انسداد دہشت گردی عدالت سے ریمانڈ مسترد کیے جانے کے بعد حلیم عادل دوبارہ گرفتار
کراچی پریڈی پولیس نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے ریمانڈ مسترد کیے جانے کے بعد سندھ اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو 9 مئی کو ہنگامہ آرائی کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔
جمعرات کو اس وقت ڈرامائی صورت حال دیکھنے کو ملی جب کلفٹن میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج نے حلیم عادل شیخ کا ریمانڈ مسترد کردیا لیکن کچھ دیر بعد ہی پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر قیادت بشمول 11 سابق اراکین اسمبلی کے خلاف اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کا سہارا لینے کے تقریباً چار مقدمات درج کیے گئے تھے۔
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تقریباً درجن بھر سابق اراکین سندھ اسمبلی کی طرح حلیم عادل شیخ بھی ان مقدمات میں اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے تین ماہ تک روپوش رہے تاہم حال ہی میں وہ منظرعام پر آ گئے تھے۔
حلیم عادل شیخ کراچی کے فیروز آباد، ٹیپو سلطان اور سٹی کورٹس تھانے میں درج جلاؤ گھیراؤ اور دہشت گردی کے تین مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے کے بعد منظرعام پر آئے۔
جمعرات کو تفتیشی افسر نے انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا تاکہ فیروز آباد پولیس اسٹیشن میں درج مقدمات میں ریمانڈ حاصل کیا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن لیڈر حلیم عادل کو بدھ کو رات گئے حراست میں لیا گیا تھا اور پوچھ گچھ کے لیے انہیں تحویل میں لینے کی ضرورت تھی کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر 9 مئی کو کراچی میں ہونے والے احتجاج کے دوران پارٹی کارکنوں کو جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے لیے اکسایا تھا۔
تاہم حلیم عادل شیخ کے وکلا شجاعت علی خان اور ظہور محسود نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر عدالت کو گمراہ کر رہے ہیں کیونکہ حلیم عادل شیخ پہلے ہی کراچی میں درج تین ایک جیسے مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت پر ہیں جن میں فیروز آباد پولیس اسٹیشن میں درج ایک مقدمہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت انہیں ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں نہیں دے سکتی کیونکہ پولیس نے انہیں پہلے ہی غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے کیونکہ وہ ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں لہٰذا استدعا ہے کہ انہیں بری کرنے کا حکم دیا جائے۔
دلائل سننے کے بعد جج نے تفتیشی افسر کی حلیم عادل شیخ کو پولیس کی حراست میں رکھنے کی درخواست مسترد کردی اور رہائی کا حکم دیتے ہوئے تفتیشی افسر سے کہا کہ وہ ہتھکڑیاں کھول دیں۔
تاہم، پولیس حکام نے سابق رکن صوبائی اسمبلی کو عدالت کے اوقات کار ختم ہونے کے بعد کلفٹن جوڈیشل کمپلیکس کے باہر سے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کا ماضی کا مجرمانہ ریکارڈ چیک کرنے کی غرض سے کلفٹن تھانے لے گئے۔
ایڈووکیٹ شجاعت علی خان نے ڈان کو بتایا کہ ایک پولیس اہلکار نے حلیم عادل شیخ کو پریڈی پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے کے سلسلے میں باضابطہ طور پر گرفتار کیا اور وہ انہیں کسی ’نامعلوم‘ جگہ پر لے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے احتجاج کیا اور ایس ایس پی کلفٹن شیراز نذیر کلہوڑو سے بھی ملاقات کی لیکن انہوں نے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری سے انکار کر دیا۔