سینسر بورڈ ختم کردینا چاہیے، عوام کو معلوم ہے کیا دیکھنا ہے کیا نہیں، علی رحمٰن خان
اداکار علی رحمٰن خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سینسر بورڈ ختم کردینا چاہیے، آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے، عوام کو معلوم ہے کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا، سینسر بورڈ پہلے خود فلم کے مزے لیتا ہے اور پھر عوام کو کہتا ہے کہ آپ فلم نہیں دیکھ سکتے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں سینسر بورڈ کئی سالوں سے کام کر رہا ہے تاہم اس دوران پاکستانی فلموں پر پابندی عائد کرنے پر بورڈ کو عوام اور فنکاروں کی جانب سے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ‘ کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا، فلموں پر پابندی لگانے کا آغاز قیامِ پاکستان کے چند برس بعد ہی شروع ہوگیا تھا جو آج تک جاری ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں سینسر بورڈ کی جانب سے جن فلموں پر پابندی لگائی گئی ان میں سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘، ’آئی وِل میٹ یو دیئر‘، فلم ’ورنہ‘، فلم ’جاوید اقبال: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کلر‘، ’جوائے لینڈ‘ اور دیگر شامل ہیں۔
اسی حوالے سے اداکار علی رحمٰن خان نے مزاحیہ پروگرام ہنسنا منع ہے میں گفتگو کی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے میزبان تابش ہاشمی کے دلچسپ سوالات کے جوابات دیے۔
علی رحمٰن خان نے کہا کہ 12 سال قبل انہوں نے فلم ’سلیکستان‘ سے کیریئر کا آغاز کیا تھا، یہ فلم پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ریلیز کی گئی تھی۔
پاکستان میں یہ فلم ریلیز نہ کرنے کی وجہ پر بات کرتے ہوئے علی رحمٰن خان نے کہا کہ پاکستان میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی تھی، ’فلم میں بظاہر مزاحیہ ڈائیلاگ تھا جو حکومت کے خلاف تھا، اس کی وجہ سے سینسر بورڈ نے پوری فلم پر پابندی لگادی۔‘
اداکار نے بتایا کہ ’فلم کے ڈائریکٹر اس ڈائیلاگ کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے، وہ کہتے تھے ان کی فلم ہے اور ان کا وژن ہے۔‘
علی رحمٰن خان نے سینسر بورڈ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سینسر بورڈ میں فلم، آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سے وابستہ افراد کم ہوتے ہیں اور حکومتی اور سیاسی نمائندے زیادہ ہوتے ہیں، جن کا فلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں یہاں کسی کو ٹارگٹ نہیں کرنا چاہتا لیکن بورڈ میں بیٹھے سیاسی اور حکومتی افراد کو فلم اور آرٹ کی سمجھ نہیں ہے۔‘
اداکار نے کہا کہ ’پہلی بات تو سینسر بورڈ ہونا ہی نہیں چاہیے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، میرے خیال میں ہماری آڈینس بہت ذہین ہے، انہیں معلوم ہے کیا دیکھنا ہے کیا نہیں دیکھنا۔‘
علی رحمٰن خان نے کہا کہ ’آج کل ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے، نیٹ فلکس جیسے پلیٹ فارم تک ہر کسی کی رسائی ہے، لوگ ہر چیز دیکھ چکے ہیں ہم نے کیا سینسر کرنا ہے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’جب ہم فلم یا ڈراما بنا رہے ہوتے ہیں تو ہماری سوچ ہوتی ہے کہ کوئی سین کلچر کے خلاف نہ ہو، ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مواد کو کلچر کے مطابق لے کر چلیں۔‘
علی رحمٰن خان نے کہا کہ ’پوری دنیا میں سینسر بورڈ کام نہیں کرتا بلکہ فلم سرٹیفکیشن بورڈ ہوتے ہیں، جو ان فلموں کو اس بنیاد پر سرٹیفکیٹ دیتے ہیں کہ فلاں فلم 18 سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے، جنرل آڈینس کے لیے ہے یا پھر بچوں کے لیے ہے۔‘
اداکار نے کہا کہ ’پاکستان میں ایسا نہیں ہے، سینسر بورڈ پہلے خود فلم کے مزے لیتا ہے اور پھر عوام کو کہتا ہے کہ آپ فلم نہیں دیکھ سکتے۔‘
علی رحمٰن خان کا کہنا تھا کہ حریم فاروق کے ساتھ وہ رومانوی سین نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں ایسے سین کرنے میں ہنسی آجاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حریم فاروق میری بہت اچھی دوست ہے، ان کے ساتھ رومانوی تعلق ہے نہ ایسا محسوس کیا ہے، اس لیے ان کے ساتھ رومانوی سین کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘