مولانا فضل الرحمٰن انتخابات کی اپنی ترجیحی تاریخ پر شہباز شریف کی حمایت کے خواہاں
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کی اور کہا کہ سابق وزیر اعظم آئندہ جنوری سے آگے انتخابات مؤخر کرنے کے جے یو آئی کے مطالبے کی حمایت کریں جس پر صدر مسلم لیگ (ن) نے اپنی پارٹی سے مشاورت کے لیے وقت طلب کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے شہباز شریف سے کہا کہ وہ انتخابات کو جنوری سے آگے مؤخر کرنے کے ان کے مطالبے کی حمایت کریں جب کہ موجودہ حالات میں دونوں جماعتوں کو مشترکہ سیاسی پیش قدمی کرنی ہے۔
ذرائع نے ملاقات کے بعد ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نے ان سے کہا کہ وہ کوئی وعدہ کرنے سے قبل اس تجویز کو اپنی پارٹی کی قیادت کے ساتھ اٹھائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال کے علاوہ سردار ایاز صادق اور عطا اللہ تارڑ نے بھی ملاقات میں شرکت کی۔
یہ ملاقات مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے جدہ پہنچنے سے چند گھنٹے قبل ہوئی، وہ برطانیہ سے پاکستان آنے سے قبل جمعرات کی صبح جدہ پہنچیں گے۔
پارٹی سینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق نواز شریف عمرہ ادا کریں گے اور سعودی عرب میں اپنے بیٹے حسین شریف کے ساتھ وقت گزاریں گے۔
نواز شریف 2019 سے خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنی سات سالہ قید کے دوران طبی بنیادوں پر لندن چلے گئے تھے، ان چار برسوں کے دوران انہیں العزیزیہ اور ایون فیلڈ بدعنوانی کے مقدمات میں مسلسل عدالت سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے اشتہاری مجرم قرار دیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے مطابق نواز شریف وطن واپسی کے بعد انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے آزادانہ و منصفانہ انتخابات اور مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اس میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر اپنی سیاسی حکمت عملی میں آگے بڑھنے اور مل کر چیلنجز کا سامنا کرنے پر اتفاق کیا۔
اس سوال پر کہ کیا شہباز شریف نے سرد موسم کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنے کی مولانا فضل الرحمٰن کی تجویز سے اتفاق کیا ہے، احسن اقبال نے ڈان کو بتایا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مسلم لیگ (ن) جنوری میں انتخابات چاہتی ہے یا اپنے اتحادی کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے کچھ تاخیر چاہتی ہے، احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے مطابق انتخابات چاہتی ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پورے 16 ماہ کے دور حکومت کا مقصد ریاست کو بچانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت کے دوران ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے بھرپور تعاون کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد اور اجتماعی کوششیں پاکستان کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ 21 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) کے قائد کی وطن واپسی ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے کہا کہ یہ ملکی تاریخ کا سیاہ باب رہے گا۔
سربراہ جے یو آئی (ف)، جو اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے اتحاد پی ڈی ایم کے کنوینر بھی ہیں، کو اس وقت پیپلز پارٹی کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب انہوں نے نشاندہی کی کہ جنوری 2024 میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوری میں چترال، خضدار سمیت خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں موسم سخت ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ عام انتخابات آئندہ سال جنوری کے آخری ہفتے میں ہوں گے، تاہم تاریخ نہیں بتائی تھی، انتخابات سے قبل مرکزی دھارے کی جماعتوں نے انتخابی مہم کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، تاہم پی ٹی آئی کو 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
سابق اتحادیوں کے مطالبے پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ پی پی پی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو بروقت انتخابات چاہتی ہے جب کہ نام نہاد سیاسی رہنما انتخابات میں تاخیر کے بہانے تراش رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ وہ عوام کو بتائیں کہ وہ کس کی خواہش پر انتخابات میں تاخیر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔