موسمیاتی تبدیلی کے بطن سے جنم لینے والے انسانی المیے
’جس زمین سے پھوٹنے والی گندم سے ہم چار بھائی اپنا اور بال بچوں کا پیٹ بھرتے، اسے دیکھتے ہی دیکھتے دریا نے ہڑپ کرلیا، جو زمین بچ گئی ہے اس پر کوئی فصل کاشت نہیں ہوسکتی، زندگی بہت دشوار ہوگئی ہے‘
ستر سالہ چراغ دین نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے اپنی متاع لٹ جانے کا احوال سنارہے تھے۔ چراغ دین ہی نہیں بلکہ چترال بھر کے کئی خاندان خدشات اور خطرات میں گھرے ہوئے ہیں، وہ اپنے گھر، زمینیں، مویشی اور جان و مال موسمیاتی تبدیلی کے عفریت کے سامنے ’سرینڈر‘ کرچکے ہیں۔
خطرناک بات تو یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے افراد اپنے ’دشمن‘ سے ہی لاعلم ہیں، انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ یہ دشمن انہیں کس طرح نقصان پہنچارہا ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے؟
گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران کلائمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک کافی کانفرنسز اور سیمینارز ہوچکے اور یہ سلسلہ جاری ہے، ہمارے ہاں ملکی میڈیا پر بھی اس سے متعلق آگہی فراہم کی جاتی ہے، مگر موسمیاتی تغیرات جس تیزی سے تباہی پھیلارہے ہیں، پاکستان اس کے آگے بند باندھنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں۔
حال ہی میں چترال جانا ہوا، جہاں ہم نے موسمیاتی تبدیلی سے تباہ ہونے والے گاؤں، تعلیمی ادارے اور فصلوں کے قبرستان دیکھے۔
چترال میں موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں
کئی خاندانوں کو رزق مہیا کرنے والی زمین دریا برد
ستر سالہ چراغ دین کے آبا و اجداد بھی اَپر چترال کی وادی ریشون کے مکین رہے ہیں، مگر اب ان کا اپنی جنم بھومی سے عشق دم توڑ رہا ہے، وہ کسی مسیحا کے منتظر ہیں جو انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کردے یا پھر موسمیاتی تبدیلی کے باعث دریا برد ہوجانے والی ان کی 5 ایکڑ سے زائد زمین واپس دلوادے۔
چراغ دین نے ہمیں بتایا کہ ’سال 2013ء سے قبل سب کچھ ٹھیک تھا، مگر پھر اس کے بعد ہر سال بارشوں کے بعد ان کی زرعی زمین آہستہ آہستہ ’سرکنے‘ لگی، ہر سال دریا زمین کا کچھ حصہ اپنے ساتھ بہا لے جاتا اور آج تقریباً دس سال بعد ہماری تقریباً پانچ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی دریا کی خوراک بن چکی ہے‘۔
70 سالہ چراغ دین کے تین شادی شدہ بھائی بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے کئی بچوں کی بھی شادیاں ہوچکی ہیں، اس طرح ان کے کنبے میں 50 سے زائد افراد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دس سال قبل ہر فصل میں ان کی زمین کے پیٹ سے 25 سے 30 گندم کی بوریاں پیدا ہوتی تھیں مگر یہ تعداد گھٹ کر اب صرف ایک سے دو بوری گندم رہ چکی ہے۔
پھر گزارہ کس طرح کرتے ہیں؟ ہمارے سوال پر چراغ دین نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا ’اللہ کروارہا ہے گزارہ، اتنے بڑے کنبے کے لیے اب یہ زمین تنگ ہوتی جارہی ہے، زرعی اراضی دریا برد ہونے کے بعد اب ہمارے گھر دریا کے نشانے پر ہیں‘۔
متعدد گھر اور اسکول موسمیاتی تغیر کا نوالہ
چترال بالا کے ایک گاؤں گرین لشٹ میں گزشتہ سال تیز بارشوں کے بعد سیلاب ایک درجن سے زائد گھروں اور طالبات کے اسکول کو بہا لے گیا۔ مقامی شخص محمد سلمان نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ دس سال سے ہر سال بارشوں کے بعد چھوٹے بڑے سیلاب آتے ہیں، گزشتہ سال آنے والا سیلاب کئی گھروں اور لڑکیوں کے سرکاری اسکول کو بہا لے گیا۔ ایک درجن گھرانے ایسے ہیں جو گاؤں چھوڑ کر کرائے کے مکانات میں منتقل ہوگئے ہیں اور کچھ گھرانے انہی ٹوٹے پھوٹے مکانات میں رہنے پر مجبور ہیں۔
جہاں گزشتہ سال طالبات کا اسکول تھا اب وہاں بڑے بڑے پتھر اور ویرانی تھی، محمد سلمان نے اسی مقام پر کھڑے ہوکر حکومت پر روایتی تنقید کی تاہم انہوں نے چند نجی اداروں اور ہلال احمر پاکستان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے گاؤں اور دیگر مقامات پر بحالی کے اقدامات کیے ہیں۔
17 سالہ شایان جو اپنے کالج سے چھٹی کے بعد گھر جارہے تھے، راستے میں ہمیں دیکھ کر قریب آئے اور اپنی بپتا سنائی۔ شایان نے بتایا کہ ان کا اسکول بھی گزشتہ سال سیلاب سے شدید متاثر ہوا، اب وہ کالج میں فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں مگر ان کا اسکول تاحال بحالی کا منتظر ہے۔
300 سالہ پرانے چنار کے درختوں کو خطرہ، کئی گرچکے!
چترال بالا کے شاہی قلعے کے دورے کے موقع پر ہم نے دریا کنارے ایک قد آور درخت کو گرا دیکھا، ہم قلعے سے اتر کر جب دریا کنارے پہنچے تو شدید حیرانی ہوئی، زندگی میں کبھی اتنا ضخیم درخت نہیں دیکھا تھا، ایسا لگا کہ ایک بہت بڑا دیو دریا کنارے لیٹا ہے۔
شاہی قلعے کے گائیڈ سرور الدین نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ تین چار سال کے دوران چنار کے متعدد قدیم درخت دیا برد ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ سرور الدین نے ہمیں یہ بتائی کہ پچھلے چند برسوں سے دریا کے کنارے پتھروں کو اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے، لوگ تعمیرات میں یہ پتھر استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے بھی خود کئی جگہ دریا کنارے ٹرک کھڑے دیکھے جن پر پتھر لادے جارہے تھے۔
دریا کے کنارے پر کٹاؤ کرنے سے پانی کا راستہ تبدیل اور پھیلنا شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کناروں پر موجود قدیم درختوں کی بقا کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ حال ہی میں اپرچترال میں سڑکوں کی تعمیر کے دوران بڑی تعداد میں پتھروں کو دریا میں پھینکا گیا ہے جس کی وجہ سے دریا کی گہرائی کم ہورہی ہے اور اس ماحولیاتی غیر ذمہ داری کی وجہ سے دریا اپنا راستہ تبدیل کررہا ہے جس کے باعث آبادیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی ذہنی صحت کے لیے بھی خطرہ
چترال کے دورے کے دوران مقامی افراد سے بات چیت کرکے ہمیں احساس ہوا کہ موسمیاتی تغیرات کے باعث آنے والے پے درپے سیلابوں کی وجہ سے مکینوں میں ذہنی صحت کے مسائل بھی پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
مقامی فرد کاشف علی سے ہم نے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہر سال چھوٹے بڑے سیلابوں کی وجہ سے مقامی افراد میں خوف پیدا ہوگیا ہے، جون سے اگست کے دوران تیز بارشوں کے دوران دریا بپھر جاتا ہے اور اس کی آواز انتہائی خوف ناک ہوتی ہے جس سے خصوصی طور پر بچے اور خواتین سہم کر رہ جاتے ہیں جبکہ حاملہ خواتین پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کاشف علی نے بتایا کہ ’سیلاب کے خوف اور بپھرے دریا کے خوف ناک شور کی وجہ سے گزشتہ چند سال سے تو اب دریا کنارے رہنے والے اکثر خاندان برسات کے دنوں میں نقل مکانی کرنے لگے ہیں، وہ دو تین ماہ قریبی محفوظ علاقوں میں سکونت اختیار کرکے واپس آجاتے ہیں‘۔
ہم نے ریشون ویلی میں جنرل اسٹور کے مالک عبدالصمد سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’بارشوں کے باعث دریا کی سطح بڑھ جانے کی وجہ سے جو سیلاب آتے ہیں وہ جانی و مالی نقصان تو کرتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ وہ ہمارے اذہان پر اس کے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، مائیں خصوصاً برسات کے دنوں میں بچوں پر اسکول جانے اور گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادیتی ہیں، ان کے دلوں میں سیلاب اور دریا کی طغیانی کا خوف قائم ہے جس نے ان کی دماغی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے‘۔
موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
رواں ماہ عالمی سائنسی جریدے بایو سائنس نے ایک چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے تین ماہ یعنی جون، جولائی اور اگست اب تک ریکارڈ گرم ترین تھے جو تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار برسوں میں سب سے زیادہ گرم تھے۔ مذکورہ رپورٹ میں سائنس دانوں نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زمین پر زندگی کے وجود کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے، انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جب سے تیل، گیس اور کوئلے کے استعمال کا آغاز ہوا ہے دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا ہے، یہ ایندھن گاڑیاں چلانے، کھانا پکانے، گھروں کو گرم رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات کو بے دریغ ختم کرنے سے بھی گلوبل وارمنگ یا عالمی تپش میں اضافہ ہوا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں صرف عالمی تپش میں اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اس کے باعث کئی خطوں میں تیز اور بے موسم بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کا تناسب بڑھنا یا گھٹنا، زیادہ سردی یا زیادہ گرمی کا ہونا شامل ہے، یعنی کہ ہم انسانوں نے قدرتی نظام کو تلپٹ کر ڈالا ہے اور اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں، جیسا کہ اوپر ہم نے پاکستان کے صرف ایک علاقے چترال کے احوال کا ذکر کیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
پاکستان نے دس سال کے دوران تاریخ کے دو بدترین سیلابوں کا سامنا کیا ہے مگراس تباہی کے باوجود سرکاری پلیٹ فارمز کے ذریعے ملکی و عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور ملک کو اس سے لاحق خطرات کے پیش نظر خاطر خواه پالیسی یا حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔
یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جبکہ ہمالیہ اور ہندو کش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزار گلیشئل لیکس بن گئی ہیں۔ یعنی یہ نہریں گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
چترال میں دورے کے دوران ہم موسمیاتی تبدیلی سے پھیلنے والی تباہیوں کے دیکھنے کے شاہد ہیں، وہاں کے عوام کے مطابق حکومتی سطح پر تو دو فیصد بھی بحالی کے اقدامات نہیں کیے جارہے البتہ جرمن ریڈ کراس (ہلال احمر) جیسی کچھ عالمی تنظیمیں مقامی افراد کی بحالی اور ان کی معاونت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اس کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے اور ہم نے چترال میں اس بات کا مشاہدہ بھی کیا کہ ہلال احمر نے چترال بالا کے دو گاؤں میں حفاظتی دیواریں تعمیر کرکے درجنوں گھروں کو سیلاب سے محفوظ کردیا ہے، اس کے علاوہ ہلال احمر کی جانب سے مقامی افراد کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی تربیت بھی فراہم کی جارہی ہے، اسکولوں میں طلبہ کو باقاعدہ ٹریننگ دی گئی کہ وہ کسی بھی قدرتی آفت کا کس طرح سامنا کریں اور خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ قابل تعریف اور قابل قدر اقدامات ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے عفریت سے بچنے کے لیے صرف ایک دو تنظیمیں نہیں ہمیں من حیث القوم اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
عالمی و ملکی سطح پر حکومتوں اور سائنس دانوں کی جانب سے کیے جانے والے مختلف اقدامات تو ایک طرف مگر ایک عام آدمی بھی موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کو کم سے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، ہر پاکستانی درج ذیل چند کام ہی کرلے توہم اپنے ملک کو آئندہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑے دھچکوں سے بچاسکتے ہیں۔
- پیدل چلیں، ورزش کریں، گاڑیوں اور مشینوں کا کم سے کم استعمال کریں
- فضائی سفر سے حتی الامکان اجتناب کریں
- سبزیوں اور دال کا زیادہ استعمال، گوشت سے تھوڑا پرہیز کریں
- زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں
- سیر و تفریح کریں، اپنوں کے ساتھ وقت گزاریں، گیجٹس سے اجتناب کریں
فرحان محمد خان ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں، 16 برس سے صحافت سے وابستہ ہیں، سیاست، سماجیات اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں ٹوئٹر پر یہاں FMKhanZai@ فالو کیا جا سکتا ہے
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔