بچوں پر بوجھ نہ ڈالیں، انہیں تعلیم کا لطف اٹھانے دیں!
ہم اپنے بچوں پر اتنا زیادہ تعلیمی بوجھ کیوں ڈالتے ہیں؟ ہم اس بوجھ کو کم کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم اپنے بچوں کو چھوٹی جماعتوں سے ہی اتنے زیادہ مضامین کیوں پڑھاتے ہیں جبکہ ہر سال ہمارے نصاب میں ہر مضمون کے اہداف بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
اچھی پڑھائی اور اچھی اسکولنگ کے لیے زیادہ تعلیمی بوجھ ٹھیک نہیں۔ یوں بچے ہمیشہ دباؤ میں رہتے ہیں۔ اساتذہ اور ہمارا اسکولنگ کا نظام، امتحانات لینے پر حد سے زیادہ زور دیتا ہے تاکہ بچوں پر دباؤ برقرار رہے اور وہ ’سیکھ‘ سکیں۔
طلبہ زیادہ تر وقت امتحانات کی تیاری کررہے ہوتے ہیں جیسے پری پری موکس، پری موکس، موکس، ہفتہ وار ٹیسٹ، ماہانہ ٹیسٹ، ٹرم امتحانات اور فائنلز وغیرہ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسکول میں ایک ناقص نظام ہے جہاں بچوں پر دباؤ ہوتا ہے اور طلبہ کو رٹہ لگانا سکھایا جاتا ہے، یوں اس ناقص نظام میں بچوں کو کچھ سمجھانے کی پروا نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس بات پر توجہ توجہ دی جاتی ہے کہ بچے سیکھنے کے تجربے کا لطف اٹھائیں۔ اس طرح طلبہ تعلیم کا اصل مقصد یا اچھی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔
آپ نے طلبہ کے کاندھوں پر اکثر بھاری بھرکم بستے دیکھے ہوں گے۔ بعض اوقات تو ان کا وزن 10 کلو سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ آخر یہ کس طرح قابلِ فہم ہے؟ طلبہ اتنا زیادہ بوجھ کیسے اٹھا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ انصاف کیسے کرسکتے ہیں؟
ہمیں شروع کی دو یا تین جماعتوں میں انگریزی، اردو اور ریاضی کے علاوہ کوئی مضمون پڑھانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ ابتدائی تعلیمی سالوں میں بچوں کو انہیں مضامین کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں اعداد، پڑھنا، بولنا، سننا اور لکھنا سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسی پر توجہ دینی چاہیے۔ اے ایس ای آر اور دیگر سرویز ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم بچوں کو اعداد سکھانے اور انہیں خواندہ بنانے میں کوئی کامیاب کردار ادا نہیں کررہے۔
تو کیا ان چیزوں پر توجہ دینے کے بجائے ہمارا یوں مذہبی تعلیم، معلوماتِ عامہ اور دیگر مضامین کو نصاب میں شامل کرنا درست ہے؟ ان کے بجائے ہمیں آرٹ، موسیقی، پلے، اور دیگر سماجی سرگرمیوں کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ یوں ہمارے بچوں کی نشوونما مزید بہتر انداز میں ہوگی اور ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔
اور انگریزی، اردو اور ریاضی کے مضامین کو بھی ہمیں آہستہ آہستہ آگے لے کرچلنا چاہیے۔ بچے زبانیں کیسے سیکھتے ہیں؟ وہ سن کر (عموماً ابتدائی سالوں میں بچے والدین سے سیکھتے ہیں)، بول کر، پڑھ کر اور پھر آخر میں لکھ کر نئی زبانیں سیکھتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں لکھنے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے اور بچے کو ابتدائی تعلیمی سالوں میں ہی لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ آج جو کچھ ہمارے تعلیمی نظام میں ہورہا ہے اس کے برعکس ابتدائی 2 یا 3 جماعتوں میں تو لکھنے کے بجائے زبانی تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
ہمیں چھوٹی جماعتوں میں اتنے سارے مضامین کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت پڑنے پر ہم بچوں کو انگریزی اور اردو زبان میں کہانیاں سنا سکتے ہیں۔ ہم آرٹ، موسیقی اور گانے سے اپنے بچوں کو نئے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔ بچوں کو اپنے اسکول اور تعلیم سے لگاؤ ہونا چاہیے۔ انہیں نصاب، اساتذہ یا تعلیمی دباؤ کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
جیسے جیسے طلبہ بڑی جماعتوں میں جاتے رہیں، ویسے ویسے دیگر مضامین سے انہیں متعارف کروایا جائے لیکن اس عمل میں بھی جو مضامین پڑھائے جائیں ان کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ’بچوں کو سب کچھ آنا چاہیے‘ اس سوچ سے ہم کبھی بھی تعلیمی نظام کو بہتر نہیں بنا سکتے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چاہے یہ 21ویں صدی کی مہارتیں ہوں، کمپیوٹر سائنس ہو یا حتیٰ کہ مذہبی مواد کے تراجم ہی کیوں نہ ہو، اگر ہمیں نصاب میں کچھ شامل کرنا ہے تو ہمیں نصاب سے کچھ نکالنا بھی پڑے گا اور اس شمولیت اور حذف کرنے کے لیے معقول وجوہات بھی ہونی چاہئیں۔ کسی اسکول، نصابی کونسل یہاں تک کہ وزیراعظم کی خواہش پر مضامین کو شامل یا انہیں حذف نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی نصاب پر نظرثانی کی جاتی ہے، اس کے نتیجے میں مزید مضامین یا مواد کو نصاب میں شامل کردیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک اسکولنگ سسٹم کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ چھٹی جماعت میں 8 مضامین پڑھاتے ہیں جن میں انگریزی، اردو، ریاضی، سائنس، تاریخ، جغرافیہ، کمپیوٹر سائنس اور مذہبی مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین کافی زیادہ ہیں۔ ان میں آرٹ، موسیقی یا ان جیسے دیگر مضامین شامل نہیں۔ ان سب میں غیرنصابی سرگرمیاں بھی شامل نہیں ہیں۔ آخر ہم اپنے چھٹی جماعت کے بچوں کو بنانا کیا چاہتے ہیں؟
کتابوں کی تفصیلات میں انگریزی کی 5 کتابیں، اردو کی 3 کتابیں، سائنس کی 2 کتابیں اور بقیہ 5 مضامین کے لیے ایک ایک کتاب شامل ہے۔ یہ بہت زیادہ کتابیں ہیں۔ یہ دیکھنے کے بعد اس امر میں کوئی حیرت کی بات نہیں رہتی کہ بچوں کا بستہ بہت بھاری ہوتا ہے اور وہ سمجھنے کے بجائے رٹے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا طلبہ کو واقعی اتنی کتابوں کی ضرورت ہے؟
بہت سے ماہرینِ تعلیم نے اپنی تحریروں میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے کہ اس سے چیزوں کو سمجھنے اور سیکھنے کے حوالے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ تدریس، سیکھنے یا سمجھنے سے انتہائی مختلف چیز ہے۔ اساتذہ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ وہ پڑھائی کے عمل کو سست نہیں کرسکتے، جن طلبہ کو سیکھنے میں مشکلات ہورہی ہیں انہیں زیادہ وقت نہیں دے سکتے اور مشکل موضوعات کو بار بار دہرا نہیں سکتے کیونکہ انہیں نصاب پورا کرنا ہوتا ہے اور ان کے پاس اسباق کا ایک پلان ہوتا ہے۔ لیکن یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ کیا کورس اور نصاب مکمل کرنا اسے سمجھنے اور سیکھنے سے زیادہ اہم ہے؟ جواب تو واضح ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جواب کو تسلیم کوئی نہیں کرتا۔ تقریباً تمام اسکولوں اور ہر سطح پر سیکھنے کے بجائے نصاب ختم کرنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں جامعات طلبہ کو 3 اے لیولز کی بنیاد پر داخلہ دیتی ہیں لیکن ہم پاکستان میں چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ اسلامیات، اردو اور مطالعہ پاکستان کے امتحانات بھی دیں۔ ہمارے یہاں انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو 7 مضامین (انگریزی، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور 3 میجر مضامین) پورے کرنا ضروری ہوتے ہیں۔
یہاں بھی زیادہ نصاب کا مسئلہ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ متعدد بار یہ تجاویز پیش کیں جاچکی ہیں کہ قرآن اور سیرت کے مطالعے کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ کیا ان مضامین کو اسلامیات میں ضم نہیں کیا جاسکتا؟
ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مضامین کا بڑھتا ہوا بوجھ ہمارے نوجوانوں کی نشوونما پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
اس صورتحال سے مجھے پینک فلوئڈ کا گانا یاد آتا ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں:
’ہمیں تعلیم کی ضرورت نہیں ہے/ ہمیں سوچ پر کنٹرول کی ضرورت نہیں ہے/ ہمیں جماعت میں طنز کی ضرورت نہیں ہے/ اساتذہ بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں‘۔
ہمارے بڑوں کو چاہیے کہ براہ کرم ان پر زور نہ ڈالیں اور اپنے بچوں کو سیکھنے اور تعلیمی عمل سے لطف اٹھانے کا موقع دیں۔
یہ مضمون 15 ستمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔