• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بُک ریویو: مور دین ون چائلڈ

شائع March 28, 2024

’تم جانتی ہو وانجُن؟ ہم خوش قسمت ہیں‘۔

’ہم؟ مگر کیسے؟‘

’میں بالکل تمہاری طرح ہوں۔ میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھی۔ میری ایک بڑی بہن اور دو چھوٹی بہنیں ہیں اور میں وہ منجھلی اولاد ہوں جس سے کوئی پیار نہیں کرتا۔ ہم خوش قسمت اس وجہ سے ہیں کیونکہ ہم کم از کم زندہ رہنے کے لیے پُرعزم ہیں‘۔

6 سالہ شین یانگ اپنے اسکول کے میدان میں کھڑی اپنی دوست کو یہ بات بتا رہی ہے۔

وانجُن جس کا سر غیرمعمولی طور پر بڑا ہے (جوکہ حمل کے دوران ماں کے زیادہ اسٹریس لینے کی وجہ سے ہوا کیونکہ وانجُن کی پیدائش غیرقانونی تھی) اور شین یانگ دونوں ہی ایک ایسے جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں جو انہوں نے کیا بھی نہیں۔ یہ دونوں ہی بڑے ہوتے ہوئے گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔

اپنے بچپن میں وہ چین کی اس اکثریتی آبادی میں شمار ہوتی تھیں جنہوں نے غیرقانونی طور پر جنم لیا تھا۔ ان بچوں نے اپنی زندگی بھاگتے، تذلیل، تضحیک اور طعنے سہتے گزاری ہے۔ چونکہ ان بچوں کے پاس پیدائش کا اجازت نامہ موجود نہیں اس لیے انہیں ’ہیہیزی‘ یا ’بلیک چلڈرن‘ کہا جاتا تھا۔

یہ بچے جانتے تھے ان کا کوئی مستقبل نہیں، انہیں اسکول جانے کی اجازت نہیں لیکن اگر ان کا کوئی بااثر اور مہربان رشتہ دار خفیہ طور پر ’ہوکو‘ یعنیٰ سرکاری اندراج کروادے تو شاید وہ دیگر بچوں کی طرح عام زندگی گزار سکیں۔ شین یانگ اور وانجُن اس عرصے میں پیدا ہوئیں جب چینی ریاست بڑھتی ہوئی آبادی کے خوف میں مبتلا تھی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے انہوں نے ملک میں قانون رائج کیا جس کے تحت ایک جوڑے کو صرف ایک ہی بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی۔

چین کا مستشرق سماجی فلسفہ حکومتی رٹ کی راہ میں کانٹا ثابت ہوا۔ خواتین کا دوسری بار حمل ٹھہرتا تو جبری اسقاطِ حمل یا بچوں کو پیدائش کے بعد بے اولاد نامعلوم جوڑے کے حوالے کرنے کے باوجود لوگ قانون کی خلاف ورزی کرنے سے باز نہیں آئے۔

ون چائلڈ پالیسی کے دوران پیدا ہونے والے بچوں نے اس جرم کی سزا کاٹی جو انہوں نے کیا بھی نہیں تھا
ون چائلڈ پالیسی کے دوران پیدا ہونے والے بچوں نے اس جرم کی سزا کاٹی جو انہوں نے کیا بھی نہیں تھا

چینی معاشرے میں روایتی طور پر ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی روایت رہی ہے۔ آرتھوڈوکس خیالات رکھنے والے اپنے خاندانی سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے بیٹے کی پیدائش کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ اس لڑکے کے لیے بھی ایک یا دو بھائی بہن ہونے چاہئیں۔ خواتین کی بڑی تعداد نے، یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے بچے کس طرح کی زندگی گزاریں گے، اضافی بچے پیدا کیے۔

وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر حکام کو قانون کی اس خلاف ورزی کا علم ہوا تو انہیں بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن غربت میں زندگی گزارنے والے جنہیں سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کا ہوتا ہے، وہ بھی قانون کی خلاف ورزی کررہے تھے۔

اس حوالے سے وہ صرف ایک کام کرسکتے تھے اور وہ یہ کہ غیرقانونی طور پر پیدا ہونے والے بچوں کو دور دراز علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے حوالے کردیں جہاں وہ اس خصوصی گروہ کی نظر میں نہ آئیں جنہیں حکومت نے قانون پر عمل در آمد کروانے کے لیے تعینات کیا تھا۔

والدین کی جانب سے قانون کو نظرانداز کردینے کی وجہ سے جو بچے پیدا ہوتے تھے انہیں بچپن سے ہی یہ شعور تھا کہ وہ قانون کے دائرہ کار سے باہر زندگی گزار رہے ہیں اور یہ کہ وہ معاشرے کے لیے کتنے غیر اہم ہے جبکہ والدین سے دور رہ کر وہ رشتہ داروں کی خیرات پر زندگی گزار رہے ہیں۔

شین یانگ اپنی کتاب ’مور دین ون چائلڈ: میموریز آف این اللیگل ڈاٹر‘ کے ذریعے اس دردناک پہلو کو سامنے لائی ہیں جس سے انہیں اپنے بچپن میں گزرنا پڑا اور وہ ان پر سوالیہ نشان اٹھانے والے معاشرے میں زندہ رہنے میں کامیاب رہیں۔ دنیا کے لیے اس کتاب کا انگریزی زبان میں آسان ترجمہ نکی ہرمین نے کیا ہے۔

بچوں کو بچپن سے شعور تھا کہ ان کا وجود قانونی دائرہ کار سے باہر ہے
بچوں کو بچپن سے شعور تھا کہ ان کا وجود قانونی دائرہ کار سے باہر ہے

انہیں جبری طور پر دوردراز علاقوں میں اپنے دادا دادی کے ساتھ گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا وہ بھی صرف اس وجہ سے کیونکہ انہوں نے پیدا ہوکر سرکاری قانون توڑا تھا۔ 5 سال بعد وہ اپنی پھوپھی کے ساتھ رہنے لگیں ان کا سلوک شین یانگ کے ساتھ اچھا نہیں تھا، یوں ان کا وجود رازداری، شک اور بے یقینی کا شکار ہوگیا تھا۔ اس سب کے باوجود ان کی یادیں ایسی نہیں ہیں جنہیں لکھ کر وہ ہمدردیاں سمیٹنا چاہتی تھیں۔

اتنے مشکل اور مایوس کُن حالات میں بھی وہ اپنے بچپن میں خوشی کے چھوٹے چھوٹے لمحات کو اپنی جھولی میں بھرنے میں کامیاب رہیں۔ وہ اپنے وجود پر عائد پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے عام زندگی گزارنے کے اپنے حق کے لیے جدوجہد کرتی رہیں۔

شین یانگ نے زندگی کے ہر پہلو جیسے دوست بنانے، ٹیوشن اور کھانے کے پیسے لینے اور جذباتی مدد میں مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود زندگی سے لطف اندوز ہوئیں۔ وہ بچپن کی محدود سمجھ بوجھ سے آگے بڑھتی رہیں۔

اسکول میں بُلنگ (غنڈہ گردی) کا سامنا کرنے سے ساتھیوں کے طعنے برداشت کرنے تک، شین یانگ نے اس دنیا کی برابری کرنے کی کوشش کی جو ان کے وجود سے انکاری تھا۔ کسی طرح انہوں نے اپنے زخموں پر مرہم رکھا لیکن ان کے یہ زخم کبھی بھر نہیں پائے اور انہی زخموں نے شین یانگ کو وہ مضبوط انسان بنایا جو آج وہ ہیں۔

اگرچہ بہت سے چینی لوگ اس کتاب کی مصنفہ کی طرح اس پالیسی کی وجہ سے اپنی زندگی کی مشکلات کے حوالے سے بات کررہے ہیں لیکن شین یانگ کی کتاب اس روایت کے منافی ہے جہاں لوگ اپنے بچپن کی محرومیوں کا ہی ذکر کرتے تھے۔ ان کی کتاب ان یادوں کی عکاسی کرتی ہے جو بلند حوصلے، مزاحمت اور امید پر مشتمل ہیں۔ اس تحریر کے ذریعے، ہمیں یہ علم ہوا کہ نہ بھرنے والے زخموں، مایوسی، درد، ناپسندیدہ محسوس ہونے اور ہمیشہ بھاگنے پر مجبور کیے جانے کے باوجود، چین میں غیرقانونی طور پر پیدا ہونے والے بچوں نے خود میں غیرمعمولی صلاحیتیں پیدا کیں۔

یہی وہ وجہ ہے جس نے کتاب کے مواد کو سماجی اور تاریخی پہلوؤں میں کامیاب بنایا ہے۔ بچوں کی مشکلات نے اس کتاب کو منفرد بنادیا ہے جبکہ اس تحریر میں ملنے والے اسباق تاریخ کا حصہ بنیں گے۔

اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یہ کتاب اس چینی نسل کے لیے ہے جس نے اس عرصے میں جنم لیا جب ملک میں ون چائلڈ پالیسی نافذ تھی۔ حتیٰ کہ آج بھی یہ نسل، دنیا کی مضبوط ترین معاشی طاقت بننے والے ملک کے اندر گمنامی میں جی رہی ہے۔ لیکن شین یانگ کی ان یادداشتوں کا شکریہ جن کی بدولت اس نسل کا وجود تاریخ کے اوراق میں گمنام نہیں رہے گا۔

غیرقانونی طور پر پیدا ہونے والے ان بچوں کو اپنے والدین سے دور رہنا پڑتا تھا
غیرقانونی طور پر پیدا ہونے والے ان بچوں کو اپنے والدین سے دور رہنا پڑتا تھا

اگرچہ اپنے والدین سے دور رہنے کا کوئی مداوا نہیں لیکن شین یانگ لکھتی ہیں کہ یہ انتہائی خوشگوار احساس تھا کہ وہ اور ان جیسے دیگر بچے ’تاریکی میں سورج کی کرن کی طرح تھے‘۔ کتاب کے اختتام پر وہ دکھ اور امید کے ساتھ لکھتی ہیں کہ ’ایسے دور میں زندہ رہنا ایک منفرد چیز تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ دنیا ہماری آواز سنے۔ ہم اس دور سے گزر کر بھی زندہ ہیں اور ہم آگے یونہی زندگی جینے کی جدوجہد جاری رکھیں گے‘۔

اپنے اختتامی جملوں میں شین یانگ لکھتی ہیں کہ وہ بھی اس تاریک سوچ سے گزری ہیں جہاں انہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کتنی غیر اہم ہیں لیکن انہوں نے اس احساس کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ زندگی کی تمام تلخیوں کے باوجود وہ خود میں ایسی غیرمعمولی صلاحیتیں پیدا کرنے میں کامیاب رہیں جس بنا پر آج وہ ایک مضبوط انسان ہیں۔ انہوں نے لڑنے، گر کر اٹھنے، پھر بالآخر شکر ادا کرنے کا انتخاب کیا اپنی ذات اور اپنے خاندان میں تبدیلیاں لانے اور اس وقت کی مجبوریوں کو سمجھا۔

پھر ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کی آواز بنیں گی جنہوں نے جذباتی اور سماجی جبر کا سامنا کیا اور جن سے دنیا نے منہ پھیر لیا تھا۔ انہوں نے خود کو مظلوم کے طور پر نہیں بلکہ خصوصی طور پر منتخب کردہ فرد کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اس منفرد نسل کا حصہ ہوتے ہوئے ایک بھولی ہوئی یاد بننے کے بجائے اپنی داستان دنیا کو سنانے کو ترجیح دی۔


کتاب: مور دین ون چائلڈ: میموئرز آف این اللیگل ڈاٹر

مصنف: شین یانگ

مترجم: نکی ہرمین

ناشر: سینٹوریئن ہاؤس، لندن

صفحات: 280


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

نائلہ داؤد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024