• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مودی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے سے کیوں انکار کررہی ہے؟

مبصرین کے مطابق اپوزیشن مودی کے خلاف کسی ٹھوس اور پُرکشش انتخابی نعرے کی تلاش میں تھی اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے نے یہ مشکل حل کردی۔
شائع November 13, 2023

2 اکتوبر کو مہاتما گاندھی کے یومِ پیدائش پر بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے بھارتی سیاست میں اچانک طوفان برپا کردیا۔ انہوں نے ریاست بہار کی ذات پات پر مبنی مردم شماری کے نتائج جاری کردیے جو 1947ء کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ نتائج نہ صرف بھارت میں گزشتہ 76 برس سے جاری وسائل کی تقسیم اور نمائندگی پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ موجودہ سیاسی منظرنامے کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے نتائج کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب اور دیگر پسماندہ طبقات بہار کی آبادی کا 84 فیصد ہیں۔ جبکہ مرکزی حکومت کے 90 سیکریٹریز میں سے محض تین کا تعلق اِن پسماندہ غریب طبقات سے ہے۔ بھارت میں ذات پات کے تازہ اعدادوشمار جاننا ضروری ہیں تاکہ سب کو آبادی کے مطابق حصہ مل سکے۔‘

بھارت کا سماجی ڈھانچہ ذات پات پر مبنی ہے لیکن اگر آپ اس حوالے سے تازہ اعدادوشمار جاننا چاہیں تو وہ کہیں دستیاب نہیں۔ آخری بار ایسی مردم شماری 1931ء میں ہوئی تھی جس میں ذات پات پر مبنی کوائف سروے کا حصہ تھے اور ان کے نتائج کو شائع بھی کیا گیا تھا۔ 2011ء میں ملک بھر میں اسی طرز پر مردم شماری کی گئی مگر اس کے نتائج تاحال شائع نہیں کیے گئے ہیں۔

  صرف ریاست بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی کامیابی کے بعد پورے بھارت میں اس کی ضرورت ہے
صرف ریاست بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی کامیابی کے بعد پورے بھارت میں اس کی ضرورت ہے

ریاستِ بہار کے نتائج کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا پورے ملک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے جس سے مودی مسلسل انکار کررہے ہیں۔ مبصرین کے نزدیک مودی کی ہندو نیشنل ازم کی انتخابی حکمت عملی پہلی مرتبہ سخت مشکل میں ہے۔ آئندہ برس عام انتخابات پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر 76 برس سے بھارت کی وفاقی حکومتیں ذات پات پر مبنی مردم شماری سے گریز کیوں کرتی آ رہی ہیں؟

نہرو کا معاشی ماڈل اور ’میرٹ‘ کا خواب

تقسیم کے فوراً بعد ہندوستان میں نہرو جیسے قد کاٹھ کے رہنما کی موجودگی، بائیں بازو کی جانب ان کا جھکاؤ اور معاشی ترقی کا ماڈل وقتی طور پر ایسے کسی مطالبے کو دبانے میں کامیاب رہا۔ تب ایک عام خیال تھا کہ ریاست کی اولین ذمہ داری ملک کو مضبوط معاشی بنیادوں پر استوار کرنا ہے جس کے بعد سب کے لیے ترقی کے برابر مواقع موجود ہوں گے۔

نہرو کا معاشی ماڈل صنعتوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے گرد گھومتا تھا۔ وہ کوٹہ سسٹم کے بجائے صلاحیت اور میرٹ کے پُرجوش حامی تھے۔

27 جون 1961ء میں نہرو نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا ’میں کسی بھی طرح کے کوٹہ سسٹم کو ناپسند کرتا ہوں خاص طور پر ملازمتوں میں۔ میں ایسی کسی بھی چیز کے خلاف ہوں جو نااہل اور کم صلاحیت والے افراد کے انتخاب کے لیے راستہ ہموار کرتی ہوں۔ میں اپنے ملک کو ہر چیز میں اول درجے پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ جیسے ہی ہم نے دوسرے درجے (صلاحیت سے ہٹ کر کسی اور بنیاد پر آنے والے افراد) کی حوصلہ افزائی کی تب ہم اپنی راہ کھوٹی کر لیں گے‘۔

  جواہرلال نہرو کا خط
جواہرلال نہرو کا خط

وہ آگے چل کر مفت تعلیم کی بات کرتے ہیں جس سے پڑھا لکھا اور ہنرمند نوجوان تیار ہوگا اور وہ خود بخود ترقی کی دوڑ میں شامل ہوجائے گا۔ اس طرح قومی سطح پر ذات پات یا طبقاتی تفریق کے خیالات پس منظر میں چلے گئے اور ’میرٹ‘ کا نظریہ حاوی ہوگیا۔

اگرچہ یہ خط 1961ء میں لکھا گیا تھا مگر نہرو ہمیشہ سے اسی نظریے کے قائل تھے۔ ایسے میں نہرو کابینہ کے ایک رکن پسماندہ طبقات کے لیے کوٹہ سسٹم کی جدوجہد کرتے رہے اور وہ تھے ڈاکٹر بی آر امیڈکر۔

ذات پات پر مبنی کوٹہ سسٹم کی ابتدائی کاوشیں

بٹوارے سے پہلے مدراس میں 1927ء کے گورنمنٹ آرڈر کے تحت کوٹہ سسٹم رائج تھا جسے آزادی کے بعد مدراس ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ عدالت نے اس بنیاد پر کوٹہ سسٹم کے خلاف یہ فیصلہ دیا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 29/2 کی خلاف ورزی ہے جو تمام شہریوں کو ترقی کے برابر مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا۔

اس وقت ڈاکٹر امیڈکر وزیرِ قانون تھے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو قائل کیا اور 1951ء میں بھارت کی پہلی آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 16 کی شق چار میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی سطح پر حکومتوں کو اختیار حاصل ہے کہ ’سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ برادریوں کی فلاح و بہبود اور ریاستی امور میں شرکت یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات لیں‘۔

  نہرو ذات پات کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم کو ناپسند کرتے تھے
نہرو ذات پات کی بنیاد پر کوٹہ سسٹم کو ناپسند کرتے تھے

دو برس بعد 29 جنوری 1953ء کو صدراتی حکم نامے کے تحت کالیلکر کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد ’سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ برادریوں‘ کا تعین کرنا تھا۔

کمیشن نے 1955ء میں اپنی رپورٹ جمع کروائی جسے مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ کمیشن نے ’جانچ پڑتال کا کوئی معروضی پیمانہ‘ استعمال نہیں کیا اس لیے معاملے کی بہتر جانچ کے لیے ’نئے کمیشن کی ضرورت‘ ہے۔

معروف فرانسیسی سیاسیات دان کرسٹوف جعفرلوٹ کی کتاب ’ریلیجن، کاسٹ اینڈ پالیٹکس اِن انڈیا‘ اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’نہرو کے دور میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کے افراد (جنہیں ماضی میں اچھوت سمجھا جاتا تھا) کوٹہ سسٹم سے مستفید ہوتے رہے لیکن غیر دلت نچلی ذاتیں جنہیں زیادہ تر روایتی ذات پات کے نظام میں شودر کے نام سے جانا جاتا ہے، وہ محروم رہے۔ ان کی اولاد کے پاس کھیتوں میں کام کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

1953ء میں قائم ہونے والے کمیشن نے ان کا تعین دیگر پسماندہ طبقات کے طور پر کیا اور کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کی حالت بھی دلتوں (سابق اچھوت) سے مختلف نہیں۔ اس لیے انہیں سماجی و اقتصادی ترقی کے سفر میں شامل کرنے کے لیے کوٹہ سسٹم ناگزیر ہے۔ تاہم کانگریس پر مضبوط گرفت رکھنے والے طبقہ اشرافیہ کے اراکین نے ایسے کسی امکان کو یکسر مسترد کر دیا’۔

  کوٹہ سسٹم سے کچھ ذاتین مستفید ہوئیں اور کچھ کو کھیتوں میں کام کرنا پڑا
کوٹہ سسٹم سے کچھ ذاتین مستفید ہوئیں اور کچھ کو کھیتوں میں کام کرنا پڑا

1960ء کی دہائی میں پسماندہ برادریوں کی طرف سے کوٹہ سسٹم کے حق میں کثرت سے آوازیں بلند ہونے لگیں یہاں تک کہ 1969ء میں پسماندہ برادریوں اور ذاتوں کے تعین کے لیے جنوبی ریاست آندھرا پردیش نے اپنا کمیشن تعینات کردیا جس کے بعد مختلف وقتوں میں تقریباً 11 ریاستوں نے ایسے ہی کمیشنز تشکیل دیے اور ان کمیشنز کے نتائج کی روشنی میں صوبائی سطح پر کوٹہ سسٹم نافذ کردیا گیا۔

منڈل کمیشن رپورٹ اور کوٹہ سسٹم کا نفاذ

1979ء میں مرار جی دیسائی کی مرکزی حکومت نے ایک اور کمیشن قائم کیا جس کی سربراہی وی پی منڈل کررہے تھے۔ کمیشن نے اگلے سال اپنی رپورٹ جمع کروائی جس کے مطابق ملکی آبادی کا تقریباً 52 فیصد سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہے۔

کمیشن نے اپنی سفارشات میں ان کے لیے مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں 27 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کی درخواست کی جس کے بعد شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سمیت یہ کوٹہ 49.5 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔

اگرچہ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 1980ء میں جمع کروائی لیکن اس کے عملی نفاذ میں مزید 10 برس لگے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے 1931ء کی مردم شماری کا ڈیٹا استعمال کیا گیا تھا۔

نفاذ کے محض ایک ماہ بعد منڈل کمیشن رپورٹ کو سپریم کورٹ میں درج ذیل تین بنیادوں پر چیلنج کردیا گیا؛

  • آئین تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے جبکہ یہ رپورٹ اس کی نفی کرتی ہے۔
  • کسی کی ذات اس کے پسماندہ ہونے کا قابل اعتماد پیمانہ نہیں۔
  • عوامی اداروں کے امور کی انجام دہی کا نظام خطرے میں ہے۔

1992ء میں عدالت نے تینوں اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کی شرح کو 50 فیصد تک محدود رکھنے سے مشروط کردیا۔ کوٹہ سسٹم کے نفاذ کو جہاں پسماندہ طبقات اور بائیں بازو سے وابستہ افراد نے بھرپور سراہا وہیں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی برادری نے سخت ردعمل دیا۔ 200 سے زائد طلبہ نے خود سوزی کی کوشش کی جن میں سے 62 ہلاک ہوگئے۔

  ذات پات پسماندہ ہونے کا قابل اعتماد پیمانہ نہیں
ذات پات پسماندہ ہونے کا قابل اعتماد پیمانہ نہیں

یہ سخت ردعمل زیادہ تر شمالی بھارت میں دیکھنے کو ملا۔ کئی روز تک دکانوں پر شٹرڈاؤن ہڑتال رہی اور اسکول کالج بند رہے۔ 6 ریاستوں میں پولیس نے مشتعل مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے تقریباً 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف جنوبی بھارت میں جہاں اشرافیہ کی تعداد کم اور گرفت نسبتاً ڈھیلی تھی وہاں کم و بیش امن رہا۔ یہ احتجاج ایسی تحریک کی شکل اختیار نہ کر سکا جس کے سامنے حکومت کو جھکنا پڑتا اور کچھ روز بعد زندگی معمول پر لوٹ آئی۔

بہار کی ذات پات پر مبنی مردم شماری کیوں اہم ہے؟

اہم ترین بات یہ ہے کہ اس نے پورے ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا جو مبصرین کے مطابق اگلے برس ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوگی مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ہم اس کے سماجی اثرات کا ذکر کرتے ہیں۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم کے نفاذ سے پسماندہ طبقات کی بھرپور داد رسی ہوئی ہوگی تو یہ محض خام خیالی ہے۔

26 دسمبر 2015ء کو شائع ہونے والی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ’مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے اداروں کی ملازمتوں میں پسماندہ طبقات کے افراد کی تعداد محض 12 فیصد ہے‘۔ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 80 ہزار ملازمین میں سے پسماندہ طبقات کے لوگ 9 ہزار 40 ہیں جبکہ یہ 27 فیصد کوٹہ سسٹم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

  کوٹہ سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ضروری ہے
کوٹہ سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری ضروری ہے

بہار میں ہندو اشرافیہ، کُل آبادی کا محض 10 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود ریاستی اسمبلی کے موجودہ 243 اراکین میں 64 ہندو نمائندے ہیں۔

انتہائی قلیل تعداد کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ انتخابات میں اپنے 110 میں سے 52 ٹکٹ ہندو اشرافیہ کو دیے۔

ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے وابستہ پسماندہ ذاتوں کی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ایک ریسرچ اسکالر یشونت زگڑے کے بقول ’اعدادوشمار اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ کس طرح اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا تناسب سیاست سے لے کر میڈیا تک ہر چیز پر قابض ہے اور اسے کنٹرول کررہا ہے‘۔

مبصرین کے مطابق ابھی تک ہندو نیشنل ازم کی گونج میں طبقاتی تفریق دبی ہوئی تھی جسے بہار میں اشرافیہ اور پسماندہ طبقات کے درمیان آبادی کے اتنے بڑے فرق نے دوبارہ زندہ کیا اور اس کے اثرات کا دائرہ بہار تک محدود نہیں رہے گا۔

مہاراشٹرا میں پہلے ہی کوٹہ سسٹم کے حق میں ایک زبردست تحریک چل رہی ہے جس میں بتدریج اشتعال کا رنگ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ چند روز قبل مظاہرین نے بسوں اور میونسپل کارپوریشن کے دفاتر کو آگ لگا دی۔ حالات کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو دو اضلاع میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے بھارتی جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو ممبران اسمبلی نے اپنی رکنیت سے استعفی دے دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے یہ سلسلہ آسانی سے رکنے والا نہیں اور جلد یا بدیر سپریم کورٹ کی 50 فیصد کوٹہ کی شرط بھی اس کی زد میں آئی گی۔

اپوزیشن کا ملک بھر میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ

مورخین کے مطابق 1996ء کے عام انتخابات میں بی جے پی واضح برتری حاصل کرسکتی تھی مگر ان کا بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا نعرہ منڈل کمیشن رپورٹ کے سامنے گہنا گیا۔

تاریخی طور پر بی جے پی کوٹہ سسٹم کے خلاف رہی ہے۔ ہندو نیشنل ازم کا نعرہ طبقاتی تفریق اور کوٹہ سسٹم سے براہ راست متصادم ہے۔ آئندہ برس مودی کے خلاف انتخابات لڑنے والا 28 جماعتوں کا اتحاد بار بار ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کررہا ہے۔

  مودی کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا نعرہ کس حد تک منفی ثابت ہوگا؟—فوٹو: رائٹرز
مودی کے لیے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا نعرہ کس حد تک منفی ثابت ہوگا؟—فوٹو: رائٹرز

مبصرین کے مطابق اپوزیشن مودی کے خلاف کسی ٹھوس اور پُرکشش انتخابی نعرے کی تلاش میں تھی اور ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے نے یہ مشکل حل کردی۔

2021ء میں شائع ہونے والے پیو سروے کے مطابق بھارتی کُل آبادی کا 69 فیصد، پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا اپوزیشن کا نعرہ براہ راست دو تہائی سے زائد آبادی کے مفادات سے جڑا ہے۔

یشونت زگڑے کے مطابق ’ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ مختلف پسماندہ ذاتوں میں ایک نیا شعور پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے جس سے بی جے پی کا ہندو نیشنل ازم خطرے میں ہے۔ اگر ذات پات مرکزی مسئلہ بن جاتا ہے تو اس سے ہندو نیشنل ازم پس منظر میں خود بخود دھندلا جائے گا‘۔

بہار میں مردم شماری کے نتائج شائع ہونے کے فوراً بعد راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد نے دعوی کیا کہ ’جب 2024ء میں ہماری حکومت آئے گی تو ہم پورے ملک میں ذات پات پر مبنی سروے کروائیں گے اور ملک بھر سے اینٹی مسلم، اینٹی دلت اور اینٹی بیک ورڈ بی جے پی کا صفایا کردیں گے‘۔

اپوزیشن کی جانب سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا نعرہ مودی کے لیے کس حد تک منفی ثابت ہوتا ہے اس کا اندازہ آئندہ چند ماہ کے دوران ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہوجائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی بار اپوزیشن کو ایک ٹھوس اور پُرکشش انتخابی نعرہ ملا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس نعرے کو کتنی کامیابی سے کیش کرواتے ہیں اور مودی اسے کیسے کاؤنٹر کرتے ہیں۔

فاروق اعظم

لکھاری ادب، فلم، موسیقی اور تاریخ سے شغف رکھتے ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل یہ ہے @FaruqAzam20

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔