• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
شائع November 14, 2023

ملک بھر میں موسم سرد ہوگیا ہے مگر معاشی مارکیٹس میں تیزی دیکھی جارہی ہے۔ یہ تیزی یا بہتری پہلے انٹر بینک مارکیٹ میں دیکھی گئی جہاں روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر میں بہتری آئی اور ڈالر کی پیش قدمی رک گئی جبکہ اب دوسری پیش رفت پاکستان اسٹاک ایکس چینج یا بازار حصص میں دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکس چینج گزشتہ چند ماہ سے 45 ہزار سے 40 ہزار کے انڈیکس میں رینج باونڈ تھی اور سانپ سیڑھی کا کھیل سا محسوس ہوتا تھا۔ کبھی مارکیٹ اوپر جاتی اور پھر واپس 40 ہزار کی سطح کے قریب آجاتی۔ مگر اب گزشتہ تقریبا دو ماہ سے مارکیٹ میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔ مگر گزشتہ ہفتے مارکیٹ میں آنے والی تیزی نے مارکیٹ میں انڈیکس کی بلندی کے تمام ریکارڈز کو توڑ دیا ہے۔

اگر گزشتہ ہفتے کی بات کی جائے تو جمعہ 10 نومبر کو ختم ہونے والے کاروباری ہفتے کو پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں کاروبار مثبت رہا اور مارکیٹ تاریخ کی نئی بلندیوں پر بند ہوئی۔ پاکستان بازار حصص کا بنچ مارک انڈیکس جسے کراچی اسٹاک ایکس چینج ہنڈریڈ انڈیکس یا کے ایس ای ہنڈریڈ انڈیکس کہا جاتا ہے وہ 2268 پوائنٹس کے زبردست اضافے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح 55 ہزار 391 پر بند ہوا جبکہ کاروبار کے دوران کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 55 ہزار 506 کی بلند ترین سطح پر دیکھا گیا۔ اس ہفتے میں 77 ارب 44 کروڑ روپے کا کاروبار ہوا اور مارکیٹ کے مجموعی حجم یعنی کیپٹلائزیشن میں 276 ارب روپے اضافے کے ساتھ مرکیٹ کیپٹلائزیشن 7 ہزار 953 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئی۔

مارکیٹ میں اس زبردست تیزی کے بعد امکان تھا کہ سرمایہ کار اپنی پوزیشن کو اسکوائر کرنے اور زائد خریداری کے بعد حصص کی فروخت کریں گے مگر نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر بھی تیزی کا عمل برقرار رہا۔ پیر کے روز کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس ایک ہزار 132 پوائنٹس اضافے کے بعد 56 ہزار 532 پر بند ہوا۔ یعنی مارکیٹ میں جس قدر اضافہ گزشتہ ایک ہفتے میں ہوا تھا۔ اس کا نصف اضافہ پیر کے روز ہونے والے کاروبار میں ہوگیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بازار حصص میں اس تیزی کی کیا وجہ ہے۔ کیا یہ تیزی کسی سٹے بازی کا نتیجہ ہے یا پھر معیشت میں آنے والی کسی بڑی اور بنیادی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔

کیا معیشت میں بہتری آرہی ہے؟

پاکستان بازار حصص کے سرمایہ کار کہتے ہیں کہ معیشت میں بہتری کے اثرات نظر آرہے ہیں اور گزشتہ نو ماہ کے دوران بنچ مارک انڈیکس کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں شامل کمپنیوں کا منافع 46 فیصد کے اضافے کے ساتھ 11 سو ارب روپے سے زائد رہا ہے۔ انڈیکس میں شامل کمپنیوں نے 384 ارب روپے زائد ڈیویڈنٹ یا منافع بھی تقسیم کیا ہے۔ انڈیکس کے مجموعی منافع میں ہونے والے اضافے میں سب سے زیادہ بینکاری شعبے میں 97 فیصد، فرٹیلائزر میں 41 فیصد اور تیل و گیس کی تلاش کی کمپنیوں کے منافع میں 55 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بینکاری شعبے کا بعد از ٹیکس منافع 400 ارب روپے سے زائد رہا ہے جس کی بنیادی وجہ موجودہ صدی کی بلند ترین شرح سود ہے۔ اس شعبے میں شیئر ہولڈرز کو 152 ارب روپے سے زائد ڈیوڈینٹ تقسیم کیا گیا۔

تیل و گیس کی تلاش کی کمپنیوں کا منافع 340 ارب روپے رہا۔ اس کی بڑی وجہ کمپنیوں کو ایکس چینج ریٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس شعبے نے 55 ارب روپے کا ڈیویڈنٹ دیا۔ فرٹیلائزر سیکٹر کا منافع 74 ارب روپے سے زائد رہا ہے۔ اس بڑی وجہ ملک میں کیمیائی کھاد کی طلب میں اضافہ ہے۔ ڈی اے پی کھاد کی طلب میں 35 فیصد جبکہ یوریا کھاد کی طلب میں 4 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ فرٹیلائزر سکیٹر نے اپنے سرمایہ کاروں کو 61 ارب روپے سے زائد کا منافع تقسیم کیا۔

فیصد کے لحاظ سے منافع میں سب سے زیادہ اضافہ توانائی کے شعبے میں ہوا ہے اور اس شعبے کا منافع 71 فیصد بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ سیمنٹ، کیمیکلز، غذائی اور ذاتی استعمال کی اشیا، گاڑیوں کی اسمبلنگ، فولاد سازی، انجینیئرنگ اور ریفائنری سکیٹرکے منافع میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ بعض شعبوں کے نفع میں کمی بھی ہوئی ہے جن میں ادویات سازی کی صنعت کا منافع 60 فیصد اور کاغذ کی صنعت کا منافع 39 فیصد کم ہوا ہے۔ آئل اینڈ گیس مارکیٹنگ کمپنیوں کے نفع میں بھی کمی ہوئی ہے جبکہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کو 25 ارب روپے سے زائد کا خسارہ ہوا۔

   فیصد کے لحاظ سے سب سے زیادہ منافع توانائی کے شعبے کو ہوا ہے
فیصد کے لحاظ سے سب سے زیادہ منافع توانائی کے شعبے کو ہوا ہے


مقامی پیداوار اور بین الاقوامی تجارت

کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں کمپنیوں کے منافع کے علاوہ سرمایہ کار ملکی معیشت میں ہونے والی مجموعی بہتری پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جس نے باراز حصص میں تیزی کو ایک مدد فراہم کی ہے۔ معیشت کے حوالے سے جاری کردہ اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ملکی برآمدات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔

اکتوبر 2023ء میں برآمدات 13.5 فیصد اضافے کے بعد 2.7 ارب ڈالر رہیں جبکہ مالی سال کے آغاز جولائی سے اکتوبر تک 4 ماہ کے دوران مجموعی برآمدات 9.6 ارب ڈالر رہیں۔ مجموعی برآمدات میں اضافہ تو 0.7 فیصد ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ درآمدات میں 18.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ جس سے تجارتی خسارہ اس وقت 34 فیصد ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر برآمدات اسی طرح سے بڑھتی رہیں تو تجارتی خسارے میں 4.5 فیصد کی کمی ہوگی۔

ملکی برآمدات میں ٹیکسٹائل کے علاوہ انجینیئرنگ اور مصنوعات کی برآمدات میں 11 فیصد اور زراعت میں 48 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ زراعت میں چاول اور تل کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ زرعی شعبے کی کارکردگی میں بہتری نظر آرہی ہے اور زراعت اور غذائی شعبے کی ترقی 73 فیصد بڑھ گئی ہے۔

ایف بی آر حکام نے اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ اجلاس میں یہ معاملہ بھی اٹھایا ہے کہ چین، برطانیہ اور سنگاپور سے کی جانے والی تجارت میں سالانہ 7.5 ارب ڈالر کی انڈر انوائسنگ کی جارہی ہے جس کو حل کرنے کی بھی حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔

ملک میں کپاس کی پیداوار میں بھی اضافہ دیکھا جارہا ہے اور کپاس کی پیداوار 82 فیصد اضافے کے ساتھ 67 لاکھ بیلز رہی۔ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بھی کپاس کی کاشت ہوئی جس کی وجہ سے سندھ سے کپاس کی پیداوار 132 فیصد اضافے کے ساتھ 37 لاکھ بیلز رہی۔ پنجاب سے 43 فیصد اضافے کے ساتھ 29 لاکھ بیلز رہی۔ کپاس کی اس نئی پیداوار سے ٹیکسٹائل ملز نے 58 لاکھ بیلز کی خریداری کرلی ہے۔

اکتوبر میں کنزیومر پرائس انڈیکس یا سی پی آئی 26.9 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ ستمبر میں انفلیشن 31.4 فیصد تھی۔ افراط زر میں کمی کے ساتھ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں بھی کمی کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ کراچی انٹر بینک آفر ریٹ جس کو کائیبور بھی کہا جاتا اس میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے اور یہ اپنی بلند ترین سطح 24.46 فیصد سے کم ہوکر 21 فیصد کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جس سے امید کی جارہی ہے کہ قلیل اور وسط مدت میں شرح سود میں کمی ہوگی۔

   ملکی زرعی برآمدات میں زراعت کے شعبے میں 48 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے
ملکی زرعی برآمدات میں زراعت کے شعبے میں 48 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے


آئی ایم ایف مذاکرات اور ٹیکس نظام

یہاں یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا پاکستانی معیشت میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا؟ کیا عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان کو مشکل وقت سے نکالنے کے لیے مالی معاونت کے ساتھ ساتھ حکومتی اصلاحات کے ایجنڈے پر کام جاری رکھے گی یا نہیں؟ اس وقت حکومت کی جانب سے معیشت میں سخت ترین اصلاحات متعارف کروائی جارہی ہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافے اور گیس کے بلوں کو بڑھانے کے علاوہ ٹیکس وصولی بڑھانے اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کے اقدامات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے اور وہ اس سے امید لگاتے ہیں کہ ملکی میکرو اکنامک اشاریے بہتر ہوں گے اور ڈیفالٹ کے امکانات کم سے کم ہوتے جائیں گے۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے جاری مذاکرات میں اپنے تمام اہداف کو پورا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے مشن نے حکومت کی جانب سے معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کی نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام کو کامیابی سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ٹیکس نظام میں اصلاحات پر بھی عالمی مالیاتی فنڈ کو بریفنگ دی گئی ہے جس میں ٹیکس پالیسی اور ٹیکس کی وصولی کو الگ الگ کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ تاکہ عوام کا ٹیکس نظام پر اعتماد بڑھایا جاسکے۔

جاری مذاکرات میں عالمی مالیاتی فنڈز کی جانب سے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس نیٹ کو بڑھانےکے لیے ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جائیدادوں پر ٹیکس عائد کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ریٹیل سیکٹر پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔

جائیداد یعنی ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد ہونے سے اس شعبے میں ہونے والی غیر پیداواری سرمایہ کاری پر روک لگے گی۔ اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے ہی سرمایہ کاروں نے اپنا رخ بازار حصص کی جانب کردیا ہے۔

   ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد ہونے سے اس شعبے میں ہونے والی غیر پیداواری سرمایہ کاری پر روک لگے گی
ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد ہونے سے اس شعبے میں ہونے والی غیر پیداواری سرمایہ کاری پر روک لگے گی


سرمایہ کاری، نجکاری اور ایس آئی ایف سی

مالی سال 2023ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ملک میں مجموعی سرمایہ کاری 7 کروڑ 41 لاکھ ڈالر رہی۔ جولائی سے ستمبر کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 5 کروڑ 25 لاکھ ڈالررہی، اسٹاک مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 2 کروڑ 17 لاکھ ڈالر لگائے ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کے علاوہ مختلف کمپنیوں کی خریداری، حکومتی منصوبوں اور سرکاری اداروں کی نجکاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے اہم ترین پیش رفت گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پورٹ ٹرمینل میں سرمایہ کاری تھی۔ اس کے بعد سعودی کمپنی نے ملک میں ایندھن کی فروخت کے کاروبارکرنے والی کمپنی شیل میں سرمایہ کاری کی ہے۔

اس کے علاوہ کان کنی کے منصوبے ریکوڈک میں سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کا عمل بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے اب اعلیٰ ترین سطح پر بھی اس سرمایہ کاری کے حوالے سے عندیہ سامنے آیا ہے اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ دسمبر تک سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ منصوبے کے تمام شراکت داروں کے درمیان اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ( ایس آئی ایف سی) آئندہ پانچ سال میں کم از کم 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو محفوظ بنائے گی۔ ایس آئی ایف سی اس حوالے سے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں اور تنازعات کے حل کے لیے ایس آئی ایف سی کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے گا۔

حکومت پر ایک بوجھ خسارے میں چلنے والے کاروباری ادارے بھی ہیں۔ اس میں ایک ادارہ پی آئی اے ہے جو کہ یومیہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کررہا ہے۔ اس کی نجکاری کا عمل تیزی سے اگے بڑھایا جارہا ہے۔ امید ہے کہ حکومت پی آئی اے سمیت دیگر خسارے میں چلنے والے اداروں کی بھی نجکاری کرے گی۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے مالیاتی مشیر کا تقرر کردیا گیا ہے۔ پی آئی اے سال 2011ء سے خسارے میں چل رہی ہے۔ جس پر قرض کا حجم 3 ارب 30 کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ اس کے علاوہ ہاؤس بلڈنگ فنانس، فرسٹ ویمن اورپاک چین فرٹیلائزر، کی بھی نجکاری کا عمل آگے بڑھایا جارہا ہے۔

   رواں مالی سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ملک میں مجموعی سرمایہ کاری 7 کروڑ 41 لاکھ ڈالر رہی
رواں مالی سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ملک میں مجموعی سرمایہ کاری 7 کروڑ 41 لاکھ ڈالر رہی


سیاسی استحکام

جب معیشت کی بات ہوتو سیاست دان، تجزیہ کار اور سرمایہ کار ایک ہی جملہ ادا کرتے نظر آتے ہیں کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوگا ملک میں معاشی استحکام بھی نہیں آئے گا۔

ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام میں بھی کسی حد تک استحکام آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن نے مشترکہ طور پر فروری میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا کردیا ہے۔ اس اعلان کے بعد سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ ملک میں انتخابی سیاست کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور سیاسی جماعتوں نے امیداواران کے انتخاب کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔

اس سیاسی استحکام میں سپریم کورٹ کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس نے اپنے نظام اور طریقہ کار میں شفافیت لانے کے ساتھ ساتھ خود کو سیاسی معاملات میں الجھانے کے بجائے عوام کو ریلیف دینے اور زیر غور مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے معاشی فیصلوں میں مداخلت نہ کرنے کے عزم کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ماضی میں پاکستان اسٹیل ملز، ریکوڈک، کار کے اور دیگر عالمی معاہدوں کے سپریم کورٹ کے ذریعے کالعدم ہونے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بہت مجروح ہوا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بازار حصص میں شروع ہونے والا تیزی کا عمل آئندہ دنوں میں بھی جاری رہ سکتا ہے۔ اس کا جواب اکثر سرمایہ کار ہاں میں دیتے ہیں۔ سرمایہ کاروں کے مطابق مارکیٹ میں تیزی کے باوجود ترقی کرنے اور اگے بڑھنے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اگر پاکستان بازار حصص کی ڈالر میں ویلیویشن کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے مگر امریکی ڈالر میں اب بھی بازار حصص اپنی اصل حیثیت سے بہت کم سطح پر ہے۔ سال 18-2017ء میں پاکستان بازار حصص کی مالیت 100 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی جوکہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر 27 ارب ڈالر تک پہنچ پائی ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں آنے والی اس تیزی کے حوالے سے خدشات بھی موجود ہیں۔ روس اور یوکرین تنازع کی وجہ سے یورپ اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں کی وجہ سے مشرق وسطٰی میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اگر یہ جنگ غزہ سے آگے پھیلتی ہے جس سے خلیج فارس سے ایندھن کی فراہمی میں خلل واقع ہو تو اس سے دنیا کے دیگر ملکوں کے علاوہ پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے سب سے پہلے اثرات بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے بازار حصص پر رونما ہوں گے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔