جسٹس قاضی فائز عیسیٰ: کامیاب وکیل سے منصف اعلیٰ بننے تک کا سفر
سپریم کورٹ کے نئے سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس اپنے فرائض اس وقت سنبھالے ہیں جب عدالت عظمیٰ میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد 56 ہزار 566 سے زائد ہے اور سپریم کورٹ میں ججز کی تقسیم کا تاثر گہرا ہے۔ پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لےکر جسٹس عمر عطا بندیال تک چیف جسٹسز سے خود ان کے شدید اختلاف بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیک وقت ایک نہیں بلکہ کئی تعارف ہیں۔ وہ انتہائی سنجیدہ اور سلجھے ہوئے شخص ہیں اور قانون، شریعت، اسلامی تعلیمات پر دسترس رکھتے ہیں اور انہیں تاریخ سے بھی خاصی واقفیت ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے دیرینہ دوست اور تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند ہیں۔ وہ ماضی میں ایک اچھے وکیل رہے ہیں اور نڈر جج اور ایک بااصول انسان ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔ پھر قانون کی تعلیم لندن سے مکمل کی۔ وہ 1985ء میں بلوچستان ہائیکورٹ کے وکیل بنے پھر 1998ء میں سپریم کورٹ میں بطور وکیل انرول ہوئے۔ بلوچستان ہائیکورٹ اور پھر سندھ ہائیکورٹ میں وہ ایک کامیاب وکیل ثابت ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی انٹری
میں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو میموگیٹ کمیشن کے سربراہ کے طور اس وقت دیکھا جب وہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے قائم شدہ کمیشن کی دو ساتھی چیف جسٹسز کے ساتھ سربراہی کررہے تھے۔ اس کمیشن میں ان کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس مشیر عالم اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن شامل تھے۔ یہ کمیشن اس وقت بنا جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج عالمی مطلوب دہشتگرد اسامہ بن لادن کو ایک گھر میں مار کر اس کی لاش اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد ریاست کی خودمختاری پر سوالات اٹھنے کے ساتھ ساتھ بڑی ہزیمت کا سامنا تھا۔ ایسے ماحول میں یہ خبر عام ہوئی کہ صدر زرداری نے تب کے امریکی سفیر حسین حقانی کے ذریعے امریکی انتظامیہ سے مدد طلب کی کہ پاکستان میں ممکنہ طور پر لگنے والے مارشل لا کو روکیں۔ یہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے سامنے میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر بمعہ اپنی پوری جماعت کھڑے ہوگئے تھے۔
میاں صاحب اور ان کے اس وقت کے ساتھیوں کی تمام درخواستوں کا لب لباب یہ تھا کہ مارشل لا کے خطرے کے باعث امریکا سے مدد طلب کرنا ملک سے غداری ہے اور اس میں سب سے بڑی سورس خود امریکی شہری منصور اعجاز تھے۔ یعنی مقدمہ یہ تھا کہ امریکی شہری کے بیان پر پاکستانی شہریوں اور سیاستدانوں کو سبق سکھانا ہے۔ اس سب میں نواز شریف خوب استعمال ہوئے جس کا انہیں کافی بعد میں احساس تب ہوا جب ان کے خلاف میمو گیٹ کمیشن جیسا ایک اور کیس ڈان لیکس سامنے آیا۔
میاں نواز شریف، جنرل پاشا اور دیگر حضرات اس وقت کی حکومت کے خلاف گواہ بن کر عدالت کے سامنے حلفیہ بیان جمع کرواچکے تھے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری میں ایسے حلفی بیانات کو نظرانداز کرنے کی جرات ہی نہیں تھی۔ خیر وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ایک زبردست انٹری تھی۔ تین صوبائی چیف جسٹسز کا کمیشن امریکی شہری منصور اعجاز کے دیے گئے بیان پر پاکستان میں بڑی عدالتی کارروائی میں مشغول ہوگیا۔ کئی دنوں کے بعد کمیشن نے امریکی حلف یافتہ شہری کے بیان کی بنیاد پر میموگیٹ کا ذمہ دار حسین حقانی کو قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے پہلے کمیشن بنایا، اس کمیشن نے سفارشات دیں، عدالت عظمیٰ نے ان سفارشات پر حکم صادر فرمایا لیکن نتیجہ صفر بٹا صفر رہا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر آج تک عمل نہ ہونے سے ہی لگتا ہے کہ وہ کمیشن اور اس کی کارروائیاں اس وقت کی ضرورت تھیں۔ دراصل میمو گیٹ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔
اب یہ فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور منصف، انصاف کر پائے یا نہیں البتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشنز، ان کے ریمارکس، چبھتے سوالات، انکوائری کا نرالا انداز سب کچھ نیا نیا تھا۔ یہ وہ پہلا مقدمہ تھا جس میں جسٹس قاضی فائز کافی مقبول ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس ہیں۔ اگر حالات نے ان کا ساتھ دیا اور پھر سے مشکلات پیدا نہ ہوئیں تو وہ 25 اکتوبر 2024ء تک یعنی تقریباً 13 ماہ چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان رہیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی چیف جسٹس کے طور پر نامزدگی 3 ماہ پہلے ہوچکی تھی۔ 21 جون 2023ء کو صدر مملکت نے اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔ سرکاری اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں یہ اعلان ہوا کہ صدر مملکت نے آئین کی شق 175 اور 177 کے تحت سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو بطور چیف جسٹس نامزد کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر 2023ء کو اپنے عہدے کا حلف لیں گے۔
صدر مملکت نے اسی جج کو چیف جسٹس نامزد کیا جس نے کچھ عرصہ پہلے اپنے دستخط سے ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ایسا ریفرنس بھیجا جسے سپریم کورٹ نے جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔ ریفرنس بھیجنے والی حکمران جماعت پہلے تو اس ریفرنس کا دفاع کرتی رہی لیکن آخر میں جماعت کے سربراہ نے یہ فرمایا کہ ہمیں اس ریفرنس میں ایک پوسٹ مین کی طرح استعمال کیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ تین برس پہلے جب اس ریفرنس کی کہانی ہر زبان پر تھی اور ایک منصف انصاف کے لیے اپنی ہی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے تھے تب میڈیا سمیت تمام لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
بطور چیف جسٹس ہائیکورٹ تقرری
2007ء کی ایمرجنسی پلس کے اثرات ختم کرنے والے سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کے نتیجے میں جہاں 100 سے زائد پی سی او جج فارغ ہوئے وہیں بلوچستان ہائیکورٹ ججوں سے مکمل طور پر خالی ہوگئی۔ یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سندھ ہائیکورٹ کا جج بنانا چاہتے تھے لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے یہ کہہ کر اس پیشکش کو مسترد کردیا کہ یہ درست ہے کہ میری رہائش کراچی میں ہے اور زیادہ تر پریکٹس سندھ ہائیکورٹ میں ہے لیکن میرا ڈومیسائل بلوچستان کا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ پر مجھ سے زیادہ حق سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والوں کا ہے۔
سپریم کورٹ سے پی سی او کالعدم اور پی سی او زدہ جج فارغ ہوگئے تو بلوچستان کی خالی ہائیکورٹ کو ججوں کے ساتھ اچھی ساکھ کے حامل چیف جسٹس کی ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں صدرِ پاکستان نے چیف جسٹس کی نامزدگی کو نظر میں رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 5 اگست 2009ء کو بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا۔ 5 سال بعد 2014ء میں انہیں ترقی دے کر سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے
19 اگست 2015ء کو سپریم کورٹ نے ایک اہم مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے پاکستان میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی۔ یہ بینچ تب کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس دوست محمد بھی ممبر کی حیثیت سے موجود تھے۔ تلور کے شکار پر پابندی کو وفاق نے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات سے منسلک کردیا تھا۔ اس سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشن تھی کی ریاست شکار کی اجازت دے کر نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ عالمی قوانین اور کنوینشنز کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے۔
یہ ایسا مقدمہ تھا جس میں صوبائی حکومتیں 18ویں ترمیم کے تحت ملی تھوڑی بہت خودمختاری کو بھی سرینڈر کرنے کو تیار تھیں۔ وہ یوں کہ شکار کی اجازت صوبے کا معاملہ تھا لیکن صوبے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کی پابندی کا موقف اختیار کررہے تھے۔ مقدمہ چلنے کے بعد عدالت کا فیصلہ آگیا۔ سپریم کورٹ نے پورے ملک میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی۔ عرب شکاریوں اور شہزادوں کے جاری کردہ پرمٹ و اجازت نامے مسترد کر دیے گئے۔