پاک-بھارت میچ: بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔۔۔
کرکٹ کا بڑا مقابلہ، نہیں سب سے بڑا مقابلہ، دنگل، نہیں ٹاکرا۔۔۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ورلڈکپ کا ایک میچ ہے یا کچھ اور؟ کیا اس میچ کے بھی باقی ورلڈکپ میچ کی طرح دو پوائنٹس ہی ہوں گے یا اس میں جیتنے والی ٹیم کو چار پوائنٹس دے دیے جائیں گے؟ دونوں ممالک میں جس شخص کو کرکٹ سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہوتی وہ بھی اس میچ پر نظر رکھے ہوتا ہے۔ کرکٹ کے بے شمار شائقین کا ورلڈکپ پاکستان اور بھارت کے مابین میچ سے شروع ہو کر اسی میچ پر ختم ہو جاتا ہے اور یوں یہ ایک بڑا مقابلہ، واقعی بڑا مقابلہ بن جاتا ہے۔ لیکن اس بڑے مقابلے کی حقیقت حیدر علی آتش نے شعر میں کچھ یوں بیان کی ہے
میڈیا کی بنائی گئی ساری ہائپ کو پاکستانی ٹیم فقط چند اوورز میں ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔ ون ڈے ورلڈکپس میں بھارت کی برتری اب 8۔0 تک پہنچ گئی ہے اور کسی بھی میچ میں مقابلہ آخری اوور تو دور، آخری دس اوورز تک بھی نہیں جاسکا اور ورلڈکپ 2023ء کے میچ کا فیصلہ تو پہلی اننگ میں ہی ہو گیا تھا جب 2 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ 156 کے اسکور پر کھیلتی پاکستانی ٹیم 191 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
اکثر ماہرین کرکٹ کو اس میچ میں بھارت کی فتح کا یقین تھا۔ اس کی وجہ بھارتی ٹیم کے لیے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کا فائدہ تھا تو دوسری طرف بھارتی ٹیم اس میچ کے لیے مکمل تیار تھی۔ اس کے تمام کھلاڑی فٹ ہو چکے تھے اور مکمل فارم میں تھے جبکہ پاکستانی ٹیم ورلڈکپ میں آتے آتے اپنے ٹاپ تھری کی فارم کھو چکی تھی اور باؤلنگ اٹیک جو چند ہفتے پہلے تک ورلڈ کلاس لگ رہا تھا، اب معمولی لگنے لگا تھا۔ وہی کھلاڑی جو تسلسل سے رنز کر رہے تھے، وہ تسلسل سے ناکام ہونے لگے اور جن کی باؤلنگ مخالفین کے لیے دہشت کی علامت تھی، وہ جیسے اپنے تمام ہتھیار کھو چکے تھے۔
روہت شرما کی کپتانی اچھی تھی اور بھارتی باؤلرز کی باؤلنگ عمدہ لیکن ایسی عمدہ بیٹنگ وکٹ پر تو کلب کرکٹرز بھی اس طرح سے وکٹیں نہ گنواتے جیسے پاکستانی بیٹسمینوں نے گنوائیں۔ عبداللہ شفیق کو ایک اچھی گیند پڑگئی لیکن امام نے وہی غلطی دہرائی جو امام وارم اپ میچز میں کر رہے تھے۔ اس بار اگر باؤلرز کی جانب سے انہیں شارٹ پچ باؤلنگ پر ٹیسٹ نہیں کیا گیا تو امام اچھا کھیلتے کھیلتے اچانک ہی آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیند کے تعاقب میں وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے۔
بابر اعظم ایک اندر آتی گیند کو تھرڈ مین پر ڈیب کرنے چلے گئے تو کلدیپ یادوو نے ایک ہی اوور میں سعود شکیل اور افتخار کو چلتا کیا۔ جب بابر پویلین لوٹ گئے تو رضوان کا بھی دل نہ لگا اور وہ بھی وکٹوں میں آتی گیند کو نہ روک سکے۔ جب اسپیشلسٹ بیٹسمین ہی کچھ نہ کرسکے تو پاکستانی آل راؤنڈرز سے تو ویسے بھی لوگوں کو امیدیں کم ہی تھیں اور وہ ان امیدوں پر ایک بار پھر پورا اترے۔
دوسری اننگ میں روہت شرما نے پاکستانی بیٹسمینوں کو اچھے سے سکھایا کہ اس پچ پر کیسے کھیلنا تھا۔ پاکستانی باؤلرز کے پاس انہیں روکنے کا کوئی گُر اور کوئی طریقہ نہیں تھا، گیند آگے گری یا پیچھے، تھوڑی دیر بعد باؤنڈری کے پار ہوتی تھی۔ بھارت کی وکٹیں گریں تو بھی صرف جلد از جلد رنز کے حصول کے چکر میں اور ایک بڑی فتح کے ساتھ بھارت نے سیمی فائنل کی جانب اپنا مارچ کامیابی سے جاری رکھا۔
دوسری جانب پاکستانی ٹیم نے اگر سیمی فائنل میں جگہ بنانی ہے تو جلد از جلد بھارت کے خلاف اس شکست کو ذہن سے نکالنا ہوگا۔ ابھی ورلڈکپ اپنے افتتاحی مراحل میں ہے، پاکستان نے صرف تین میچز کھیلے ہیں اور ابھی چھے میچز باقی ہیں۔ پاکستان کا اگلا میچ آسٹریلیا سے بینگلور میں ہونا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ اس میچ سے پہلے پاکستانی ٹیم کے پاس 5 دن کا وقفہ ہے۔ اس دوران کھلاڑیوں کو اس شکست کو ذہن سے نکالنے اور اگلے میچ کی تیاری کے لیے کافی وقت ملے گا۔ لیکن اگلے میچ کی تیاری سے پہلے ایک بار سوچنا ضرور ہو گا کہ اس میچ میں غلط کیا ہوا؟
بابر اعظم اور محمد رضوان نے رنز ضرور بنائے لیکن دونوں ہی اسپنرز خاص طور پر کلدیپ یادوو کے خلاف مشکلات کا شکار نظر آئے۔ دونوں کی پارٹنرشپ ٹھیک اس وقت ٹوٹ گئی جب دونوں رنز کی رفتار بڑھانے کا سوچ رہے تھے۔ پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی جانب سے بارہا یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اپروچ کے ساتھ بیٹنگ کرے گی۔ اسے دی پاکستان وے کا نام بھی دیا جاتا رہا لیکن تقریباً ہر میچ میں بیٹسمین سیٹ ہونے میں کافی وقت لینے کے بعد ہی رنز کی رفتار میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس میچ میں بھی بابر اعظم اور محمد رضوان اسی اپروچ کے ساتھ وکٹ پر وقت گزار رہے تھے کہ مناسب وقت پر رنز کی رفتار تیز کریں گے لیکن مناسب وقت آنے سے پہلے ہی وکٹوں کی لائن لگ گئی۔
پاکستانی ٹیم کو انڈیا کے خلاف ایک بڑی شکست ہوئی ہے لیکن اب بھی پاکستان کے لیے سیمی فائنل میں پہنچنا ممکن ہے لیکن اس کے لیے پاکستانی ٹیم کو اپنی اپروچ بہتر کرنی ہوگی۔ ٹورنامنٹ کے درمیان میں اپروچ کو 180 کے زاویے سے بدلنا تو ممکن نہیں لیکن بیٹسمین اتنی کوشش تو کرسکتے ہیں کہ سیٹ ہونے میں کم وقت لگائیں۔ یہ درست ہے کہ ہر ٹیم کے کھیلنے کا اپنا طریقہ، اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے لیکن اگر پاکستانی بیٹسمین اسی طرح رن ریٹ بڑھانے کے لیے تیسویں یا پنتیسویں اوور کا انتظار کرتے رہے تو کامیابیوں سے زیادہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔