• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سی پیک سیاحت: ہنزہ کا قدیم قلعہِ بلتت (بارہویں قسط)

اُلتر کی بے ہنگم چوٹیاں ایک دیوار کی طرح تھیں اور اس دیوار کے خاتمے پر جو وسیع ڈھلوان تھی اس پر پورا التت آباد تھا۔
شائع December 14, 2023

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


گھنٹہ بھر مزید چڑھائی کے بعد کریم آباد آگیا۔ ہم ’ویلکم ٹو ہنزہ اِن ہوٹل‘ کے بورڈ کے سامنے کھڑے ہوکر ہانپنے لگے۔ ہمارے دائیں طرف بہت اوپر، گھنے سبز درختوں میں گھرا ہوا والی ہنزہ کا خوبصورت محل دکھائی دے رہا تھا اور سامنے ہنزہ اِن ہوٹل کی عمارت تھی جو دو حصوں میں تقسیم ہوکر پگڈنڈی کے دونوں طرف موجود تھی۔ ایک طرف رہائشی کمرے اور دوسری طرف ریسٹورنٹ تھا۔ ریسٹورنٹ دائیں طرف کافی اوپر جبکہ رہائشی حصہ بائیں طرف اتنا نیچے تھا کہ اس کی چھت اور راستہ ہم سطح ہورہے تھے۔ دونوں عمارتوں کا رخ راکاپوشی کی طرف تھا۔

’کمرہ چاہیے صاحب؟‘ ایک طویل قامت اور نرم نقوش والا بوڑھا ہنزہ اِن ریسٹورنٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔

’جی بالکل چاہیے‘، میں اپنی پھولی سانس پر بامشکل قابو پاکر کہا اور تھیلا کندھوں سے اتار کر اس کے حوالے کردیا۔

سڑک کے دوسری طرف نیچے والی عمارت میں ہمیں کمرہ ملا جہاں ایک قطار میں چار کمرے تھے جن میں سے تیسرا ہمارے حصے میں آیا۔ دروازوں کے سامنے والی راہداری ایک بلند چبوترے کی مانند تھی جس کے فوراً بعد والی ڈھلوان نیچے دریائے ہنزہ تک چلتی چلی گئی تھی اور پھر دریا کی تہہ سے گزر کر دوبارہ ہزاروں فٹ بلند ہوتی ہوئی راکاپوشی کی چوٹی تک پہنچ رہی تھی۔ راکاپوشی کی سفید چوٹی اس ہوٹل کے کمروں کے عین سامنے ہمہ وقت ایسے موجود تھی جیسے وہ بھی اسی ہوٹل میں مقیم ہو۔ ہر دروازے اور ہر کھڑکی میں اس کا وجود ایک تصویر کی طرح موجود تھا۔

  ہوٹل ہنزہ اِن کے سامنے—تصویر: لکھاری
ہوٹل ہنزہ اِن کے سامنے—تصویر: لکھاری

’اس ہوٹل کانام ہنزہ اِن کے بجائے راکاپوشی اِن ہونا چاہیے‘، میں نے سوچا۔

رات آئی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ ایسا سناٹا جو دل کی دھڑکن کی گونج بڑھاتا ہے اور پھر آدمی خود اپنے آپ سے ڈرنے لگتا ہے۔ اس سناٹے میں کہیں دوردیس سے آتی ہوئی ایک مدھم سی گرج بھی شامل تھی جو شاید دور گہرائی میں بہتے دریائے ہنزہ کی آواز تھی۔ اس مدھم گرج نے ایک لوری کا کام کیا اور کچھ دیر میں ہمیں نیند کی وادیوں میں دھکیل دیا۔

صبح میں جلدی اٹھ گیا۔ باسط، وسیم اور اشفاق نیند کی وادیوں میں ہنوز کہیں دور بھٹک رہے تھے اس لیے کریم آباد میں چہل قدمی کے لیے میں اکیلا ہی باہر نکل آیا۔ سورج بلند ہوا اور اس کی زرد شعائیں راکاپوشی کی برف سے پھسل کر التر گلیشیئر سے ٹکرائیں اور ہنزہ کے اندر پھیل گئیں۔ ہوٹل کی دونوں عمارتوں کے درمیان سے گزرنے والا راستہ مزید آگے جارہا تھا جہاں اس کے اطراف میں دکانیں، ہوٹل اور ہنزہ باسیوں کے گھر تھے۔ راستے کے دونوں اطراف تیر کی طرح سیدھے ایستادہ سفیدے کے اونچے اونچے درخت تھے۔ دائیں طرف سے سیاہی مائل ریت ملے پانی کی ایک نالی تیزی سے بہتی ہوئی نیچے آرہی تھی۔ یہ نالی ’قل‘ کہلاتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہنزہ والوں کی قابلِ رشک صحت کا راز معدنیات کی آمیزش سے کالے پڑتے اسی پانی میں ہے۔

وادی ہنزہ ایک قدرتی ریفریجریٹر ہے کیونکہ یہاں کھانے پینے کی چیزیں جلدی خراب نہیں ہوتیں۔ ہم اپنے شہروں میں جن اشیا کو زیادہ عرصے تک محفوظ کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھتے ہیں، ہنزہ والے انہیں اٹھا کر صرف طاق پر رکھ دیتے ہیں اور جب چاہیں انہیں اٹھا کر استعمال کرلیتے ہیں۔ اسی طرح شہروں میں مشروبات کی جن بوتلوں کو فریزر میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے، یہاں وہ ٹھنڈے پانی کی قل میں پڑی ہوئی خود ہی ٹھنڈی ہورہی ہوتی ہیں۔

  وادی ہنزہ قدرتی ریفریجریٹر ہے، یہاں کھانے پینے کی چیزیں جلدی خراب نہیں ہوتیں
وادی ہنزہ قدرتی ریفریجریٹر ہے، یہاں کھانے پینے کی چیزیں جلدی خراب نہیں ہوتیں

پگڈنڈی مزید آگے بڑھتی ہوئی کچے پکے مکانوں میں گم ہورہی تھی۔ دور بلندی پر تمام گھروں سے اوپر اور اُلتر گلیشیئر کی برفانی بلندیوں سے کچھ نیچے ہنزہ کا قدیم قلعہ بلتت دکھائی دے رہا تھا۔ یہ قلعہ ہنزہ کی علامت ہے۔ پرنس کریم آغا خان کی عقیدت میں اس گاؤں کا نام تو بلتت سے بدل کر ’کریم آباد‘ کردیا گیا ہے لیکن قلعہ بلتت ابھی تک قلعہ بلتت ہی ہے۔ میں چھوٹی چھوٹی دکانوں اور چائے خانوں کے درمیان سے گزرتا ہوا ہنزہ کی اس علامت کی طرف بڑھنے لگا۔

  گنیش اسٹاپ کریم آباد—تصویر: لکھاری
گنیش اسٹاپ کریم آباد—تصویر: لکھاری

ہنزہ کے مرد، عورتیں اور بچے میرے آگے پیچھے، نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کی طرف آ اور جا رہے تھے۔ اچانک ان چہروں میں مجھے ایک یورپی چہرہ نظر آیا۔ یہ ہماری سیاح برادری سے لگتا تھا۔ میں نے ’ہیلو‘ کہہ کر اپنائیت کا اظہار کیا لیکن اگلے ہی لمحے شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ اس نے میری ہیلو کا جواب ایک زور دار ’السلام علیکم‘ سے دیا۔ میں نے ٹھٹک کر جواباً ایک زوردار ’وعلیکم اسلام‘ کیا۔ مصافحہ کے بعد کچی پکی سی انگریزی میں گفتگو ہوئی کیونکہ وہ جرمن تھا اور میں پاکستانی۔

’ہنزہ بہت ونڈر فل ہے‘، وہ چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ ’میں گزشتہ 8 ماہ سے یہاں کرائے پر ایک مکان لے کر رہ رہا ہوں مگر میرا دل ابھی تک نہیں بھرا‘۔

وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا اور اس بات پر بےحد مسرور تھا کہ وہ ہنزہ میں ہے۔

’میں چین کی طرف سے شاہراہِ قراقرم پر سفر کرتا ہوا ادھر تک آیا تھا مگر ہنزہ سے مزید آگے جانے کی ہمت اپنے اندر نہیں پائی اس لیے جرمنی سے مزید خرچ منگوا کر ابھی تک یہیں ہوں‘۔

اس کے چہرے سے مکمل آسودگی ٹپک رہی تھی اور میں بھی اس سے مل کر بہت آسودہ ہوا۔ میں ہنزہ کی علامت دیکھنے آگے جا رہا تھا مگر اس سے تو یہیں ملاقات ہوگئی۔

  والیانِ ہنزہ بلتت کے قلعے میں رہائش پذیر ہیں
والیانِ ہنزہ بلتت کے قلعے میں رہائش پذیر ہیں

سفیدے کے درختوں میں گھری اور گول پتھروں سے اٹی پگڈنڈی پر ایک دوراہا آگیا۔ ایک راستہ دکانوں اور مکانوں کے بیچ سیدھا سامنے چلا گیا تھا اور دوسرا ڈھلوان کی صورت اوپر اٹھ رہا تھا۔ میں اوپر والے راستے پر چل دیا۔ اس راستے کے شروع میں ایک اور شاخ نکل کر دائیں طرف کو اوپر بڑھ رہی تھی۔ اس کچے راستے پر جیپ کے ٹائروں کے نشانات تھے۔ یہ راستہ اوپر سابق والی ہنزہ کے جدید محل کی طرف جارہا تھا۔

میں اپنے راستے پر مزید آگے بڑھا جو دائیں طرف ایک بلند پتھریلی دیوار کی طرف گھوم گیا۔ اس دیوار میں ایک بلند محراب نما راستہ کسی موکھے کی مانند کھلا ہوا تھا۔ میں نے اس موکھے میں سے نکل کر دوسری طرف جھانکا تو ہڑبڑا گیا۔ یہاں تو جہان دیگر تھا۔ راستہ یہاں سے آگے میلوں تک بل کھاتا ہوا ایک وسیع و عریض وادی میں اتر رہا تھا۔ دور نیچے ایک پولو گراؤنڈ میں نظر آرہا تھا۔ وہ ایک وسیع میدان تھا مگر یہاں سے زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ محسوس ہوتا تھا۔ پولو گراؤنڈ کی دائیں طرف کھیت تھے اور کھیتوں کے کنارے پر کچھ بلندی پر ایک قدیم اور پُراسرار سی عمارت نظر آرہی تھی۔ وہ سارا علاقہ ہنزہ کا قدیم گاؤں’التت’ تھا اور یہ قدیم پُراسرار عمارت التت کا قلعہ تھی یعنی والی ہنزہ کا پہلا محل۔

یہ محل ایک ایسی جگہ بنا ہوا ہے کہ جہاں سے ایک طرف پورا التت نظر آتا تھا اور دوسری طرف دریائے ہنزہ کے کنارے چین کی طرف سے آنے والا راستہ (جو اب شاہراہِ قراقرم ہے) نگاہوں کے سامنے تھا۔ قلعہ التت کے بعد والی ہنزہ بلتت کے قلعے میں منتقل ہوگئے کیونکہ اس محل کا وقوع زیادہ بہتر تھا۔ یہاں سے التت اور بلتت دونوں پر نظر رکھی جاسکتی تھی اور ساتھ ہی چین اور گلگت سے آنے والے راستے بھی نگاہ میں رہتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب والی ہنزہ کی ولایت عروج پر تھی۔ ہر سال کھیتوں میں بوائی کی ابتدا والی ہنزہ اپنے محل کے جھرو کے سے پہلا بیج پھینک کر کرتا اور پھر ڈھول کی تھاپ پر رقص ہوتا تھا لیکن جب ریاست ہنزہ پاکستان میں ضم ہوگئی تو والی ہنزہ بھی بس ایک معزز شخصیت کے طور پر رہ گئے۔

  قلعہِ التت کے بعد ہنزہ
قلعہِ التت کے بعد ہنزہ

وادی ہنزہ یورپ باسیوں میں ایک جنتِ ارضی کے طور پر معروف ہے اور والی ہنزہ اس جنت کا شہزادہ کہلاتا تھا۔ اب اس کا تیسرا محل ایک ایسی جگہ پر بنا ہوا ہے جہاں سے صرف گلگت کی طرف سے آنے والی شاہراہ قراقرام نظر آتی ہے۔ اس نئے محل کی تعمیر کے بعد التت اور بلتت کے بوسیدہ قلعے اب صرف جنوں کی آماجگاہ محسوس ہوتے ہیں۔

  والیانِ ہنزہ کا پرچم
والیانِ ہنزہ کا پرچم

میں التت اور بلتت کے درمیان کھڑا تھا۔ التت مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔

’نہیں، ابھی نہیں‘، میں نے سوچا۔

اس وقت بلتت قریب تھا۔ میں واپس پیچھے آیا دوبارہ دوراہے پر پہنچ کر دوسرے راستے پر چل دیا۔ دکانوں اور مکانوں سے آگے ایک میدان تھا۔ میدان کے دائیں طرف ایک اسکول تھا اور اس سے آگے چند مکانات کی چھتوں کے اوپر قلعہ بلتت نظر آرہا تھا۔ راستے کے موڑ پر دستکاری کی ایک چھوٹی سے دکان تھی جسے عورتیں چلا رہی تھیں۔ وہ سر پرخاص قسم کی کڑھائی والی رنگین ٹوپیاں پہنے اور جھالروں والے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھیں اور اسی طرح کی چیزیں وہ فروخت بھی کررہی تھیں۔

  التت سے بلتت جانے والا راستہ—تصویر: لکھاری
التت سے بلتت جانے والا راستہ—تصویر: لکھاری

میں ڈھلوان راستے پر اوپر بڑھتا گیا اور جیسے ہی مڑا بلتت کا قلعہ سامنے آگیا۔ میں کریم آباد کے اوپر اور قلعے کے سامنے آچکا تھا۔ یہاں سے اُلتر کی برف قریب محسوس ہوتی تھی۔ میں نے قلعے کے سامنے کھڑے ہوکر پیچھے دیکھا۔ قلعے کے دامن میں کریم آباد پھیلا ہوا تھا اور راکاپوشی کی سفید چوٹی اس سارے منظر کو جھک کر دیکھ رہی تھی۔

قلعے کا دروازہ اونچا تھا اور اس پر ایک بڑا تالا لٹک رہا تھا۔ میں قلعے کی فصیل کے ساتھ ساتھ گھومتا ہوا اس کے پیچھے آیا اور ٹھٹک گیا۔ میرے سامنے ہزاروں فٹ گہری کھائی تھی۔ میں گھبرا کر کچھ پیچھے ہوا۔ اُلترگلیشیئر سے بہہ کر آنے والا نالا دور ایک آبشار کی طرح گرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ قلعے کے اردگرد پھیلی خاموشی میں اس آبشار کی دبی دبی سرسراہٹ بسی ہوئی تھی۔ اُلتر کی بے ہنگم چوٹیاں ایک دیوار کی طرح تھیں اور اس دیوار کے خاتمے پر جو وسیع ڈھلوان تھی اس پر پورا التت آباد تھا۔ التت کے مکانات سرسبز کھیتوں اور باغوں کے گھیرے میں تھے۔

  قلعہِ بلتت کا منفرد فنِ تعمیر
قلعہِ بلتت کا منفرد فنِ تعمیر

میں ایک محویت کے عالم میں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اچانک کہیں سے ایک چھوٹا سا لڑکا نکل کر سامنے آگیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک پوٹلی نکالی، اسے کھول کر چند سیاہی مائل سرخ پتھر نکالے اور اپنی ہتھیلی پر رکھ کر میرے سامنے کر دیے اور کہا ’بابو صاحب، یہ اچھا پتھر ہے۔ خریدو گے؟‘

میں نے اس کی ہتھیلی سے کچھ گول پتھر اٹھائے۔ یہ ہنزہ میں پایا جانے والا یاقوت تھا۔ میں نے ایک ذرا بہتر ساخت کے پتھر کا دام پوچھا تو وہ بولا، ’100 روپے‘۔

’50 روپے‘ میں نے کہا۔

’ٹھیک ہے‘، وہ بولا اور پتھر میرے حوالے کردیا۔

50 روپے کا نوٹ اور پوٹلی جیب میں ڈال کر وہ وہیں ٹہلنے لگا۔

میں نے قلعے پر آخری نظر ڈالی اور واپسی کے لیے مڑ گیا۔

ہنزہ اِن ہوٹل کا ریسٹورنٹ ایک بوسیدہ سے ہال میں تھا اور اس میں داخلے کا ایک ہی دروازہ تھا۔ دروازے کے برابر میں دیوار پر کسی نے بھدے حروف میں ’Welcome‘ لکھ دیا تھا۔ ہم چاروں دروازہ کھول کرہال میں داخل ہوگئے۔ دروازے کا اسپرنگ بردار پٹ واپس آکر چوکھٹ سے ٹکرایا اور کھٹاک کھٹاک کی آوازیں نکالتا ہوا کچھ دیر تک کاننپے کے بعد خاموش ہوگیا۔

یہ ہال ایک تنگ سے مستطیل کمرے پر مشتمل تھا جس کا بیشتر حصہ اس کے طول و عرض سے کچھ ہی کم سائز کی ایک میز نے گھیر رکھا تھا۔ میز سے بچا ہوا حصہ کرسیوں نے گھیرا ہوا تھا۔ میز پر ریگزین منڈھی ہوئی تھی جس کا رنگ غالباً کسی زمانے میں سبز رہا ہوگا۔ داخلی دروازے کے سامنے والی دیوار میں ایک اور دروازہ تھا جہاں ہوٹل کا کچن تھا۔ اندر کی فضا باورچی خانے کی ہمسائیگی کے باعث گرم تھی۔ دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آوازیں سن کر ہوٹل کے بزرگ منیجر نے باورچی خانے سے سر نکال کر ہال میں جھانکا اور ہمیں دیکھ کر خوش دلی سے مسکرایا۔

  التت کا فضائی منظر
التت کا فضائی منظر

سڑک کی طرف جاتی دیوار میں چھت تک کھڑکی تھی اور اس کی مخالف دیوار پرایک شوکیس موجود تھا۔ یہ شوکیس بھانت بھانت کی دلچسپ اشیا سے بھرا ہوا تھا۔ مختلف برانڈ کے بسکٹ، جام جیلی کی بوتلیں، کافی اور چائے کے پیکٹ، کارن فلیکس کے ڈبے اور نہ جانے کیا الا بلا تو تھا ہی، ساتھ ہی انٹرنیشنل سیاحوں کی آمد کے لاتعداد ثبوت بھی اس کے مختلف خانوں سے جھانک رہے تھے۔

ہم یہاں پہلے سیاح تو تھے نہیں، ہزاروں آچکے ہوں گے۔ ان ہزاروں میں سے شاید کچھ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ جس طرح وہ ہنزہ اِن ہوٹل کو یاد رکھیں گے اسی طرح ہنزہ اِن بھی اُنہیں یاد رکھے۔ چنانچہ اس خواہش کے تحت آسٹریلیا کے کسی سیاح نے سڈنی ہاربر برج کی رنگین تصویر شیشے پر اندرکی طرف سے چپکادی تھی تو کسی کوہ پیما نے اُلتر گلیشیئر تک جانے والے ٹریک کی تفصیلات لکھ کر چسپاں کردی تھیں۔ ایک یورپی حسینہ نے البتہ یہاں اپنی یاد برقرار رکھنے کے لیے سب سے کامیاب کوشش کی تھی۔ اس نے شوکیس میں خود اپنی ہی خوبصورت تصویر سجادی تھی۔

شوکیس کے نچلے خانے میں گلگت اور ہنزہ سے متعلق کچھ انگریزی اور اردو کتابیں رکھی تھیں۔ ان کتابوں کے جابہ جا حاشیہ زدہ صفحات میلے اور بوسیدہ ہوچکے تھے۔ تیسری دیوار پر لاہور کے کسی مصور نے ایک بڑی سی پینٹنگ آویزاں کردی تھی جس میں اس نے والی ہنزہ کے نئے محل کی مصوری کی تھی۔ یہ ڈائننگ ہال سے زیادہ سیاحوں کا عجائب گھر معلوم ہورہا تھا۔

انڈے پراٹھے کا ناشتہ کرکے ہم باہر نکل آئے۔ راکاپوشی اور اُلتر کی چوٹیوں سے بادلوں کے سفید مرغولے اٹھ رہے تھے۔ ہم راستے کی بُھربھری مٹی پر جوتے مارتے ہوئے اوپر کی طرف چل دیے۔ کریم آباد کے گاؤں سے نکل کر یہ راستہ ایک اونچی دیوار میں بنی ہوئی بلند محراب میں داخل ہوتا ہے۔ محراب کی دوسری طرف یہ ایک ڈھلوان پر اترتا دور گہرائی میں ہنزہ کے قدیم گاؤں التت تک چلا جاتا ہے۔ ہم محراب کے اندر سے گزر کر دوسری طرف نکلے تو نیچے پہاڑ کی ڈھلوان پر پھیلا التت کا گاؤں ہمارے سامنے آگیا۔ راستہ بل کھاتا ہوا نیچے اتررہا تھا۔ یہاں سے اُلتر کا درمیانی حصہ ایک برفانی شہر کی مانند نظر آتا تھا۔ اُلتر سے بہہ کر آنے والا نالا یہاں شور مچاتا ایک آبشار کی صورت گررہا تھا۔

  التت کا گاؤں
التت کا گاؤں

ہم کچھ اور نیچے اترے تو نالے کا چوبی پل آگیا۔ پل کے برابر میں ایک درخت کے نیچے 3 بوڑھے بیٹھے گپے لگا رہے تھے۔ پل کے نیچے نالے کا پانی پتھروں پر سر پٹکتا بہے جارہا تھا۔ راستہ اب نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور چلے تو التت کے سیڑھی نما کھیت شروع ہوگئے جن کی منڈیروں پر سفیدے کے تیر کی مانند سیدھے درختوں کی پھننگیں آسمان کے اندر کھبی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔ کچھ آگے چل کر نالے نے اپنا رخ تبدیل کرلیا اور دائیں طرف سفیدے کے جنگل میں کھو گیا۔

کھیتوں کے اوپر اور درختوں کے اندر عجیب وضع کے رنگ برنگے اور خوبصورت پرندے اڑ رہے تھے۔ ایسے پنچھی جو آج سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ کالے پیلے رنگوں اور لمبی دم والا ایک بڑا خوبصورت پرندہ فضا میں تیرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے قریب آتا محسوس ہوتا مگر اگلے ہی لمحے واپس جاتا نظر آتا۔ کھیتوں کا سلسلہ ختم ہوا تو راستہ التت کے گھروں میں داخل ہوکر ایک گلی بن گیا۔ پولو گراؤنڈ کے اطراف میں میچ دیکھنے والوں کے لیے سیڑھی نما نشستیں بنی ہوئی تھیں اور اس کے ایک طرف اسٹیج نما چبوترہ تھا۔ پولو گراؤنڈ کے دائیں طرف کھیت تھے اور کھیتوں کے پار التت کا قدیم قلعہ نظر آرہا تھا۔

  التت کا قدیم قلعہ
التت کا قدیم قلعہ

تھوڑا آگے جاکر دیوار میں ایک بڑا سا گیٹ نظر آیا۔ اس احاطے کے اندر زمین خودرو گھاس کے مہین سبز ریشوں سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس پر خوبانیوں کے سبز درختوں اور کچے پھلوں والی ٹہنیوں نے سائبان تانے ہوئے تھے۔ یہاں ایک لڑکا اچانک کہیں سے نکل کر ہمارے قریب آیا اور کہا ’قلعہ دیکھنے کے لیے آپ کو ٹکٹ لینا پڑے گا‘۔

’وہ چوکیدار کا گھر ہے، پہلے ادھر چلیں‘۔ اس نے باغ کے کنارے پر بنی ایک کوٹھری کی طرف اشارہ کیا۔

ہم کوٹھری کے قریب پہنچے ہی تھے کہ گھر کے پیچھے سے ایک سفید جھبرا کتا بھونکتا ہوا برآمد ہوا اور ہماری طرف لپکا مگر پھر لڑکے کی ایک ہی گھرکی سے دور ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور ہولے ہولے غرانے لگا۔ ہم کوٹھری کے اندر داخل ہوگئے۔ سامنے ایک عورت ہنزہ کا مخصوص لباس اور ٹوپی پہنے بیٹھی سبزی کاٹنے میں مشغول تھی۔ ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائی۔ یہ چوکیدار کی بیوی تھی۔ میں نے اسے ٹکٹ کے پیسے دیے تو اس نے قلعے کی چابیاں لڑکے کے حوالے کردیں۔ یہ لڑکا قلعے کا گائیڈ تھا۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔