’افغانستان سے شکست کے بعد سیمی فائنل کی توقع کرنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہوگا‘
بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈکپ میں گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے مابین میچ کھیلا گیا جس میں افغانستان نے پاکستان کو آٹھ وکٹوں سے شکست دی۔ یہ افغانستان کی پاکستان کے خلاف پہلی کامیابی ہے۔
کل کے میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 282 رنز بنائے جسے افغان کرکٹ ٹیم نے 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایشیا کپ کا تیسرا میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوا تھا جو بارش کی وجہ سے بے نتیجہ رہا تھا۔ لیکن اس میچ کی پہلی اننگ مکمل ہو چکی تھی جس میں بھارتی ٹیم نے بیٹنگ کی اور 266 رنز بنا ڈالے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز اس اننگ میں چھائے ہوئے تھے، ناقص فیلڈنگ، عام سی کپتانی اور ناکارہ اسپن باؤلنگ کے باوجود شاہین، نسیم اور حارث نے دس وکٹیں حاصل کیں اور بھارت کو ایک مناسب اسکور تک محدود کر دیا تھا۔ ہر طرف پاکستانی فاسٹ باؤلرز کے چرچے تھے، صرف پاکستانی کرکٹ شائقین ہی نہیں کرکٹ ماہرین بھی ان تینوں پر مشتمل اٹیک کو دنیا کا بہترین اٹیک قرار دے رہے تھے۔
چند دن گزرے اور اسی بھارت کے خلاف پاکستانی ٹیم کا میچ تھا۔ اس میچ میں پاکستانی ٹیم کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ فاسٹ باؤلرز کی کافی زیادہ پٹائی ہوئی اور ساتھ ہی حارث رؤف اور نسیم شاہ ان فٹ ہو گئے۔ حارث رؤف تو واپس آگئے لیکن نسیم شاہ ورلڈکپ اسکواڈ سے ہی باہر ہو گئے۔
وہ دن گزرے ڈیڑھ ماہ ہونے کو آیا ہے، پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف اس میچ کے بعد ایشیا کپ میں سری لنکا، دونوں ورلڈکپ وارم اپ میچز اور اب ابتدائی پانچ میں سے تین میچز میں شکست کا شکار ہو چکی ہے۔ شاہین آفریدی جو اپنے پہلے اسپیل میں مخالف ٹیموں کے لیے دہشت کی علامت تھے، اب ان کی پھینکی گئی گیندیں ہر جانب باؤنڈری پار جاتی نظر آرہی ہیں۔
حارث رؤف جو وکٹیں اڑاتے دکھتے تھے، اب ان کی تیز رفتار گیندیں اڑتی ہوئی میدان سے باہر جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف وارنر نے گیند ہوا میں کھڑی بھی کی تو اسامہ میر اس کے نیچے آنے کے باوجود اسے گرفت میں لینے سے قاصر رہے اور پھر وارنر نے مارش کی ساتھ مل کر تمام پاکستانی باؤلرز کی خوب دھلائی کی لیکن افغانستان کے خلاف تو باؤلرز وکٹ حاصل کرنے کے قریب آتے بھی دکھائی نہ دئیے۔
پاکستانی کرکٹ شائقین کو یہ اندازہ تو تھا کہ پاکستانی فیلڈنگ شاید کافی پریشان کرے گی، یہ ڈر بھی تھا کہ پاکستانی اسپنرز بری طرح پٹ سکتے ہیں، یہ اندیشہ بھی تھا کہ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اپروچ باقی تمام ٹیموں کی نسبت سالوں پرانی ہوگی مگر شاید کسی کو یہ خیال تک نہ آیا ہو کہ پاکستانی فاسٹ باؤلرز اس بری طرح ناکامی کا شکار ہوں گے۔ سری لنکا اور آسٹریلیا کے خلاف ساڑھے تین سو کے قریب رنز دینے کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان کے خلاف ہدف کے دفاع میں کہیں دفاع کی کوشش ہی نظر نہیں آئی۔
بات صرف فاسٹ باؤلرز تک ہی محدود نہیں، اسپنرز سے وابستہ خدشات بھی زور و شور سے پورے ہوتے جا رہے ہیں۔ محمد نواز اور شاداب خان کے ساتھ ساتھ اسامہ میر بھی اوور میں دو تین اچھی گیندوں کے ساتھ ساتھ فل ٹاسز یا باؤنڈری بالز پھینکنا جیسے لازمی سمجھتے ہیں اور اگر کسی طرح یہ باؤلرز دو تین اچھے اوورز کر جائیں تو فیلڈنگ میں کچھ ایسا کر دیا جاتا ہے کہ مخالف ٹیم پر آیا سارا دباؤ پل بھر میں غائب ہو جاتا ہے۔
بابر اعظم کی کپتانی پر تنقید بہت عرصے سے جاری ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ وقت اور تنقید کے ساتھ ساتھ بابر اعظم کے سیکھنے کا سفر الٹا چل پڑا ہے۔ کچھ ایسی چیزیں جو باہر بیٹھے عام تماشائی بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ باتیں آٹھ سال کے بین الاقوامی تجربے کے باوجود بابر اعظم کی سمجھ میں جانے کیوں نہیں آرہیں۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ مشکل وقت میں کیے گئے عجیب و غریب فیصلوں میں محمد رضوان اور شاداب خان بھی برابر شریک نظر آتے ہیں۔
افغانستان کے خلاف پاکستانی ٹیم کی پلاننگ اور بابر کی کپتانی کیسی تھی، اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے۔ 12 اوورز میں افغانستان کو 72 رنز درکار تھے اور گیند تھوڑی بہت ریورس سوئنگ ہو رہی تھی، بابر اعظم نے ایک اینڈ سے حارث رؤف اور دوسرے سے شاہین آفریدی کو باؤلنگ دی تو کمنٹیٹرز تذکرہ کر رہے تھے کہ یہاں میچ کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
پاکستانی ٹیم شاہین اور حارث کی ریورس سوئنگ کے ساتھ میچ میں واپسی کر سکتی ہے۔ پاکستانی فاسٹ باؤلرز نے پچھلے میچز میں اور اس اننگ میں ابھی تک مایوس ہی کیا تھا لیکن کمنٹیٹرز کی یہ بات بالکل درست لگ رہی تھی کہ اگر پاکستانی ٹیم کے پاس کوئی موقع تھا تو وہ شاہین اور حارث کے ذریعے ہی بن سکتا تھا۔ شاہین اور حارث نے ایک ایک اوور کیا اور اس وقت کمنٹیٹر کے ساتھ ساتھ شائقین بھی حیرت زدہ رہ گئے جب اگلا اوور کرنے شاداب خان آگئے۔ لیکن بابر اعظم ابھی سب کو مزید حیرت زدہ کرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اسامہ میر کو باؤلنگ دے کر ایسا ہی کیا گیا۔
ناقص باؤلنگ، نکمی فیلڈنگ اور سوچ سے عاری کپتانی سے پہلے پاکستانی ٹیم نے افغانستان کو ایک مناسب ہدف ضرور سیٹ کر دیا تھا، جس سے جیت کی امید لگائی جا سکتی تھی۔ ایک اچھے اور خلاف توقع عمدہ رفتار سے ملے آغاز کے بعد عبداللہ شفیق اور بابر اعظم کی پارٹنرشپ گو بہت زیادہ سست رہی لیکن رنز بنتے رہے۔ بابر اعظم شروع میں کچھ مناسب رفتار سے کھیل رہے تھے لیکن ایک بار پھر تیس کے اسکور تک پہنچ کر اسکور بنانے کی رفتار کم ہوتی گئی اور تقریباً سو کے اسٹرائیک ریٹ سے آغاز کرنے والے بابر اعظم کی نصف سنچری 69 گیندوں پر مکمل ہوئی۔
کچھ ایسی ہی اننگ عبداللہ شفیق کی جانب سے دیکھنے کو ملی جو پاور پلے میں تو سو سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے کھیلتے رہے لیکن جب آؤٹ ہوئے تو ان کا اسٹرائیک ریٹ 77 تک گر چکا تھا۔ اس سے پہلے امام الحق ورلڈکپ 2023ء کی پانچویں اننگز میں تیسری بار ہک شاٹ کھیلتے ہوئے وکٹ گنوا چکے تھے۔ شاداب خان اور افتخار احمد نے سیٹ ہونے میں کافی وقت تو لیا لیکن آخری اوورز میں عمدہ ہٹنگ سے اسکور کو 282 تک لے گئے۔
تکنیکی طور پر تو پاکستانی ٹیم ابھی تک سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئی اور ایک بار پھر سے اگر مگر کے چکروں سے سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے لیکن افغانستان سے شکست کے بعد اب سیمی فائنل کی توقع رکھنا خود کو دھوکا دینے کے برابر ہوگا۔ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ اس وقت بہترین کرکٹ کھیل رہی ہیں اور ان سے پاکستانی ٹیم کی جیت کسی معجزے سے کم نہیں ہوگی بلکہ اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ایسے کھیل کے ساتھ بنگلہ دیش کے خلاف شکست کی توقع بھی رکھی جاسکتی ہے۔