، اس وقت ہر کسی کو شوبز میں آنے کی وجہ سے خاندان کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔

ان کے مطابق انہیں بھی خاندان اور خصوصی طور پر والد کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن چوں کہ اداکاری کرنا ان کا جنون اور شوق تھا، اس لیے انہوں نے ایسی پابندیوں کو پرواہ نہیں کی۔

سہیل احمد نے اعتراف کیا کہ ان کے والد نے ان کا کوئی ڈراما نہیں دیکھا تھا۔

سینئر اداکار نے معاشرے کے شوبز سے تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ شوبز والے ان ہی موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں بناتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پروڈیوسرز کو ان موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں بنانی ہی نہیں چاہیے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں، کیوں کہ لوگ تو بہت کچھ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی مرضی کے مطابق مواد نہیں بنایا جا سکتا۔

سہیل احمد کا کہنا تھا کہ ہدایت کار ایسا مواد تیار کریں جو ہر کوئی اسے دیکھنے پر مجبور ہوجائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سماج میں پھیلی بدامنی، بداخلاقی اور پست ذہنیت میں پاکستانی ڈراموں اور فلموں کا بھی ہاتھ ہے۔

سہیل احمد نے مثال دی کہ سلطان راہی جیسے بہترین اداکار سے خاص موضوعات پر جاہلانہ قسم کی فلمیں کروائی گئیں اور وہ پوری زندگی پینٹ اور شرٹ دھلوا کر اس امید پر دنیا سے چلے گئے کہ کبھی ان سے اچھی فلم بھی کروائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ فلموں میں 40 اور 50 خون کرنے والے افراد کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا اور درجنوں پولیس مقدمات کا سامنے کرنے والے کرداروں کو بھی شریف شخص کے طور پر دکھایا گیا۔

سہیل احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں علامہ اقبال جیسے شاعر پیدا ہوئے، وہاں پر سینسر بورڈ نے سینما اسکرینز پر ایسی بیہودہ شاعری دکھانے کی اجازت دی، جسے سن کر اور دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے، تاہم انہوں نے ایسی کسی شاعری کی مثال نہیں دی۔

اداکار نے کہا کہ چوں کہ پاکستان اسلامی ملک ہے اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح یہاں بھی فلموں اور ڈراموں میں پر سینسر ہونا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو فلم اور ڈراموں کے اسکرپٹس کو یونیورسٹیز کے زبانوں کے شعبوں سے منسلک کرنا چاہیے، وہاں سے اسکرپٹ منظور کروا کر اس پر فلم یا ڈراما بنایا جانا چاہیے تاکہ معیاری مواد بن سکے اور پھر سینسر کی نوبت بھی نہ آئے۔

انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستانی سماج میں پھیلی بداخلاقی، پست ذہنیت اور بدامنی سمیت دیگر فرسودہ روایات میں فلموں اور ڈراموں کا بھی ہاتھ ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024