’فلسطینیوں کے لیے تو مزاحمت فرض بن چکی ہے‘
ماہرین تعلیم اور سیاست دان یکساں طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی نے نہ صرف اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے پر اکسایا بلکہ اس سے امن عمل کو بھی نقصان پہنچا۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں میں جتنے فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے حتیٰ کہ انتفاضہ میں بھی نہیں۔
تاہم حماس کے حملے کو ایک الگ تھلگ کارروائی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا، یہ اس منظم ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی کارروائی تھی جس کا ارتکاب اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے خلاف کر رہا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کو حق خود ارادیت کی ضمانت اقوام متحدہ کی 1947ء کی قرارداد نمبر 181 میں دی گئی ہے جس نے فلسطین کو دو ریاستوں یعنی ایک عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب 1947ء میں نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اس قرارداد کے مسودے پر بحث کر رہی تھی تو پاکستان کے نمائندے سر ظفر اللہ خان نے فلسطینیوں کے اس حق کے لیے ایک مضبوط مقدمہ پیش کیا تاکہ وہ ان سرزمینوں پر ایک آزاد جدید ریاست کی تشکیل کر سکیں جہاں وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔
اس پورے معاملے میں مرکزی حیثیت برطانوی حکومت کے اعلان بالفور کی تھی جس نے 2 نومبر 1917ء کو فلسطین میں ’یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست‘ قائم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ ’۔۔۔ کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین میں موجودہ غیر یہودیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کو نقصان پہنچے۔۔۔‘ تاہم اس وعدے کو کبھی پورا نہیں کیا گیا۔ کشمیریوں کی طرح فلسطینی بھی آج تک اپنی سرزمین پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ یہ حق زیادہ تر لوگوں کو آسانی سے مل جاتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے قضیے کو علاقائی، نظریاتی اور جغرافیائی و سیاسی جہتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
علاقائی طور پر دیکھا جائے تو عرب فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ وہ اس سرزمین میں ہزاروں سال سے رہتے آئے ہیں اور یہ اس وقت بھی یہاں رہتے تھے جب فلسطین کو کنعان کہا جاتا تھا، یا جب داؤدؑ اوران سے پہلے یعقوبؑ جن کو بعد میں اسرائیل کہا گیا، ان علاقوں میں رہتے تھے۔ حالیہ تاریخ میں دیکھا جائے تو یہ علاقہ دیگر کے علاوہ رومیوں، عربوں، عثمانیوں اور پھر انگریزوں کے زیر تسلط رہا ہے۔ یہ صہیونی (وہ یہودی جنہوں نے ایک آزاد وطن کے لیے جدوجہد کی تھی) تحریک تھی جو یورپ سے یہودیوں کو عرب سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے لائی، جس نے 7 لاکھ مقامی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کیا جس کو نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ تباہی تھی جس کے بعد 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ریاست وجود میں آئی۔
نظریاتی طور پر یہ سرزمین یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ مسلمان مسجد اقصیٰ کا احترام کرتے ہیں، جب کہ یہودیوں کے لیے یہ سرزمین ان کے روایتی آباؤ اجداد کا گھر تھی۔ جغرافیائی طور پر دیکھا جائے تو یہ برطانیہ ہی تھا جس نے فلسطین میں یہودی ریاست بنانے، یورپ سے یہودیوں کو نکال کر یہاں بسانے اور مقامی آبادی کو بے گھر کرنے کا عمل شروع کیا۔ پچھلے 70 سالوں میں امریکا اور برطانیہ نے اسرائیل کو اپنی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا محور رکھا ہے۔
یہ مندرجہ بالا علاقائی، نظریاتی، اور جغرافیائی و سیاسی عوامل ہیں جن کے باعث ارض فلسطین سے امن جاتا رہا۔ 1948ء، 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگیں اورنہ ہی فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مقامی مزاحمت جو پہلی انتفاضہ (1987-1992) اور پھر دوسری انتفاضہ (2000-2005) کے طور پر سامنے آئیں دونوں ہی تنازع کے حل میں معاون ثابت نہیں ہوئیں۔ پھر فلسطینی صفوں یعنی الفتح اور حماس کے درمیان اختلاف نے بھی ان کے مقصد کو نقصان پہنچایا ہے۔
قیام امن کی کوشش کی گئی لیکن اس کے نتیجے میں دو ریاستی حل پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ مصر نے اسرائیل کو 1979ء میں اور اردن نے 1994ء میں تسلیم کرلیا تھا۔ 1990ء کی دہائی کے اوسلو معاہدے سے فلسطینیوں کو معمولی خودمختاری ہی مل سکی۔ ابھی حال ہی میں، معاہدات ابراہیمی کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب بھی ایک معاہدے پر امریکا کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا جس سے فلسطینیوں کو اپنی ریاست میں رہنے کے حق کو یقینی بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن اب یہ بات واضح ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حالیہ حملے نے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر آنے سے روک دیا ہے۔
تمام مسلم ممالک، یورپ اور یہاں تک کہ امریکا میں ہونے والے مظاہروں سے لگتا ہے کہ حماس کے حملے پر اسرائیل کا غیر متناسب ردعمل اور غزہ میں شہریوں پر بے دریغ بمباری نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس، چین اور دیگر نے جنگ بندی اور غزہ تک امداد پہچانے کے انتظام کی کوشش کی تاہم امریکی ویٹو نے اقوام متحدہ کے کسی بھی اقدام کو عملی طور پر روک دیا۔
اسرائیل کو امریکا کی طرف سے ملنے والی کھلی حمایت نے اسے تمام انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے کی شہ دی ہے۔ غزہ کو خوراک، پانی، ایندھن یا ادویات کے بغیر ہفتوں تک محاصرے میں رکھنا، معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا، جن میں بچے بھی شامل ہیں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کرنا اور محصورینِ غزہ کے لیے انسانی امداد کو روکنا جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ فلسطینیوں کے لیے تو مزاحمت فرض بن چکی ہے۔
یہ مضمون 29 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔