’دریا سے سمندر تک‘، مقبوضہ لوگوں کی آزادی کے نعرے پر اتنا اشتعال کیوں
’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ کا نعرہ دنیا بھر میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والی اکثر ریلیوں اور احتجاج میں لگایا جا رہا ہے۔
فلسطین پر دہائیوں سے جاری قبضے اور ظلم کے خلاف لگائے جانے والے نعرے پر پہلی نظر میں یہ خیال آتا ہے کہ آخر کیوں کسی کو اس نعرے سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس عام سے نعرے کی تشریح موضوع بحث بن گئی ہے کیونکہ یہودیوں سمیت کئی لوگ اسے یہود مخالف ہونے کا تاثر دے رہے ہیں۔
فلسطین کی حمایت میں نکلنے والی متعدد ریلیوں پر پابندی اور اس کا پرچم لہرانے، روایتی کیفیہ پہننے اور یہاں تک کہ یورپ میں فلسطین کی آزادی کا عام نعرہ لگانے پر بھی پابندی ہے، یہ نعرہ تیزی سے ضوابط کا ہدف بنتا جا رہا ہے۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں انتظامیہ نے مہینے کے آغاز میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والا احتجاج پر شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ ان کے آن لائن دعوت ناموں میں ’دریا سے سمندر تک‘ کا نعرہ استعمال کیا گیا تھا۔
جو نعرہ اسرائیل اور فلسطین میں نسل کشی جیسے نظام کے خاتمے کے لیے لگایا گیا تھا، مغربی انتظامیہ کی جانب سے اس کا موازنہ یہود مخالف اور اسے اسرائیل ریاست اور یہودیوں کی مکمل تباہی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
بعدازاں، آسٹریا کی پولیس نے اپنی پالیسی واپس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ’موجودہ معلومات کے مطابق ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ کا جملہ نفرت پر مبنی نہیں ہے۔
مگر یہ اس صرف ایک مثال ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں سرکاری وکیل کہتے ہیں کہ ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا ’ اسرائیل کے مکمل خاتمے کا نعرہ ہے اور اس نعرے کو جرم قرار دینے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
برطانیہ کے سیکریٹری داخلہ سویلا بریورمین نے بیان میں اپنے عقیدے کا ذکر تے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ نعرہ اسرائیل کو دنیا سے مٹانے کی پُر تشدد خواہش کا اظہار کرتا ہے اور قانون نافذ کرنے والوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف حماس کے حامی واضح نشانات اور نعرے ہی تشویش کا باعث نہیں، میں پولیس کو اس بات پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہوں کہ کیا ’دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا‘ جیسے نعرے اسرائیل کو دنیا سے مٹتے ہوئے دیکھنے کی خواہش کے اظہار کے طور پر سمجھنا چاہیے اور کیا بعض سیاق و سباق میں اس کا استعمال پبلک آرڈر جرم میں نسلی بڑھاوے کے سیکشن 5 کے مترادف ہوتا ہے’۔
لیکن اس کا اصل مطلب کیا ہے؟
اس جملے کی ابتدا 1940 تک جاتی ہے، اس میں استعمال ہونے والا دریا کا مطلب دریائے اردن ہے جو کہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے مشرق میں واقع ہے جبکہ سمندر بحیرہ روم ہے، اس کے درمیان میں واقع علاقوں میں 70 لاکھ فلسطینی اسرائیل کی حکمرانی میں رہتے ہیں۔
دریا سے سمندر تک پورا خطہ تاریخی طور پر فلسطین تھا۔
تاریخی فلسطین پر برطانوی راج کے اختتام پر اقوام متحدہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس حصے کو فلسطین اور اسرائیل کی دو ریاستوں میں تقسیم کردینا چاہیے، عرب رہنماؤں نے اس تجویز، جس میں 62 فیصد اراضی اسرائیل کے کنٹرول میں جاتی دیکھی گئی، کی مخالفت کر دی تھی۔
برطانیہ کے انخلا کے بعد، ہونے والے نکبہ یا ’تباہی‘ کے نتیجے میں 7 لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوگئے، 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) تشکیل دی گئی جس کا مقصد فلسطینیوں اور ان کے عوامی خواہشات کی ترجمانی تھا۔
مئی 2021— انفوگرافک بشکریہ: الجزیرہ
1967 کی 6 روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کرلیا اور مشرقی یروشلم کو ضم کر دیا۔
1970 تک پی ایل او نے اپنا مؤقف بدل دیا اور 1988 تک با ضابطہ طور پر 1967 کی سرحدوں کے ساتھ دو ریاستی حل اور مشرقی یروشلم کو فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر قبول کرلیا۔
لیکن اسرائیل کا دو ریاستی حل پر مؤقف غیر واضح تھا، ایک طرف اس نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو غیر فوجی بنانا چاہیے، پر اسرائیل کو خطرہ نہ ہو اس لیے فلسطینی علاقوں پر اپنا فوجی قبضہ بھی جاری رکھا۔
دوسری طرف، حکومت نے پوری زمین پر ’خصوصی طور پر‘ اسرائیلی ہونے کا دعویٰ کیا، اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ’یہودی عوام کو اسرائیل کی سرزمین کے تمام علاقوں پر خصوصی اور ناقابل تردید حق حاصل ہے‘۔
اس نعرے کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ پٹی، مغربی کنارے اور اسرائیلی علاقوں میں رہنے والے فلسطینی اسرائیل کے کنٹرول اور منظم امتیازی سلوک کا شکار ہیں، جسے بہت سے لوگوں نے نسل پرستی کا نام دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے 2022 میں کہا تھا کہ ’آج فلسطینی علاقے میں جو اسرائیل کے قبضے میں ہیں قانونی اور سیاسی امتیازی نظام رائج ہے جو کہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں 300 غیر قانونی اسرائیلی آبادیوں میں بسنے والے7 لاکھ اسرائیلی یہودی قابضوں کو فائدہ پہنچاتا ہے‘۔
نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ’ایک ہی جغرافیائی حدود میں، دیواروں سے تقسیم، چیک پوائنٹس اور فوجی موجودگی میں 30 لاکھ فلسطینی بستے ہیں جو بنا کسی حقوق کے، ادارہ جاتی امتیاز کے جابرانہ اصول کے تحت زندگی گزارنے اور ایک حقیقی فلسطینی ریاست کے راستے کے بغیر رہ رہے ہیں جس کا وعدہ دنیا نے ان سے کیا تھا کہ یہ ان کا حق ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مزید 20 لاکھ فلسطینی (جو اب 23 لاکھ ہوگئے ہیں) غزہ میں رہتے ہیں جسے عموماً ’کھلی فضا میں جیل‘ کہا جاتا ہے، جو بجلی، پانی یا صحت تک مناسب رسائی کے بغیر، تباہ ہوتی معیشت کے ساتھ اور باقی فلسطین اور دنیا کے دوسرے حصوں میں آزادانہ طور پر سفر کرنے کی صلاحیت کے بغیر جی رہے ہیں‘۔
دوسری جانب تقریباً 50 لاکھ کے قریب اسرائیلی قابض مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر آباد ہیں اس حقیقت کے با وجود کہ بین الاقوامی قوانین نے قابض جگہوں پر قائم آبادکاریوں کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
اسرائیلی فوجی ان جگہوں کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو ان پر حکمرانی کرنے والی ریاست تک جمہوری حق حاصل نہیں۔
مزید برآں،اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کو بھی تعصب، نقل مکانی، مخالف آوازوں کو دبانا اور جانی نقصان کا سامنا ہے، یہ سب ایک ایسے نظام کے عناصر ہیں جو جان بوجھ کر یہودی اسرائیلیوں کی حمایت کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ فلسطینیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔
”دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا“ کا جملے کا مطلب صرف یہ ہے: یہ تمام 70 لاکھ مظلوم فلسطینیوں کے لیے ایک آواز ہے، جو دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان خطے پر آباد ہیں کہ انہیں ہر قسم کے قبضے سے آزادی حاصل ہو۔